اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

876,964FansLike
9,999FollowersFollow
568,500FollowersFollow
191,068SubscribersSubscribe

خواجہ سراؤں کا کیفے سنسان۔

‘ہمیں ہر سال آڈٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ضابطے کے تحت ٹینڈر کے بغیر کسی کو کیفے چلانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ بہت سختی ہے۔ میں نے کیفے کی منتظم کو کہا اس بار ٹینڈر بھریں لیکن اب تاریخ گزر چکی ہے۔ خواجہ سرا اب میڈیا کے ذریعے ہم پر دباؤ ڈال رہے ہیں مگر اس میں ہماری کوئی غلطی نہیں۔ انھیں بھی سمجھنا چاہیے کہ ہم نے ہی انھیں جگہ دی تھی اور میڈیا انھیں ہماری وجہ سے ہی جاننے لگا تھا۔‘لیکن اسی کالج میں سنہ 2015 میں ڈائریکٹر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دینے والے ڈاکٹر ندیم عمر تارڑ جن کی کاوشوں سے اس کیفے کو خواجہ سراؤں کے حوالے کیا گیا تھا کا کہنا ہے کہ ‘اُس وقت سال بعد ٹینڈر بھرنے کی کوئی بات نہ زبانی ہوئی تھی اور نہ ہی تحریری۔ کالج میں ٹینڈر کے تحت ایک کیفے پہلے سے موجود تھا لیکن جوبن فوڈ کورٹ کا مقصد فقط خواجہ سراؤں کو ایک باعزت کام کرنے کا موقع دینا تھا۔’اس کیفے میں ببلی کے ہمراہ کل پانچ خواجہ سرا اور تین لڑکے کام کرتے تھے۔نوکری نہ ملنے پر پریشان ایم بی اے فنانس کرنے والی عیشا نے کیفے میں کام شروع کیا اسی طرح شرمیلی اور دیا نے بھیک مانگنے کے بجائے ببلی کے ساتھ کیفے سنھبال کیا جبکہ شادو یہاں پراٹھے بنا کر محنت مزدوری کرنے لگیں۔ندیم عمر تارڑ نے کہا کہ کالج کے دروازے خواجہ سراؤں کے لیے کھولنا اتنا آسان نہیں تھا کیونکہ ہمارے معاشرے میں اس کمیونٹی کے ساتھ اچھا رویہ نہیں برتا جاتا اور اس کے لیے طلبا و طالبات کو خاص طور پر گائیڈ کیا گیا۔آنے والے عرصے میں ہم نے نہ صرف کالج کے سٹوڈنٹس بلکہ والدین کی جانب سے بھی مثبت ردعمل کا اظہار دیکھا۔’جوبن کیفے کو 23 اکتوبر 2015 کو بند کر دیا گیا اور ابتدائی طور پر وجہ حلیم میں روئی کی موجودگی بتائی گئی۔این سی اے کا جوبن کیفے اب ویران ہے۔ طلبا و طالبات کیفے کی بندش سے لاعلم اور انتظامیہ کی تبدیلی کے بعد سے کالج کے ماحول میں در آنے والی غیر معمولی انتظامی سختی کی وجہ سے بات کرنے سے کتراتے دکھائی دیے۔چند سٹوڈنٹس سے جوبن اور اس کے سٹاف کے بارے میں بات ہوئی تو ان میں سے ایک نے کہا ‘کہ ببلی آنٹی اور ان کا سٹاف بہت اچھے طریقے سے پیش آتا تھا ہماری ان سے بہت اچھی دوستی تھی۔’ایک طالبہ نے بتایا کہ ’کالج میں داخلے کے وقت جب دو برس پہلے تعارفی سیشن ہوا تو ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ یہاں موجود خواجہ سراؤں سے اچھے انداز میں بات کرنی ہے ان کی تضحیک نہیں کرنی ورنہ کالج سے بے دخل کر دیا جائے گا۔ ‘کسی نے کہا کہ ‘اس کیفے میں ہمیں کھانے کے لیے حلیم، پراٹھا بہت کچھ ملتا تھا جسے اب ہم مِس کرتے ہیں۔ ہمیں کبھی کیفے انتظامیہ سے کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ لیکن نجانے کیوں کیفے کو اچانک بند کر دیا گیا۔’ایک طالبہ نے حلیم میں روئی کے الزام پر حیرت کا مظاہرہ کیا اور کہا کہ ’ہم بچے تو نہیں، سارا کالج کیفے سے کھانا کھاتا تھا کبھی ایسا محسوس نہیں ہوا ہوتا تو ہم خود شکایت کرتے۔کچھ طلبا نے اس وقت یونیورسٹی انتظامیہ سے یہ کیفے دوبارہ کھولنے کا مطالبہ بھی کیا تھا تاہم انھیں یہ تسلی دے کر خاموش کروا دیا گیا کہ جلد اس سلسلے میں کچھ کیا جائے گا۔دوسری جانب جوبن کا سٹاف اب طویل انتظار کے بعد مایوسی کا شکار نظر آتا ہے۔ خواجہ سرا اب ایک بار پھر یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ اب کس طرف جائیں۔ کیا وہ پھر سے بھیک مانگنے لگیں یا پھر فنکشن میں لوگوں کے برے برتاؤ کا سامنا کرنے کے لیے خود کو تیار کریں۔
حمیرا کنول