عمران خان اور کیجری وال

معیشت ،سیاست ،ترقی اورتنزلی ،کھیل کا میدان ہویا جنگی سازو سان اور صلاحیت کا معاملہ ،پاکستان اور بھارت میں موازنہ کیا جانا ایک عام سی بات ہے ۔سیاست کے میدان کی بات کی جائے تو یہاں بھی دونوں ملکوں میں صورتحال ایک لحاظ سے قدرے ہم آہنگ ہی نظر آتی ہے،جیسا کہ پاکستان میں گزشتہ بیسیوں سال سے مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی ہی بڑی جماعتوں کے روپ میں نظر آتی ہیں وہیں بھارت میں بھی سیاسی طاقت کا محور کانگرس اور بے جے پی کے گرد گھومتا ملتا ہے۔گو کہ پاکستانی جمہوریت فوجی حکمرانوں اور مارشل لاء کے ادوار سے گزر کر آج یہاں تک پہنچی ہے جب کہ بھارت کے ایوانوں میں کبھی بھی کسی غیر جمہوری طاقت نے دستک تک بھی نہیں دی ۔لیکن میں یہاں بات کرنا چاہتا ہوں موجودہ سیاسی صورتحال کی ۔دنوں ملکوں میں یہی 4پارٹیاں کئی بار بر سر اقتدار رہی جن کا اوپر ذکر کیا۔یہاں سیا سی تبدیلی کی بات کی جائے تودونوں ملکوں کی سیاست میں تقربا ایک ہی وقت میں دو نئے سیاسی کررداروں کی انٹری ہوئی ۔بھارت میں کیجیری وال کی اور پاکستان میں عمران خان کی ۔پہلے بات کر لیتے ہیںکیجری وال کی ۔
کیجری وال(دلی سے پنجاب تک )
کیجری وال جو کہ عام آدمی پارٹی کے سربراہ ہیں اور دلی کے بعد پنجاب کے تخت پر بھی اب انہیں کی حاکمیت ہے۔اروند کیجری وال جو کہ 2011 میں انا ہزارے کی کرپشن کے خلاف چلائی گئی مہم میں کے دوران ،ان کے مشیر کی حیثیت سے سامنے آئے۔بعد ازاں حکمت علمی میں اختلافات کے نتیجے میں کیجری وال نے تحریک سے علیحدگی اختیار کی اور اپنی پارٹی کی بنیاد رکھی ۔انتخابی نشان جھاڑو اورسفید رنگ کی ٹوپی پہنے کیجری وال جس پر نعرہ درج تھا کہ میں عام آدمی ہوں ۔حیران کن طور پر 2013 کے ریاستی انتخابات میں 28 نشستیں حاصل کرنے کے بعد عام آدمی پارٹی نے دلی کی حکمرانی کا تاج اپنے سر سجا لیا۔اب وہ دن تھا کہ اروند کیجری وال لوکل ٹرانسپورٹ سے سفر کرنے کے بعدحلف اٹھانے پہنچے یہاں پر قابل زکر بات یہ تھی کہ ان کے حامیوں نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جس پر ایک نعرہ درج تھا آج دلی تو کل پورا ہندوستان اور 2013 کے بعد کیجری وال نے حالیہ ریاستی انتخابات میں پنجاب کے تخت پر بھی اپنے قدم جمالیے۔جہاں حیران کن طور پر عام آدمی پارٹی کے ممبران نے کانگرس اور بے جے پی کے بڑے بڑے برج گرا دیے۔ایک موبائل شاپ پر کام کرنے والے نوجوان نے سابق وزیر اعلیٰ کو شکست دے کر بھارت کی سیاست میں نئے دور کا آ غاز کر دیا۔لیکن جن دنوں کیجری وال نے پنجاب میں تاریخ رقم کی ۔
عمران خان (تحریک انصاف سے تحریک عدم اعتماد تک )
ٹھیک انہی دنوں پاکستان میں روایتی سیاسی کی تاریخ ایک بار پھر دہرائی گئی ۔سلیکٹڈ ،سلیکٹد کے نعرے تھے اور اپوزیشن نے اسمبلی سیکرٹریٹ میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ریکوزیشن جمع کروا دی ۔خیر یہ تو جمہوری عمل کا حصہ ہے۔لیکن جس بیناد یا یقین پر یہ تحریک عدم اعتماد لائی گئی وہ تھے منحرف اراکین ۔یہ منحرف اراکین وہ تھے جن کو عمران خان نے خود اپنے ہاتھوں سے پارٹی کے پٹکے پہنا کر چند سال پہلے اپنی بغل میں بٹھایا تھا ۔گو کہ عمران خان بھی اروند کیجیری وال کی طرح کرپشن مکاؤ کا نعرہ لے کر میدان میں اترے تھے لیکن شاید ان میں کیجری وال کی طرح سیاسی بصیرت ،تحمل اور براداشت نہیں تھی ۔اور آج جہاں ایک طرف عام آدمی پارٹی کے ایک عام سے ورکر نے وزیر اعلیٰ کے امید وار کو ہرا دیا۔وہیں ملک بھر سے چن چن کر لائے گئے ایلکٹی بلز آج عمران خان کا تخت الٹنے کے درپر ہیں ۔الیکٹی بلز کی سیاست نے عمران خان یا خاص طبقے کی سوچ کو بھی شاید بدل دیا ہو گا جو یہ سمجھتے تھے کہ تبدیلی اوپر سے آتی ہے یا ملک کا سربراہ ٹھیک ہو تو سب ٹھیک ہو سکتا ہے۔اگر اس حکمت عملی یا سوچ کا موازنہ عام پارٹی سے کیا جائے تو ایک بات تو طے ہے کہ کیجری وال نے نظام بدلا اور لوگوں کی سوچ بدلی جس کے نتیجے میں دلی کے بعد پنجاب میں بھی عام آدمی کا پارٹی کا جھنڈا لہرا رہا ہے۔عمران خان جو کہ ہمیشہ ریاست مدینہ کا زکر کرتے ہیں اور ریاست مدینہ کے نظام کے مطابق ملک کو چلانے کی سوچ رکھتے ہیں ۔میرے خیال میں ان کو پہلے اس بات کی تحقیق کرنی چاہیے کہ ریاست مدینہ وجود میں کس طرح آئی تھی۔وہ کون سے بنیادی اصول تھے جن پر حضرت محمد ﷺ اپنی پوری زندگی کار فرما رہے جس کے بعد مدینہ کی ریاست وجود میں آئی ۔اور میری رائے کے مطابق وہ بنیادی اصول تھا تربیت،محمد ﷺ نے جب اس دنیا سے پردہ فرمایا تو اسلام صرف خطہ عرب تک محدود تھا۔آپ ﷺ کے زیر سایہ تربیت پانے والے مٹھی بھر صحابہ نے اسلام کی ریاست کو یورپ اور ایشیاء تک توسیع دی ۔اگر عمران خان بھی لوگوں کی تربیت جاری رکھتے اور وزیر اعظم بننے کا خواب ایک طرف رکھ کر صرف لوگوں کی سوچ اور نظام بدلنے کی کوشش جاری رکھتے تو شاید انہیں مزید 5 سال بعد اقتدار الیکٹی بلز کے بغیر ہی مل جاتا۔ملکی سیاسی نظام سے گھبرائی ہوئی عوام عمران خان کے نام کی کھڑی اینٹوں کو خود ووٹ ڈالتے۔لوگوں کی سوچ بدلتے اپنے زیر سایہ کام کرنے والے لوگوں کی تربیت کرتے تو یقین سے کہتا ہوں آج ان کو یہ دن دیکھنے نہیں پڑتے۔