اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

843,829FansLike
9,979FollowersFollow
561,200FollowersFollow
181,482SubscribersSubscribe

شمالی کوریا کا خوبصورت چہرہ جو اب تک دنیا کی نظرسے اوجھل رہا

شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کو دنیا کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے میزائل چلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ان کے اسلحہ خانے میں کئی دوسرے طاقتور ہتھیار بھی ہیں۔ یہ ہتھیار ان کی مشینیں نہیں بلکہ یہ ان کی خواتین سفیر ہیں۔ان میں سے حال میں سب سے زیادہ سرخیوں میں رہنے والی ان کی بہن کم یو جونگ ہیں۔ کم یو جونگ نے جنوبی کوریا کے ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کیا اور ان کے ذہن و دل پر چھا گئیں۔جب انھوں نے اپنے بھائی کے پیغام کے ساتھ جنوبی کوریا کے ایوان صدر میں قدم رکھا تو ٹی وی پر ان کے ہر انداز کو دکھایا گيا۔کم یو جونگ کے زرق برق لباس، ان کی زلفیں اور ان کے انداز کی امریکہ میں بھی گونج سنی گئی اور ٹی وی چینلوں پر پابندی کے باوجود وہ موضوع بحث رہیں۔شمالی کوریا کی چیئر لیڈرز جنوبی کوریا میں منعقدہ سرمائی اولمپکس میں لوگوں کی توجہ کا مرکز تھیںکم یو جونگ نے جب جنوبی کوریا کے پیونگچین میں منعقدہ سرمائی اولمپکس میں شرکت کی تو ناظرین کی نگاہیں اور ان کے موبائل ان کی طرف گھوم گئیں اور وہ پراسرار ملک کے انسانی چہرے کے طور پر سامنے آئیں۔ایک نوجوان نے کہا: ‘یہ حیرت انگیز ہے، معجزہ ہے۔ میں نے شمالی کوریا کا یہ چہرہ پہلے کبھی نہیں دیکھا۔’ دوسرے نے کہا: ‘میرا دل پگھل رہا ہے۔’خیا رہے کہ وہ پیونگچین میں اپنے بھائی کی شبیہ بدلنے آئی تھیں اور انھوں نے میڈیا میں کم از کم اپنے ملک کی تصویر تو بدل دی۔پیانگ یانگ میں خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے سابق بیورو چیف ژاں لی کہتے ہیں: ‘جنوبی کوریا کے لوگوں کے لیے یہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کی بہن کم یو جونگ نے جنوبی کوریا میں لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کیا اور شمالی کوریا کا انسانی چہرہ پیش کیاژاں لی کہتے ہیں: انھوں نے خوبصورت ترین خاتون کو یہاں بھیجا۔ جب آپ شمالی کوریا جائیں گے ہیں، تو ایسی خوبصورت خواتین آپ کو لبھائیں گی۔ان کا یہی کام ہے کہ وہ لوگوں کو احساس دلائيں کہ ان کا ملک اور وہاں کے لوگ اتنے برے نہیں ہیں۔’شمالی کوریا کی امیج بدلنے کا کام کچھ دن قبل شروع ہوا جب خواتین کا ایک گروپ جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول پہنچا۔شمالی کوریا کی ‘حسن کی فوج’ جب جنوبی کوریا پہنچی تو جنوبی کوریا کے خوبصورت نظر آنے کی چاہ رکھنے والی آبادی کی توجہ اپنی جانب کھینچی۔شمالی کوریا کے چیئر لیڈرز کو کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے ملک کا وقار بڑھانے کے لیے وہاں ہیںشمالی کوریا کی چيئرليڈر گروپ کی سابق رکن ہین سوہے نے بتایا: ‘ہم لوگوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ ہم یہ ظاہر کریں کہ شمالی کوریا ایک سماجی اور خود کفیل ملک ہے۔ یہ امید کی جاتی ہے کہ ہم دشمنوں کے دل میں اترنے جا رہے ہیں اور یہ ظاہر کرنا ہوتا ہے کہ ہم میں غیور ہیں۔ہین سوہے کو اس وقت شمالی کوریا چھوڑنا پڑا جب ان کے بھائی کو ملک بدر کر دیا گیا۔ اگر وہ وہاں رہتیں تو انھیں اور ان کے خاندان کو قید کی سزا ہوتی۔ اب وہ جنوبی کوریا میں آباد ہیں۔وہ شمالی کوریا میں ٹریننگ کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں: ‘ہم لوگوں کو بتایا جاتا تھا کہ آپ دوسرے ملک میں اپنے ملک اور اپنے لیڈر جنرل کم کا احترام بڑھانے جا رہے ہیں۔ میری ساتھی کہتی تھی کہ وہ اپنے ملک کو نہ بھولے اس لیے وہ سوٹ کیس میں اپنے ملک کی مٹی اور کم جونگ کے والد کا ایک چھوٹا سا مجسمہ ساتھ لائی تھی۔’جہاں جنوبی کوریا کی چیئر لیڈرز مختصر سکرٹ اور بوٹوں میں رقص کرتی نظر آئیں وہیں شمالی کوریا والے وطن پرستی کے نغمے سے حوصلہ افزائی کرتے نظر آئے۔شمالی کوریا کی چیئر لیڈرز کو یہاں دیکھا جا سکتا ہے جو لوگوں کو متاثر کرنے کی پوری تیاری میں نکلی ہیںتمام چیئر لیڈرز بس سے نیچے آ کر پرچم کو بچانے لگيں۔ جنوبی کوریا کے لوگوں کے لیے یہ عجیب بات تھی۔ یہ فرق شمالی اور جنوبی کوریا میں ہے۔’شمالی کوریا کے امور کے ماہر ایان بریمر نے ٹویٹ کیا: ‘شمالی کوریا کی چیئر لیڈرز نے حیرت انگیز کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔’لیکن وہ ایک مجرم ملک میں یرغمال ہیں اور یہ یہ دل کو افسردہ کرنے والی بات ہے۔’بہر حال ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شمالی کوریا کی لبھانے کی قوت کی اپنی حدیں ہیں۔