اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

864,771FansLike
9,991FollowersFollow
565,300FollowersFollow
188,369SubscribersSubscribe

امرت کور ۔۔قسط نمبر5۔۔(امجد جاوید)

’’نہ پتُر، تُو اتنا پریشان نہ ہو، تو ایسا کر چل میرے کمرے میں، میں تیری ساری الجھن دور کر دیتی ہوں‘‘۔ دادی پرونت کور نے کہا تو میں اپنے آپ میں آیا۔ وہ جو میرے دل و دماغ میں کھٹک رہا تھا کہ اس میں کوئی راز ہے ضرور ممکن ہے وہ سامنے آجانے کا وقت آگیا تھا۔ میں نے دادی پرونت کورکو سہارا دے کر اٹھایا اور اس کے ساتھ آہستہ قدموں سے ان کے کمرے میں چلا گیا۔ وہ بڑا سادہ سا کمرہ تھا۔ دیواروں پر سفید پینٹ تھا اور دائیں طرف کی دیوار پر ایک بڑی سی تصویر بابا جی گرونانک کی لگی ہوتی تھی۔ ایک آبنوس انداز کا بیڈ تھا۔ ایک صوفہ اور دو کرسیاں تھیں۔ صاف ستھرا، ہوا دار روشن کمرے میں وہ جاتے ہی اپنے بیڈ پر بیٹھ گئیں اور میں ایک کرسی گھسیٹ کر بالکل ان کے پاس جا بیٹھا۔میں ان کی طرف دیکھ رہا تھا اور وہ خیالوں میں کھوئی ہوئیں تھیں۔ پھر اچانک سر اٹھا کر بولی:
’’تیرے دادا کا نام نور محمد ہے نا…؟‘‘
پرونت کورکے منہ سے اپنے دادا جی کا نام سن کر میں پھر حیرت زدہ رہ گیا۔ یہاں آ کر میں نے ایک بار بھی ان کا نام نہیں لیا تھا۔
’’جی ، یہی ہے…‘‘
’’اونچا لمبا، گورے رنگ کا، بڑی گہری آنکھیں، لمبا ناک اور خاص بات یہ ہے کہ اس کی دائیں آنکھ کے ساتھ ایک تل ہے‘‘۔ وہ خیالو ں میں ڈوبی کہتی چلی گئی۔
’’جی ہاں…! آپ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں‘‘۔ میں نے انتہائی تجسس سے کہا۔
’’تو سن پتر…! وہ تیرا دادا یہیں اس گائوں کا رہنے والا تھا‘‘۔
’’میرے دادا جی کا تعلق اس گائوں سے ہے‘‘۔
’’ہاں…! اور پتر، میں جو کچھ تجھ بتانے جارہی ہوں، وہ بالکل سچ ہے، اور سچ بڑا کڑوا ہوتا ہے۔ اپنے دل کو بڑا مضبوط کر کے ساری باتیں سننا، رب کی جو مرضی تھی، وہ ہوتی ہے، کوئی بندہ اس میں کچھ نہیں کر سکتا تھا‘‘۔
’’دادی آپ بتائو میں سننے کے لیے تیار ہوں‘‘۔ میں اس وقت ایسی حالت میں تھا کہ میرا پورا بدن سن ہو چکا تھا میرا دورانِ خون میری کنپٹیوں میں ٹھوکریں مار رہا تھا۔ میں یہ سوچ کر ہی حیرت زدہ تھا کہ میرے آباء کا تعلق اس گائوں میں ہے جہاں میں اب اتفاق سے موجود ہوں۔ انتہائی تجسس سے میرا دماغ سلگ رہا تھا۔ اس سے پہلے وہ کچھ کہیں، بھان سنگھ لیپ ٹاپ لیے آگیا۔ مجھے اس وقت اس کی آمد بہت بری لگی تھی۔
’’یہ لے … نیٹ چل رہا ہے‘‘۔ اس نے یہ کہتے ہوئے لیپ ٹاپ مجھے ہاتھ میں تھما دیا۔ میں نے وہ لیا اور بیڈ پر رکھ دیا۔ وہ باہر چلا گیا۔ اسکرین روشن تھی۔ دادی خاموش ہو گئی تھی۔ اس لیے میں لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ ہو گیا۔ میں دل ہی دل میں دعا کرنے لگا کہ فرحانہ آن لائن ہو۔ وہ آن لائن ہی تھی۔ وہ معمول کے مطابق میری خیر خیریت دریافت کرنے لگی، میں نے سب کا پوچھا۔ اس نے سب کی خیریت بتائی، میں نے دادا جی کا پوچھا، تو اس نے بتایا کہ وہ اپنے کمرے میں ہیں۔ میں نے ان سے گپ شپ لگانے کے لیے کہا۔کچھ دیر بعد وہ کیمرے کے سامنے تھے۔ میں نے ان کا حال احوال پوچھا اور پھر ان کی تصویریں محفوظ کرلیں۔ حال احوال پوچھنے کے بعد میں نے رابطہ منقع کر دیا۔
’’دادی یہ ہے میرے دادا جی‘‘۔
میں نے ان کی تصویریں دادی کو دکھائیں وہ نہایت تجسس اور حیرت سے دیکھتی رہی، پھر سراسرتے ہوئے لہجے میں بولیں۔ مجھے لگا جسے وہ خود کلامی کررہی ہیں۔
’’بالکل وہی… بوڑھاہو گیا ہے… وہ دیکھو تل… اب تو داڑھی بھی رکھ لی ہے‘‘۔ پھر وہ سر اٹھا کر بولیں۔ ’’تجھے کبھی احساس نہیں ہوا کہ تُو بہو ہو اپنے دادا کی تصویر ہے۔ تیرا دادا جب تیری عمر میں تھا تو بالکل تم جیسا تھا‘‘۔
’’ہاں یہ تو ہے، میری شبیہ، میرے باپ سے زیادہ میرے دادا جی پر ہے‘‘۔
’’بس یہی دیکھ کر امرت کور کی خاموشی ٹوٹی ہے پتر…! وہ جب اس سے بچھڑا تھا، تب وہ تیری عمر ہی کا تھا، اسے یہی لگا ہے کہ نور محمد واپس آگیا ہے‘‘۔
’’دادی یہ کیا گورکھ دھندا ہے۔ مجھے بتائونا‘‘۔ میں نے انتہائی تجسس سے کہا تو وہ کچھ دیر میری طرف دیکھتی رہی۔ پھر بڑے جذب سے کہتی چلی گئی۔
’’میں اور امرت کور دونوں گہری سہیلیاں تھیں۔ سارے راز نیاز ایک دوسرے سے کرلیتی تھیں۔ ان دنوں ملک تقسیم ہونے کی باتیں چل رہی تھیں۔ جب میری اور امرت کور کی عمریں سولہ سترہ سال کے قریب ہوں گی‘‘۔یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئی۔ پھر چند لمحے ٹھہرکر کہتی چلی گئی۔
٭٭٭٭
’’نی پرونتے…! وہ دیکھ نور محمد آرہا ہے۔ آج اس سے بات کر کے ہی چھوڑنی ہے۔ بڑی اکڑہے اس میں میری بات ہی نہیں سنتا‘‘۔ امرت کور نے گلے میں پڑا ہوا دوپٹہ درست کرتے ہوئے کہا۔ تب پرونت نے اس طرف دیکھا، جدھر سے نورمحمد بیل گاڑی پر بیٹھا آرہا تھا۔ شام ہونے کو تھی۔ مغربی افق رنگین ہو گیا ہوا تھا۔ یوں جیسے بسنتی چادر اوڑھ کر اندھیرے میں سورج گم ہو جانا چاہتا ہو۔ نور محمد بیل گاڑی پر سوار تھا اور جو آہستہ آہستہ چلتی چلی آرہی تھی۔ کچے راستے پر وہ دونوں درخت کے پاس کھڑی تھیں۔ کچے راستے کے دونوں اطراف ایسے بے شمار درخت تھے جو دور تک چلے گئے ہوئے تھے۔ کھیتوں سے گائوں کی طرف آنے والا وہ واحد راستہ تھا۔ دوسرا راستہ گائوں کی پرلی طرف تھا جو شہر کی جانب جاتا تھا۔ پرونت کورکو نہیں معلوم تھا کہ آج امرت کور کے دل میں کیا ہے، مگر اسے اتنا معلوم تھا کہ وہ اسے چاہتی بہت ہے۔ نہ جانے کب سے نورمحمد کی چاہت اس کے من میں آبسی تھی۔ نور محمد تھا بھی بڑا گھبروجوان، گورا چٹا، تیکھے نین نقش والا، لمبے قد کا ۔ وہ تھا بڑا معصوم، بس اسے اپنے کام سے غرض ہوتی تھی۔ صبح وہ کھیتوں کی طرف جا نکلتا اور شام ڈھلے لوٹتا۔ ایسے ہی کسی وقت نور محمد کو ایک نگاہ دیکھنے کے لیے امرت کو ر گھر سے نکل آئی تھی۔ اس دن امرت کور کے لہجے میں کچھ ایسا تھا کہ پرونت کور گھبرا گئی۔ اس نے جلدی سے کہا۔
’’کیا بات کرنی ہے تُو نے اس سے، ایویں کوئی غلط بات نہ کہہ دینا‘‘۔
’’غلط بات کیسی، میں نے تو آج اسے اپنے دل کا حال کہہ دینا ہے، پھر آگے رب جانے کیا ہوتا ہے‘‘۔ اس نے پاگلوں کی طرح نور محمد کو آتے دیکھ کر کہا۔
’’میں نے تمہیں کتنی بارسمجھایا کہ تو جو اس سے پاگلوں کی طرح محبت کر رہی ہے نا اس کا انجام بہت بھیانک ہونے والا ہے، تیرے باپو بلوندر سنگھ کو اگر بھنک بھی پڑ گئی نا، تو پھر تم دونوں میں سے کوئی ایک نہیں ہے۔ تجھے پتہ ہے وہ کتنا ظالم ہے‘‘۔ پرونت کور نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’جو تو کہہ رہی ہے، میں جانتی ہوں پرونت…! پر میں اس دل کا کیا کروں جو کسی کی مانتا ہی نہیں، ہر وقت اس نور محمد کا خیال رہتا ہے، سا را دن اور ساری رات… مجھے بھی کوئی علاج بتانا…‘‘امرت کور الجھے ہوئے انداز میں بولی۔
’’تیرا علاج بھی تلاش کر لیتے ہیں۔ پر تُو نے نور محمد سے کچھ نہیں کہنا، ایویں کیوں اس کی جان کی دشمن بن رہی ہے‘‘۔ اس نے سمجھایا۔
’’پر میں کیا کروں۔ وہ تو میری طرف دیکھتا بھی نہیں ہے‘‘۔ وہ بیل گاڑی کو قریب آتے ہوئے دیکھ کر تیزی سے بولی۔
’’میں مانتی ہوں کہ محبت میں انسان اپنے آپ سے بے بس ہو جاتا ہے لیکن اتنا بھی نہیں موت کے منہ میں جا پڑے‘‘۔ اس نے سمجھایا۔
’’اسے پتہ تو ہو کہ میں اس کے لیے کتنا تڑپتی ہوں۔ راتیں آنکھوں میں کاٹتی ہوں…‘‘ امرت کور نے نور محمد کی طرف دیکھ کر کہا جو بالکل اس کے قریب آچکا تھا۔ پھر ہاتھ کے اشارے سے اسے بیل گاڑی روکنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولی۔ ’’روک… روک… ہمیں بھی گائوں تک لے چل‘‘۔
نور محمد نے بیل گاڑی روک دی۔ وہ دونوں اچھل کر بیل گاڑی میں لدے ہوئے چارے پر بیٹھ گئیں تو اس نے بیلوں کو ہانک دیا۔ پھر ان دونوں سے مخاطب ہو کر بولا۔
’’یہ تم دونوں ایسے کیوں پھرتی رہتی ہو۔ شام ہونے سے پہلے گھر چلے جاتے ہیں۔ دیکھتی نہیں ہو دن ڈوب چلا ہے‘‘۔
’’کیا کریں گھر میں بیٹھ کر، جب دل میں کسی کے لیے آگ لگی ہو‘‘۔ امرت کور نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے ہذیانی انداز میں کہا ۔ تو وہ چونک گیا۔ پھر بولا۔
’’امرت کورے…! اب تُو بچی نہیں رہی بڑی ہو گئی ہے۔ گھر میں رہا کر اور ایسی فضول باتیں نہ کیا کر۔ گھر کے سو کام ہوتے ہیں۔ وہ کیا کر‘‘۔
’’نوکر چاکر تھوڑے ہیں گھر کے کام کرنے کے لیے۔ میں کیوں کروں‘‘۔ وہ تنک کربولی۔
’’تو پھر گھر میں بیٹھ کر رب رب کیا کر۔ سکول میں جو تُو نے چار جماعتیں پڑھی ہیں، وہ بھی ضائع کر رہی ہے‘‘۔ نور محمد نے دھیرے سے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’نور محمد…! مجھے یہ تو بتا، جب کوئی کسی کو پیارا لگنے لگے تو بندے کو کیا کرنا چاہئے؟‘‘ امرت کور نے یوں کہا جیسے وہ دور کہیں سے بات کر رہی ہو۔
’’اسے اپنے دماغ کا علاج کرانا چاہئے کسی وید یا حکیم سے۔ یہ جوانی ہر کسی پر آتی ہے، پر اسے سنبھالتا کوئی کوئی ہے۔ سچا صرف رب کا نام ہے‘‘۔ وہ جذب سے کہتے ہوئے خاموش ہو گیا۔ پھر بولا۔ ’’امرت کورے، اپنی عزت اور اپنے ماں باپ کی عزت سے بڑھ کر کوئی شے نہیں ہے۔ ہوش کی دوا کر‘‘۔
’’جب من ہی قابو میں نہ رہے تو پھر بھلا بندہ کیا کرے‘‘۔ امرت کور نے اس کی بات سنی اَن سنی کرتے ہوئے کہا۔
’’کہانا رب رب کرے… اسی سے اپنی لَو لگائے‘‘۔ اس نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔
’’نور محمد…! تُومجھے بڑا اچھا لگتا ہے۔ ہر وقت تُو ہی میری نگاہوں کے سامنے رہتا ہے، میں کیا کروں‘‘۔ امرت کورنے اتنی بڑی بات یوں کہہ دی جیسے اسے ہوش ہی نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہی ہے۔ نور محمد ہکا بکا رہ گیا۔ اس کی آنکھوں میں حیرت پھیل کر جم گئی۔ کتنی دیر تک وہ کچھ بول ہی نہیں پایا۔ جب اس کے حواس قابو میں آئے تو وہ دھیرے سے بولا۔
’’امرت کورے…! آج تُو نے یہ بات اپنے منہ سے نکال دی، پھر کبھی ایسی بات سوچنا بھی مت، تجھے معلوم ہے کہ تیری اس بات سے کتنا خون بہہ سکتا ہے۔ کتنے گھر اجڑ سکتے ہیں۔ تجھے ذرا خوف نہیں آیا، اتنی بڑی بات کہتے ہوئے‘‘۔
’’جو سچ ہے وہ میں نے تم سے کہہ دیا، میرے دل میں جو محبت ہے وہ کوئی دوسرا نہیں نکال سکتا‘‘۔ امرت کور پھر سے ہذیانی انداز میں بولی۔
’’تُو پاگل ہے۔ تجھے پتہ ہی نہیں تُو کیا کہہ رہی ہے‘‘۔ یہ کہہ کر وہ چند لمحوں کے لیے خاموش ہو گیا۔ پھر بولا۔ ’’چل میں یہ مان لیتا ہوں کہ تجھے مجھ سے بڑی محبت ہے، تو پھر کیا ہو گا؟‘‘
’’میں نہیں جانتی کہ کیا ہو گا یا کیا ہونا چاہئے۔ بس دل یہ کرتا ہے کہ تجھے خود میں سمالوں یا میں تم میں سمٹ جائوں۔ کوئی تو راہ ہو گی ایسی…‘‘ وہ پاگلوں کی مانند بولی۔
’’امرت کورے…! تُو جس راہ پر چل پڑی ہے، اس میں تُو خود بھی مرے گی اور دوسروں کو بھی مروائے گی۔ یہ تیری کیسی محبت ہے جو ہنستے بستے گھروں کو اجاڑ کر رکھ دے گی، تُو پاگل نہ بن، ہوش کر ہوش ، میری مان، تو گھر میں رہا کر اور گرنتھ صاحب کا پاٹھ کر کے، اپنی آتما کو شانتی دے۔ ایویں نہ خود لوگوں کی نگاہ میں آ اور نہ مجھے بدنام کر… سمجھا اسے پرونت کور… سمجھا اسے‘‘۔
’’اس کی تو مت ہی ماری گئی ہے۔ تیرے آنے سے پہلے بھی میں اسے یہی سمجھا رہی تھی‘‘۔ پرونت کور نے اکتائے ہوئے انداز میں کہا۔
’’تو اسے بٹھا کر سمجھا کہ جس راہ کی کوئی منزل ہی نہیں ہوتی، اس راہ پر چلنا انتہائی فضول ہوتا ہے۔ اپنے آپ کو تباہ کر لینا اور دوسروں کو اجاڑ لینا محبت نہیں، نری دیوانگی ہے، محبت تو نام ہے دوسروں کو احترام دینے کا، محبت تو زندگی دیتی ہے، موت کو گلے نہیں لگاتی‘‘۔ نور محمد نے بڑے پُرسکون انداز میں سمجھایا۔اس دوران امرت کور اس کے چہرے کی طرف دیکھتی رہی۔ پھر ان دونوں کے درمیان یوں خاموشی چھا گئی جیسے کہ ان میں کوئی بات ہی نہ ہوئی ہو۔ بیل گاڑی دھیرے دھیرے چلتی رہی اور وہ تینوں اپنے اپنے خیالوں میں کھوئے ہوئے خاموش تھے۔بیلوں کے گلے میں بجتی ہوئی گھنٹیاں یہی احساس دلارہی تھیں کہ ان کے اردگرد زندگی ہے۔ پھر جیسے ہی گائوں آیا وہ دونوں اتر گئیں اور نور محمد اپنے گھر کی طرف بڑھ گیا۔
امرت کور دو دن تک گھر سے ہی نہ نکلی۔ تیسرے دن کی صبح تھی جب وہ پرونت کور کے پاس خودہی آگئی۔ وہ بڑی خاموش تھی۔ اس کی آنکھیں ہی ویران نہیں تھیں بلکہ اس کے چہرے پر زردی پھیلی ہوئی تھی۔ یوں جیسے اس نے موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہو۔ وہ چپ چاپ اس کے پاس آ کر بیٹھ گئی تھی۔ پرونت کور نے جو تھوڑا بہت گھر کا کام کرنا تھا وہ کر لیا ہوا تھا۔ پھر اپنے گھر کے صحن میں لگے درخت کے نیچے آ کر بیٹھ گئی تھی۔ اس کا باپو کھیتوں پر صبح ہی صبح چلا گیا تھا اور ماں اس کا کھانا لے کر چلی گئی تھی۔ وہ گھر میں اکیلی ہی تھی۔ پرونت کور نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے کروشیے اور دھاگے کو ایک طرف رکھا اور امرت کور سے بولی۔
’’دو دن کہاں رہی تُو؟‘‘
’’میں سوچتی رہی ہوں…! نور محمد کو میری محبت سے زیادہ اپنی موت کا فکر ہے۔ وہ کیوں نہیں سمجھتا کہ میری محبت میرے بس میں نہیں‘‘۔ وہ یوں بولی جیسے اس کی آواز کنویں میں سے آرہی ہو۔
’’امرت …! میری بہن، وہ جو کہتا ہے وہ ٹھیک کہتا ہے، تجھے سمجھ کیوں نہیں آرہی ہے، چل مجھے یہ بتا، وہ بھی تجھ سے یہ کہہ دے کہ مجھے تم سے محبت ہے تو پھر کیا ہو جائے گا‘‘۔
’’میں اسے پانے کا ہر جتن کرلوں گی‘‘۔ امرت نے مضبوط لہجے میں کہا۔
’’کیا کرے گی تُو…؟‘‘ وہ حیرت سے بولی۔
’’میں اسے لے کر یہاں سے کہیں دور چلی جائوں گی، اتنی دور کہ ہم تک کوئی پہنچ ہی نہ سکے‘‘۔ وہ اعتماد سے بولی تو پرونت کور کانپ کر رہ گئی۔ وہ لرزتے ہوئے لہجے میں بولی۔
’’یہ تُو بڑا ظلم کرے گی امرت…! تیرا اور اس کا پریوار، کیا وہ خون میں نہیں نہا جائیں گے‘‘۔
’’دیکھ…! اگر کچھ کرنا ہو نا تو وہ کچھ ہو جاتا ہے جو کبھی سوچا بھی نہ ہو، وہ میری محبت قبول تو کرے، پھر دیکھ میں اسے کہاں سے کہاں تک پہنچا دیتی ہوں‘‘۔
’’تُو کچھ نہیں کر سکتی۔ اس نے اگر تیری بات نہیں مانی تو ٹھیک کیا ہے اس نے؟ اپنے ماں باپ اور بہن کو بچا رہا ہے، تیرا باپ تو ایک دن میں انہیں مار دے گا‘‘۔
’’تُویہ مرنے مارنے ہی کی باتیں کیوں کر رہی ہے، ذرا سوچ، اس کی یہاں کتنی زمین ہے، تھوڑی سی تو ہے، وہ اپنے پریوارکو لے کر یہاں سے کسی ایسی جگہ چلا جائے، جہاں میرے پریوار کو پتہ ہی نہ چلے۔ میرے پاس اتنی دولت ہے کہ میں اسے اس سے بھی دوگنی زمین خرید دوں گی۔ اس کا ذرا سا بھی نقصان نہیں ہونے دوں گی۔ بس وہ ایک بار میری بات مان لے؟‘‘
’’ کہاں جائے گا وہ… کہاں لے جائے گی تُو اسے…‘‘ وہ بولی۔
’’کہیں بھی، جہاں ہم سکون سے اپنی زندگی گزاریں‘‘۔ امرت کور خوابوں میں ڈوبتی ہوئی بولی۔
’’تُو بس خواب ہی دیکھ، اس سے زیادہ کچھ مت سوچ ، نہ کر اپنی زندگی اجیرن اور اسے بھی دکھوں میں مت ڈال، تیرے باپو جی کی گائوں میں کتنی عزت ہے، ا س کا خیال کر… اور پھر وہ تیری محبت کا جواب محبت ہی سے کیوں دے، یہ تو من چاہا سودا ہوتا ہے۔ تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دے اور اپنے آپ کو سنبھال‘‘۔
’’چل میں اپنے آپ کو سنبھال لوں گی، مان لیتی ہوں بات تیری، لیکن یہ بتا میں اس قابل بھی نہیں ہوں کہ وہ مجھ سے محبت کر سکے‘‘۔ اس نے حسرت سے کہا۔
’’دیکھ امرت…! یہ دلوں کے معاملے ہیں، اس کی شادی، اس کی پھوپی کے گھر ہو جانی ہے، اسے چاہتا ہو گا، نہ بھی چاہے تو وہ اس کی منگیتر ہے۔ پھر سب سے بڑی بات اس کا دھرم کچھ اور ہے، ہمارا دھرم اور…‘‘
’’میری محبت اس دھرم کے جھنجھٹ کو نہیں مانتی، میں بس اپنے دل کی بات مانتی ہوں۔ اگر وہ میرا نہ ہو سکا نا تو میں اسے کسی دوسرے کا بھی نہیں ہونے دوں گی‘‘۔ امرت نے اس لہجے میں کہا کہ پرونت کور خود ڈر گئی۔ اس لیے خوف زدہ لہجے میں بولی۔
’’کیا کرے گی تو… اسے بدنام کرے گی، اس پر الزام لگائے گی، کیا یہی تیری محبت ہے؟‘‘
’’اونہیں…! میں کیوں اسے بدنام کروں گی یا اس پر الزام لگائوں گی۔ میں سیدھے سیدھے اسے مار دوں گی، وہ کس کا دولہا بنے میں کیا برداشت کروں گی، اسے یہاں سے جانا ہو گا، اکیلے ہی مجھے اپنے ساتھ لے کر۔ میں اسے مجبور کردوں گی‘‘۔ امرت کور نے دبے دبے غصے میں کہا تو پرونت کور خاموش ہو گئی۔اسے امرت کور کے پاگل پن سے خوف آنے لگا تھا۔ وہ کافی دیر تک یہی سوچتی ہوئی خاموش رہی، پھر بولی۔
’’امرت…! تیرا یہ پاگل پن تجھے نہ صرف بدنام کر دے گا، بلکہ بہت سارے دوسروں کو بھی اپنے ساتھ لے ڈوبے گا۔ میں تیری سہیلی ہوں لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ تُو مجھے بھی اپنے ساتھ ڈبودے، تُو مہربانی کر، یہ اپنی محبت تُو اپنے پاس ہی رکھ۔ اب مجھ سے ملنے کی کبھی کوشش نہ کرنا، مجھے اپنے ماں باپ اور اپنی عزت زیادہ پیاری ہے۔ تجھے نہ سہی‘‘۔
’’میں جانتی تھی کہ بجائے میرا ساتھ دینے کے تُو یہی کہے گی، جب عشق ہوتا ہے نا تو رب بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے، تم تو صرف میری سہیلی ہو‘‘۔ یہ کہہ کر وہ اٹھی اور باہر نکلتی چلی گئی۔ پرونت کور کے دل میں اس کے لیے دکھ کے ساتھ ساتھ نفرت بھی اسی طرح موجود تھی۔