اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

864,557FansLike
9,991FollowersFollow
565,200FollowersFollow
188,369SubscribersSubscribe

امرت کور……(17ویں اور آخری قسط)…… امجد جاوید

میں اور دادا جی دوستی بس میں بیٹھ گئے تو میرے جذبات میں خواہ مخواہ کی طغیانی آگئی۔ میں اس وقت پُرجوش تھا۔ دادا کے من کی حالت کیا ہو گی، میں اس کے بارے میں سوچ ہی سکتا تھا، اس بارے اندازہ نہیں لگا سکتا تھا۔ دادا جی سے بات ہونے اور امرتسر کی طرف روانگی میں محض دو ہفتے ہی گزرے تھے۔ میری اور دادا جی کی تیاری میں فرحانہ نے بہت دلچسپی لی۔ اسے ان دنوں میں معلوم ہوا تھا کہ میرے اور دادا جی کے درمیان کیا کھچڑی پکتی رہی تھی۔ جھتوال سے میرا فون اور کمپیوٹر کے ذریعے رابطہ تھا ۔ وہاں پر ماحول بالکل درست ہوگیا تھا۔ ہمیں بس تک چھوڑنے کے لیے جہاں سب آئے، وہاں زویا بھی ٹھیک وقت پر پہنچ گئی۔ اس نے تحائف کا ایک بیگ مجھے تھما دیا۔ بس چل پڑی تو لاہور پیچھے رہ گیا۔ واہگہ پر ہمیں کافی وقت لگ گیا۔ اس وقت شام کے سائے پھیل رہے تھے۔ جب ہم امرتسر میں پہنچے۔ ہمارے استقبال کے لیے بھان سنگھ تو تھا ہی، اس کے ساتھ امریک سنگھ کو دیکھ کر میں خوش ہو گیا، وہ بڑے غور سے دادا نور محمد کو دیکھ رہا تھا، ممکن ہے ماضی کا کوئی حوالہ یاد کر رہا ہو، وہ دونوں بڑے تپاک سے ملے پھر بھان سنگھ سے بولا۔
’’چل بھئی کا کا…! سورج غروب ہونے سے پہلے گائوں پہنچا دے‘‘۔
بھان سنگھ نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی، دادا جی اس کے ساتھ پسنجر سیٹ پر بیٹھ گئے۔ جبکہ میں اور امریک سنگھ پچھلی نشست پر آگئے گاڑی چلتے ہی باتیں بھی شروع ہو گئیں۔ دادا گائوں کے پرانے لوگوں کے بارے میں امریک سنگھ سے پوچھتے رہے اور وہ بتاتا رہا۔ جس وقت ہم گائوں جانے والی ذیلی سڑک پر مڑے تو سورج غروب ہو چکا تھا۔ میں دادا کی طرف دیکھ رہا تھا، ان کی حالت دیدنی تھی۔ بھیگی ہو ئی پلکیں، ستا ہوا چہرہ اور تنا ہوا وجود، حتیٰ کہ جب وہ بولے تو ان کا لہجہ بھی بھیگا ہوا تھا۔
’’یار بھان…! سب سے پہلے قبرستان کا طرف چلو…‘‘
’’ٹھیک ہے دادا جی‘‘۔ یہ کہتے ہوئے اس نے گاڑی کی رفتار بڑھا دی۔ کچھ دیر بعد ہم وہاں پہنچ گئے جو کھیت اب قبرستان کی صورت اختیار کر گیا تھا۔ دادا جی نے پانی کی بوتل اٹھائی اور مجھ سے وضو کرانے کے لیے کہا۔ میں نے انہیں وضو کرایا تو انہوں نے نمازِ جنازہ کی نیت باندھ لی۔ پھر کافی دیر تک دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے رہے۔ جب انہوں نے چہرے پر ہاتھ پھیرے تو ان کے چہرے پر کافی حد تک بشاشت اتر آئی تھی۔اس دوران میں نے فاتحہ پڑھ لی۔
’’چل بھئی بھان…! اب تو جدھر چاہے لے چل‘‘۔ دادا نے اس کا ندھے پر تھپکی دیتے ہوئے کہا۔ پھر کچھ ہی دیر بعد ہم حویلی جا پہنچے۔
سارا گھر باہر والے پھاٹک پر جمع تھا۔ ان کے ساتھ امرت کور کا سارا پریوار تھا، نہیں تھی تو فقط امرت کور نہیں تھی۔ میں پریشان ہو گیا۔ پریت کور اپنے ہاتھ میں بڑا سارا تھال لیے کھڑی تھی۔ اس میں پھول تھے اور درمیان میں تیل کی پیالی۔ پھاٹک پر ہی ہمیں اتار لیا گیا۔ اس وقت وہ کوئی گیت گارہی تھیں، جس کی مجھے سمجھ نہیں آرہی تھیں۔ میں تو دادی پرونت کور کی طرف دیکھ رہا تھا۔ جو بھیگی آنکھوں سے ایک ٹک نور محمد کو دیکھے چلی جارہی تھی۔ دادا بھی اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ پریت کور نے دروازے کے دونوں اطراف تیل ڈالا پھر دادا نور محمد پر پھول نچھاور کیے۔ دادا نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کا سر چوم لیا۔ پھر جیسے ہی آگے بڑھے تو دادی پرونت کور نے اپنی بانہیں پھیلا دیں۔ دادا اس کے گلے لگ گئے اور وہ دونوں اس قدر دھاڑیں مار مار کر روئے کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں۔ جب ان کے رونے کے جوش میں ذرا کمی ہوئی تو پردیپ سنگھ سے ملے۔
پھر وہاں پر موجود ہر مرد اور عورت سے ان کی حیثیت کے مطابق ملے۔ کسی سے ہاتھ ملایا، کسی کے سر پر پیار دیا۔ کسی کے گلے ملے۔ تبھی دادی پرونت کور نے کہا۔
’’آوے نور محمد…! تجھے میں سردار بلوندر سنگھ کے سپتر سے ملوائوں‘‘۔
قریب ہی سریندرپال سنگھ، ست نام کور، گینت کور کھڑے تھے۔ دادا انہیں چند لمحے دیکھتا رہا، پھر سریندر کے گلے لگا، باری باری ملا اور بولا۔
’’سردار بلوندر سنگھ کا مجھ سے بڑا پیار تھا‘‘۔
’’میں جانتا ہوں نور محمد، ایک ایک بات جانتا ہوں، خیر، کیسا رہا سفر ‘‘، ان باتوں کے بعد کچھ دیر میں وہ سب حویلی کے اندر چل دیئے تو میں نے بھان سنگھ کو ایک طرف لے جا کر کہا۔
’’اوئے امرت کور…! وہ کدھر ہے؟‘‘
’’پریت سے پوچھتا ہوں، آئو‘‘۔ اس نے کاندھے اچکاتے ہوئے کہا۔ ہم دونوں اندر کی طرف چل دیئے۔ پریت اور گینت دونوں کاریڈور کے آخری سرے پر کھڑی باتیں کر رہی تھیں۔ ہم ان کے پاس چلے گئے اور جاتے ہی امرت کور کے بارے میں پوچھا۔ تب گینت کور بولی۔
’’ویرے…! ہم نے یہاں ساتھ آنے کے لیے کہا تھا، مگر وہ ہمارے ساتھ آنے کی بجائے گرودوارے چلی گئیں۔ ہو سکتا ہے، کچھ دیر بعد آجائیں یا پھر صبح…‘‘
’’چل ہم اسے لے آتے ہیں‘‘۔ بھان سنگھ کے کہا تو میں جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ ہم دونوں ہی پیدل گرودوارے تک گئے۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہ واپس چلی گئی۔ ہم ان کی حویلی کی طرف چل پڑے۔ وہاں پہنچے تو وہ ہمیں دالان ہی میں بیٹھی مل گئی۔ اس کے پاس گھرا یک ملازمہ بیٹھی ہوئی تھی۔ مجھے دور ہی سے دیکھ کر اٹھ گئی اور پھر اسی پیار بھری شدت سے ملی۔
’’میں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔ نور محمد کو لے آیا ہوں جھتوال‘‘۔ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ہاں پتر…!اچھا کیا، میرے وعدوں سے پہلے ہی تو نے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔ آئو بیٹھو‘‘۔ امرت کور نے ایک رنگین پیڑھے کی طرف اشاہ کرتے ہوئے ۔ دوسرے پر بھان سنگھ بیٹھ گیا تو میں نے کہا۔
’’یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔ اب آپ کی زندگی سلامت رکھے، ابھی آپ نے میری اور زویا کی شادی دیکھنی ہے اور ابھی بڑا کچھ…‘‘
امرت کور نے میری بات کا جواب دینے کی بجائے ملازمہ سے دودھ لانے کو کہا۔ پھر میری طرف دیکھ کر بولی۔
’’بات وعدوں کی ہے نا پتر…! تو دودھ پی لے… پھر میں کھانا لگواتی ہوں تیرے لیے‘‘۔
’’ادھر حویلی میں سب کے ساتھ کھاتے ہیں۔ بے بے اور چا چی نے بڑا اچھا انتظام کیا ہوا ہے‘‘۔ بھان سنگھ نے جلدی سے کہا۔
’’چلو ابھی دودھ تو پیئو‘‘۔ امرت کور نے کہا۔
اس وقت ہم دودھ پی رہے تھے۔ جب دونوں خاندانوں کے سارے افراد حویلی میں داخل ہوئے۔ ان میں دادی پرونت کور بھی تھی اور دادا نور محمد بھی۔ امرت کور انہیں دیکھتے ہی کھڑی ہو گئی۔ وہ ایک ٹک دادا نور محمد کو دیکھے چلی جاری تھی۔ جیسے پہلی بار انہیں دیکھ رہی ہو، اس کا گلابی رنگ سرخ ہو گیا تھا۔ تبھی دادی پرونت کور نے کہا۔
’’میں جانتی تھی کہ امرت کور ایسے نہیں آئے گی، اسے جا کر لانا پڑے گا۔ دیکھ نور محمد تجھے لینے کے لیے آیا ہے۔ اب چل ہمارے ساتھ…‘‘
’’جانا تو پڑے گا پرونت کورے… وعدے جو پورے ہو گئے ہیں‘‘۔
اس وقت تک دادا نور محمد اس کے قریب جا کھڑا ہوا تھا، سب اس کی طرف دیکھا رہے تھے، اس نے اپنا ایک بازو بڑھایا اور پہلو سے لگ کر دادا جی سے ملی، تبھی دادا نے ہولے سے پوچھا۔
’’کیسی ہو امرت کور…؟‘‘
’’میں ٹھیک ہوں‘‘۔ امرت کور یوں بولی، جیسے کسی گہرے کنویں سے بول رہی ہو۔
’’میں تمہارا اور پرونت کا پھر شکریہ ادا کرتا ہوں کہ تم دونوں نے حاجراں کی قبر بنا دی۔ میں پہلے ادھر ہی…‘‘
لفظ دادا کے منہ ہی میں رہ گئے۔ امرت کور نے اوپرکی جانب دیکھا ، دونوں ہاتھ جوڑے اور زور زور سے واہِ گرو… واہِ گرو… کہنے لگی، یوں جیسے اس پر وجد طاری ہوگیا ہو۔پھر ایک دم سے خاموش ہوئی اور کسی کٹے ہوئے درخت کی طرح گری، دادا ہی اس کے نزدیک کھڑے تھے۔ انہوں نے اسے اپنی بانہوں میں سنبھال لیا۔ ایک دم ہی سے وہاں افراتفری مچل گئی۔ دادا اور سریندر پال سنگھ اسے ہوش میں لانے لگے، مگر وہ وہاں تھی ہی نہیں۔ اس کی روح پرواز کر چکی تھی۔
٭٭٭٭
گائوں کے ایک کونے سے رستہ اس اجڑے ہوئے میدان میں جاتا تھا، جہاں امرت کور کا جسد خاکی لکڑیوں کے ایک ڈھیر کے اوپر لا کر رکھ دیا گیا تھا۔ گائوں بھر کے لوگ وہاں موجود تھے۔ میں اور دادا نور محمد بھی سوگوار سے وہیں کھڑے تھے۔ کچھ ہی دیر بعد امرت کور کے جسد خاکی کو آگ دکھا دی جانے والی تھی۔ آخری رسومات ادا کر دی گئیں تھیں اور جب لاشے کو آگ دکھانے کا وقت آیا تو اس لمحے گرودوارے کا گیانی آگے بڑھا اور اس ے بھڑکتا ہوا شعلہ اپنے ہاتھ میں لے لیا، پھر سب کو مخاطب کر کے کہنے لگا۔
’’امرت کور جی،روزانہ گرودوارے آتی تھیں۔ وہ سچے بادشاہ گرومہاراج جی کی سچی سیوک تھی۔ کل وہ آئی تو اس نے مجھ سے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ بلکہ اپنے ہاتھ سے ایک چٹھی بھی لکھ کر مجھے دی ۔وہ خواہش اس چٹھی میں بھی درج ہے‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے وہ چھٹی سریندر پال سنگھ کی طرف بڑھا دی۔ اس نے پڑھی تو گیانی نے سر اٹھا کر اونچی آواز میں کہا۔ ’’امرت کور جی کو خواہش تھی کہ اس کی چتا کو آگ نور محمد لگائے‘‘۔
ایک دم سے وہاں پر سراسمیگی پھیل گئی۔ تبھی گیانی نے اونچی آواز میں کہا۔
’’اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ سچے بادشاہ گرو مہاراج کے نزدیک نہ کوئی ہندو ہے اور نہ کوئی مسلمان، ان کے نزدیک ہر وہ بندہ سکھ ہے جو سچا ہے، وہ چاہے ہندو ہے، عیسائی ہے، یا مسلمان، اسی لئے شری گرو گرنتھ صاب میں سب کی بانیاں ہیں۔ وہ چاہے فرید جی ہوں یا کبیر جی، بابا بھگت ہو یا دھا نے جٹ کی، جس وقت سچا سکھ اس دنیا سے چلا جاتاہے تو اس کے شریر کو کوئی بھی سچاپرکھ، اس کے گرو کو مان کر، اس شریر کو اگنی کی سیک دے سکتا ہے۔ سچے سکھ کی آتما تو پہلے ہی سچے گرو کے پاس پہنچ جاتی ہے‘‘۔
اس کے خاموش ہوتے ہی ہر طرف خاموش چھا گئی۔ سریندر سنگھ نے اس شعلے کو اپنے ہاتھ میں لیا اور پھر دادا نور محمد کی طرف بڑھا دیا۔ وہ چند لمحے کھڑے سوچتے رہے۔ پھر آگے بڑھ کر چتا کو آگ دکھا دی۔ تب میں نے دیکھا دادا نور محمد کے آنسونکل پڑے تھے۔ وہ ضبط نہ کر سکے اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگے ۔ سریندر پال سنگھ نے انہیں گلے لگا لیا۔ ان لمحات میں میری ادا سی بڑھ گئی تھی۔ امرت کور نے مجھے اور دادا نور محمد کو بہت بڑے امتحان سے بچا لیا تھا۔ میں جیسے غور کررہا تھا۔ مجھ پر بہت سارے راز افشاہونے لگے تھے۔
٭٭٭٭٭٭
امرتسر تک جھتوال کے بہت سارے لوگ ہمارے ساتھ آئے۔ جس وقت ہم ان سے رخصت ہوئے تو سریندرپال سنگھ نے دادا نور محمد سے کہا۔
’’آپ نے بلال اور زویا کی شادی پر ہمیں ضرور بلانا ہے۔ امرت کور میرے لیے بھی ایک خط چھوڑ گئی تھی۔ اس میں امرت نے بلال اور زویا کے لیے ، بھان اور پریت کے لیے بہت کچھ دینے کو کہا ہے، وہ امانت ہے میرے پاس‘‘۔
’’جی ضرور…!‘‘ دادا جی نے وعدہ کیا اور ہم وہاں سے رخصت ہو گئے۔ بھان اور پریت کی شادی نہیں ہو سکی تھی۔ وجہ امرت کور کی وفات تھی۔
واہگہ سرحد پر ہم ضروری کارروائی کے بعد باہر نکلے تو سامنے ہی پاپا کے ساتھ زویا کو دیکھ کر میری حیرت دوچند ہو گئی۔ ذرا فاصلے پر شاہ صاحب، مسز شاہ، ماما اور فرحانہ بھی موجود تھے۔ ملنے ملانے کے دوران پاپا نے پوچھا۔
’’کیسا رہا ٹور…؟‘‘
’’بس دادا جی کی لواسٹوری ختم کر کے آیا ہوں‘‘۔
’’اور، اس پتندر کی لواسٹوری اب شروع ہو گئی ہے‘‘۔ دادا جی نے بے ساختہ کہا تو سب زور سے ہنس دیئے۔
’’چلو چلیں، باقی باتیں گھر چل کر کریں گے‘‘۔ پاپا نے موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے کہا تو سبھی گاڑیوں میں بیٹھ گئے۔ میں نے دیکھا زویا ایک الگ گاڑی میں بیٹھ رہی ہے۔ میں نے دادا جی کو ساتھ لیا اور اس میں جا بیٹھا۔ باقی دوسری گاڑیوں میں چل پڑے۔ تبھی میں نے پوچھا۔
’’یہ سب کیسے…؟‘‘
’’تمہاری امرت کور کی وجہ سے‘‘۔ زویا نے معنی خیز انداز میں تو میں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے کہا۔
’’امرت کور میری نہیں، دادا جی کی تھی، میری تو تم ہو‘‘۔
’’شاباش پتر…! ہر جگہ دادے ہی کو بدنام کرنا‘‘۔
اس پر گاڑی میں ایک زور دار قہقہہ پھیل گیا۔ زویا نے محبت پاش نگاہوں سے دیکھا تو مجھے ہر طرف محبت بکھری ہوئی دکھائی دینے لگی۔
(ختم شد)
**************