اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

865,528FansLike
9,992FollowersFollow
565,300FollowersFollow
188,369SubscribersSubscribe

امرت کور۔۔۔۔ قسط نمبر11۔۔۔۔(امجد جاوید)

میں نے واہگہ بارڈر کراس کیا اور پاکستان کی سر زمین پر آگیا۔ ضروری کارروائی کے بعد جب میں سامان لے کر نکلا تو زویا میرے انتظار میں تھی۔ مجھے دیکھتے ہی والہانہ انداز میں میری طرف بڑھی اور اپنے جذبات کی شدت میرے ہاتھ بھینچ کر کی۔میں نے رات کمپیوٹر پر اس سے رابطہ کر کے بتا دیا تھا کہ وہ مجھے یہاں سے لے لے۔
’’کیسی ہو؟‘‘ میں نے اس کے چہرے پر پھیلی ہوئی سرخی کو دیکھ کر پوچھا۔
’’میں ٹھیک ہوں۔ تم نے رات بتایا ہی نہیں کہ یہ تم انڈیا کیسے پہنچ گئے؟‘‘
’’ساری باتیں یہیں بتادوں یا پھر گاڑی میں جا کے، کرلیں‘‘۔ میں نے کہا تو وہ خجل سی ہو گئی۔ وہ میرے ساتھ بیگ گھسیٹتی ہوئی پارکنگ کی طرف بڑھی۔ وہ اپنی ہنڈا اکارڈ لائی تھی۔ سامان رکھنے کے بعد جب ہم وہاں سے چلے تو میں نے بھان سنگھ کے مشورے والی ساری بات اسے بتا دی۔ وہ سرخ ہوتے ہوئے چہرے کے ساتھ سنتی رہی۔ میں نے امرت کور کے بارے باقی ساری بات چھپالی تھی۔ وہ بڑی سنجیدگی سے سنتی رہی اور اس کے چہرے پر حیرت کے ساتھ ساتھ تجسس بھی ابھرتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ ہم مغل پورہ پار کر آئے اور پھر وہیں آگے سے اس نے ماڈل ٹائون کی طرف ٹرن لے لیا۔ وہ بھی بھان سنگھ کو جانتی تھی، اس لیے اس کے گھر والوں کے بارے میں پوچھتی رہی۔ پھر بولی۔
’’ویسے میں بہت حیران ہو ئی تھی جب تم نے مجھے بتایا کہ تم انڈیا میں ہو۔ اب پتہ چلا ہے کہ تم مجھے پانے کے لیے اس کے گائوں میں چلے گئے‘‘۔
’’دیکھو…! میں تو آخری کوشش کروں گا تمہیں پانے کے لیے، باقی رب کو منظور کہ ہمارا ملن ہو گا یا نہیں‘‘۔ میں نے کاندھے اچکاتے ہوئے کاہ۔
’’ویسے میں تمہیں ایک بات بتائوں۔ اگر تم مجھے رات ہی یہ بات بتا دیتے تو میں کم از کم امرت کور کو دیکھ لیتی اسے کمپیوٹر کے سامنے لا کر…‘‘
’’نہیں ایسا ممکن نہیں تھا‘‘۔
’’اچھا یاد آیا، تم نے اپنے گھر والوں کو نہیں بتایاکہ تم انڈیا گئے ہوئے ہو۔ اگر خدانخواستہ…‘‘ اس نے کافی حد تک خوف زدہ ہوتے ہوئے کہا۔
’’ہاں، یہ رسک تو میں نے لے لیا، میں نے چاہا تھا کہ یہاں پہنچ کر، ماحول دیکھ کر رہنے کے بارے میں فیصلہ کروں گا اور تب فون پر بتا دوں گا، لیکن بس وہاں میرا دل ہی نہیں لگا۔ اس لیے بتایا ہی نہیں، تجھے بلالیا، تاکہ تھوڑی دیر تمہارے ساتھ گزار سکوں، پھر پتہ نہیں‘‘۔
’’ہاں، یہاں آ کر میں نے دیکھا، کوئی بھی نہیں تھا، چلو کھانا کھاتے ہیں‘‘۔ اس نے اچانک کہا اور ایک مہنگے ریستوران کے سامنے لے جا کر گاڑی کھڑی کر دی۔
آرام سے بیٹھ جانے کے بعد اس نے ویٹر کو آرڈر دیا۔ پھر میری آنکھوں میں براہ ِراست دیکھتے ہوئے وہ مسکرائی اور بولی۔
’’تو پھر سنو…! تمہارا انڈیا جانا نیک کام ثابت ہو ہے یا کچھ اور میں نہیں جانتی، لیکن یہ ہو گیا ہے کہ کم از کم پاپا پچاس فیصد مان گئے ہیں‘‘۔
’’سچ؟‘‘ میں نے حیرت سے ششدر ہوتے ہوئے کہا۔
’’جی، سچ‘‘۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’کیسے ممکن ہو گیا یہ …؟‘‘ میں نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
’’اصل میں میرے گھر والے اس وقت بہت زیادہ پریشان ہو گئے جب میں نے بریڈ فورڈ ہی سے انہیں مشورے کے لیے بات بتائی، ان کا خیال یہ تھاکہ میں نے شادی کرلی ہے اور اب ویسے ہی مصلحت کے طور پر بتا رہی ہوں۔پھر ذات پات کی بات تو آڑے تھی ہی یہاں آ کر میں نے انہیں باورکرا دیا کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ میں نے والدین کے حکم کے خلاف ایک قدم بھی نہیں اٹھایا۔ ان کی جو مرضی ہے، وہ وہی کریں۔ بہر حال میری پسند یہی ہے کہ میں بلال سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔ میں نے تمہارے پاپا اور فیملی کے بارے میں انہیں بتا دیا اور خود خاموش ہو گئی‘‘۔
’’پھر کیا ہوا؟‘‘ میںتجسس سے پوچھا۔
’’پھر ماما ہی ان سے بات کرتی رہی۔ ان کا مؤقف تھا کہ اگر بیٹی سعادت مند ہے اور وہ اپنے والدین کا خیال کر رہی ہے تو ہمیں بھی اس کی خوشیوں کا خیال کرنا چاہئے۔ باقی رہی ذات پات تو اسلام میں کہیں ایسا نہیں ہے کہ ان کے شادی نہ ہو سکے اور پھر ایک ذرا سا لالچ بھی ان کے سامنے ہے‘‘۔
’’و ہ کیا ؟‘‘میں نے کہا۔
’’اچھا بزنس، فیملی، میں بھی تمہارے ساتھ بزنس میں آسکتی ہوں۔ اپنی فیملی کے سرمایے کو بھی تحفظ دے سکتی ہوں۔ اب جیسے ہی انہیں تمہارے آنے کی اطلاع ملتی ہے، دیکھیں وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں، آر یا پار…‘‘
یہ کہتے ہوئے وہ دھیرے سے ہنس دی۔ تب میں نے قہقہہ لگا دیا۔ اس وقت مجھے لگا جیسے میں نے برسوں بعد کوئی قہقہہ لگایا ہو۔
’’لگتا ہے وہ تیری امرت کور کی دعا یا پرارتھنا یا جو کچھ بھی وہ کرتے ہیں، قبول ہو گئی ہے‘‘۔
’’میں نہیں مانتا اور اس کی ڈھیرے ساری دلیلیں ہیں، ممکن ہے تم اس کے حق میں ڈھیر ساری دلیلیں دے دو۔ اس لیے چھوڑو اس بحث کو، تم نے تو ایک نئی زندگی دے دی ہے مجھے ‘‘۔ میں نے فرطِ مسرت سے کہا۔
’’ایسا تو ہے‘‘۔ یہ کہہ کر وہ یونہی تفصیلات بتاتی رہی۔ بریڈ فورڈ سے آنے کے بعد سے لے کر اب تک جو ہوا وہ بتاتی رہی۔ اس دوران کھانا آگیا۔ ہم نے کھایا۔ جب ہم فارغ ہوئے تو اس نے پوچھا۔
’’اچھا اب بتائو، کیا پروگرام ہے، تمہیں گھر چھوڑ آئوں یا ٹیکسی وغیرہ میں جائو گے؟‘‘
’’او چل، گھر ہی چھوڑ دو۔ میرے خیال میں تم پہلے تو کبھی نہیں گئی ہو اس طرف‘‘۔ میں نے پوچھا تو وہ ہنستے ہوئے بولی۔
’’ایک بار گئی تھی یونہی… وہ جو شاعر کہتے ہیں۔ کوچہ یار میں دشت نور دی کرنے… کہ دیکھو تو سہی کہ محبوب کے دیار کو راستہ کیسا جاتا ہے‘‘۔
’’واہ… واہ… مطلب، میرا گھر دیکھنے کے چکر میں۔ خیر، چلو چلتے ہیں‘‘۔ میں نے اٹھتے ہوئے کہا اور ہم دونوں ریستوران سے نکلتے چلے گئے۔
زویا نے گھر کے مین گیٹ پر ہی گاڑی روک دی۔ پھر وہیں بیٹھے ڈگی کھولتے ہوئے کہا۔
’’سامان اتارو اور چلو، میں نے پورچ تک نہیں جانا‘‘۔
’’یار آئو، اندر سے بھی ایک نظر جھانک لو‘‘۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’ایک ہی بار آئوں گی اور پھر ہمیشہ رہوں گی۔ چل اب اتر…‘‘ اس نے بھی ہنستے ہوئے کہا تو میں نے اتر کر ڈگی سے سامان باہر نکالا، ڈگی کو بند کیا۔میرا ارادہ تھا کہ زویا کے پاس جاکر اسے الوداع کہوں، تبھی میرے کاندھے پر کسی نے ہاتھ رکھ دیا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو دادا نور محمد کھڑے مسکرا رہے تھے۔
’’اوئے پتیندرا…! ایک دم آگئے ہو ۔ بتایا ہی نہیں‘‘۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے مجھے گلے لگا لیا۔ میں نے زویا کی طرف دیکھا وہ چہرہ چھپاتے ہوئے نکلنے کی تیاری میں تھی۔
’’او یار دادا…! مجھے بعد میں مل لینا، پہلے اس لڑکی کو مل لیں… سر پر پیار دیں…‘‘ میں نے زویا کی طرف اشارہ کیا تو وہ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اتر آئی۔ وہ آہستہ قدموں سے چلتے ہوئے ان کے قریب آگئی۔ وہ بڑے غور سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ پورے بدن پرعبایا اور سکارف، ان کی نگاہوں میں ستائش تھی۔ اس نے سلام کیا تو جواب دے کر مجھ سے پوچھا۔
’’شادی کرلی ہے یا…‘‘
’’ابھی کرنی ہے… بس آپ اسے پیار دیں تو یہ جائے…‘‘
دادا نور محمد نے بڑے خلوص سے اسے پیار دیا۔ پھر اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک بڑا نوٹ نکالا اور اسے دیتے ہوئے بولے۔
’’بیٹی…! پہلی بار جب گھر آتے ہیں نا، تو بیٹی کو کچھ نہ کچھ دیتے ہیں، فی الحال تو اتنا ہی قبول کر، میں سمجھ گیاکہ پتیندرا تجھے ابھی جانے کو کیوں کہہ رہا ہے‘‘۔
زویا نے شرماتے ہوئے وہ نوٹ پکڑا، پھر سلام کیا اور اس قدر تیزی سے گاڑی میں جا بیٹھی کہ مجھے بھی پتہ نہ چلا، اگلے چند لمحوں میں وہ نگاہوں سے اوجھل ہو گئی۔ تبھی وہ ہنستے ہوئے بولے۔
’’اگر میں نماز پڑھ کر واپس نہ آرہا ہوتا تو یہ منظر میں دیکھ ہی نہ سکتا‘‘۔ پھر چونک کر میری طرف دیکھا اور بولے۔ ’’تُو اچانک… آگیا۔ اپنے آنے کے بارے میں بتایا ہی نہیں‘‘۔
’’داداجی، آپ اندر چلو، میں نے آپ سے بہت باتیں کرنی ہیں۔ ساراکچھ بتائوں گا، وہ کچھ بھی جو آپ بھی نہیں جانتے‘‘۔
’’ایسا کیا ہے بلالے…‘‘ انہوں نے خوشگوار حیرت سے کہا۔
’’سب کچھ بتائوں گا، فی الحال آپ آئیں‘‘۔
ہماری باتوں کے دوران چوکیدار باہر آگیا تھا۔ اس نے سلام کرتے ہوئے سامان اٹھایا۔ تو ہم دونوں دادا پوتا اندر کی جانب بڑھ گئے۔
l l l
میں نے پورا ایک دن اور ایک رات یہی سوچتے ہوئے گزار دی کہ دادا جی سے کس انداز میں بات کروں گا۔ جھتوال کی ساری باتوں میں ایسی کوئی بات نہیں تھی جو انہیں دکھ نہ دیتی۔ ساری روداد ہی غم سے بھری ہوئی تھی۔ گھر والوں کا خیال یہ تھا کہ میں تھکن اتارنے کی غرض سے آرام کر رہا ہوں۔ مگر میری آنکھوں میں نیند کا شائبہ تک نہیں تھا۔ مجھے پہلے تو یہی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ دادا جی کو یہ سب کچھ بتائوں یا نہیں۔ پُرسکون جھیل میں پتھر پھینکنا کوئی معمولی بات تو نہیں ہے۔ پھر اچانک سہ پہر کے وقت مجھے خیال آیا، ممکن ہے دادا کے ذہن میں ابھی تک تشنہ سوال ہوں، میں کوئی ان کا جواب دے سکوں یا نہیں۔ یہ کوئی مضبوط دلیل نہیں ہے، تشنگی اگر ہوگی بھی تو وہ جھیل کی تہوں میں ہو گی۔ یہی سوچتے ہوئے اچانک مجھے امرت کور کی تشنگی یاد آگئی، وہ آج بھی نور محمد کی راہ تک رہی ہے۔ وہ آج بھی اس کے پیار میں سلگ رہی ہے۔ کیوں نا اس کا انتظار ختم کیا جائے؟ مگر یہ بھی کوئی اتنی مضبوط دلیل نہیں تھی۔ اس کا انتظار تو موت کے ساتھ ہی ختم ہو گا۔ کیا میں دا دا کو مجبور کر سکتا ہوں کہ وہ امرت کو رکو اپنا لے؟ نہیں میں ایسا نہیں کر سکتا، ہاں البتہ اس کی موت کو آسان ضرور کر سکتا ہوں، وہ جو معافی کی طلب گار تھی، میں اسے معافی دلا سکتا تھا۔ اس کے ذہن میں جو میرے دادا کے بارے میں تصور بن چکا تھا وہ اس سے نفرت کرتا ہے، میں اس نفرت کے احساس کو ختم کر سکتا تھا۔ دراصل میں ایسی کسی وجہ کی تلاش میں تھا، جس کی بنیاد پر میں دادا سے بات کر سکتا۔ ورنہ میں انہیں ماضی میں جھانکنے کی اذیت نہیں دینا چاہتا تھا۔ چند دن اسی کشمکش میں گزر گئے۔ مجھے کوئی ایسی وجہ نہ ملی اور پھر آخر ایک دن مجھے وہ وجہ مل گئی۔
اس رات میں نے سب گھر والوں کے ساتھ ڈنر کیا اور خوب باتیں کرتا رہا۔ پاپا کا خیال تھا کہ میں نے بہت آرا م کر لیا۔ اب مجھے ان کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹانا چاہئے۔ میں نے بھی ان سے وعدہ کر لیا کہ ایک دو دن میں آفس آنے لگوں گا۔ ماما تو مجھے ابھی ایک ماہ مزید آرام کے لیے دینا چاہتی تھی۔ میں خوشگوار طبیعت کے ساتھ اپنے کمرے میں جا کر بیڈ پر نیم دراز ہو گیا۔ یہی وہ وقت تھا، جب دادا جی نماز پڑھنے چلے جاتے اور میں اپنے لیپ ٹاپ پر زویا کے ساتھ آن لائن ہو جاتا۔ وہ مجھے اس دن کی تازہ ترین صورتِ حال سے آگاہ کرتی کہ ہم دونوں کے معاملے میں بات کہاں تک پہنچی ہے۔ پھر ہم خوب تبصرہ کرتے۔ اس دن میں آن لائن ہوا تو جہاں زویا آن لائن تھی، وہاں بھان سنگھ کے ساتھ پریت کور بھی آن لائن تھے۔ ان کے ساتھ کچھ دیر حال احوال ہوا پھر بھان سنگھ نے مجھے ایک تصویر بھیج دی۔ میں نے وہ تصویر کھولی تو چونک گیا۔ وہ اسی مقام کی تصویر تھی جہاں میں نے نمازِ جنازہ پڑھی تھی۔ اب اس جگہ کا منظر تبدیل ہو چکا تھا۔ گندم کی فصل صاف تھی اور اس کھیت کے اردگرد چھوٹی چھوٹی چار دیواری تھی۔ اس کے اندر جگہ بالکل صاف تھی جیسے کسی گھرکا کچا صحن لیپ پوت کر بنایا ہوا ہو۔ اس کے ساتھ ہی بھان سنگھ نے ایک دوسری تصویر بھیج دی۔ وہ چار دیواری کے باہر کی تصویر تھی۔ چھوٹا سا گیٹ لکڑی کا بنا ہوا تھا۔ اس پر سیاہ پینٹ کیا گیا تھا سفید رنگ میں گورو مکھی زبان میں کچھ لکھا ہوا تھا۔ میں نے بھان سے اس کا ترجمہ پوچھا تو اس نے بتایا۔ ’’اس گائوں کے مظلوم بے گناہ مسلمان، شہید پاکستان‘‘ اس تصویر نے میرے دل پر اتنا اثر کیا کہ میرے آنسو نکل پڑے۔ میں کافی دیر تک کوئی بات نہیں کر سکا۔ سبھی کی طرف سے سوالیہ نشان تھے میرے میسنجر پر۔ میں نے زویا سے معروف ہو جانے کا بہانہ کر کے معذرت کی اور پوری توجہ سے بھان سنگھ کے ساتھ بات کرنے لگا۔
’’یہ سب کیسے ہوا؟‘‘
’’دادی نے اس دن اس زمین کے مالک کو بلوایا اور اس سے کھیت کی قیمت پوچھی۔ وہ قیمت لینے پر نہیں مانا ایک جٹ کے لیے زمین بیچنا سب سے بری بات ہے۔اس نے زمین کے عوض زمین دینے کا وعدہ کر لیا، وہ بھی ایک کھیت کے بدلے میں تین کھیت لینے پر راضی ہوا‘‘۔
’’وہ کیوں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’اس لیے کہ وہ کھیت گائوں کے ساتھ لگتا ہے۔ اس کے عوض اس کو تین کھیت جو دینے ہیں وہ گائوں سے بہت دور ہیں۔ اس کے ساتھ شرط یہ کہ اس کی زمین کے ساتھ لگتے ہوئے کھیت ہوں‘‘۔
’’تو پھر معاملہ کیسے طے ہوا؟‘‘
’’اس کی زمین کے ساتھ سریندرپال سنگھ کی زمین لگتی تھی۔ اس لیے زیادہ مسئلہ نہیں ہوا۔ انہوں نے فوراً امرت کور سے کہا اور اگلے ہی دن کچہری جا کر اس ایک کھیت کے بدلے میں اسی کی پسند کے تین کھیت دے دیئے۔ میں ان کے ساتھ کچہری گیا تھا۔ پٹواری کو بھی ساتھ ہی لے گئے تھے۔ اگلے دن میں نے اس کی چار دیواری شروع کر وا دی۔ کھیت کی فصل کٹوا کر اس پر صفائی کی پھر پوریے کھیت کو لیپ پوت دیا۔ اس دوران چاردیواری بھی مکمل ہو گئی۔ تین دن لگے سارے اس کام میں او ر یہ تین دن دادی اور امرت کور وہیں میرے ساتھ رہیں‘‘۔
’’واہ…! دادی بے چاری تو تھک جاتی ہوگی‘‘۔
’’ہاں… مگر وہ کام ہونے تک وہیںکرسی پر بیٹھی رہتی۔ ہاں البتہ امرت کور سارا دن امزدورں کے لیے کھانے پینے کے بندوبست میں رہتی۔ ان تین دنوں میں مزدورں نے عیاشی کی ہے‘‘۔
’’اور گیٹ پر یہ کس نے لکھوایا؟‘‘
’’میں نے اور پریت کور نے … خیال پریت کور کا تھا‘‘۔
’’اچھا، دونوں گھروں کے لوگوں نے کوئی سوال نہیں کیا کہ یہ سب کیوں؟‘‘
’’کیا، اور اس وجہ سے ساری رام کہانی دونوں گھروں کو معلوم ہو گئی،انہیں یہ بھی معلوم ہو گیا ہے کہ تم یہاں کیوں آئے ۔ تم کون ہو اور تم اچانک واپس کیوں چلے گئے‘‘۔
’’چلو، جیسے رب کی مرضی، پر تیرا بہت شکریہ یار‘‘۔
’’اس میں شکریے والی کیا بات ہے، یہ تو ہم پر قرض تھا، جو ہم نے دیر سے ادا کیا۔ تم سنائو، تم نے اپنے ٹورکے بارے میں دادا جی کو بتایا‘‘۔
’’نہیں یار ، ہمت نہیں پڑ رہی، لیکن آج ضروربات کروں گا‘‘۔
’’چلو، تمہارے ٹور کا یہ فائدہ تو ہوا کہ جہاں اتنا بڑا کام ہوا، وہاں تمہیں زویا کی طرف سے بھی خوشخبری مل گئی۔رب کرے تم لوگوں کی جلدی شادی ہو جائے۔ تب میں بھی پاکستان آئوں‘‘۔
’’تو کوشش کر اور آجا، تم تو آسکتے ہو، سکھ یاتری بن کر‘‘۔
’’اچھا یار، کچھ کرتا ہوں، ویسے بیساکھی بھی نزدیک ہے۔ ممکن ہے ہم آجائیں‘‘۔
’’بس آہی جائو۔ بنا لو پروگرام۔ میں تجھے اپنے خاندان سے ملوائو‘‘۔
’’میں کرتا ہوں بات سب سے اور سنائو‘‘۔
بات کرنے کے دوران یہ جب ’’اور سنائو‘‘ والی بات آتی ہے تومزید بات کرنے کے لیے کوئی موضوع نہیںہے۔ اب اگر بات مزید جاری رکھنا ہے توں یونہی گپ شپ ہو گی، کام کی بات نہیں ہو گی۔ مجھے چونکہ دادا اسے بات کو نابھی اس سے جلدی جلدی بھان اور پریت کے ساتھ اپنی گفتگو سمیٹی اور پھر لیپ ٹاپ بند کر دیا۔
میں جس وقت دادا جی کے کمرے میں گیا۔ وہ بیڈ پر آلتی پالتی مارے ، ہاتھ میں تسبیح پکڑے، کوئی وظیفہ پڑھ رہے تھے۔ میں خاموشی سے ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا اور اپنا لیپ ٹاپ بیڈ پر رکھ دیا۔ کچھ دیر بعد ملازمہ دو کپ چائے لا کر بیڈ پر رکھ گئی۔ اتنے میں انہوں نے اپنا وظیفہ ختم کر لیا۔ تسبیح سمیٹتے ہوئے مسکرائے اور کہا۔
’’باپ نے آج کام پر جانے کا کہہ دیا ہے تو تجھے دادا کا کمرہ دکھائی دے گیا۔ چل بتا ، کیا سفارش کرنی ہے۔ تیرے باپ سے‘‘۔
’’دادا جی، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ کام تو مرد کی شان ہوتی ہے۔ وہ تو میں نے کرنا ہی کرنا ہے۔ آج تو آپ سے ڈھیر ساری باتیں کرنے آیا ہوں۔ آپ چائے پئیں‘‘۔ میں نے اپنا پیالہ اٹھاتے ہوئے انہیں اشارے سے کہا۔
’’نہیں، میں نے نہیں پینی چائے، پھر رات نیند نہیں آتی‘‘۔
’’میری باتیں سن کر آپ سوئیں گے بھی نہیں، یہ لیں‘‘۔ میں دوسرا پیالہ اٹھایا اور ان کی طرف بڑھا دیا۔ وہ پکڑتے ہوئے پُرتجسس انداز میں بولے۔
’’اوئے سیدھی بات کراوئے…بات کیا ہے؟‘‘
میں چند لمحے خاموش رہا، پھر بولا۔
’’میں آپ کا گائوں جھتوال دیکھ کر آیا ہوں‘‘۔ میں نے کہا تو وہ اس قدر چونکے کہ چائے چھلک پڑی۔ بہت مشکل سے ہاتھ جلتا ہوا بچا۔ انہوں نے پیالہ پھر ٹرے میں رکھ دیا اور غور سے میری طرف دیکھتے ہوئے بولے۔
’’اوئے تُو سچ کہہ رہا ہے؟‘‘
’’جی دادا جی… میں آپ سے جھوٹ کیوں بولوں گا… اور میں… امرت کور سے بھی ملا ہوں‘‘۔ میں نے کہا تو پھٹی پھٹی آنکھوں سے میری طرف دیکھنے لگ گئے کتنی ہی دیر تک وہ ساکت و صامت یوں ایک ٹک میری طرف دیکھتے رہے جیسے انہیں اپنا ہوش بھی نہ رہا ہو۔ تقریباً چار سے پانچ منٹ ان کی یہی حالت رہی۔ پھر اپنے آپ میں آتے ہوئے بولے۔۔۔۔۔۔۔۔۔