اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

843,468FansLike
9,979FollowersFollow
561,200FollowersFollow
181,482SubscribersSubscribe

ایک ہی تصویر کے دو رخ (امجد اسلام امجد)

عدالت عالیہ نے بھارتی ڈراموں اور فلموں وغیرہ کی پاکستانی چینلز پر نمائش کی پابندی کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے جس پر کچھ عرصے سے عمل درآمد کسی نہ کسی حد تک ہو بھی رہا تھا جب کہ کئی چینل مختلف حیلوں بہانوں سے ’’چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے‘‘ کے مصداق اس کی خلاف ورزی کے نئے سے نئے رستے بھی نکالتے چلے جا رہے تھے مبینہ طور پر یہ پابندی اس لیے عائد کی گئی تھی کہ
-1 بھارتی ڈراموں‘ فلموں اور دیگر پروگراموں میں جو مواد پیش کیا جاتا ہے اس سے نہ صرف بے حیائی کو فروغ ملتا ہے بلکہ ہماری نئی نسل کا اخلاق اور ہماری معاشرتی اقدار کا نظام بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔-2اس میں ایسا مواد بھی شامل ہوتا ہے جس میں پاکستان پر بے جا غلط اور متعصبانہ تنقید کی جاتی ہے، پاکستان کے قیام اور اس کی سالمیت کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اور تقسیم کی لکیر کو ایک غلط فیصلے کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے۔-3یہ مواد‘ ہمارے مذہب‘ اسلامی روایات‘ مقدس مقامات اور قابل احترام ہستیوں کی توہین پر مشتمل ہوتا ہے جس سے قوم کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہیں۔-4ان ڈراموں میں معاشرتی تعلقات کی جو تصویر پیش کی جاتی ہے وہ بہت گمراہ کن ہے مثلاً شادی کے قانونی اور اخلاقی بندھن کی جگہLiving together اور غیرمسلموں سے شادی کے شرعی قوانین کے برخلاف ایک ایسی شخصی آزادی کے تصور کو فروغ دیا جاتا ہے جس سے نوجوانوں کے ذہنوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
-5 ان پروگراموں کے ذریعے ہندو معاشرت اور ہندی زبان کو ہمارے بچوں کے ذہنوں پر اس طرح مسلط اور حاوی کیا جا رہا ہے کہ اب وہ نکاح کو بھی اس لیے مکمل نہیں سمجھتے کہ دلہا دلہن نے پھیرے تو لیے ہی نہیں۔
-6 ان کی وجہ سے ہماری ڈرامے اور فلم کی صنعت تباہ اور ہمارے فن کار بے روز گار ہو رہے ہیں، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک دو باتوں کو چھوڑ کر کون سی ایسی بات ہے جو پاکستانی ٹی وی چینلز کے نیوز اور انٹرٹینمنٹ پروگراموں میں پورے زور شور سے نہیں ہو رہی؟
جہاں تک پی ٹی وی کا تعلق ہے اس کے ڈراموں کی صف تو کب کی لپیٹی جا چکی ہے۔ مقام عبرت ہے کہ جس چینل نے تقریباً تین دہائیوں تک مسلسل ایسے شاندار اور عوامی مسائل سے جڑے ہوئے ڈرامے پیش کیے اور اپنے محدود وسائل کے باوجود معیار اور تعداد دونوں حوالوں سے انتہائی عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ، اب سوائے ان علاقوں کے جہاں کیبل ٹی وی کی رسائی نہیں لوگ اس کا انٹرٹینمنٹ چینلآن کرنا ہی بھول گئے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب اس کے پانچوں سینٹرز ہفتے میں کل ملا کر 20سے زیادہ ڈرامے پروڈیوس کرتے تھے۔
اب یہ مارکیٹ سے تیسرے اور چوتھے درجے کے چند گھٹیا اور بے معنی ڈرامے خرید کر اسکرین کا پیٹ بھرتا ہے جب کہ ستر اسی نئے چینلز میں سے 90% نیوز چینل ہیں، یہ اور بات ہے کہ ان پر روزانہ رات آٹھ سے بارہ بجے تک لائیو سیاسی ڈرامے ہوتے ہیں مگر ہمارا سرو کار چونکہ روایتی ڈرامے سے ہے سو اس میدان میں ٹی وی چینل بھی پاکستان میں تیار شدہ ڈرامے ٹیلی کاسٹ کرتے ہیں جن میں سے بیشتر کے موضوعات ‘ اخلاقی تصورات کو منع کرنے اور رشتوں کی حرمت کو پامال کرنے کے گرد ہی گھومتے ہیں۔
ان میں وہ قومی‘ معاشرتی‘ ادبی اور فنی کمٹ منٹ شاذ ہی نظر آتی ہے جس نے ایک وقت میں ٹی وی اسکرین کو معاشرے کے زندہ‘ روشن اور مثبت عکس کا ترجمان بنا دیا تھا اور ملک کے ہر کونے میں موجود ناظرین معاشرتی‘ تہذیبی‘ دینی‘ اخلاقی اور اجتماعی حوالوں سے ان میں اپنے آپ کو موجود پاتے تھے۔ آزادی‘ حقیقت پسندی‘ گلیمر اور زیادہ سے زیادہ منافع بلاشبہ اس کھیل کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ ناقابل تردید حقائق بھی ہیں مگر ایسی آزادی جو بے حیائی اور بے حسی کو فروغ دے‘ وہ حقیقت پسندی جس میں حقیقت کے ایک بے حد محدود اور استثنائی نوعیت کے معاملات کو ہر چیز پر حاوی کر دیا جائے‘ ایسا گلیمر جو صرف سفلی جذبات کو تحریک دے اور ایسی منافع پسندی جس سے معاشرتی اقدار کا خون ہو رہا ہو کسی صورت بھی قابل قبول نہیں۔ بھارتی ڈراموں خصوصاً سو پس کی اندھی تقلید نے پاکستانی ڈرامے سے اس کی شناخت چھین لی ہے اور یہ نقل کی نقل بن کر رہ گئے ہیں۔
دوسری طرف ٹیکنالوجی کی ترقی‘ وسعت اور اس کے سہل الحصول ہونے نے ان کی دستیابی کے بے شمار نئے رستے کھول دیے ہیں، اب اس جن کو دوبارہ بوتل میں بند کرنا ممکن نہیں اس کا مقابلہ کرنے اور اس کے مضر اثرات سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور یہ وہی طریقہ ہے جو ستر کی دہائی کے وسط میں اس وقت استعمال اور اختیار کیا گیا تھا جب بھارتی فلموں نے ہم پر ثقافتی یلغار کی تھی اور وہ یہ کہ میرٹ‘ حب الوطنی‘ معاشرتی کمٹ منٹ اور اعلیٰ ترین فنی معیار کے ساتھ حملہ آور کے دانت کھٹے کیے جائیں اور نقل کے بجائے اورجنل ہنر کو سلیقے کے ساتھ آگے لایا جائے ،اس زمانے کے سیریل‘ ڈرامے‘ ڈرامہ سیریز‘ لانگ پلے یا مزاحیہ پروگرام کسی کو اٹھا کر دیکھ لیجیے آپ کو ہر ایک پر اپنی شناخت اور معیار کی چھاپ نظر آئے گی ۔
کیسے کیسے نازک موضوعات تھے جو فیملی چینل پر گھر کے سب افراد مل کر دیکھتے تھے کیونکہ ہر بات معاشرتی اور تہذیبی اقدار کے دائرے کے اندر رہ کر کی جاتی تھی ۔ظلم‘ بربریت‘ طبقاتی تفریق‘ ناانصافی‘ بے حیائی‘ ناجائز تعلقات‘ گلیمر اور ضمیر فروشی پر مبنی ہر طرح کے موضوعات پر بات کی جاتی تھی مگر نہ ان کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا تھا اور نہ بالواسطہ برائی کی طرف رغبت دلائی جاتی تھی جو فی زمانہ ہمارے ڈرامے کا طرہ امتیاز بن چکا ہے۔ ڈرامہ معاشرے کا آئینہ ضرور ہے مگر ڈرامہ نگار آئینہ گر سے زیادہ مصور ہوتا ہے جو کسی منظر کی حقیقت بیان کرتے ہوئے اس میں اپنے انداز فکر‘ نقطہ نظر اور صوابدید کو بھی شامل حال کر دیتا ہے۔ یہ نہیں کہ اگر ایک ہزار میں سے ایک دیور بھابی کے تعلقات شفاف نہ ہوں تو ہر دوسرے ڈرامے میں اس کی گھٹیا اور اخلاق سوز تصویر دکھاتے ہوئے یہ فراموش کر دیا جائے کہ 999مقامات پر یہ رشتہ اب بھی اپنی حرمت کو برقرار رکھے ہوئے ہے ، کم و بیش یہی صورت حال کئی اور استثنائی معاملات کی بھی ہے۔
یعنی مسئلہ بھارتی ڈراموں پر غیرفطری‘ عمومی اور ناقابل عمل پابندی لگانے کا نہیں اصل بات یہ ہے کہ ہم خود کیا کر رہے ہیں اور یہ کہ ہمیں کیا اور کس طرح سے اس کی مضر اثرات کو روکنا یا محدود کرنا ہے، اس کے لیے دو باتیں بنیادی ہیں ایک تو یہ کہ جن بھارتی ڈراموں میں پاکستان دشمن‘ یا منفی سیاسی‘ مذہبی یا تہذیبی مواد ہو انھیں دکھانے سے پہلے دوبارہ سنسر کیا جائے اور دوسرے یہ کہ یہ عمل دو طرفہ بنایا جائے یعنی جتنے بھارتی ڈرامے پاکستانی چینلز پر دکھانے کی اجازت ہو کم و بیش اتنے ہی پاکستانی ڈرامے بھارتی چینلز بھی ہم سے خریدیں اور ٹیلی کاسٹ کریں اگر سرحدوں پر گولہ باری کا حساب رکھنے کے لیے مشترکہ کمیٹیاں بنائی جا سکتی ہیں تو اس معاملے کے حل کے لیے بھی کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔
اب ظاہر ہے اگر ایسا ہو گیا تو بھارت میں ان کے گھٹیا ڈراموں کی گھٹیا تر نقول کو تو مارکیٹ نہیں ملے گی سو ان چینلز کو تجارتی توازن قائم رکھنے کے لیے مجبوراً ایسے ڈرامے بنانے پڑیں گے جن کا رشتہ ہماری تہذیب‘ معاشرتی اقدار اور ڈرامے کی اس جاندار اور با مقصد روایت سے ہو جس نے پاکستانی ڈرامے کو بھارتی ناظرین کے لیے بھی ایک قیمتی اور خوب صورت تحفہ بنا دیا تھا اور جن کے کیسٹس وہاں کے گھر گھر میں پائے جاتے تھے۔
ٹیلنٹ کی کمی نہ پہلے تھی نہ اب ہے کہ ہماری نوجوان نسل بھی نئی صلاحیت کے حوالے سے کسی بھی شعبے میں کسی سے کم نہیں، ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ اس شعبے کو چند مفاد پرست اور سماج دشمن منافع خوروں کے قبضے سے نکال کر دوبارہ ان لوگوں کے سپرد کیا جائے جو ماہرین فن ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے معاشرے کی مثبت ترجیحات اور فیملی چینل کے تقاضوں اور ممنوعات سے بھی بخوبی واقف ہوں۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)