چوہدری نثار نے ن لیگ کے بارے میں نئے انکشافات کر دیئے۔

کوہستان ہاؤس ٹیکسلا میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ میں نے پارٹی ڈسپلن کی کبھی بھی خلاف ورزی نہیں کی لیکن منافقت کی سیاست بھی نہیں کرسکتا، بہت سی چیزیں برداشت کیں اور دلبرداشتہ ہوکر سائیڈ پر ہونے کا فیصلہ کیا، نوازشریف کو خط بھی لکھا اور کچھ مشورے بھی دیئے لیکن عمل نہیں ہوا، اب فیصلہ کرلیا ہے کہ سیاسی طور پر پارٹی کے اندر متحرک رہ کر کام کروں گا، نیوز لیکس پر پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس نہ بلایا گیا تو معاملے کی انکوائری رپورٹ سامنے لے آؤں گا، جبکہ ججز کی ذات پر حملے کرنے سے مسئلہ گھمبیر ہوتا ہے۔چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ میں پارٹی کے اندر بحث کرنے کو فوقیت دیتا ہوں اور ذاتیات کی لڑائی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مؤقف پیش کرنے کے حق میں ہوں، پارٹی کی کیبنٹ میٹنگ میں کہا تھا کہ فیصلوں میں مشاورت کو ترجیح دینی چاہئے، پارٹی کو چلانے کے حوالے سے خدشات اور تحفظات بھی ہیں تاہم کبھی سابق وزیراعظم یا مریم نواز کے بارے میں تنقید نہیں کی، میں نے نوازشریف اور شہبازشریف کے ماتحت کام کرنے کی حامی بھری تھی اور مریم نواز کے ماتحت کام نہیں کرسکتا، اتنا سیاسی یتیم نہیں کہ اپنے سے جونیئر کو سر اور میڈم کہتا پھروں، اس میں تنقید کرنے والی کوئی بات نہیں اور ویسے بھی الیکشن کے بعد ہی فیصلہ ہوگا کہ آئندہ وزیراعظم کون ہوگا ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے، عزت عہدوں میں نہیں کردار میں ہوتی ہے۔چوہدری نثار نے کہا کہ ڈان لیکس ایک حساس معاملہ ہے جس کی وضاحت انتہائی ضروری ہے، پارٹی کور کمیٹی کے اجلاس میں اس ایشو پر بات کرے ورنہ پبلک پلیٹ فارم پر بات کرنا دوسرا آپشن ہوگا۔ اس معاملے کو ایک سال سے زائد کا عرصہ گزرچکا اب اس پر مجھ سے منسوب کرکے کوئی بیان دینا مضحکہ خیز ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاست دان وہ ہوتا ہے جو انتخابات میں حصہ لے کر کامیاب ہو، انتخابات میں حصہ لئے بغیر کوئی بھی شخص ٹیکنوکریٹ اور خوشامدی تو بن سکتا ہے لیکن سیاستدان نہیں بن سکتا، ایک ایسا شخص جس کا ہماری پارٹی سے کوئی واسطہ نہیں تھا وہ 90 کی دہائی میں پارٹی میں آیا اور آج مجھے پارٹی سے نکلوانے کے دعوے کررہا ہے۔سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ میڈیا کا کام جج بننا نہیں معلومات دینا ہے لیکن بہت سے اینکر جج بن کر فیصلے دے دیتے ہیں اس سے میڈیا اور ملک کی ساکھ کو نقصان ہوتا ہے ، میڈیا کے ذریعے اداروں پر حملے ہو رہے ہیں، میڈیا میں ریٹنگ کی جنگ میں گالم گلوچ وطیرہ بن چکا ہے، ہم سیاستدان دوسروں کو چور اور خود کو صادق و امین قرار دیتے ہیں، مشکل ترین صورتحال میں سنجیدہ طبقات نے مل کر اس تنزلی کو روکنا اور ہرکسی کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری جماعت کے خلاف مخالفین مختلف پراپیگنڈے کررہے ہیں، شاہد خاقان عباسی پر ایل این جی معاملہ بھی صرف ایک الزام کے علاوہ کچھ نہیں، الزام صرف الزام ہوتا ہے اس کو سنجیدہ نہیں لینا چاہئے اور کسی کو سنے بغیر کوئی کمیشن یا عدالت فیصلہ نہیں کرسکتی۔