محمد سلیم قمر دنیائے شعروادب میں قمر صدیقی کے نام سے پہچانے جاتے ہیں جائے پیدائش گوجرانوالہ ہے آج کل کھاریاں ضلع گجرات میں رہائش پذیر ہیں ابتدائی تعلیم اپنے نانا ماسٹر نذیرالحق مرحوم جو کہ ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر تھے سے گھر پرحاصل کی بعد ازاں میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول گوجرانوالہ جبکہ گریجویشن گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ سے کی ۔ زمانہ طالبعلمی میں بہترین مقرر رہے ہیں اور گولڈ میڈلسٹ ہیں پروفیسر محمد احمد شاد ایم اے نے اپنی معرکۃ الآرا تصنیف ” حسن بیان ” میں قمر صدیقی کو پاکستان کے بہترین مقررین میں شمار کیا ہے زمانہ طالب علمی سے ہی شاعری اور نثر دونوں میں طبع آزمائی کرتے رہے ہیں شاعری کے ساتھ ساتھ مختلف اخبارات کیلئے کالم بھی لکھتے ہیں ۔ ذیل میں ان کے کلام سے منتخب اشعار /قطعات پیش کئے جا رہے ہیں ۔
——————
اندھیروں کو اجالےلکھ رہے ہیں
بڑے مبہم حوالے لکھ رہے ہیں
حقیقت سے جو مطلق بے خبر ہیں
حقائق پر مقالے لکھ رہے ہیں
——————
کو بکو ، دربدر ، جستجو کا سفر
کس قدر ہے کٹھن آرزو کا سفر
بیج سے شاخ تک،شاخ سے پھول تک
پھول سے پوچھئے رنگ و بو کا سفر
——————
کُن کے بطنِ بطون سے نکلا
اک تسلسل ہوں کب ٹھہرتا ہوں
موت تو اک پڑاوْ ہے یارو
سانس لے لوں تو پھرنکلتا ہوں
——————
آگہی کے مقابلے میں سدا
جہل نے دربدر گدائی کی
الاماں خوف وہ عقیدہ ہے
جس نے ہر دور میں خدائی کی
——————
گھپ اندھیرا ہے ہائے کیا ڈوبا
شمس تاباں کہ میری بینائی
ہم نے اک دوسرے کو اوڑھ لیا
میں اداسی تھا اور وہ تنہائی
——————
علی اصغر ہو اکبر ہو کہ حیدر
علی ہر روپ میں شیر خدا ہے
——————
جب بھی آنکھوں میں خواب اترے ہیں
شہر جاں پر عذاب اترے ہیں
——————
زندگانی کی بات کیا کرتے
نقش فانی کی بات کیا کرتے
بڑھ گئی جس سے بے کلی دل کی
اس کہانی کی بات کیا کرتے
آنکھ اپنی تھی خوگر طوفاں
ٹھہرے پانی کی بات کیا کرتے
جس کا دامن نہ عشق سے بھیگا
اس جوانی کی بات کیا کرتے
دل کا موسم اداس تھا جاناں
رُت سہانی کی بات کیا کرتے
ہم اسیران موسم ہجراں
شادمانی کی بات کیا کرتے
——————
تازہ ترین