یورپی یونین سے علیحدگی: کیا برطانیہ کا اگلہ قدم غیر ملکیوں کی ملک بدری کیلئے مہم ہو گا؟

لندن (مانیٹرنگ ڈیسک)برطانیہ میں یورپی یونین میں رہنے یا نکل جانے کے سوال پر ہونے والے تاریخی ریفرنڈم کے نتائج کے مطابق 52 فیصد عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی ہونے کے حق میں جبکہ 48 فیصد نے یونین کا حصہ رہنے کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ شمال مشرقی انگلینڈ، ویلز اور مڈلینڈز میں زیادہ تر ووٹر یورپی یونین سے الگ ہونے کے حامی نظر آئے جبکہ لندن، سکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ کے زیادہ تر ووٹروں نے یورپی یونین کے ساتھ رہنے کے حق میں ووٹ دیا۔ریفرینڈم کے نتائج کے سٹاک مارکیٹ پر پڑنے والے اثرات کی وجہ سے سنہ 1985 کے بعد سے پہلی مرتبہ پاؤنڈ ڈالر کے مقابلے میں اپنی کم ترین سطح پر آگیا ہے۔ جمعرات کو ہونے والے ریفرینڈم میں ووٹنگ کی شرح 71.8 فیصد رہی اور تین کروڑ سے زیادہ افراد نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا۔یہ برطانیہ میں 1992 کے الیکشن کے بعد ووٹنگ کی سب سے زیادہ شرح ہے۔ انگلینڈ میں لندن سے باہر جبکہ ویلز میں اکثریت نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ برطانیہ 43 برس کے ساتھ کے بعد یورپی یونین کو الوداع کہنے والا پہلا ملک بن جائے گا تاہم علیحدگی کے حق میں ووٹ کا مطلب برطانیہ کا یورپی یونین سے فوری اخراج نہیں ہے۔ اس عمل میں کم از کم دو برس کا عرصہ لگ سکتا ہے۔اس فیصلے کے عالمی سطح پر اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ دنیا کی اکثر اسٹاک مارکیٹس مندی کا شکار ہیں مگر کئی ماہرین اس مندی کو عارضی بھی قرار دے رہے ہیں۔ فیصلے پر عالمی رہنما بھی اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ امریکی صدر اوباما نے برطانوی عوام کے فیصلے کا احترام کرنے کا کہا ہے کہ جبکہ روسی صدر پیوٹن نے کیمرون کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ پاکستان میں اب یہ بحث چھڑی ہے کہ برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلا کے بعد اس کے وہاں مقیم پاکستانیوں پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔ اس حوالے سے ماہرین کی رائے منقسم ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس فیصلے کے بعد اگلا قدم غیر برطانویوں یعنی جو لوگ برطانیہ میں پیدا نہیں ہوئے ان کی ملک بدری کیلئے مہم ہو گا۔ اگر ایسا ہوا تو یہ مہم برطانوی معاشرے کو توڑ پھوڑ کر رکھ دے گی۔ دنیا کے اہم ترین کثیر الثقافتی شہر لندن میں قابل ذکر تعداد میں پاکستانیوں کے ساتھ دیگر خطوں کے لوگ بھی رہائش پذیر اور ملک کی ترقی میں حصہ دار ہیں۔ برطانیہ کو اب بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا ہو گا۔ کوئی بھی غلط یا جذباتی فیصلہ تباہ کن ثابت ہو گا۔ اس فیصلے میں سب سے بڑا سبق جمہوریت پسندوں کیلئے ہے ۔ کسی بھی جمہوریت پسند ملک میں عوام کی رائے ہی حرف آخر ہوتی ہے۔ اتنا بڑا اور اہم فیصلہ آنے کے باوجود برطانیہ میں نہ کہیں احتجاج ہوا اور نہ ہی کہیں جلاؤ گھیراؤ کی خبریں سامنے آئیں۔ پاکستان کی لولی لنگڑی جمہوریت کو بھی اس ریفرنڈم سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔