کیا صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کو گھر بھیجا جا سکتا ہے؟

عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد شہباز شریف بطور وزیر اعظم اپنی ذمہ داریاں سنبھال چکے ہیں جبکہ کہ قومی اسمبلی میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر بھی موجودہ حکومتی اتحاد کی صفوں سے ہی نشستوں پر براجمان ہیں ۔دوسری جانب پنجاب کامعرکہ بھی حمزہ شہباز کے نام رہا جس کے بعد اب صدر پاکستان کی تبدیلی کی باز گشت زور پکڑتی جا رہی ہے۔

گزشتہ روز جے یو آئی (ف) کی جانب سے اس خواہش کااظہار کیا گیا کہ وہ مولانا فضل الرحمن کو بطور صدر پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں ۔لیکن کیا صدر پاکستان کو عہدے سے ہٹاناآسان مرحلہ ہے؟ کیا موجودہ حکومتی اتحاد ڈاکٹر عارف علوی کے خلاف مواخزے میں کامیاب ہو سکتی ہے؟ اس حوالے سے چند مندرجات پر نظر ڈالتے ہیں کہ جس میں مرحلہ وار صدر پاکستان کے خلاف مواخزے کی تحریک کا جائزہ لیتے ہیں ۔

صدر کے عہدے کی مدت

ملک پاکستان کے سربراہ کے عہدے کی مدت 5 سال ہے ۔صدارتی امید وار کی عمرکم سے کم 45سال اور مسلمان ہونا لازم ہے۔اس کے علاوہ صدر کے لیے رکن قومی اسمبلی کے طور پر اہل ہونا بھی ضروری ہے۔

اگر صدر اپنی 5 سالہ مدت پوری کرتا ہے تو اگلا صدر منتخب ہونے تک صدر اپنے عہدے پر برقرار رہے گا۔ اگر مواخزے کی صورت میں صدر کو عہدے سے ہٹایا جائے تو چیئرمین سینٹ قائم مقام صدر کے فرائض سرانجام دے گا۔

آرٹیکل 47 کیا کہتا ہے؟

آئین ریاست پاکستان کے سربراہ (صدر مملکت) کو مواخذے کے ذریعے ہٹانے کے متعلق بڑا واضح ہے آرٹیکل 47 میں صدر کے مواخذےسے متعلق تمام تر تفصیلات درج ہیں۔ آرٹیکل 47 کے مطابق صدر پاکستان کو جسمانی یا دماغی نااہلیت ،آئین کی خلاف ورزی اور سنگین بدعنوانی کی بنیاد پر عہدے سے برطرف کیا جا سکتا ہے۔

آرٹیکل 47 کے مطابق ایوان بالا (سینٹ )یا ایوان زیریں (قومی اسمبلی )کے پچاس فیصد ارکان قومی اسمبلی یا چیئرمین سینیٹ کو صدر کے خلاف مواخذے کی قرارداد جمع کرا سکتے ہیں ،جس پرصدر کے خلاف الزامات کی وضاحت ہو۔

جب مواخذے کی تحریک چیئرمین سینیٹ کو موصول ہو جائے تو وہ اسپیکر کو بھجوایا جائے گا ۔اسپیکر کو نوٹس موصول ہونے کی صورت میں 3 دن کے اندر نوٹس کی کاپی صدر کو بھجوائی جائے گی ۔اسپیکر قومی اسمبلی 7 دن بعد اور 14 دن کے دوران پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس بلانے کا پابند ہوگا ۔

آرٹیکل 47 کے مطابق اجلاس میں صدر پر لگائے گئے الزامات کے معاملے پر بحث کی جائے گی۔ صدر اجلاس میں خود یا وکیل کے ذریعے شریک ہونے کا حق رکھتا ہے ۔پارلیمنٹ کے اجلاس میں قرارداد دو تہائی اکثریت سے منظور کر لی جاتی ہے تو صدر کو فی الفور اپنا عہدہ چھوڑنا ہو گا۔

کیا صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کے خلاف مواخذہ لایا جاسکتا ہے؟

آرٹیکل 47 کے مطابق صدر پاکستان کو جسمانی یا دماغی نااہلیت ،آئین کی خلاف ورزی اور سنگین بدعنوانی کی بنیاد پر عہدے سے برطرف کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے حکومتی ارکان اور قانون سازوں کا کہنا ہے کہ صدر پاکستان اپنے عہدے کے دوران کئی بار سنگین آئینی خلاف ورزیوں کے مرتکب پائے گئے ہیں ۔

حکومتی ارکان کا کہنا ہے کہ صدر پاکستان کی جانب سے شہباز شریف کا حلف نہ لینا آئین کی خلاف ورزی ہے ۔حکومتی ارکان کا کہنا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان خود ریفرنس فائل کرنا ایک غلطی قرار دے چکے ہیں تو صدر نے اپنے عمل کے حوالے سے کیوں نہیں سوچا ۔

اس کے علاوہ حمزہ شہباز کے حلف میں تاخیر اور لاہور ہائی کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود بھی صدر پاکستان نے نہ تو گورنر پنجاب کو ہدایت دی اور نہ ہی اس حوالے ہائی کورٹ کے احکامات کے مطابق نمائندہ مقرر کیاجو کہ صدر پاکستان کے خلاف مضبوط چارج شیٹ کا حصہ بن سکتے ہیں ۔

کیا موجودہ حکومتی اتحاد کے پاس 2 تہائی اکثریت موجود ہے؟

تحریک انصاف کے 130 ارکین ارکان کے مستعفی ہونے کے بعد صدر پاکستان کےخلاف مواخذے کی تحریک کامیاب ہوتی نظر نہیں آ رہی ۔ حکومت اور اتحادی جماعتیں نمبر گیم پوری کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں ۔

نمبر گیم کےحوالے سے بات کی جائے تو سینٹ اور قومی اسمبلی کے مجموعی ارکان کی تعداد 442 ہے جن میں قومی اسمبلی کے 342 اور سینٹ کے 100ارکان شامل ہیں ۔صدر پاکستان کو گھر بھیجنے کے لیے حکومتی اتحاد کو 295ارکان کی حمایت درکار ہے۔اگر حکومتی صفوں میں شامل منحرف ارکان بھی مواخزے میں صدر کے خلاف ووٹ کا استعمال کریں تو بھی مطلوبہ تعداد مکمل ہوتی نظر نہیں آتی ۔