اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

865,006FansLike
9,992FollowersFollow
565,300FollowersFollow
188,369SubscribersSubscribe

امرت کور……قسط نمبر8……(امجد جاوید)

سردار بلوندر سنگھ کی بیٹی امرت کور پر جوانی ٹوٹ کر آئی تھی۔ اگرچہ گاؤں میں بہتری حسین لڑکیاں تھیں۔ جوانی ان پر بھی آئی تھی لیکن اس کی بات ہی الگ تھی۔ اس کا باپ اس سے بہت محبت کرتا تھا۔ یہی محبت اسے جہاں اعتماد دے گئی تھی، وہاں وہ اپنی ہی جوانی کے نشے میں مخمورہو گئی تھی۔ وہ لاڈلی تھی اور بہت ضدی بھی ہو گئی تھی۔ گھر میں کسی شے کی کمی نہیں تھی، پورا گاؤں اس کے باپ کی نہ صرف عزت کرتا تھا بلکہ اس سے کافی حد تک خوف زدہ تھا۔ اس لیے وہ جہاں جاتی اور جو مرضی کرتی، کوئی اسے کچھ کہتا نہیں تھا، سبھی اس کا الہڑ پن نظر انداز کر جاتے تھے۔ پھر ان دنوں ماحول ہی کچھ ایسا تھا کہ لوگ سادہ اور تحمل والے تھے۔
پرونت کور ہی اس کی ایک سہیلی تھی۔ سوچ مل جانے کے علاوہ بھی کچھ باتیں ایسی تھیں جن سے ان کے درمیان تعلق مضبوط ہو تا گیا۔ پرونت کور بھی گاؤں کے امیر اور معزز خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ گو اس کی طرح خوبصورت اورحسین نہیں تھی لیکن دولت میں اوررکھ رکھائو میں کسی طور کم نہیں تھی۔ وہ الہڑ نہیں تھی بڑی سنجیدہ قسم کی لڑکی تھی، اس لیے امرت کور کی بہت ساری شرارتیں اور بے وقوفیاں چھپا جایا کرتی تھی۔ دونوں ہی گاؤں کے واحد پرائمری سکول میں پڑھی تھیں۔پھر بچپن گزرتے ہوئے انہیں پتہ ہی نہ چلا سکول کی دوستی پروان چڑھتی رہی اور دونوں ہی عمر کے اس حصے میں آگئیں، جہاں خواب رنگین ہو جاتے ہیں۔ ان میں پرندے چہچہانے لگتے ہیں، منظر بدل جاتے ہیں اور ان منظروں میں سوائے انتظار کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ وہ دونوں ہی ایک دوسرے کے گھر کے سامنے رہا کرتی تھیں امرت کور کے باپو کی بڑی ساری حویلی تھی، مگر ان کا مکان بھی کچھ کم نہیں تھا۔ وہ پہروں ایک دوسرے کے ساتھ جڑی رہتیں، کھیتوں میں نکل جاتیں اور وہاں موجود کنویں پر دن گزاردیتیں، دل کرتا تو گاؤں کی کسی گلی میں نکل پڑتیں، یونہی کسی کے گھر جا کر کھا پی آتیں۔ کبھی ڈیوڑھی میں چرخہ کاتتی بوڑھی عورت کے پاس جا کر بیٹھ جاتیں۔ اسی ہنسی خوشی میں ان کے دن گزررہے تھے۔
گاؤں کے جنوب میں بڑا میدان بیساکھی کے میلے سے بھر چکا تھا۔ قریب وجوار کے گاؤں سے آئے ہوئے لوگوں سے بہت رش تھا۔ امرت کو ابھی بلوندر سنگھ کے ساتھ وہ میلہ دیکھنے گئی تھی۔ بڑی منت سماجت سے اس نے پرونت کور کی ماں سے اجازت لی تھی۔ ان کا اپنا تانگہ تھا جس پر سوار ہو کر وہ میلہ دیکھنے گئی تھیں۔ ان دونوں کے دوپٹے کے پلو سے بڑی رقم بندھ ہوئی تھی کہ وہاں میلے میں سے بہت کچھ خریدنا ہے۔ بلوندر سنگھ کی لاڈلی جب اپنی سہیلی کے ساتھ میلے کے میدان میں داخل ہو ئی تو اسے جو پہلا منظر نظر آیا، وہ اسی میں کھو گئی۔ بلوندر سنگھ نے بھی اپنے کوچوان سے کہہ دیا کہ رک جائے۔ وہاں سامنے بڑا سارا مجمع لگا ہوا تھا اور اس میں آس پاس کے گؤں سے شہ زور کھڑے تھے۔ ان کے درمیان پتھر اٹھانے کا مقابلہ ہو رہا تھا۔ مختلف وزن کے بھاری بھاری پتھر ان کے سامنے تھے۔ اس وقت جو پتھر اٹھا رہا تھا، وہ انہی کے گاؤں کا نوجوان نور محمد تھا۔ اس نے پہلا پتھر بڑی آسانی سے اٹھا لیا، پھر دوسرا، تیسرا اور چوتھا پتھر جو خاصا بھاری تھا، اسے اٹھاتے ہوئے طاقت صرف کرنا پڑ رہی تھی۔ اس نے پورے جوش سے وہ پتھر اٹھایا، اپنے گھٹنے کا سہارا دیا اور سینے کے قریب لے کر پوری قوت سے اٹھا کر کاندھے پررکھ لیا۔ پھر چند لمحے اسے گھماتا رہا اور پھر پھینک دیا۔ اس کے ساتھ ہی پورا مجمع واہ واہ اور شور سے گونج اٹھا۔ تنو مند نور محمد کے بدن پر فقط لنگوٹ تھا۔ اس کا سنہری بدن دھوپ میں چمک رہا تھا اور وہ فتح مندی کے احساس سے معمور سب کی طرف دیکھ رہا تھا۔ فطری طور پر اپنے گاؤں کے نوجوان کو جیت سے ہمکنار ہوتا ہوا دیکھ کر بلوندر سنگھ بھی عش عش کر اٹھا۔ پھر اس کی تعریف کرتا ہوا کوچوان کو تانگہ آگے بڑھانے کو کہا۔ تانگہ تو آگے بڑھ گیا مگر امرت کور کا دل وہیں کہیں رہ گیا تھا۔ وہ سو جان سے نور محمد پر مر مٹی تھی۔ اسے میلہ اچھا ہی نہ لگا۔ پلو سے بندھی ہوئی ساری رقم یونہی پلو ہی سے بندھی رہ گئی۔ اس نے کچھ بھی نہ لیا۔ باپو نے جو لے کر دے دیا، سو لے لیا۔ اس کا سارا دھیان بس نور محمد ہی میں تھا۔ جسے معلوم بھی نہیں تھا کہ ایک الہڑمٹیار، اس پر عاشق ہو چکی ہے۔
عشق بھی بڑی عجیب شے ہے، جسے ہو جائے اسی کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی لذت کیا ہے۔ یہ عشق ہی ہے جو اپنے اندر اس قدر قوت رکھتا ہے کہ چنگے بھلے بندے کو بدل کر رکھ دے۔ عشق جب ہوتا ہے تو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ہو گیا ہے، لیکن یہ بدن ہی سے ہو کر روح تک پہنچتا ہے۔ بدن سے روح تک پہنچنے کے بڑے مراحل ہیں۔ آشنائی سے بات پیار تک بڑھتی ہے، پھر کہیں جا کر محبت ہوتی ہے اور محبت بھی تو صرف خوبیوںسے کی جاتی ہے، لیکن عشق خوبیوں خامیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اسی ذات میں سما جانے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے۔ جس سے وہ عشق کرتا ہے۔ بات جب روح تک پہنچی ہے۔ تب تک یہاں عشق اپنا کام کر چکا ہوتا ہے۔ جنوں کی باری تو پھر کہیں بعد میں جا کر آتی ہے۔
امرت کور بھی اپنے ہوش و حواس گم کر بیٹھی تھی۔ اس کے خوابوں میں انتظار ختم ہو گیا تھا، وہ بس اب تو آمد ہی آمد تھی۔ نور محمد اس کے خوابوں میں بس گیا۔ اسے یہ ہوش ہی نہیں تھا کہ وہ ایک دوسرے دھرم سے تعلق رکھتا ہے اور ان دونوں کے درمیان ایک نہیں کئی خلیج حائل تھیں۔ وہ کسی بھی رکائوٹ سے بے نیاز محض اس کے بارے میں سوچتی، بلکہ وہ خود کیا سوچتی، وہ اس کے ذہن اور دل پر چھایا ہوا تھا۔ ذہن کی کیا اوقات، بدن کا حکمران تو دل ہوتا ہے۔ جب نور محمد اس کے دل میں سما گیا تو ذہن نے تو اس کی تابعداری کرنا ہی تھی۔ لاکھ خدشات راہ میں حائل ہوتے لیکن اسے کسی کی پروا نہیں تھی۔
’’کیا ہو گیا ہے تمہیں امرت کورے…! ہر وقت سوچوں ہی میں کیوں کھوئی رہتی ہے، کہیں کوئی جن بھوت تو نہیں چمٹ گیا تم سے؟‘‘ ایک دن پرونت کور نے یونہی مذاق میں پوچھا توہ مسکراتے ہوئے بولی۔
’’ہاں کچھ ایسا ہی ہو گیا ہے، مگر اس جن کو قابو کرنا بڑا ہی مشکل لگتا ہے‘‘۔
’’ارے واہ…! ایسا ہے کیا؟ کون ہے وہ …؟‘‘ پرونت کور نے انتہائی تجسس سے پوچھا۔ جس پر امرت کور چند لمحوں تک سوچتی رہی کہ اس راز کو اپنے تک ہی رکھے یا اپنی عزیز ترین سہیلی کو بتا دے۔ پھر اس نے کہہ ہی دیا۔
’’وہ نور محمد ہے‘‘۔
’’ہائے امرت، وہ … وہ تیرے خیال میں کیسے آیا، وہ تو … ’’پرونت کور نے شدتِ حیرت سے پوچھا تو امرت کور نے میلے کی ساری بات بتا دی۔
’’میں بھی تو تیرے ساتھ تھی، مجھے تو ایسا کچھ نہیں ہوا، وہ تو مسلمان ہے، تُو اس کے خیالوں میں کیوں؟‘‘ پرونت کور نے کہا تو امرت کور بولی۔
’’شاید یہ اپنی اپنی نگاہ کا فرق ہے۔ تیری نگاہ کہیں اور ہے اور میری نگاہ میں وہ… آیا ہے۔ آتے ہی دل میں اتر گیا ہے۔ میرے دل نے پوچھا ہی نہیں کہ وہ مسلمان ہے یا سکھ… بس وہ تو میرے دل میں سما گیا ہے‘‘۔
بس وہی دن تھا جب پرونت کور ایک سہیلی سے زیادہ ناصح بن گئی ۔ امرت کور کے تو حواسوں پر نور محمد چھا گیا تھا اس نے تو اسی کی بات کرنا تھی جبکہ وہ اسے سمجھاتی رہتی تھی کہ ان راہوں پرمت چلو۔ امرت کور اپنی آگ میں خود ہی جل رہی تھی۔اس جلنے کے دوران تیل کا کام پرونت کی نصیحتوں نے کیا۔ وہ ہر وقت یہی سمجھاتی رہتی تھی کہ وہ مسلمان ہے، اسے نہیں مل سکتا۔ تب وہ صرف اس نہج پر سوچنے لگی کہ نور محمد کا حصول کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ اس کی تمام تر سوچوں کا مرکز یہی گتھی سلجھانا تھا۔ حالانکہ بے چارے نور محمد کو معلوم ہی نہیں تھا کہ کوئی اس کے بارے میں اتنی شدت سے سوچ رہا ہے۔
امرت کور کے ذہن میں ایک طریقہ ایسا آہی گیا۔ اس نے یہی سوچا کہ نور محمد اگر اس کی بات مان لے تو پھر وہ اسے بھگا کر یہاں سے کہیں دورلے جائے گی۔ اتنی دور کہ ان پر کسی کا سایہ تک نہ پڑے۔اسے اس سے غرض نہیں تھی کہ نور محمد سکھ ہو جاتا ہے یا اسے مسلمان ہونا پڑتا، اسے تو بس نور محمد چاہئے تھا۔ جسے وہ ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہتی تھی۔ اس نے یہ اندازہ لگانا شروع کر دیا تھا کہ جتنی اس کی زمین یہاں اس گاؤں میں ہے اس سے دو گنی زمین وہ اسے لے کر دے گی۔ ظاہر ہے وہ یہاں رہ تو نہیں سکتی تھی۔ اس کا باپو چاہے جتنی مرضی اس سے محبت کرتا ہے لیکن عزت اور غیرت کے نام پر وہ اسے ختم کرنے میں ایک لمحہ بھی نہ لگاتا۔ یہ اسے بھی اچھی طرح معلوم تھا۔ پھر اس نے ایک مرتبہ نور محمد سے اپنے دل کا حال کہنے کا بھرپور ارادہ کر لیااور بیل گاڑی کے تھوڑے سے سفر میں اس نے اپنا حالِ دل کہہ دیا۔ جس کا جواب نور محمد نے بہت مایوس کن دیا۔ جس وقت وہ بیل گاڑی سے اُتر کر اپنے گھر کی طرف جارہی تھی۔ اس وقت جہاںوہ اپنے ہی عشق کی آگ میں جل رہی تھی۔ وہاں اپنی ہتک ہونے پر بھی وہ شعلہ جوالا بن گئی تھی۔ وہ گاؤں کی الہڑ مٹیار جس پر فدا ہونے کے لیے کئی راہوں میں بیٹھے رہتے تھے۔ نور محمد نے کس سرد مہری کے ساتھ اسے احساس دلا دیا کہ وہ کوئی شے ہی نہیں ہے۔ اس کاسراپا، حسن اور جوانی کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی۔ ورنہ گاؤں کے کئی گبھرو نوجوان اس کے طلب گار تھے، جنہیں اس نے کبھی اس اہمیت کے قابل ہی نہیں سمجھا تھا۔ اس دفعہ جب وہ اپنی حویلی پہنچی، اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ چاہے جس طرح بھی ہو وہ نور محمد کو حاصل کر کے رہے گی۔ روحانی طور پر نہ سہی جسمانی طور پر ہی سہی۔ شاید یہ عورت کی فطرت ہے کہ جب اسے اہمیت نہ دی جائے تو وہ اپنے تمام ہتھیار آزمانا شروع کر دیتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کے ترکش کاآخر تیر بھی ختم ہو جاتا ہے۔ تب بھی وہ اپنی ہزیمت کا بدلہ اسی انداز میں لیتی ہے کہ اگلے کو جلا کر خاکستر کر دے، وہ چاہے محبت میں ہو یا نفرت میں۔
امرت کور کا عشق جنونی کیفیت اختیار کرتا چلا جارہا تھا۔ گاؤں کی لڑکیوں کو تو اس کے بارے میں معلوم ہوتا ہی چلا جارہا تھا، لیکن انہی دنوں اس کی عزیز ترین سہیلی پرونت کور اسی وجہ سے ناراض ہو گئی کہ وہ اس راہ پر جارہی ہے جہاں تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ ایک دم سے وہ تنہا ہو گئی۔ اسے کچھ بھی سجھاتی نہیں دے رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ پہلے تو پرونت کور لڑتی تھی جھگڑتی تھی، پیار سے سمجھاتی تھی، جو بھی کہتی تھی لیکن اس کے اپنے دل کا غبار ہلکا ہو جایا کرتا تھا۔ اس وحشت میں وہ بے کل ہو گئی جس نے اسے کوچہء یار کی راہ دکھائی ۔ وہ جس دن نور محمد کو نہ دیکھتی بے چین رہتی اور جب اسے دیکھ لیتی تو پُرسکون ہو جاتی ۔ کوچہء یارمیں دیدار ہی نہیں، اس سے باتیں کرنے کا بھی موقعہ مل گیا۔ ا س نے نور محمد کی بہن حاجراں سے دوستی کرلی۔ اسے اپنی سہیلی بنا لیا۔
نور محمد گھرانہ ایسا نہیں تھا کہ انہیں کسی مدد کی ضرورت ہوتی۔ قدرت نے انہیں ہر شے سے نوازا ہوا تھا۔ وہ اپنی سادہ اور پُرسکون زندگی میں بہت خوش تھے۔ حاجراں کو تھوڑا بہت شک تو تھا کہ وہ بلا مقصد اس کی سہیلی نہیں بنی۔ پھر اس کی نواز شات اس قدر ہونے لگیں کہ وہ شک یقین میں بد لتا گیا اور ایک مرتبہ حاجراں نے پوچھ ہی لیا کہ آخر اس کا مقصد کیا ہے۔
’’سچ پوچھو نا حاجراں، مجھے تیرے بھائی سے شدید محبت ہے اور میں جب تک اسے دیکھ نہ لوں مجھے چین نہیں آتا۔ تیری سہیلی بھی میں اس لیے ہی بنی ہوں‘‘۔
’’لیکن تیرے من میں جو کچھ ہے، وہ رائیگاں جائے گا امرت کور، پہلی تو بات ہے کہ وہ ایسا ہے ہی نہیں کہ گاؤں کی دھی بہن پر نگاہ رکھے۔ اسے اپنے کام سے غرض ہے اور اگر اس کے دل میں کسی کے لیے محبت ہے تو وہ پروین ہے۔ جس کے ساتھ اس کی شادی ہو جانے والی ہے۔ گاؤں کے کس بندے کو نہیں معلوم‘‘۔ حاجراں نے اسے حالات سے آگاہی دی۔
’’میں مانتی ہوں کہ اسے پروین سے پیار ہے، میں یہ بھی مانتی ہوں کہ وہ سچا اور سُچا بندہ ہے۔ پر میں اپنے دل کا کیا کروں۔ کیسے سمجھائوں اسے ؟‘‘
’’یہ تو تجھے کرنا ہی ہو گا۔ ورنہ خواہ مخواہ کی دشمنی بن جائے گی۔ کسی کو کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ ہاں اگر نور محمد تم میں دلچسپی لے رہا ہوتا۔ اسے بھی تم سے اتنی ہی محبت ہوتی ناتو میں اپنا آپ وار کر بھی تم دونوں کو ملا دیتی۔ میں خود اپنے والدین کو مجبور کر دیتی کہ یہاں سے چلے جائیں۔ پر کیا کریں، وہی نور محمد…‘‘
’’وہی پتھر تو موم کرنا چاہتی ہوں…جبکہ وہ ہو ہی نہیں رہا‘‘۔
’’وہ ہو گا بھی نہیں، وہ پورے دل سے پروین کو چاہتا ہے اور ایسے کسی معاملے میں نہیں پڑے گا، جس میں سوائے نقصان کے اور کھ بھی حاصل نہ ہو‘‘۔ اس نے سمجھایا لیکن حضورِ عشق میں کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ اسی طرح ان دنوں حاجراں سے دوستی چلتی رہی۔ کسی نہ کسی بہانے نور محمد سے آمنا سامنا ہوتا رہتا لیکن کوئی بات نہ ہو پائی ، بس ایک باربات ہوئی تھی، پھر وہ ہمیشہ طرح دے جاتا رہا،موقعہ ملتا بھی تو وہ ٹال جاتا۔ امرت کور کو اپنی کم مائیگی اور ہتک کا شدید احساس ہوا۔ وہ راتوں کو رو رو کر رب سے فریاد کرتی لیکن رب اس کی سنتا ہی نہیں تھا۔ محبوب سامنے ہے اور وہ ہجر میں جل رہی ہے۔
آخر ایک دن اسے موقع مل ہی گیا۔ اس نے نور محمد کے پیچھے کھیتوں میں جانے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ بے نیاز ہو گئی کہ کوئی اسے دیکھ بھی سکتا ہے۔ لڑکیوں کی ٹولی ہوتی نا تو الگ بات تھی۔ اس نے دور ہی سے دیکھا، وہ اپنے کھیت میں کام کر رہا تھا۔ وہ منڈھیر پر جا کھڑی ہوئی۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ نور محمد کو اس کی آمد کا احساس نہ ہوا ہو مگر پھر بھی وہ اپنے سکون سے کام کرتا رہا۔ یہاں تک کہ خود اسے پکارنا پڑا۔
’’نور محمد… اوئے نور محمد…!‘‘
اس نے سر اٹھا کر دیکھا اور وہیں کام روک کر بولا۔
’’بول امرت کور…! کیا بات ہے؟ خیر تو ہے نا، اکیلی کیوں آئی ہو؟‘‘
’’میں نے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے‘‘۔ اس نے اونچی آواز میں کہا۔
’’جو بات بھی کرنی ہے ، اُدھر گھر پر کرنا، اب تُو فوراً یہاں سے چلی جا، کسی نے دیکھ لیا تو غضب ہو جائے گا‘‘۔ اس نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’مجھے کسی کی پروا نہیں ہے، تجھے میری بات سننا ہی ہو گی‘‘۔ اس نے انتہائی ضدی لہجے میں کہا۔
’’بول کیا کہتی ہے تُو؟‘‘ وہ اس سے کچھ فاصلے پر کھڑا ہوتا ہوا بولا، اس کے لہجے میں اکتاہٹ تھی۔
’’نور محمد… !تیرے بغیر میں نہیں رہ سکتی۔ میری بات مان لے، ہم یہاں سے نکل چلیں‘‘۔ اس نے وہی پرانی بات دھرا دی۔ تو اس نے بڑے تحمل سے کہا۔
’’امرت کور…! میں تیرے باپو کی بہت عزت کرتا ہوں، وہ ایک بہادر انسان ہے اور بہادوں، شہ زوروں کی قدر کرتا ہے۔ تجھے یاد ہے نا، پتھر اٹھانے کا مقابلہ جیتنے پر اس نے مجھے تحفے میں ایک بھینس دی تھی‘‘۔
’’ تُو نے میرے باپو کو مشکی گھوڑی تحفے میں دے کر حساب برابر کر دیا‘‘۔ وہ تنک کر بولی۔
’’یہ بات میں حساب کتاب کرنے کے لیے نہیں، بلکہ یہ بتانے کے لیے کہہ رہا ہوں کہ جب تک ہم ایک جگہ رہنے والے ایک دوسرے کی قدر نہیں کریں گے، اس کے مال ، دولت اور عزت کی حفاظت نہیں کریں گے تو باہر سے آ کر کوئی ہماری عزت اور مال لوٹ کر لے جائے گا۔ یاد رکھ امرت کورے…! زندگی انسان کوفقط ایک بار ملتی ہے، اسے عزت و وقار کے ساتھ گزارنا چاہئے۔ ناکہ منافق انسانوں کی طرح۔ میرے دل میں تمہارے لیے کچھ بھی نہیں ہے سوائے اس عزت کے کہ تُو سردار بلوندر سنگھ کی بیٹی ہے جو نہ صرف میرا احترام کرتا ہے بلکہ میں بھی اس کا بے حد احترام کرتا ہوں۔ آج کان کھول کر سن لے، اپنے دماغ سے یہ خناس نکال دے اور اپنی زندگی سکھ سے جی، دوسروں کو تنگ نہ کر‘‘۔
اس نے کہا تو امرت کور چند لمحے اس کی طرف پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتی رہی کہ کس طرح واشگاف الفاظ میں اس نے پھر سے اس کی ہتک کر دی ہے۔ اس کی جوانی اور حسن مٹی میں رول کر رکھ دیا ہے۔ وہ ایک دم سے تنک گئی پھر بولی۔
’’چل نور محمد، میں تیری بات مان لیتی ہوں، میں تیرے ساتھ ہیر رانجھے والا پیار نہیں کرتی، میں ہیر نہیں جسے کھیڑے لے جائیں، جبکہ اس کے دل میں پیار رانجھے کے لیے ہو، نہ میں سوہنی ہوں کہ کچے گھڑے کی نائو بنا کر اپنی جان دے دوں۔ میں امرت کور ہوں‘‘۔ اس نے غضب ناک لہجے میں کہا۔
’’تو پھر میں کیا کروں‘‘۔
’’ تُو میری روح کو نہیں چھو سکا تو نہ سہی، میرا بدن تو حاضر ہے، تُو ایک بار میرے بدن کو چھولے، میرے جسم کی پیاس بجھا دے، میں سمجھ جائوں گی کہ میں تمہاری ہوئی، کبھی پلٹ کر تیرا نام تک نہیں لوں گی یہاں تک کہ سوچوں گی بھی نہیں۔ میں شانت ہو جائوں گی۔ وہ والا پیار نہ سہی یہ والا سہی، میں تجھ پر اپنا آپ وار کر ہی سکون پا سکتی ہوں‘‘۔
’’یہ تم نے اس سے بھی گھٹیا بات کی ہے۔ تمہارا بدن ہو سکتا ہے گندی مٹی کا بنا ہو، لیکن میرا نہیں، ہر انسان اپنی مٹی بارے خود اپنے عمل سے بتا دیتا ہے اور اس کا عمل اس کی سوچ ہوتی ہے۔ جا دفعہ ہو جاو، پھر کبھی میری نظروں کے سامنے نہیں آنا‘‘۔ نور محمد کے غضب میں کہیں اضافہ ہو گیا تھا۔
’’دیکھ نور محمد، میں مر جائوں گی اور میری موت کا ذمے دار فقط تُو ہو گا‘‘۔ اس نے دھمکی دے دی۔
’’اور اگر تُوکچھ دیراور بک بک کرتی رہی تو میں اسی کسّی سے تیرے ٹوٹے کردوں گا، میں ایسا الزام قبول کرتے وقت شرمندگی محسوس نہیں کروں گا‘‘۔ اس نے صاف لفظوں میں کہا اور اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ اس نے ہتک تو کیا اسے ذلیل کر کے رکھ دیا تھا۔ وہ چند لمحے اسے دیکھتی رہی اور پھر پائوں پٹختی ہوئی واپس چلی گئی۔
دو دن نہیں گزرے تھے کہ سردار بلوندر سنگھ انتہائی جوش اور غصے میں اپنی حویلی کے دالان میں آن رُکا۔ اس نے بڑی اونچی آواز میں امرت کور کو آواز دی۔ اس وقت وہ اپنے کمرے میں تھی۔ ایسی آواز سن کر لرز گئی۔ اسے لگا جیسے خطرہ اس کے سر پر آگیا ہو۔ ضرور نور محمد نے اس کے باپو سے بات کر دی ہو گی، وہ اسی خیال کے تحت اندرونی کمرے میں اپنے باپو کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ وہ چند لمحے اسے دیکھتا رہا۔ پھر اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے پوچھا۔
’’ تُو گئی تھی نور محمد کے کھیتوں میں یا اس کنجر نے تمہیں بلایا تھا‘‘۔
’’میں خود گئی تھی باپو‘‘۔ ا س نے ساری احتیاط بالائے طاق رکھتے ہوئے صاف انداز میں اقرار کر لیا۔
’’کیوں؟‘‘ اس کے باپو نے حیرت اور غصے میں پوچھا۔
’’باپو جی…! یہ میری غلطی ہے کہ میں وہاں گئی۔ نہ جاتی تو شاید سلگتی رہتی۔ آج اگر آپ مجھے جان سے بھی مار دیں تو مجھے کوئی پروا نہیں ہو گی‘‘۔ اس نے اپنے فطری انداز میں کہا۔
’’یہ تُو کیا کہہ رہی ہے؟‘‘ باپو نے غصہ بھول کرتجسس سے پوچھا۔
’’میں ٹھیک کہہ رہی ہوں باپوجی، میں آپ سے جھوٹ نہیں بولوں گی، وہ مجھے اچھا لگتا ہے لیکن اس دن اس نے مجھے اتنا ذلیل کیا ہے کہ میں خود پر حیران ہوں کہ میں زندہ کیوں ہوں۔ اس جیسا سُچا اور سچا بندہ نہ ہوتاتو آج میں یہاں آپ کی حویلی میں نہ ہوتی، یہاں سے کہیں اور چلی گئی ہوتی، باپو جی، میری بنتی ہے کہ مجھے مار دیا جائے، میں اپنی ذلت مزید برداشت نہیں کر سکتی‘‘۔ اس نے روتے ہوئے زمین پر گر کر کہا۔ اس نے اپنی گردن اپنے باپ کے سامنے جھکا دی۔
’’پتر…! میں نے زندگی میں تیری ہر خواہش پوری کی ہے۔ مگر ایک مُسلے سے دل لگا کر تُو نے اچھا نہیں کیا‘‘۔
’’ہاں واقعی باپو…! میں نے اچھا نہیں کیا، مگر وہ بہت اچھا ہے۔ اس نے اپنی نگاہ میں ایک ذرہ بھی میل لا کر مجھے نہیں دیکھا۔ قصور وار میں ہوں باپوجی، مجھے مار دیں، اس نے آپ کے احترام میں میری بڑی توہین کی ہے۔ میں برداشت نہیں کر سکتی۔ میں نے سچ بتا دیا آپ کو، اب آپ جو چاہیں سو کریں‘‘۔ اس نے روتے ہوئے اپنا سر پھر سے جھکا دیا۔
سردار بلوندر سنگھ بہت سمجھ دار بندہ تھا۔ وہ فوراً بھانپ گیا کہ کھوٹ اپنی ہی مٹی میں ہے۔ کسی سے کیا کہنا۔ وہ اگر طیش میں آ کر غیض و غضب کے ساتھ نور محمد کو نقصان پہنچانے چڑھ دوڑتا تو بدنامی آخرکار اس کی اپنی بیٹی کی ہونی تھی۔ امرت کور نے سچ بتا کر اور اپنا جرم تسلیم کر کے ، نور محمد کی سچائی بیان کر دی تھی، جس کی تصدیق اس کی ماں نے بھی کر دی کہ مجھے صرف شک تھا، اِدھر اُدھر سے میں باتیں سکتی رہی تھی، لیکن مجھے یقین نہیں تھا، آج یہ اپنے منہ سے کہہ رہی ہے، تو یہ بات ماننا پڑے گی کہ اگر نور محمد سچا نہ ہوتا تو ہمیں ایسی کوئی بات معلوم ہی نہ ہوتی اور امرت کور یہاں نہ ہوئی۔
اس نے بروقت فیصلہ کر لیا۔ اس نے جو سوچنا تھا، وہ سوچ لیا، اس وقت امرت کور پر حویلی سے نکلنے پر پابندی لگا دی گئی۔ اس نے بھی کیا نکلنا تھا جو خود اپنی ہی نگاہوں میں ذلیل ہو چکی ہو۔ بلوندر سنگھ نے وقت سنبھال لیا۔ اپنی مٹی کے کھوٹ کو چھپا گیا۔
چند دن نہیں گزرے تھے کہ انہی کی پال برداری میں اس کی منگنی کی باتیں چلنے لگیں۔ لڑکے کا نام رگھبیر سنگھ تھا۔ وہ اسی گاؤں میں پلا بڑھا، لیکن جوان امرتسر شہر میں ہوا۔ وہاں اس کے تایا رہتے تھے جو بے اولاد تھے۔ انہوں نے اسے وہاں لے جا کر پڑھایا لکھایا اب وہ گھبروجوان ہو چکا تھا۔ کچھ عرصہ پہلے اس کے تایا کادیہانت ہو گیا تھا۔ انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ چونکہ وہ خالصہ کالج میں اپنی تعلیم مکمل کر رہا ہے، اس لیے گاؤں واپس نہیں آئے گا، وہیں اپنی تائی کے ساتھ رہے گا۔ پھر گاؤں سے جو بہو بیاہ کر لے جائی جائے گی، وہ بھی شہر ہی میں رہے گی، ان دنوں ایسا رشتہ کہاں ملنا تھا۔ یہ بلوندر سنگھ کی شرافت اور امارت ہی تھی، جس کے باعث ایسا رشتہ نصیب ہو گیا تھا۔ امرت کور کی اس کے ساتھ منگنی ہو گئی۔ جبکہ اسے ذرا برابر بھی خوشی نہیں تھی۔ اس کی لو اب بھی نور محمد کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔
امرت کور کی زندگی بدل گئی۔ اب وہ پہلے جیسی الہڑ مٹیار نہیں رہی تھی۔ بلکہ حویلی میں اپنے ہی کمرے تک محدود رہنے والی بن گئی تھی۔ ذلت کا احساس اسے ہر وقت اپنے ساتھ لپٹا ہوا محسوس ہوتا رہتا۔ جسے وہ کبھی بالکل ہی برداشت نہیں کر پاتی تھی۔ ایسے ہی ایک مرتبہ اسے اپنے پرائمری کے استاد روشن لعل مل گئے۔ وہ کسی کام سے حویلی آئے تھے۔ ان کے ہاتھ میں کچھ کتابیں دیکھ کر اس نے ایسی کتابیں لا کر دینے کو کہا۔ ایک کتاب تو اسے اسی وقت مل گئی۔ وہ حضرت بلھے شاہ جی کا کلام تھا۔ وہ اس نے لے لیا، پھر وہ ہوتا یا پھر گرنتھ صاحب کا پاٹھ، اس نے اپنے ذلت کے خیال کو خود سے الگ کرنے کے لیے اپنے رب سے لو لگانے کے جتن شروع کر دیئے۔ اسے پڑھنے کا شوق لگ گیا۔ ایک تو وہی وجہ تھی کہ کسی نہ کسی طرح ذلت کے خیال سے چھٹکارا مل جائے اور دوسرا رگھبیر سنگھ کا خیال، وہ کالج میں پڑھنے والا لڑکا اور یہ محض پرائمری پاس لڑکی، وہ بھی دیہات کی، کس طرح اس کے ساتھ گزارا کرے گی۔ یہ مجبوری بھی اس کے ساتھ شامل ہو گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ پڑھنے کی تو شوقین ہو گئی لیکن نور محمد کے خیال سے اسے چھٹکارا نہیں ملا، وہ اسے جتنا بھولنے کی کوشش کرتی، اتنا ہی وہ اسے یاد آتا۔ اس نے ایک دن سنا کہ حاجراں کی شادی ہونے والی ہے، وہ کسی نہ کسی بہانے اس کی خدمت کرنے پر تل گئی۔ کبھی کسی کے ہاتھ کوئی کپڑا بھیج دیا اور کبھی کوئی گہنا، لیکن وہ اس نے کبھی قبول نہیں کیا تھا۔ ہمیشہ شکریہ کے ساتھ واپس لوٹا دیتی رہی کہ ان کے ہاں سب کچھ ہے ظاہر ہے یہ سوچ فقط حاجراں کی نہیں ہو سکتی تھی، اس کے پیچھے نور محمد کی ہی سوچ تھی۔ جب بھی کوئی تحفہ شکریے کے ساتھ واپس آتا تو اسے مزید ذلت محسوس ہوتی۔ یوں دن گزرتے چلے گئے۔
اچانک ایک دن رگھبیر سنگھ گا ئوں آگیا۔ وہ اپنی تائی کو بھی ساتھ لے آیا تھا، اس کی آمد کی وجہ بڑی خوفناک تھی۔ اس نے جو بتایا تھا وہ بے حد خطرناک صورتِ حال کے بارے میں بتا رہا تھا، اس نے ملک دو ٹکڑے ہو جانے کی بات کی تھی۔ اس وقت تو اسے کوئی سمجھ نہیں آئی جب وہ اس کے باپو کے پاس بیٹھا ایسی باتیں کر رہا تھا، لیکن بعد میں جب اسے سمجھ آئی تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اس کے اندر زندگی کی ایک نئی لہر دوڑ اٹھی۔ اسے اپنی ذلت مٹانے کا موقعہ مل سکتا تھا، وہ جوں جوں سوچتی چلی جارہی تھی، اس کے ساتھ ہی اس کے اندر جوش و جذبہ بڑھتا جارہا تھا، اس کی تمام تر سوچوں کا مرکز نور محمد بن چکا تھا۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ اب اسے کیا کرنا ہے۔