اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

864,557FansLike
9,991FollowersFollow
565,200FollowersFollow
188,369SubscribersSubscribe

امرت کور……قسط نمبر7……(امجد جاوید)

اگلی صبح جب میں فریش ہوا تو دن خاصا چڑھ گیا تھا۔ بھان سنگھ کمرے میں نہیں تھا، ممکن ہے میں رات بہت دیر سے سویا تھا، اس لیے آنکھ دیر سے کھلی تھی۔ اس وقت بھی آئینے کے سامنے اپنے بال سنوار رہا تھا جب پریت کور کمرے میں آگئی۔ میرے طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولی۔
’’بلال تمہاری کنگھی پٹی ختم نہیں ہوئی ابھی تک‘‘۔
’’ہو گئی بابا، بولو تمہارا نزدل کیسے ہوا اس کمرے میں اور بھان سنگھ کہاں ہے؟‘‘ میں نے ہنستے ہوئے پوچھا۔
’’تمہیں بلانے آئی ہوں۔ سب تمہارانیچے انتظار کررہے ہیں‘‘۔ اس نے کہا اور فوراً ہی پلٹ گئی۔ میں بھی اس کے پیچھے چل دیا۔
میں نے سیڑھیوں ہی میں دیکھ لیا کہ سبھی دالان میں بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے درمیان سریندر پال سنگھ بھی موجود تھا۔ وہ سب ہنستے مسکراتے ہوئے باتیں کر رہے تھے۔ میں نے قریب جاکر دادی پرونت کور کی طرف دیکھا جو بڑی محبت اور یاسیت کی ملی جلی کیفیت میں مجھے دیکھ رہی تھی۔ تبھی امریک سنگھ نے کہا۔
’’اوئے آبھئی آ بلال…! دیکھ سریندر جی آئے ہیں تجھے اپنا مہمان بنانے کے لیے …‘‘
’’جی مہربانی ہے ان کی ‘‘۔ میں نے کہا اور ایک خالی کرسی دیکھ کر اس پر بیٹھنے لگا تو سریندر سنگھ اٹھتے ہوئے بولا۔
’’او نہ بھئی نہ … بیٹھنا نہیں، بس چلیں، پہلے ہی بہت دیر ہو گئی ہے‘‘۔
یہ سنتے ہی میں جہاں تھا وہیں رک گیا، بھان سنگھ اٹھا توپریت کور بھی اٹھ گئی۔ میں نے دادی پرونت کور کی طرف دیکھ تو انہوں نے اشارے سے جانے کی اجازت دے دی۔ پھر جب ہم حویلی سے نکلے تو سریندر سنگھ ہمارے آگے آگے تھا اور ہم اس کے پیچھے پیدل ہی چلتے چلے گئے تھے۔
ان کی حویلی بھی خاصی پرانی، پڑی اور شاندار تھی۔ گرو دوارے کی مانند اس پر بھی پیلی مٹی کی سفیدی تھی۔ بڑے سے لکڑی کے پھاٹک پر محراب بنی ہوئی تھی۔ جیسے ہی ہم پھاٹک پا ر کر کے اندر آئے تو درمیان میں بڑا سارا صحن تھا اور اس کے آگے دالان پھر آگے کمرے بنے ہوئے تھے۔ اس دالان میں، امرت کور، ست نام کور گنت کور تینوں بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان کے ساتھ کچھ دو چار دوسری خواتین بھی تھیں، جنہیں میں نہیں جانتا تھا۔ ہمیں دیکھتے ہی وہ سب اٹھ گئیں۔ امرت کور پر نگاہ پڑتے ہی میرے اندر متضاد طرح کے جذبات ابھرنے لگے۔ دادی پرونت کور کی سنائی ہوی کہانی اور پھر میری اپنی سوچیں یوں گڈمدہوئیں کہ اچانک ہی میرا دل ڈوب گیا۔ مجھے وہاں کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ دل چاہ رہا تھا کہ میں وہاں سے واپس پلٹ جائوں۔ امرت کو اپنی گہری نیلی آنکھیوں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے ساری دنیا کی نگاہوں کا مرکز میں ہی ہوں۔ اس کا سفید سیندور ملا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ اگرچہ میرے جذبات اس وقت کچھ اور تھے لیکن اس وقت وہ ہلکے کاسنی رنگ کے شلور قمیص میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ اسے دیکھ کر کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ اتنی عمر کی ہے۔ جیسے ہی ہم دالان تک پہنچے وہ آگے بڑھ چکی تھیں۔ سبھی کے ہاتھ میں برتن تھے، جن میں مختلف چیزیں تھیں۔ ست نام کورنے ہمارے دائیں بائیں ستونوں کی جڑ میں تیل گرایا، گنت کور نے ہمارے اوپر پھول کی پتیاں، چاول اور پھر پتہ نہیں اور کیا تھا، وہ وارے، امرت کور ان سے ایک قدم پیچھے تھی، سب نے میرے سر پر ہاتھ پھر کر پیاردیا ، لیکن امرت کورنے مجھے اپنی بانہوں میں بھر کے میرا ماتھا چوم لیا۔ اس کی گرم جوشی، شدت اور اندازِ محبت میں کچھ ایسا تھا کہ میرے دل میں اس کے بارے میں نفرت کے جذبات یوں بیٹھ گئے جیسے آگ پر پانی ڈال دیاگیا ہو۔ میں خود اپنے اندر پر حیران تھا جو پل پل بدل رہا تھا۔ ایک لمحے کو تو مجھے خیال آیا کہ کہیں میں دنیا کی ذلیل ترین محلوق تو نہیں ہوں، جنہیں منافق کہا جاتا ہے۔ میں اپنے آپ ہی میں کھویا ہوا تھا کہ ست نام کور نے کہا۔
’’تم لوگوں نے بڑی دیر کر دی ہے ؟ چلو سیدھے کھانے کی میز پر چلو، ناشتہ کر کے ہی باتیں کریں گے‘‘۔
ہم سب اُدھر چل دیئے۔ ہمارے بیٹھتے ہی تازہ پراٹھے آنا شروع ہو گئے۔ گوشت کے علاوہ میز پر ہر شے موجود تھی۔ ناشتے کے دوران باتیں چلتی رہیں۔ پورا پریوار خوش تھا۔ اس دوران امرت کور بڑے سکون سے بیٹھی رہی، اس نے ایک لفظ تک نہیں کہا۔ بس مختلف چیزیں اٹھا اٹھا کر میرے سامنے رکھتی رہی اور میں چکھتارہا۔ ناشتے کے بعد ایک سجے ہوئے ڈرائنگ روم میں آبیٹھے جہاں ایک دیوار گیر تصویر امرتسر گرودوارے کی لگی ہوئی تھی۔ وہاں بیٹھتے ہی مختلف باتیں چھڑ گئیں۔ میرے اور میرے خاندان کے بارے سوال ہوتے رہے، مستقبل کی باتیں، برطانیہ کی باتیں، پھر موجود عالمی سیاست کی باتیں، تھوڑا بہت بھارت اور پاکستان کی معاشی حالت کا تجزیہ، اس دوران بھی امرت کور بالکل خاموش رہی۔ اس نے ایک سوال بھی نہیں کیا۔ بس وہ میرے چہرے ہی کی طرف دیکھتی رہی۔ یوں کافی وقت گزر گیا۔ تبھی بھان سنگھ نے مجھے ہلکے سے ٹہو کا دیا۔ میں سمجھ گیا کہ اب وہ بور ہو رہا ہے۔ میرے ذہن میں بھی کافی کچھ تھا، اس لیے میں نے اجازت طلب انداز میں سریندر پال سنگھ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’سردار جی…! اجازت، ہم چلتے ہیں‘‘۔
’’ہائیں…! یہ کیا بات ہوئی بھئی…؟ ابھی تو دوپہر کا کھانا کھائیں گے، پھر رات کو، تب کہیں تمہیں اجازت ملے گی‘‘۔
انہوں نے حیرت سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا تو بھان سنگھ جلدی سے بولا۔
’’اصل میں ہم تینوں کا پروگرام تھا کہ امرتسر جا کر تھوڑی شاپنگ کر آئیں‘‘۔
’’تووہ کل ہو جائے گی، کون سا دکانیں بند ہو جانی ہیں‘‘۔ وہ خوشگوار حیرت سے بولا تو پریت کور بولی۔
’’بلال نے کل چلے جانا ہے نا۔ اس لیے‘‘۔
’’اوہ…! اتنی جلدی پتر، ابھی کچھ دن رہو ہمارے ساتھ، ابھی تو ہمارا چائو ہی پورا نہیں ہوا تھا‘‘۔ ست نام کور بولی۔
’’بھان…! میں نے تمہیں کہا نہیں تھا کہ جب تک میں نہ کہوں، تم اسے یہاں سے جانے نہیں دو گے‘‘۔ اچانک امرت کور نے کہا تو مجھے اس کا لہجہ عجیب پُراسرار لگا۔ جیسے اگر اس کا حکم نہ مانا گیا تو اس کی ناراضی سے کچھ بھی غضب ہو سکتا ہے۔ میرے دل میں خوف کی ایک لہر درآئی تھی کہ نہ جانے اس کے دل و دماغ میں کیا ہے، اگر میں نے دادی پرونت کور سے باتیں نہ سنی ہوتیں تو شاید میں اسے دیوانے کی بڑہی قرار دیتا اور اسے اہمیت نہ دیتا، لیکن اس کہانی کے تناظر میںاس کا یہ لہجہ اور انداز بتا رہا تھا کہ نفرت کہیں اب بھی موجود ہے۔ وہ نور محمد سے اگر رگھبیر سنگھ کا انتقام نہیں لے سکی ہے تو اب میں ہی اس کا نشانہ ہوں گا۔ اچانک ہی مجھے اپنے اردگردخطرہ منڈلاتا ہوا محسوس ہوا۔ میں بے چین ہو گیا۔ مجھے اپنے آپ پر غصہ آنے لگا کہ میں نے زویا کو حاصل کرنے کے چکر میں اپنے آپ کو کس مصیبت میں پھنسا لیا ہے۔ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ بھان نے دبے ہوئے انداز میں کہا۔
’’میرا دل بھی چاہتا ہے کہ یہ یہاں بہت دن رہے، کیونکہ پھر قسمت ہی سے ملاقات کا امکان ہے، مجبوری یہ ہے کہ اس کا ویزہ نہیں ہے اتنے دن کا… اسے آج کل ہی میں جانا ہے‘‘۔
’’اچھا… !تو یہ بات ہے‘‘۔ امرت کور نے یوں کہا جیسے وہ اس کی بات سمجھ گئی ہو۔ پھر اچانک بولی۔ ’’امرتسر آج جانا ہے؟‘‘
’’جی، ابھی گھر جاتے ہی…‘‘ بھان نے جواب دیا۔
’’اور پھر اس نے کل چلے جانا ہے؟‘‘ اس نے یوں کھوئے ہوئے انداز میں کہا جیسے اس کا دھیان کہیں اور ہو۔
’’جی…‘‘ بھان نے تیزی سے کہا۔
’’تو چلو… میں بھی تمہارے ساتھ چلتی ہوں‘‘۔ یہ کہتے ہوئے وہ اچانک اٹھ گئی۔
’’آپ…؟‘‘ پریت کور کے منہ سے ہذیانی انداز میں نکلا تو وہ گھور کر بولی۔
’’کیوں میں نہیں جا سکتی تم لوگوں کے ساتھ؟‘‘
’’کیوں نہیں… کیوں نہیں‘‘۔ بھان سنگھ نے تیزی سے کہا اور اٹھ گیا۔ تبھی سریندر پال سنگھ نے کہا۔
’’آپ لوگ گاڑی لے آئیں۔ پھر جاتے ہوئے امرت کور کو لے جائیں۔ آئو میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں‘‘۔
ہم وہاں سے اٹھ کر دالان میں آگئے اور پھر وہاں سے چلتے ہوئے حویلی میں آگے۔ ہم سب تیار ہی تھے۔ بھان سنگھ فوروہیل جیپ لے آیا۔ اس وقت تک سریندر سنگھ تذبذب کا شکار تھا کہ امرت کور کو ساتھ جانے دے یا نہ جانے دے۔
’’اگر اس نے جانے کی خواہش کی ہے تو جانے دیں‘‘۔ چا چی جسمیت کور نے عام سے لہجے میں کہا۔
’’مجھے نہیں لگتا کہ وہ ابھی تک پوری طرح ٹھیک ہوئی ہے۔ انہوں نے تو شاپنگ کرنی ہے، وہ وہاں کیا کرے گی۔ ان کے لیے کوئی مسئلہ ہی نہ بن جائے‘‘۔ وہ اسی تذبذب بھرے لہجے میں بولا۔
’’اگر ایسی بات ہے تو پھر رہنے دیں۔یہ چپ چاپ یہاں سے چلے جاتے ہیں‘‘۔ امنیت کور نے پریشانی میں کہا۔
’’ہاں، ایسا ہی ٹھیک ہے‘‘۔ سریندر سنگھ نے کہا تو بھان سنگھ ڈرائیونگ سیٹ پر جا بیٹھا اور سریندر سنگھ کو اشارہ کیا ۔
’’اوہ نہیں پتر…! میں چلا جائوں گا، تم لوگ جائو‘‘۔
پریت کور پچھلی نشست پر بیٹھی گئی تو میں پسنجر سیٹ پر آگیا اور پھر جیسے ہی گاڑی بڑھانے کے لیے بھان سنگھ نے گیئر لگایا۔ حویلی کے صدر دروازے پر امرت کور آتی ہوئی دکھائی دی۔ اس نے یکدم بریک لگا دیئے۔ میں نے سب کی طرف دیکھا۔ ہر ایک چہرے پر تشویش تھی۔ وہ قدم بہ قدم بڑھتی چلی آرہی تھی اور پھر آ کر جیپ کے پاس رک گئی، اس نے کسی کی طرف بھی نہیں دیکھا، ایسے میں پریت کور نے جلدی سے دروازہ کھول دیا۔ وہ چپ چاپ اس میں آن بیٹھی۔ بھان نے جیپ بڑھا دی۔ اب جو قسمت میں تھا، وہ ہو جاتا۔
سرسبز و شاداب کھیتوں میں سے ہلکی تارکول کی سڑک پر ہم آگئے۔ گائوں پیچھے رہ گیا تھا۔ سبز رنگ کے مختلف شیڈز کی فصلیں اور سرمئی بادلوں سے ڈھکا ہوا آسمان، چھپے ہوئے سورج کے باعث روشنی تیز نہیں تھی۔ جیپ کے اندر سناٹا تھا۔ اس سناٹے کو امرت کو کی آواز نے توڑ دیا۔
’’پریت کورے…! یہ لے پکڑ روپے، جو جو شے میں تمہیں بتائوں، وہ خرید لینا، پیسے کی پروانہ کرنا، شے اچھی ہونی چاہئے‘‘۔
’’جی، بے جی‘‘۔ اس نے روپے پکڑتے ہوئے سہمے ہوئے لہجے میں کہا۔ اس کے بعد پھر خاموشی چھا گئی۔ امرتسر شہر پہنچنے تک گاہے گاہے امرت کور بولتی اور کوئی شے پریت کور کو بتا دیتی۔ ہمارے کئی پروگرام تھے۔ شاپنگ کے بعد ہوٹلنگ کرنا تھی۔ پھر میرا خیال تھا کہ میں ایک نگاہ جلیانوالہ باغ پر بھی ڈال لیتا، لیکن شاید اب ایسا ممکن نہیں تھا، امرت کور کے باعث صرف شاپنگ کر کے واپس آجانا تھا۔ جیسے ہی ہم شہر پہنچے، امرت کور نے کہا۔
’’بھانے…! مجھے اور بلال کوہرمندر صاحب لے چل، پھر تُو اور پریت جب تک چاہو، شاپنگ کرتے رہنا، واپس جاتے ہوئے ہمیں لے لینا‘‘۔
’’ہرمندر…! وہاں کیوں؟‘‘ بھان سنگھ نے دبے دبے غصے اور اکتاہٹ سے کہا۔
’’وہاں جانا ضروری ہے‘‘۔ امرت کور نے کہا اور پھر خاموش ہو گئی۔ میں بے چین ہو گیا کہ آخر وہ کرنا کیا چاہتی ہے۔ اس کے ساتھ ایک خوف بھی بندھا ہوا تھا۔ نہ جانے یہ میرے ساتھ کیا کرے۔ پریت کور تو بولی ہی نہیں، بھان سنگھ نے تھوڑی بہت مزاحمت کرنے کی کوشش کی تھی مگر امرت کور کی خاموشی نے اس کی مزاحمت کو بے کار کر دیا۔ ہم مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے ہرمندر صاحب کے سامنے آپہنچے۔ وہ کافی وسیع و عریض عمارت تھی۔ بھان سنگھ نے میرے ساتھ ٹائم طے کر لیا کہ وہ اتنے بجے واپس آجائے گا۔ تب تک میں باہر آجائوں۔ ہم طے کر چکے تو اس نے ہرمندر صاحب کی طرف دیکھ کرسیس نوایا اور گاڑی بڑھا دی۔ تب میں اور امرت کور ہرمندر صاحب کے باہر تھے۔
صدر دروازے پر میں نے جوتے اتارے، جرابیں بھی اتار دیں تو امرت کور نے ایک بسنتی رنگ کا رومال مجھے دیا کہ یہ سر پر باندھ لوں۔ میں نے وہ رومال باندھ لیا۔ ہم دروازہ پارکر کے آگے گئے تو ایک وسیع عمارت میرے سامنے تھی۔ پانی کے بڑے سارے تالاب کے درمیان ایک چوکور سنہری عمارت تھی ، ایک راستہ جیٹی کی مانندوہاں تک جاتا تھا۔ نیلگوں پانی لہرا رہا تھا۔ تالاب کے چاروں جانب کافی ساری جگہ چھوڑ کر برآمدہ تھا اور پھر دو منزلہ کمرے۔ وہاں بہت سارے لوگ تھے۔ کوئی ہاتھ جوڑے کھڑا تھا۔ آنکھیں بند کیے رب سے رابطہ جوڑے ہوئے تھا۔ کوئی بیٹھا تھا۔ بہت سارے آجارہے تھے۔ کوئی پانی کے تالاب میں تھے۔ ان کا جو عقیدہ تھا، اس کے مطابق وہ اپنی پرستش میں مصروف تھے۔ امرت کور نے دونوں ہاتھ جوڑے، اس عمارت کی طرف رخ کیا اور آنکھیں بند کر کے کتنی ہی دیر تک ساکت وصامت کھڑی رہی۔ پھر دھیرے دھیرے اونچی آواز میں بولی۔
’’اپجی پریت پریم رس چائو… من تن انتر ایھی سو آئو… نیتر ہہ پیکہتہ درس سکھ ہووئے… من بگسے سادھ چرن دھوئے… بھگت جنا کے من تنِ رنگ … ورلا کوئو پاوے سنگ… ایک بسنت دیجئے کر مئیا… گُر پر سادِ نام جپ لئیا…‘‘
(محبت کا رس پی کر میں اپنے دل میں یہی شوق رکھوں۔ میرے تن من میں یہی ذوق اور شوق ہے۔ اپنی آنکھوں سے دیدار کروں اور اس دیدار کا سکھ پائوں۔ سادھو کے پیر دھوکر میں سکھ چین پائوں۔ وہ من جو رب کی پاک محبت میں رنگین ہوجاتے ہیں۔ کوئی قسمت والا ہی اس قرب کو پاتا ہے۔ مجھ پر ایک بخشش کر، کیونکہ میں ایک ہی شے کا طالب ہوں۔ میں اپنے گرو کی رحمت سے، بس حق نام ہی جپتا رہوں۔)
وہ کہہ چکی تو خاموش ہو گئی۔ کتنا ہی وقت یونہی گزر گیا۔ پھر اس نے آنکھیں کھولیں اور میرا ہاتھ پکڑ کر مڑ گئی۔ اس کارخ جنوب کی جانب کے کمروں کی طرف تھا۔ پھر جیسے ہی برآمدے میں پہنچے، وہ وہاں رک گئی اور بڑے سکون سے بولی۔
’’بیٹھ جائو‘‘۔
یہ کہتے ہوئے وہ خود ایک ستون کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ جبکہ میں اس کے سامنے فرش پر بیٹھ گیا۔ وہ ایک ٹک میری طرف دیکھے چلے جارہی تھی۔ بلاشبہ وہ مجھ میں نور محمد دیکھ رہی تھی۔ میں بھی خاموش مگر بے چین اس کے سامنے بیٹھا رہا۔ بہت حد تک میرے دل میں بھی یہ خواہش پیدا ہو گئی تھی کہ وہ کچھ بولے، اس کے ذہن میں کیا ہے۔ اس کا اظہار کرے، میں بھی سنوں وہ اپنے من میں کیا لیے پھرتی ہے۔ انہی لمحات میں یہ فیصلہ میں نے کر لیا تھا کہ اگر وہ کچھ نہیں کہے گی تو میں اسے بولنے پر مجبور کر دوں گا۔ حالانکہ اس کا انداز ہی بتا رہا تھا کہ وہ مجھ سے باتیں کرنے کے لیے ہی یہاں آ کر بیٹھی ہے۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ وہ بولی۔
’’بلال…! میں جانتی ہوں کہ پرونت کور نے تجھ سے بڑی باتیں کی ہوں گی اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ پورا گائوں میری خاموشی ٹوٹ جانے پر حیران ہو گا۔ اسی وجہ سے اس نے تیرے ساتھ باتیں کی ہوں گی۔ کیونکہ میں جانتی ہوں کہ میں اگر حیرت سے چونک سکتی ہوں تو وہ بے چاری تو پاگل ہو گئی کہ نور محمد کہاں سے آگیا۔ پورے گھر کے ہر بندے کو، میرے گھروالوں سمیت سب کو یہ بھی حیرت ہوئی ہو گی کہ میرا پاگل پن ختم ہو گیا۔ حالانکہ کوئی یہ جانتا ہی نہیں کہ میں کبھی بھی پاگل نہیں تھی، میں تو ان لو بھی لالچ اور تعصب کے مارے لوگوں سے خود بات نہیں کرنا چاہتی تھی اور پھر میرے سامنے تو ایک ہی مقصد تھا۔ اپنے گرو سچے بادشاہ کو منانا کہ وہ کسی طرح نور محمد کو واپس لے آئے۔ شاید قسمت میں یہی نہیں کہ نور محمد واپس آئے لیکن گرو نے اپنا رنگ دکھایا ہے اور تیری صورت میں اسے مجھ تک بھیج دیا۔ جس مقصد کے لیے میرا دھیان تھا، وہ ٹوٹ گیا۔ اب جو رب کرے وہ سب ٹھیک…‘‘
’’دادی پرونت کور نے بہت ساری باتیں بتائی ہیں۔ وہ ساری باتیں سن کر میرے دل میں آ پ کے لیے نفرت کے سوا کچھ اور نہیں آسکتا، لیکن سچی بات یہ ہے کہ نفرت کرنے کو بھی من نہیں مانتا‘‘۔
’’اپنے اندر کے سچ کو مانو، یہی انسان کو سچی راہ دکھاتا ہے۔ اس بے چاری کو بہت ساری باتوں کا پتہ ہی نہیں وہ کیا بتائے گی… خیر…! میرے رب کی کرپا ہے مجھ پر کہ اس نے اپنے درپر مجھے بلایا اور تیرے ساتھ بات کرنے کا موقع دیا۔ سن پتر،یہاں پاک دوارے بیٹھ کر میں تجھ سے جھوٹ نہیں بولوں گی‘‘۔ یہ کہہ کر وہ چند لمحے خاموش رہی، پھر کہتی چلی گئی۔
***