اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

865,006FansLike
9,992FollowersFollow
565,300FollowersFollow
188,369SubscribersSubscribe

پتنگ بازی اور جان لیوا حادثات !!!

چند روز سے مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پتنگ بازی کے خلاف بہت سے سوشل میڈيا صارفین نے اس قاتل پتنگ بازی کی اپنے اپنے انداز میں خوب مزمت کی۔

حالیہ فیصل آباد میں ایک نوجوان کی دھاتی ڈور کی وجہ سے چند لمحوں میں سڑک کنارے ہلاکت نے ہم سب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور ہم سب اس ویڈیو کو دیکھ کر ذہنی طور پر بالکل اس قابل نہ رہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ اس کے محرکات و اسباب کیا ہیں؟ ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے کونسے اقدامات انتہائی ضروری ہیں؟ کیا انتظامیہ اپنے فرائض پوری دیانتداری سے سر انجام دے رہی ہے؟

میری ہمدردیاں ظاہر ہیں ایسے خاندانوں کے ساتھ ہیں جنھوں نے پل بھر میں اپنے پیاروں کو اپنی آنکھوں کے سامنے تڑپتے اور جان دیتے دیکھا ہے۔ جس کا مداوا کسی بھی صورت میں ممکن نہیں۔ مجھے مکمل یقین ہے کہ ہم سب اس طرح کا سانحہ دوبارہ نہیں دیکھنا چاہتے۔ ہم سب کو اس مسئلہ پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور و فکر کرنا چاہیے اور اس کا مستقل حل تلاش کرنا چاہیے تاکہ آئندہ ایسے حادثات سے اپنے پیاروں کو محفوظ رکھا جا سکے۔

معزرت کے ساتھ ہمارے ہاں یہ روایت چل نکلی ہے کہ ایک مسئلے کو حل کرنے کے لئے ايک نیا مسئلہ پیدا کر دیا جاتا ہے ہمارا مسئلہ پتنگ بازی نہیں ہے بلکہ ایسی قاتل ڈور سازی ہے جو لوگوں کو قتل کر رہی ہے۔ کیا انتظامیہ کو خبر نہیں کہ ایسی قاتل دھاتی ڈور کہاں کہاں تیار کی جاتی ہے؟ یقیناً انہیں علم ہے۔ ان کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کی جاتی یہ انتظامیہ بہتر طور پر بتا سکتی ہے۔

latest urdu news

ہم نے بھی بچپن میں پتنگیں اڑائیں ہیں اور یہ بچوں کی پسندیدہ مصروفیت ہوتی تھی لیکن ہمارے دور میں مچھلی کا شکار کرنے والی ڈور پتنگ بازی کے لئے نہ تیار ہوتی تھی نہ استعمال ہوتی تھی۔ عام سے دھاگے کو مانجا بنا کر فروخت کیا جاتا تھا جو کسی بھی لحاظ سے کسی کے لئے نقصان کا باعث نہ تھا۔

اصل مسئلے کی ابتدا مچھلی ڈور کو پتنگ بازی کے لئے تیار کرنا اور اس کے استعمال سے ہوئی۔ لہذا اس ڈور کی تیاری پر قانون کو اپنی گرفت انتہائی سخت کرنے کی دورِ حاضر میں اشد ضرورت ہے۔

چھوٹے بچوں اور چھوٹے دکانداروں پر ایف آئی آر دینا مسئلہ کا مستقل حل نہیں ہے بلکہ ایسے افراد جو قاتل ڈور سازی میں ملوث ہیں انکو کڑی سزا دلوانا مستقل حل ہے۔

کیا آج سے چالیس پچاس سال قبل بچے پتنگیں نہیں اُڑاتے تھے؟ بچے اس وقت بھی پتنگیں اڑاتے تھے لیکن کبھی ایسا جان لیوا حاثہ ڈور کی بناء پر نہیں ہوا تھا ہاں کبھی کبھار کوئی بچہ چھت سے گر کر اپنے آپ کو زخمی کر لیتا تھا جس کی شرح بھی انتہائی پست ہوتی تھی۔

مسئلہ انتظامیہ کا ہے جو مبینہ طور پر اپنا ماہانہ بھتہ وصول کرنے کے بعد ہر غیر قانونی، غیر اخلاقی فعل کرنے کی اجازت خاموشی کی صورت میں دیتی ہے اگر ایسا نہیں ہے تو یہ مجرمانہ غفلت ہے اور ایسے ذمہ داران کے خلاف محکمانہ کاروائی ہونا ناگزیر ہوچکا ہے۔

بقول فیض احمد فیض

جوکوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد

تحریر:
چوہدری نصیراحمد