اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

855,155FansLike
9,985FollowersFollow
564,000FollowersFollow
183,255SubscribersSubscribe

دنیا کے گیارہ بڑے شہر جو پانی کی کمی کا شکار ہیں

دنیا کے ستر فیصد حصے پر پانی پھیلا ہوا ہے لیکن اس میں سے صرف تین فیصد ہی پینے کے قابل ہے۔ پینے کا یہ پانی آبادی میں اضافے، آلودگی اور کئی دیگر وجوہات کی بنا پر انسانی نسل کے لیے ناکافی ہوتا جا رہا ہے۔ایک تحقیق کے مطابق دنیا میں ایک ارب لوگوں کو پانی کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے اور 2.7 ارب انسان ایسے ہیں جنھیں سال کے کم از کم ایک مہینے میں پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ورلڈ بینک نے پانی کی کمی کی تعریف متعین کر رکھی ہے، یعنی جب فی کس صاف پانی کی مقدار دس لاکھ لیٹر سالانہ سے کم ہو جائے۔ جنوبی افریقہ کا شہر کیپ ٹائون وہ پہلا شہر ہے جہاں پانی کی شدید کمی واقع ہو چکی ہے۔ کیپ ٹائون کے علاوہ بھی دنیا کے کئی بڑے شہر ایسے ہیں جہاں پانی کی کمی واقع ہو چکی ہے۔سائو پائولو۔برازیل کا صنعتی شہر سائو پائولو دنیا کے ایسے شہروں میں شامل ہے جہاں پانی کی کمی ہے۔ 2015ء کا سال سائو پائولو کے لیے بھی کیپ ٹائون کی طرح تھا جب شہر میں پانی کی مقدار انتہائی حد تک کم ہو گئی تھی۔ اس وقت اس شہر میں صرف اتنا پانی موجود تھا جو بیس دن تک دو کروڑ سترہ لاکھ کی اس آبادی کے لیے کافی تھا۔ حکومت کو پانی کے ٹینکوں کی حفاظت کے لیے پولیس تعینات کرنی پڑ گئی تھی۔بنگلور۔بنگلور میں آبادی میں اضافے کے بائث پانی کی کمی واقع ہوئی ہے۔ شہر میں پانی کی ترسیل کا نظام بھی فرسودہ ہے، صاف پانی کی آدھی مقدار پانی کی ترسیل کے دوران ضائع ہو جاتی ہے۔ گھروں میں جو پانی پہنچتا ہے وہ بھی آلودہ ہوتا ہے۔بیجنگ۔چین کو مجموعی طور پر بھی پانی کی قلت کا سامنا ہے مگر اس کا دارالحکومت بیجنگ ان شہروں میں شامل ہے جہاں پانی کی شدید کمی ہے۔ 2014 میں بیجنگ کے دو کروڑ شہریوں کو صرف ایک لاکھ پینتالیس ہزار لیٹر پانی سالانہ دستیاب تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق بیجن کا چالیس فیصد پانی اتنا آلودہ ہے کہ اسے صنعتی اور ذرعی استعمال کے لیے بھی مضر سمجھا جاتا ہے۔قاہر ہ۔ ہا قوامِ متحدہ کے مطابق مصر کے شہر قاہرہ میں 2025ء تک پانی کی شدید کمی واقع ہو جائے گی۔ قاہرہ شہر کو 97 فیصد پانی کی فراہمی دریائے نیل کرتا ہے لیکن اب اس دریا کو شدید آلودگی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے شہر کے لوگ آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔جکارتا۔انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتا میں پینے کے پانی کے لیے زیرِ زمین موجود صاف پانی کے ذخائر پر انحصار کیا جاتا ہے جس کی سطح اب بہت کم ہو چکی ہے۔ اب جکارتا کا شمار بھی پانی کی شدید کمی والے شہروں میں کیا جاتا ہے۔ماسکو۔ماسکو میں زیرِ زمین پانی پر انحصار کیا جاتا ہے جس کی آلودگی کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ مقامی اداروں کے مطابق روس کے پانی کا 35 سے 60 فیصد حصہ آلودہ ہے۔ اس کی وجہ سوویت دور میں کی جانے والی زرعی توسیع کو گردانا جاتا ہے۔ ماسکو کا 70 فیصد پانی زمین کی سطح سے حاصل ہوتا ہے، جو زیادہ آسانی سے آلودہ ہو جاتا ہے۔استنبول۔استنبول میں 30 فیصد تک پینے کے پانی کی کمی واقع ہو چکی ہے۔ ماہرین کے مطابق 2030ء تک استنبول میں پانی کا شدید بحران ہو سکتا ہے۔ حالیہ برسوں میں سال کے خشک مہینوں میں استنبول کے شہریوں کو شدید پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔میکسیکو۔میکسیکو کے باسیوں کے لیے پانی کی کمی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہر پانچ میں سے ایک میکسکن شہری کو ہفتے میں صرف ایک بار کچھ گھنٹوں کے لیے نلکوں کے ذریعے پانی حاصل ہوتا ہے۔ شہر کی انتظامیہ لوگوں کی ضرورت کا چالیس فیصد پانی دور دراز کے علاقوں سے حاصل کرتی ہے لیکن اب تک شہر میں پانی کی ریسائیکلنگ کا کوئی بڑا نظام موجود نہیں ہے۔لندن۔لندن کا شمار بھی ان شہروں میں ہوتا ہے جہاں پانی کی کمی ہے۔ ماہرین کے مطابق 2050ء تک لندن شہر میں پانی کی کمی ہونا شروع ہو جائے گی جبکہ 2040ء تک یہ مسئلہ بھرپور شدت اختیار کر سکتا ہے۔ٹوکیو۔جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں سال کے صرف چار ماہ بارش ہوتی ہے۔ ٹوکیو میں 750 نجی و سرکاری عمارتوں میں بارش کے پانی کے ذخیرہ کرنے کا نظام موجود ہے۔ اس کے باوجود ٹوکیو اپنے شہریوں کو پانی کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔میامی۔فلوریڈا امریکہ کی ان ریاستوں میں شامل ہے جہاں بہت زیادہ بارشیں ہوتی ہیں لیکن اس کا ایک شہر میامی پانی کی قلت کا شکار ہے۔ اس شہر کے پینے کے پانی کے ذخائر میں سمندری پانی کی ملاوٹ کی وجہ سے یہاں پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پاکستان میں ابھی تک کوئی شہر رپورٹ نہیں ہوا۔