حکومتی مذاکراتی ٹیم اور اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے درمیان مذاکرات بے سود

حکومتی مذاکراتی ٹیم اور اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور ختم ہو گیا ہے تاہم کوئی پیشرفت نہ ہو سکی، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈیڈلاک برقرار ہیں۔مذاکرات کے بعد مختصر پریس کانفرنس کرتے ہوئے پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ ڈیڈلاک ختم کرنے تک مذاکرات جاری رہیں گے۔ رہبر کمیٹی جب اپنے لیڈرز سے بات کرے گی، ہم مذاکرات پر تیار ہیں۔
پرویز خٹک نے کہا کہ ہمارا کئی چیزوں پر اتفاق ہو چکا ہے، درمیانی راستہ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کئی مطالبات پر رضامندی ہو گئی ہے۔
اس موقع پر اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے سربراہ اکرم درانی نے واضح موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ رہبر کمیٹی کا وہی مطالبہ ہے جو پہلے تھا۔
ذرائع کے مطابق دونوں کمیٹیوں کے درمیان مذاکرات کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی ہے۔ مذاکرات میں حکومتی کمیٹی نے واضح کر دیا ہے کہ اپوزیشن کیساتھ وزیراعظم عمران خان کے استعفے اور اسمبلیاں تحلیل ہونے پربات نہیں ہوگی۔دوسری جانب اپوزیشن کی رہبر کمیٹی نے بھی اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات جب بھی ہوں گے، وزیراعظم کے استعفے سے شروع ہوں گے۔ وزیراعظم کے مستعفی ہونے پر اسمبلیاں تحلیل کی جائیں۔
حکومتی کمیٹی کا کہنا ہے کہ رہبر کمیٹی کیساتھ ہر آئینی اور قانونی مطالبات پر بات کی جا سکتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ رہبر کمیٹی کے کچھ ارکان کی جانب سے اپوزیشن کو درمیانی راستے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ادھر ذرائع کے مطابق حکومتی کمیٹی نے بڑی پیشکش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپوزیشن جو حلقے کھلوانا چاہے، پارلیمانی کمیٹی با اختیار ہوگی۔
حکومتی کمیٹی کی وزیراعظم اور رہبر کمیٹی سے ملاقاتوں کی اندرونی کہانی کے مطابق ارکان نے وزیراعظم سے کہا کہ وہ ترجمانوں کو سخت بیانات دینے سے روکیں۔ پرویز الہیٰ کا کہنا تھا کہ پرامن حل کے لیے فریقین لچک کا مظاہرہ کریں۔ انہوں نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمان نے ہماری گزارشات کا مثبت جواب دیا۔ وزیراعظم نے موجودہ صورتحال میں چودھری برادران کے کردار کو سراہا۔ذرائع کے مطابق وزیراعظم کی ہدایت پر حکومتی کمیٹی نے سفارشات رہبر کمیٹی کو پیش کر دی ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت انتخابی دھاندلی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی فعال کرنے پر رضامند ہے۔
حکومتی کمیٹی کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے مطالبات بنیادی طور پر انتخابی اصلاحات سے متعلق ہیں۔ انتخابات میں فوج کی تعیناتی کا مقصد سیکیورٹی مسائل ہیں۔ بعض حلقوں میں بااثر لوگ مخالف امیدوار کو اٹھا لے جاتے ہیں۔ حکومت آئین کی اسلامی دفعات کے تحفظ کی یقین دہانی کراتی ہے۔خبریں ہیں کہ اپوزیشن نے حکومتی پیشکش مسترد کر دی ہے۔ حکومت کی جانب سے پیشکش کی گئی تھی کہ انتخابی اصلاحات پر پارلیمانی کمیٹی بنی ہوئی ہے، اسے فعال بناتے ہیں۔ پارلیمانی کمیٹی انتخابی اصلاحات اور الیکشن کمیشن کو با اختیار بنانے پر بھی کام کرے۔
اپوزیشن نے اس پیشکش کو سمترد کرتے ہوئے کہا کہ پہلے پچیس جولائی 2018ء کے انتخابات کا معاملہ حل ہونا چاہیے، اس کے بعد باقی معاملات پر بات کریں گے۔ پارلیمانی کمیٹی کو فعال کرنے کی پیشکش قبول نہیں ہے۔