اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

873,111FansLike
9,997FollowersFollow
567,600FollowersFollow
188,369SubscribersSubscribe

بات تو سوچنے والی ہے (امجد اسلام امجد)

کہتے ہیں ٹیکنالوجی کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ یہ ایک تیز چاقو کی طرح سے ہے۔ چا ہے اس سے سیب کاٹ لیں یا کسی کے سینے میں گھونپ دیں۔ یہ اس چاقو کے استعمال کرنے والے پر منحصر ہے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ بوتل سے نکلے ہوئے جن کی طرح ٹیکنالوجی کا بھی کوئی بیک گیئر نہیں ہوتا۔ ٹیلی فون کی ایجاد کے وقت شاید گراہم بیل کے تصور میں بھی اس کا وہ استعمال نہ ہو جس کا آج کل ہم دن رات نہ صرف مشاہدہ کرتے ہیں بلکہ اس ڈرامے کے خود بھی زندہ کردار ہیں۔
آج وطن عزیز میں ایک سروے کے مطابق تقریباً دس کروڑ موبائل فون زیر استعمال ہیں۔ جب کہ ہمارے 40% سے زیادہ لوگ خط غربت سے نیچے کی ایسی زندگی گزار رہے ہیں، کہ ان کے لیے دو وقت کی روٹی اور تن ڈھانپنے کے لیے مناسب لباس کی فراہمی بھی ایک امتحان سے کم نہیں۔ والدین کو اپنے بچوں اور بچوں کو اپنے والدین سے زیادہ موبائل فون کے بیلنس کی فکر ہوتی ہے۔ ایسا کیوں اور کیسے ہوا یہ اپنی جگہ پر ایک بہت بڑا اور تہہ در تہہ سوال ہے۔ لیکن اس وقت میں اس مسئلے کے جس پہلو پر بات کرنا چاہتا ہوں وہ قدرے مختلف مگر بہت پریشان کن اور توجہ طلب ہے۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے اس ضرورت کے آلے کو تفریح طبع کے ساتھ ساتھ بہت سی غیر اخلاقی اور مجرمانہ قسم کی حرکات کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ کہتے ہیں کہ خالی دماغ شیطان کا گھر ہوتا ہے۔ سو ان لوگوں نے اپنے فارغ وقت میں (جو بعض صورتوں میں ہر دن کے 24گھنٹوں پر محیط ہوتا ہے) موبائل فون اور سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو تنگ کرنا‘ بہکانا‘ غلط اطلاعات فراہم کرنا‘ ڈرانا اور بلیک میل کرنا ایک مشغلہ بنا رکھا ہے۔
اب آپ اندازہ لگائیے کہ دس کروڑ میں سے اگر صرف 10% لوگ بھی ایسا کر رہے ہیں اور ان میں 99% صرف تفریح کے لیے ایسا کرتے ہیں یعنی ان کا مقصد کسی کو نقصان پہنچانا نہیں ہوتا تب بھی بقیہ 1% تقریباً ایک لاکھ بنتے ہیں۔ فرض کر لیجیے کہ ان میں سے بھی صرف ایک ہزار لوگ ایسے ہیں جن کی نیت مجرمانہ ہے تب بھی یہ ایک بہت پریشان کن بات ہے کہ ایک ہزار جرائم پیشہ افراد اس معاشرے میں بلا روک ٹوک دندناتے پھر رہے ہیں اور انھیں کوئی چیک کرنے والا نہیں۔
ہمارے سیکیورٹی اداروں اور انتظامیہ کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ مجھ سمیت بے شمار لوگوں کے توجہ دلاؤ نوٹسوں کے باوجود آج تک کسی محکمے نے ان لوگوں کو بھی نہیں پکڑا جو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام یا مختلف طرح کی انعامی اسکیموں کے ذریعے فراڈ کرتے ہیں اور انتہائی دیدہ دلیری کے ساتھ اپنے رابطہ نمبر بھی مشتہر کرتے ہیں۔
ابھی تک انتظامیہ یہی طے نہیں کر پائی کہ اس کے سدباب کے لیے کون سا سرکاری محکمہ ذمے دار ہے۔ سوشل میڈیا اور فیس بک کی معرفت جو خبریں سامنے آتی ہیں ان کی تصدیق کا کوئی فوری ذریعہ یا طریقہ نہیں ہے، اس لیے ان کی بنیاد پر سچی خبر یا افواہ کو علیحدہ علیحدہ کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن ان کی تعداد اور نوعیت سے یہ اندازہ یقیناً لگایا جا سکتا ہے کہ کسی کیس کے واقعات اور کرداروں کو بے شک ضرورت سے زیادہ بڑھا چڑھا کر یا توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہو۔ مگر متعلقہ مسئلہ کسی نہ کسی شکل میں موجود ضرور ہے۔ ایسی ہی ایک کہانی آج فیس بک پر نظر سے گزری جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے:
دو بچوں کی ماں ایک شریف اور گھریلو خاتون کے موبائل فون پر کسی اجنبی نے فون کیا اور ان کے بارے میں ذاتی سوالات کے ساتھ دوستی کی دعوت بھی دی۔ خاتون نے انھیں سمجھانے کی ناکام کوشش کے بعد فون بند کر دیا اور ان صاحب کے بار بار فون کرنے کے باوجود کبھی ان کی کال اٹینڈ نہیں کی۔ اس پر ان صاحب نے مسلسل عشقیہ اشعار اور غیر اخلاقی نوعیت کی باتیں انھیں ٹیکسٹ کرنا شروع کر دیں۔ خاتون اپنے شوہر کے علم میں کس طرح سے لائیں کہ وہ پہلے سے ہی ایک شکی مزاج اور جھگڑالو شخص تھا۔
ایک دن اس کی ساس اس کے گھر آ گئی وہ اس کے لیے چائے وغیرہ بنانے میں لگ گئی۔ اتنے میں پھر اس شخص کا فون آ گیا۔ ساس نے فون اٹھا کر ’’ہیلو‘ کیا ہی تھا کہ دوسری طرف سے عاشقانہ جملوں‘ گلوں شکووں اور بازاری قسم کے اظہار محبت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ کم تعلیم یافتہ ساس نے اپنے بیٹے کے گھر آنے پر خوب نمک مرچ لگا کر اسے اپنی بہو کے کسی شخص سے ناجائز تعلقات کا افسانہ سنایا۔ شوہر نے بیوی کو بے دردی سے مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔ بلکہ اپنے سالے یعنی بیگم کے بھائی کو بھی فون کر دیا کہ آ کر اپنی بہن کو لے جاؤ۔ سالا اپنے بہنوئی سے بھی زیادہ اکھڑ اور جذباتی تھا۔
سو اس نے بھی بہن کی بات سنے بغیر پہلے تو اسے خوب مارا پیٹا اور پھر اسے گولی مار دی۔ ہمسائے اکٹھے ہوئے پولیس آئی اور بھائی کو گرفتار کر کے لے گئی۔ بعد میں تفتیش پر اصلی بات کا پتہ چلا کہ اس خاتون نے پہلے فون کے بعد نہ صرف کبھی اس کا فون اٹینڈ کیا تھا بلکہ کبھی کسی پیغام کا جواب بھی نہیں دیا تھا۔ اس کہانی کی تفصیلات‘ واقعات اور کرداروں کی حقیقت سے قطع نظر یہ بات اپنی جگہ پر ضرور ہے کہ اس طرح کی حرکتوں سے ہمارے معاشرے میں نہ صرف بے شمار سماجی برائیاں پیدا ہو رہی ہیں بلکہ بہت سے معصوم اور بے گناہ لوگ اور ان کے خاندان بھی شکوک و شبہات اور ایسی تباہی و بربادی کا شکار ہو رہے ہیں جس کی اصل وجوہات کچھ اور تھیں۔
کل ہی کوئی دوست بتا رہا تھا کہ 1122 ہیلپ سروس والوں کو ہر روز سیکڑوں جعلی شکایتیں اور اطلاعات ملتی ہیں جو اسی طرح کی چھیڑ چھاڑ تفریح اور لطف اندوزی کے لیے کی جاتی ہیں اور اس طرح کی حرکتیں کرنے والوں کو شاید یہ احساس ہوتا ہی نہیں کہ اس سے نہ صرف ان ہنگامی امداد مہیا کرنے والے اداروں کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے بلکہ بعض اوقات صحیح جگہ پر پہنچنے میں بھی غیر معمولی اور انتہائی مہلک تاخیر ہو جاتی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے۔ تو اس کا جواب یہی ہے کہ ہر مرض کا حل اور علاج بھی عام طور پر اس کے اندر ہی کہیں موجود ہوتا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو اس مرض سے بچنے کی احتیاطی تدبیر تو وہ تربیت اور معاشرتی شعور کا حامل احساس ذمے داری ہے جس میں پورا معاشرہ کسی اخلاقی قدر کا نمائندہ بن کر اس کی حفاظت اور فروغ کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ جب کہ دوسرے حصے کا تعلق سرجری سے ہے۔ یعنی معاشرے کے جسم میں موجود ایسے ناسور کو آپریشن کے ذریعے علیحدہ کر دیا جائے۔
یعنی اس طرح کی حرکتیں کرنے والوں کو ایسی سزائیں دی جائیں کہ یہ باقیوں کے لیے نقش عبرت بن جائیں اور ان کی مثال سے پورا معاشرہ اس حقیقت سے آگاہ ہو جائے کہ اگر کسی ہمسائے کا گھر محفوظ نہیں تو آپ کا گھر بھی اتنا ہی غیر محفوظ ہے کہ جو شرارت اور شرپسند فون آپ کسی دوسرے کو کر سکتے ہیں اسی طرح کا کوئی فون دوسرے بھی آپ کو اور آپ کے پیاروں کو بھی کر سکتے ہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)