اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

864,771FansLike
9,991FollowersFollow
565,300FollowersFollow
188,369SubscribersSubscribe

امرت کور……قسط نمبر15…… امجد جاوید

اگلے دو دن میرے شدید قسم کی مصروفیت میں گزرے، بھان سنگھ نے جھتوال پہنچ جانے کی اطلاع دے دی تھی۔ میں نے سوچا کہ فری ہو کر ہی ان سے تفصیل کے ساتھ گپ شپ کروں گا۔ پھر تیسرے دن کی شام مجھے موقع مل گیا۔ میں سرِ شام ہی دادا جی کے کمرے میں جا گھسا۔ وہاں سکون تھا۔ میں نے اپنا لیپ ٹاپ آن کیا۔ اس وقت زویا آن لائن تھی۔ کچھ دیر پہلے میں نے اسے بتایا تھا، اس نے فوراً ہی پریت کور کو فون کر دیا۔ پھر اس کے ساتھ بھان سنگھ بھی آن لائن ہو گیا۔ پاکستان ٹور اور اس کے بارے میں جوان کے احساس اور جذبات تھے، وہ مجھے بتاتے رہے۔ پریت نے جو خاص بات مجھے بتائی، وہ یہ تھی کہ امرت کور تمام راستے روتی ہوئی آئی تھی، اس کے آنسو نہیں تھمے تھے۔ جھتوال آجانے تک اس کا یہی حال رہا تھا۔ یہی بتاتے ہوئے اچانک اس نے سوال کر دیا۔
’’کیا تم نے امرت کور بارے دادا جی نور محمد سے بات کی ؟‘‘
اب اس نے یہ بات مزاح میں کہی تھی یا پھر وہ پوری طرح سنجیدہ تھی، میں بارے کچھ نہیں کہہ سکتا تھا، تاہم میں نے اسے جواباً لکھ دیا۔
’’نہیں پریت ابھی نہیں، لیکن ممکن ہے کہ میں آج ہی بات کرلوں، کیا تم نے امرت کور سے اس بارے بات کر لی ہے؟‘‘ میرے اس سوال کا اس نے نفی میں جواب دیا۔ پھر کچھ دیر تک اِدھر اُدھر کی باتیں چلتی رہیں۔ یہاں تک کہ داداعشاء پڑھ کر کمرے میں آگئے۔
’’اوئے…! تُو ادھر بیٹھا ہوا ہے، ادھر تیر ی ماں تجھے کھانے کے لیے پوچھ رہی ہے‘‘۔
’’میں آپ کا انتظار کررہا تھا، میں آج آپ کے ساتھ کھانا کھائوں گا‘‘۔ میں نے لیپ ٹاپ بند کرتے ہوئے کہا۔
’’اوئے خیر تو ہے نا پتندرا‘‘۔ انہوں نے خوشگوار حیرت سے کہا۔
’’خیرہی ہے، صبح چھٹی ہے، کئی دن ہو گئے آپ سے گپ شپ نہیں ہوئی۔ اس لیے آج آپ کے ساتھ کافی وقت گزرنے کا موڈ ہے‘‘۔ میں نے بیڈ پر سے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’ہوں…! ‘‘ انہوں نے ہنکارا بھرتے ہوئے کہا، پھر میری طرف غور سے دیکھتے ہوئے بولے۔ ’’ادھر گھر ہی میں کھائے گا یا کہیں باہر چلیں‘‘۔
’’جیسے آپ کی مرضی، جو کہنا ہے آپ خود ہی ماما سے کہہ دیں‘‘۔ میں نے باہر جانے کے لیے پر تولتے ہوئے کہا۔
’’چل باہر ہی چلتے ہیں، نکال گاڑی‘‘۔ انہوں نے حتمی انداز میں کہا اور باہر کی جانب چل پڑے۔ ہمیں یوں آتا دیکھ کر ماما نے پوچھا۔
’’خیریت تو ہے نا… یوں دادا پوتا ساتھ ساتھ میں ہیں… کہیں جارہے ہیں؟‘‘
’’کھانا کھانے ، آج تھوڑا عیاشی کا موڈ ہے‘‘۔ میں نے سکون سے کہا تو ماما ایک دم سے بولیں۔
’’کہیں بھی نہیں جانا، آج ویک اینڈ ہے، میں نے کافی سارا اور بہت اچھا کھانا بنایا ہے ۔ ادھر بیٹھیں اور کھائیں۔ کوئی ضرورت نہیں باہر جانے کی‘‘۔
’’پاپا آگئے ہیں؟‘‘ میں نے ان کی بات نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا۔
’’جی بالکل…! صاحبزادے، اور وہ اباجی کا انتظار کر رہے ہیں۔ کھانا لگ رہا ہے میز پر آجائیں‘‘۔ ماما نے حکم صادر کیا اور ڈائننگ روم کی طرف چل دیں۔ ہم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور ماما کے پیچھے چل دینے۔ اب گھر میں کھانا کھانے کے سوا چارہ نہیں تھا۔
خوشگوار ماحول میں کھانا شروع ہوا۔ اسی دوران پاپا نے زویا کے پاپا کے بارے میں دادا کو بتاتے ہوئے کہا۔
’’ابا جی، وہ آج شاہ صاحب آئے تھے آفس، کافی دیر بیٹھے گپ شپ کرتے رہے‘‘۔
’’جہاں تک میرا اندازہ ہے، وہ یہی معلوم کرنے آیا تھا کہ تمہارا کاروبار کیسا ہے، دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ تفتیش پر نکلا تھا‘‘۔دادا نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تو پاپا اس سے اتفاق کرتے ہوئے بولے۔
’’بالکل،مجھے بھی ایسا ہی لگا، ان کی گفتگو کا محوریہی کاروبار تھا۔ میں نے بھی سب سچ بتا دیا۔ میں نے یہی اندازہ لگایا ہے کہ وہ یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ روپے پیسے کے معاملے میں ہماری حیثیت کیا ہے‘‘۔
’’یہ بات تو ہے پتر…!ان کے مقابلے میں ہم اتنی حیثیت نہیں رکھتے۔ مگر مجھے اپنے پوتے پر مان ہے‘‘۔
دادا نے انتہائی پیار سے لبریزلہجے میں کہا۔ تب ماما نے سوچتے ہوئے لہجے میں پایا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’میرا تو یہ خیال ہے کہ انہیں پوری تسلی کر لینے دیں۔ جب وہ اپنے اطمینان کا اشارہ دے دیں گے تو ہی ہم مزید بات کریں گے‘‘۔
’’ہو گا تو ایسے ہی اور میرے خیال میں ایسے ہی ہونا چاہئے۔ وہ اپنی پوری تسلی کرلیں۔ پھر ہم بھی پورے اعتماد سے بات کر پائیں گے‘‘۔ پاپا نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’مگر آپ ان سے رابطہ ضرور رکھنا، گاہے بگاہے ان کے بارے میں معلوما ت لیتے رہنا۔ تاکہ پتہ تو چلے کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں‘‘۔ ماما نے خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
’’یہ میں نہیں کر سکتا، یہ جاب آپ اپنے پتر بلال کو دیں تاکہ وہ زویا سے معلومات لیتا رہے۔ اصل میں ان دونوں کا پلس پوائنٹ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی مرضی کرنے کی بجائے والدین کی مرضی کو ترجیح دی۔ میرا دل کہتا ہے کہ بات بن جائے گی۔ باقی اﷲ کی مرضی‘‘۔ انہوں نے مطمئن انداز میں کہا اور کھانے کی طرف متوجہ ہو گئے۔
’’اوکے بن جائے گی بات، فکرنہ کرو ، روٹی کھائو‘‘۔ دادا نے لاپروایانہ انداز میں کہا اور سب کھانے کی طرف متوجہ ہو گئے۔
کھانے کے بعد میں دادا جی کی چائے لے کر ان کے کمرے میں چلا گیا۔ وہ لیٹے ہوئے تھے اور میرا لیپ ٹاپ ان کے بیڈ کے ایک طرف پڑا تھا۔ میں نے وہ اٹھا کر میز پر رکھ دیا۔ پھر چائے انہیں تھمائی اور ان کے قریب ہو کر بیٹھ گیا۔ چند لمحے خاموشی سے چائے پیتے رہے، پھر میں نے آہستگی سے کہا۔
’’پھر کیا باتیں ہوئیں امرت کور سے…‘‘
میری یہ بات سن کر وہ کچھ دیر خاموش رہے، پھر گہری سنجیدگی سے بولے۔
’’بس پرانی یادیں تھیں۔ وہ اپنا پاگل پن دہراتی رہی اور میں سنتا رہا۔ میں نے اس سے یہ سوال کیا کہ تجھے اپنے پاگل پن سے کیا ملا، ایک طویل انتظار، بس اس جمع تفریق میں لگے رہے‘‘۔
’’مطلب ، اس کے پاگل پن نےا سے کچھ نہیں دیا۔ اس نے جو محبت کی، وہ رائیگاں گئی‘‘۔ میں نے باقاعدہ بحث کرنے والے انداز میں کہا تو وہ دھیرے سے بولے۔
’’اب میں اس پر کیا کہہ سکتا ہوں۔ وہ اس کا کرم تھا، جس کا پھل اسے مل گیا‘‘۔
’’یہی تو مصیبت ہے دادا، آپ اس کی محبت سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ ماناکہ یہ اس کا پاگل پن تھا، لیکن وہ اپنی محبت میں حق بجانب ہے۔ آپ کسی کی محبت کا انکار تو کر سکتے ہیں۔ مگر کسی کو محبت کرنے سے روک تو نہیں سکتے‘‘۔ میں نے اپنی طرف سے دلیل دی۔
’’تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو۔ اب میں اور تم، دونوں میں جو محبت ہے ان میں سے کوئی ایک، دوسرے کی محبت کا انکار کر دے تو کیا ہو سکتا ہے‘‘۔ دادا نے انتہائی تحمل سے پوچھا۔
’’نہیں دادا، ہم میں یہ تعلق اور محبت فطری ہے، اس میں خون کی کشش بھی شامل ہے، لیکن میں بات کر رہا ہوں آپ کی اور امرت کور کی محبت کی…‘‘ میں نے تصحیح کرتے ہوئے جان بوجھ کر الٹ بات کی۔
’’نہیں پتر، میری نہیں، صرف امرت کور کی محبت، اگر تمہیں پاگل پن کا لفظ اچھا نہیں لگتا، تو میں اسے مجبوراً محبت کہہ دیتا ہوں‘‘۔ انہوں نے میری تصحیح کرتے ہوئے کہا۔
’’چلیں، یونہی سہی، آپ ایک طرف مانتے ہیں کہ اس کی محبت ہے اور دوسری طرف اسے رائیگاں بھی کہہ رہے ہیں۔ کیا واقعتا اس کی محبت رائیگاں گئی، میں تو یہ پوچھنا چاہتا ہوں‘‘۔ میں نے جذباتی انداز میں پوچھا۔
’’نہیں پتر…! محبت ہو، تو محبت رائیگاں نہیں جاتی۔ سچی محبت کا پھل ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے، لیکن اس کی تاثیر اچھی ہوتی ہے ۔ اب سنو…! اس کی محبت میں خالص پن نہیں تھا۔ ایسا اگر نہ ہو تو پھر پاگل پن ہی ہوتا ہے نا، اب ہوا یوں ہے پتر، کہ اس کی محبت یا پاگل پن، جو کچھ بھی تھا۔ فقط ایک کے لیے تھا، اس نے کسی دوسرے کے بارے میں سوچا تک نہیں۔ غور کرنا بلال، یہاں ایک نکتے کی بات ہے جب بندہ ایک سے زیادہ کے بارے میں سوچے گا نا تو منفی جذبے خواہ مخواہ درآتے ہیں ۔ سوچوں میں۔ لالچ، خود غرضی، فریب، دھوکا اور نہ جانے کیا کیا، یہ سب آجاتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ رب تعالیٰ کے ساتھ بھی ایسے کرنے لگتا ہے۔ ایک خدا کو دوسرے خدا پر ترجیح دیتا ہے۔ سبھی خدائوں کو خوش کرنے کے چکر میں رہتا ہے اور انسان اس قدر خود غرض ہو جاتا ہے کہ جہاں سے اسے نفع کی توقع ہو گی، اس کو مانتا ہے، لیکن جو ایک ہی کو ماننے والا ہے، وہ بھٹکتا نہیں۔ خیر ہو یا شر ہو۔ مصیبت ہو یا خوشی، نفع ہو یا نقصان، اسے ایک ہی در سے امید ہوتی ہے۔ وہاں لالچ نہیں ، خلوص ہوتا ہے، وفاداری ہوتی ہے، جب ایک ہی در سے امید لگتی ہے تو وہیں سے شروعات ہوتی ہیں۔ اسے یاد رکھنا‘‘۔ یہ کہہ کر وہ ذرا سانس لینے کے لیے رکے اور پھر کہتے چلے گئے‘‘۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ مجھے اس سے محبت تھی اور اب بھی ہے، لیکن اب اس کی اہمیت کم ہو گئی ہے۔ مجھے مانگتے مانگتے وہ اس کی ہو گئی ہے۔ جس سے وہ مجھے مانگ رہی تھی۔ میں اس کے لیے کبھی گم نہیں ہوا تھا۔ نگاہوں سے اوجھل تھا لیکن خیالوں میں سامنے تھا۔ وہ ایک کی ہو کر رہی۔ اس لیے آج اس کے چہرے پر نور ہے۔ اس کی محبت رائیگاں اس طرح نہیں گئی کہ اس نے وہ گیان پا لیا جو کسی عام بندے کو نہیں ملتا،جس نے محبت نہ کی ہو‘‘۔ انہوں نے کہا تو میں نے ان کا مؤقف سمجھنے کے لیے پوچھا۔
’’اب آپ اعتراف کر رہے ہیں کہ آپ کو امرت کور سے محبت تھی اور ہے پہلے تو مجھے اس محبت کے بارے میں بتائیں کہ وہ ہے بھی اور نہیں بھی، یہ معمہ میری سمجھ میں نہیں آیا، دوسری بات میں آپ سے بعد میں پوچھوں گا؟‘‘
’’میری محبت میں احترام شامل تھا اور اب بھی ہے۔ وہ میری دشمن نہیں تھی، پھر مجھے لگا کہ وہ میری دشمن ہے اور اس نے انتقام میں میرا نقصان کیا۔ یہ غلط فہمی تھی دور ہو گئی۔ اس نے اتنے لوگوں میں مجھے چاہا۔ اس نے مجھے اہمیت دی، یہ الگ بات ہے کہ اس کی محبت کا رخ کوئی دوسرا تھا۔ پھر اس نے اچھا کام کیا۔ یہ احترام بڑھ گیا۔ اب میری محبت ویسی نہیں تھی، جیسا وہ چاہی رہی تھی‘‘۔
’’یہ محبت ، محبت میں فرق ہوتا ہے‘‘۔ میں نے پوچھا۔
’’یار…! جیسا بیج ڈالو گے، پھل تو ویسا ہی آئے گا،پھر ضروری نہیں ہر پھل کا ذائقہ ایک جیسا ہو۔ اب دیکھو ، آم ہے، ایک درخت پر لگا ہوا ہے، اس کا ذائقہ دوسرے سے مختلف ہو گا ، آم کے جتنے بھی دانے ہوں، وہ سب آم ہیں، لیکن اپنے ذائقے میں مختلف ہیں۔ محبت تو محبت ہی ہوتی ہے، اس میں بندے کی سوچ اسے ایک الگ قسم کی بنا دیتی ہے‘‘۔ دادا جی نے مجھے سمجھاتے ہوئے کہا تو میں نے ہٹ دھرمی سے کہا۔
’’دادا جی…! یہ کیسا گیان ہے جو بندے کو سارے زندگی کے لیے تنہائی کا شکار بنا دے‘‘۔ اگرچہ یہ سوال ایسا تھا، جو اس گفتگو میں کوئی مقصد نہیں رکھتا تھا، لیکن میں گفتگو میں دادا جی کو اس سطح پر لے آنا چاہتا تھا، جہاں سے میں اپنی بات منوانے کے لیے کوئی دلیل دے سکوں اور میں نے یہ سوال سوچ سمجھ کر کیا تھا۔ تب انہوں نے بڑے سکون سے کہا۔
’’تجھے کس نے کہا کہ وہ تنہائی کا شکار تھی۔ اس کے اندر تو ایک ہجوم بہتا رہا ہے۔ اسے تو اپنے آپ سے فرصت نہیں تھی جو وہ کسی دوسرے کو دیکھ سکے۔ اسی کو تو گیان کہتے ہیں کہ بندہ اپنے من میں ڈوب جاتا ہے۔ کیا تُو نے یہ نہیں تھا کہ وہ کسی سے بات تک نہیں کرتی تھی۔ گیان اسے اب بھی ہے یہ تو وہاں جا کر تُو نے اس کا دھیان توڑا، ورنہ تو وہ اپنے وجدان میں ڈوبی ہوئی تھی‘‘۔ دادا نے کہا تو مجھے یوں لگا اب میرے پاس باتوں کے لیے لفظ ختم ہو گئے ہیں۔ میں اب سوچنے لگا کہ ان سے کیا کہوں، پھر وہی ہٹ دھرمی سے بولا۔
’’گیان، دھیان اور وجدان،ضرور اہم ہوں گے، میں انہیں سرے سے فضول نہیں کہنا، مگر دادا، ان کی اپنی معاشرتی زندگی تو نہ رہی۔ اس کا اپنا خاندان، اس کے بچے، وہ تو عورت ہونے کے ناطے اپنی تکمیل بھی نہیں کر سکی۔ کیا یہ شرط ہے کہ گیان، دھیان اور وجدان فقط انہی لوگوں کو ملتا ہے جو محبت میں ناکام ہوں گے، ان کی کوئی معاشرتی زندگی نہیں ہوتی، کیا یہ سب کچھ انہیں نہیں ملتا، جو ازدواجی زندگی گزارتے ہیں؟‘‘
’’تم نے ایک ہی سانس میں کئی سارے سوال کر دیئے ہیں پتر… خیر…! میں تمہیں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں تم سے یہ سوال کرتا ہوں کہ کیا انسان کی ازدواجی زندگی ہی سے اس کی تکمیل ہو جاتی ہے؟ پیدا ہوئے، جوان ہوئے، شادی کی، بچے پیدا کئے اور مر گئے‘‘۔ انہوں نے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’نہیں، فقط یہی زندگی کی تکمیل نہیں ہے‘‘۔ میں نے تیزی سے کہا تو وہ میری تصحیح کرتے ہوئے بولے۔
’’نہ پتر… بھٹکو نہیں، میں زندگی کی نہیں انسان کی بات کر رہا ہوں‘‘۔
’’ہاں، وہی انسان…!‘‘ میں نے خود کو درست کر لیا۔
’’حیوان بھی یہ سب کرتے ہیں اور زندگی وہ بھی جی رہے ہیں۔ تم نے مجھے خود بتایا کہ لوگ اس کی راہ میں کھڑے ہوتے ہیں۔ اس سے اپنی مراد میں مدد چاہتے ہیں اور تم بذات خود بریڈ فورڈ سے جھتوال صرف اس مقصد کے لیے گئے تھے۔ لوگ اسے عزت، احترام اور مان دیتے ہیں اور کیا ہوتی ہے معاشرتی زندگی؟‘‘ انہوں نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔ میں خاموش رہا تو وہ بولے۔’’ اور جہاں تک عورت کی تکمیل والی بات ہے نا پتر، رانجھا، رانجھا کرتے ہوئے جب کوئی خود رانجھا ہو جاتی ہے نا تو وہاں پر صنف نہیں رہتی۔ نہ کوئی مرد، نہ کوئی عورت، وہاں فقط انسان ہوتا ہے اور صرف انسان اور رب کا تعلق ہوتا ہے۔ جسم کے نچلے دھڑ، جیسے پیٹ کو ساری عمر بھرتے رہیں تو وہ نہیں بھرتا، بالکل ایسے ہی انسان کی جنسی ضرورت بھی ہے۔ ساری زندگی پوری کرتے رہو،نہیں پوری ہوتی، مگر یہ نری حیوانیت ہے۔ اسی حیوانیت سے نکلنے کا نام ہی تو انسانیت ہے۔ بدن کی پکار عورت اور مرد کی صنف کو الگ الگ خانوں میں بانٹتی ہے، لیکن جب انسان، انسانیت کی معراج تک جانے کے لیے خود کو تیار کر لیتا ہے تو انسان اور رب کا تعلق جڑ تا ہے۔ تب وہاں صنف نہیں، بندہ اور خدا ہوتا ہے اور تعلق ہو جاتا ہے‘‘۔ دادا نے سنجیدگی سے سمجھایا۔ میں بہت کچھ سمجھ تو گیا لیکن مجھے تو یہی ظاہر کرنا تھا کہ میں نہیں سمجھا۔ اس لیے بولا۔
’’دوسرے لفظوں میں آپ مجھے یہ سمجھانا چاہ رہے ہیں کہ کسی بھی صنف کو اپنی ازدواجی زندگی نہیں گزارنی چاہئے۔ بس اپنی صنف کو بھول جانے کے لیے رب رب کرتا رہے، یوں انسانیت کی تکمیل ہو جاتی ہے۔ کیا بات کرتے ہیں دادا آپ… کیا عورتوں کو اور مردوں کو ہندوبرہمچاریوں کی طرح ہو جانا چاہئے۔ پھر چل چکا قدرت کا نظام…‘‘
’’یہی تو میں تجھے سمجھانا چاہ رہا ہوں کہ رب کی ذات سے غافل ہونے کا نام حیوانیت ہے۔ اس کے ساتھ ہر حالت میں لو لگانے کا نام ہی انسانیت ہے۔ ازدواجی زندگی بھی رب کے حکم سے نبھائی جائے۔ کھانا پینا تک… اپنا عورت ہونابھی اسی کے تابع کر دے، اپنے عورت پن پر غرور نہ کرے۔ اپنی ہوس، اپنی بدن کی پکار لذت کے لیے نہ ہو، رب کی منشاء کے مطابق ہو۔ بالکل ایسے ہی مرد کے لیے ہو، اب اس میں برہمچاری پن کہاں سے آگیا؟ پیدا ہونے سے لے کرموت کے سفر تک میں رب ہی کے تابعداری کی جائے۔ یہی انسانیت ہے‘‘۔ دادا نے بڑے تحمل سے مجھے سمجھایا۔
’’تو بات گھوم پھر کر وہیں آجاتی ہے کہ امرت کو رکو کیا ملا‘‘۔ میں نے پھر سے بات چھیڑ دی۔
’’چل تُو بتا، تُو کہنا کیا چاہتا ہے۔ جس کے لیے تم نے اتنی بحث چھیڑی ہوئی ہے‘‘۔ دادا نے میرا اصل مقصد بھانپتے ہوئے کہا تو میں چند لمحے خود میں ہمت جمع کرتا رہا۔ پھر اعتماد سے کہا۔
’’دادا جی، میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ امرت کور سے شادی کرلیں‘‘۔ یہ کہہ میں نے تیزی سے کہا۔ ’’نہ… نہ… نہ… ابھی ہاں یا نہیں میں جواب نہیں دینا داداجی… پہلے میری پوری بات سننی ہے‘‘۔
’’چلو سنائو…! ‘‘ دادانے بیڈ کے ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے سکون سے کہا۔
’’دیکھیں…! اب نہ تو وہ ماحول رہا اور نہ ہی حالات… وقت بیت گیا۔ مگر آپ دونوں موجود ہیں اور اﷲ کرے آپ ہمارے سر پر سلامت رہیں۔ وہ آپ کو نہ ملتی۔ یہ الگ بات تھی۔ وہ آپ کو ملی، اس کے سارے حالات آپ پر واضح ہو گئے۔ اب تک جوآپ نے گفتگو کی ہے۔ اس کے مطابق، آپ بھی مانتے ہیں کہ اس کی توجہ آپ ہی کی طرف لگی ہوئی ہے اور وہ آپ ہی کی ہو کر رہی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ اب بھی آپ کو ویسے ہی چاہتی ہے۔ جیسے ان دنوں چاہتی تھی۔ میں آپ کی اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ ممکن ہے ماضی میں اسے محبت کا شعور ہی نہ ہو۔ وہ بدن کی پکار ہی کو محبت سمجھ رہی تھی، لیکن اب تو ایسا نہیں ہے۔ بدن کی پکار بھی تھی تووہ آپ کے لیے تھی، ورنہ وہ کسی کو بھی شریک زندگی بنا سکتی تھی۔ میں فقط یہ چاہتا ہوں کہ اب اسے اپنی محبت کا، اتنی زندگی کی ریاضت کا تپسیا کا پھل ملنا چاہئے۔ اسے سرخرو کر دیں، اس کی تکمیل کر دیں، وہ ناکام محبت کی حسرت لے کر اس دنیا سے نہ جائے‘‘۔
جس قدر میں نے جذبات میں کیا،دادا جی نے اسی قدر غیر جذباتی انداز میں پوچھا۔
’’یہی کہنا ہے یا ابھی کچھ اور باقی ہے؟‘‘
ان کے اس طرح کہنے سے مجھے یوں لگا، جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ یہ ہی بکواس تھی یا ابھی کچھ اور جھک مارنا چاہتے ہو۔ اس لیے میں تلملا کر بولا۔
’’دادا…! آپ کے نزدیک میری ان باتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟‘‘
’’ہاں، کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ تم نے مجھے اپنی بات سنانے کے لیے کہا ہے اور وہ میں سن رہا ہوں‘‘۔
’’ٹھیک ہے دادا جی، جب میری کسی بات کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے تو پھر کوئی بات سنانے کا فائدہ، جارہا ہوں میں…‘‘ میں نے اٹھتے ہوئے کہا تو وہ بولے۔
’’مگر اپنی بات مکمل تو کر لو، اگر تمہاری کوئی دلیل رہتی ہے تو وہ بھی کہہ دو‘‘۔
’’نہیں، میری کوئی دلیل نہیں ہے‘‘۔ میں نے غصے اور ناراضی میں کہا۔ اپنا لیپ ٹاپ اٹھایا اور کمرے سے باہر نکل آیا۔ میں نے پوری طرح انہیں غصہ دکھایا۔ میرا مقصد صرف یہی تھا کہ وہ فوراً کوئی جواب نہ دیں۔ بلکہ میری بات پر پوری توجہ … اور دھیان سے سوچیں۔ تبھی وہ کسی فیصلے تک پہنچ پائیں گے۔ اس لیے میں اپنے کمرے میں آ کر سکون سے سو گیا۔ کیونکہ اب جو کرنا تھا، وہ دادا کے اسی کے فیصلے کی بنا پر ہونا تھا۔
تقریبا تین چار دن میں دادا جی کے قریب نہیں گیا۔ انہیں موڈدکھایا۔ ان سے کسی بھی قسم کی بات نہیں کی۔ اگر ان سے آمنا سامنا بھی ہو جاتا تو میں انہیں طرح دے جاتا۔میرا مقصد ان پر دبائو ڈالنا نہیں تھا۔ بلکہ میں یہ چاہتا تھا کہ وہ جذباتی ہو کر بھلے سوچیں، مگر سوچیں ضرور۔ میں نے اپنے طور پر بہت کچھ سوچ لیا تھا۔ ان دنوں میری پریت کور اور بھان سنگھ سے طویل باتیں ہوتی رہیں۔ میں نے دادا سے ہونے والی گفتگو انہیں بتا دی۔ اس کے ساتھ میں نے ان کے لیے بھی سوالیہ نشان چھوڑ دیا کہ انہوں نے امرت کور سے بات کی؟ اس کا عندیہ کیا ہے؟ اس وقت میری پوزیشن یہ تھی کہ اگر داداجی مان جاتے اور وہ مجھے ہاں کہہ دیتے ہیں، تب امرت کور انکار کر دیتی ہے تو کیا ہو گا؟ امرت کور مان جاتی ہے اور دادا نہیں مانتے یہ صورت حال تو پہلے ہی تھی، اس میں کوئی نئی بات نہیں تھی۔ پریت کور نے وعدہ کر لیا تھا کہ وہ ایک دو دن میں امرت کور سے بات کرے گی۔ ان دنوں میں اسی کی طرف سے کسی اطلاع کا منتظر تھا۔
اس دن میں اپنے آفس میں تھا۔ میں نیٹ پر آن لائن تھا۔ زویا تو ہمیشہ ہی آن لائن رہتی تھی۔ میں گاہے بگائے اس سے بات کرتا رہتا تھا۔ کبھی کبھار تو لنچ کا پروگرام یونہی آن لائن ہی بن جاتا۔ عین وقت پر میں دفتر سے نکل جاتا اور وہاں پہنچ جاتا، جہاں زویا میرا انتظار کرر ہی ہوتی۔ ایسے ہی پریت کور آن لائن ہو گئی۔ اس وقت میں اتنا مصروف بھی نہیں تھا، سو حال احوال کے بعد اس نے بتایا۔
’’میری آج صبح صبح امرت کور سے بات ہوئی تھی۔ میں نے براہِ راست شادی کی بات تو نہیں کی، لیکن ایسے ہی باتوں ہی باتوں میں اس سے پوچھا تھا‘‘۔
’’کیا پوچھا تھا؟‘‘
’’میں نے ان سے سوال کیا کہ پاکستان ٹور میں انہیں نور محمد کو ملنے کا موقعہ ملا۔ ظاہر ہے وہ آپ کی محبت ہے۔ آپ کا جذباتی پن ہم سب نے دیکھا، کیا آپ کے دل میں یہ خواہش پیدا نہیں ہوئی کہ آپ وہیں نور محمد کے پاس رہ جاتیں‘‘۔
’’پھر کیا جواب ملا؟‘‘