اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

864,771FansLike
9,991FollowersFollow
565,300FollowersFollow
188,369SubscribersSubscribe

اُردو غزَل میں امکانات کا اِس قدَر وفور ہے کہ نیا لکھنے والوں کی اکثریت اِسی صنفِ اظہار کو اہم سمجھتی اور اِسی ہیئت میں طبع آزمائی کرتی ہے آج جہاں الیکٹرونک میڈیا نے مختلف ایجادات سے ہمیں روشناس کروایا ہے وہیں ادَب کے لیے بھی سپیس پیدا کی اور ادیبوں کو اُن کے قاری تک پہنچانا کا بیڑا بھی اُٹھا رکھا ہے اِسی سلسلے کی ایک کڑی خوبصورت اور تازہ کار شاعر سے آپ کی ملاقات کرواتے اور اِن کے بارے میں کچھ جانتے ہیں۔۔۔۔۔
ندیم احمد دنیائے شعر و سُخن میں ندیم قیس کے نام سے جانے اور اپنے منفرد کام کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں آپ 8 دسمبر 1982 میں روشنیوں کے شہر کراچی کے ایک علاقہ نارتھ ناظم آباد میں پیدا ہوئے آپ کے والد کا نام اکرام الدین ہے جو تقسیمِ ہند کے موقع پر اپنے خاندان سمیت میرٹ بھارت سے پاکستان منتقل ہوگئے تھے آپ ایک اہلِ زُبان گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنے آباء و اجداد ہی کی طرح ادَب کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتے ہیں آپ نے ابتدائی تعلیم خان کیمبرج اسکول سے حاصل کی جبکہ بعد ازاں کراچی یونیورسٹی سے BA کیا آپ سُخَن میں غزَل کو سب سے اہَم صنفِ اظہار تصور کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔
ندیم قیس کی شاعری میں جہاں آپ کو تازگی کا احساس مِلےگا وہیں آپ کو روایت سے جُرات کا احساس بھی ہوگا دُنیا کو اپنی نگاہ سے دیکھنے کا نتیجہ ہی یہ سب اشعار ہیں اِن اشعار میں مصرع کی تراش سے لے کر شعر کے مکمل پن تک آپ مختلف رنگ بکھرے ہُوئے محسوس کریں گے جو تمام رنگ ایک کینوس پر اکٹھے ہوکر ندیم قیس کی تصویر مکمل کرتے ہیں ہماری دعائیں اِس ابُھرتے ہُوئے شاعر کے ساتھ ہیں ۔۔۔۔۔
(آرب ہاشمی)

مٹی میں نمو پائی نہ افلاک پہ آیا
وہ رنگ جو درویش کی پوشاک پہ آیا

ترتیب سے بھیجے گئے دنیا میں پیمبر
میں جہل سے ہوتا ہُوا ادراک پہ آیا

آتا نہ کسی طور بھی وہ دستِ ہنر میں
جو دست بُریدہ کہ ترے چاک پہ آیا

محفوظ رہی دل کی زمیں آنکھ کے نم سے
دریاؤں کو غصہ خس و خاشاک پہ آیا

جب اِس نے بھیگوئے مرے رخسار مرے لب
تب مجھ کو یقیں دیدہء نمناک پہ آیا

اُدھڑا کوئی ٹانکا سا مرے زخمِ جگر کا
اور زور اچانک دلِ صدچاک پہ آیا

پلکوں پہ بٹھایا تھا جسے میرے نبی نے
اے دشتِ بلا وہ بھی تری خاک پر آیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے ہمراہ محبت کا حوالا گیا تھا
میں ترے شہر سے جس روز نکالا گیا تھا

کن ہواؤں میں مری روشنی بکھری ہوئی ہے
کن خلاوں میں مرا چاند اچھالا گیا تھا

اٹھ نہ جاتا تو یہی لوگ پرستش کرتے
میں ہی وہ بُت ہوں جو کعبے سے نکالا گیا تھا

میں نے ہی پیاس بجھائی ہے بیابانوں کی
دشت میں ساتھ مرے پاوں کا چھالا گیا تھا

گو بلندی کوئی معیار نہیں ہےلیکن
آسمانوں پہ ترا چاہنے والا گیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دِل کے اَندر جا سکتا ہوں
میں بھی اُسکو پا سکتا ہوں

اپنی سانسیں مجھ کو دے دو
میں گلشن مہکا سکتا ہوں

رات کو اپنے ساتھ ملاکر
تم کو خواب دکھا سکتا ہوں

اپنا لہجہ دھیما رکھو
میں بھی شور مچا سکتا ہوں

بیٹھے بیٹھے میں نے سوچا
میں بھی سوچا جا سکتا ہوں

تو بھی دھوکا کھا سکتا ہے
میں بھی دھوکاکھا سکتا ہوں

جنت کے دربان بتانا
کیا میں باہر جا سکتا ہوں

میرا بھاؤ بتانے والے
تیرے دام لگا سکتا ہوں

چھو مت لینا میں سپنا ہوں
میں بس دیکھا جا سکتا ہوں

مجھ سے باتیں کرکے دیکھو
میں باتوں میں آسکتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت جب سے ہے ہم رکاب مرا
منزلیں دیکھتی ہیں خواب مرا

جل اُٹھیں تیری یاد کی شمعیں
بجھ گیا مجھ میں آفتاب مرا

خواب در خواب ہیں مری آنکھیں
موج در موج ہے چناب مرا

ہو نہ جائے یہ دشت بھی ویران
کچھ کریں خانماں خراب مرا

دِکھ نہ جائے کہیں مرا چہرا
ہٹ نہ جائے کہیں نقاب مرا

میں اسے بھول کر بھی زندہ ہوں
حوصلہ دیکھیے جناب مرا

کون دیکھے گا میرے خواب ندیم
کون لائے گا انقلاب مرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا بنایا تھا کیا بنا ہوا ہے
جس کو دیکھو خدا بنا ہوا ہے

یعنی کچھ بھی نہیں ہمارے بیچ
یعنی اک راستا بنا ہوا ہے

خود تراشہ ہے تو نے آدم کو
یہ ترے ہاتھ کا بنا ہوا ہے

جس جگہ پر کبھی مرا گھر تھا
اب وہاں جانے کیا بنا ہوا ہے

بات کر تاکہ یہ کُھلے مجھ پر
تُو ہے درویش یا بنا ہوا ہے

ساتھ میرے اسے بھی دفن کرو
جو پسِ آئینہ بنا ہوا ہے

کیا کوئی آپ سا بنا ہوا تھا
یا کوئی آپ سا بنا ہوا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرائی چھت پہ اُتارے ہوئے پرندے ہیں
ہم اپنے بخت سے ہارے ہوئے پرندے ہیں

تم ان کے خاک میں بکھرے پروں پہ مت جانا
ہوا میں عمر گُذارے ہوئے پرندے ہیں

اُڑا کے کون اِنہیں ساحلوں پہ لے آیا
یہ کس کے ہجر کے مارے ہوئے پرندے ہیں

عجب نہیں کے پسِ آسماں بھی جا نکلیں
تمھارا نام پکارے ہوئے پرندے ہیں

ہمارا حال کوئی مختلف نہیں اِن سے
قفس میں عمر گُذارے ہوئے پرندے ہیں

سخن سے خاص تعلق ہے ان فرشتوں کا
غزل کا روپ جو دھارے ہوئے پرندے ہیں

شجر ہُوں قیس مِری شاخ پر ہے گھر اِن کا
ہَوا ہے تو سو تمھارے ہوئے پرندے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دشت میں کون کہاں کس کے لیے زندہ ہے
وقت کا سیلِ رواں کس کے لیے زندہ ہے

سانس لیتا ہوں کے کچھ قرض چکانا ہے ابھی
میَں تو زندہ ہوں جہاں کس کے لیے زندہ ہے

آکے رکتی ہے میری فکر اِسی نکتے پر
تو یقیں ہے تو گماں کس کے لیے زندہ ہے

روز میں اس کے تعاقب میں نِکل پڑتا ہوں
مجھ میں ہوتی ہے اذاں کس کے لیے زندہ ہے

جا کہیں اور جلا اپنی امیدوں کے چراغ
کون آتا ہے یہاں کس کے لیے زندہ ہے

کیا مِرے بعد بھی آئے گا کوئی محفل میں
بجھ چلی شمع دھواں کس کے لیے زندہ ہے

قیس دیوار کے سائے میں سکوں نام کی چیز
مجھ سے کہتی ہے میاں کس کے لیے زندہ ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئنے سے اثر لیا گیا ہے
خود کو تسلیم کر لیا گیا ہے

رزق اُترے گا آسمانوں سے
کھیت پانی سے بھر لیا گیا ہے

کوئی آواز بھی نہیں آتی
کس خرابے میں گھر لیا گیا ہے

سُن رہا تھا کوئی ہماری بات
در کو دیوار کر لیا گیا ہے

نقش کرنا تھا خود کو کاغذ پر
رنگ امکان بھر لیا گیا ہے

کون نیزے پہ بولتا ہے قیس
دشت سے کس کا سر لیا گیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھ میں اکثر چراغ جلتے ہیں
اور شب بھر چراغ جلتے ہیں

سب سے پہلا جلایا تھا مَیں نے
اب تو گھر گھر چراغ جلتے ہیں

کیوں مِرے دل میں تیرگی ہوگی
جب بہّتر چراغ جلتے ہیں

ہم نے پانی سے بھی جلائے ہیں
بندہ پرور چراغ جلتے ہیں

چمنیوں سے دھواں نکلتا ہے
مِل میں اکثر چراغ جلتے ہیں

میری آنکھوں میں جھانک کر دیکھو
میرے اندر چراغ جلتے ہیں

پوچھتی ہے یہ تیرگی اکثر
مجھ سے کیوں کر چراغ جلتے ہیں

سانس لینا زرا سنبھل کے تم
اُنکے در پر چراغ جلتے ہیں

قیس کہتا ہے اِک شرر مجھ سے
تجھ سے بہتر چراغ جلتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شعر کہنے کا فن مِلا ہوا ہے
خامشی میں سخن مِلا ہوا ہے

اُسکے ہونٹوں کی ذیل میں مجھ کو
رنگِ لعلِ یمن مِلا ہوا ہے

عکس ترتیب پا رہے ہیں مرے
آئینے کو بدن مِلا ہوا ہے

سر بہ سر رقص میں مگن ہے ہوا
شہزادی کو بن مِلا ہوا ہے

باغ کی سیر میں برائے خیال
حُسنِ سرو و سمن مِلا ہوا ہے

خاک اُڑاتا ہے وقت لمحوں کی
زیست کو پیرہن مِلا ہوا ہے

قیس تم بچ نہ پاؤ گے ہرگز
راہ سے راہزن مِلا ہوا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔