اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

864,222FansLike
9,990FollowersFollow
565,200FollowersFollow
188,369SubscribersSubscribe

خوش آمدید برٹش کونسل لائبریری ۔۔۔ (زاہدہ حنا)

اگست 1947ء میں پاکستان قائم ہوا اور کراچی کو اس کا دارالحکومت قرار دیا گیا، اس وقت شہر کی آبادی صرف ساڑھے تین لاکھ تھی۔ ایک پُرامن اور خوشحال شہر، پارسیوں، انگریزوں، ہندوؤں اور مسلمانوں نے اسے ایک تہذیبی اور ثقافتی شہر بنانے کی اپنی سی کوشش کی تھی جس میں لائبریریاں، تھیٹر، سینما گھر، پارک اور کلب سب ہی اپنی بہار دکھاتے تھے۔
اس شہر کو انیسویں صدی میں انگریزوں نے فتح کیا تھا لیکن اس کے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا جو فاتحین مفتوح شہروں کے ساتھ کرتے ہیں۔ اس کے برعکس انھوں نے اسے سجایا سنوارا، ’ملکہ مشرق‘ کے نام سے پکارا اور نہایت شاندار عمارتیں بنائیں جو اس کی شوبھا میں اضافہ کرتی رہیں۔
برطانوی پرچم اس کی عمارتوں سے اترگیا، تہہ کرکے تاریخ کے صندوق میں رکھ دیا گیا لیکن انگریزوں کے دل سے اس شہر کی محبت نہ گئی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اپنی حکومت کے رخصت ہونے کے صرف ایک برس بعد انھوں نے یہاں برٹش کونسل قائم کی جس میں ہزاروں کتابیں تھیں، دور دور سے رسائل و جرائد یہاں آتے تھے اور لوگ ذوق و شوق سے برٹش کونسل کے ممبر بنتے تھے۔ شہر میں کراچی جم خانہ اور سندھ کلب کی لائبریریاں بھی تھیں لیکن وہاں کی کتابوں تک صرف ان ہی لوگوں کی رسائی تھی جو اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے اور ان دونوں کلبوں کے ممبر تھے۔
تھیوسوفیکل لائبریری میں قدیم و جدید کتابیں تھیں۔ یوں سمجھئے کہ شہر میں کتابوں کی لہر بہر تھی۔ کچھ لوگوں نے آنہ لائبریریاں قائم کیں، جن سے عوام استفادہ کرتے تھے۔ ایک آنہ روز پر اگر اچھی اور دلچسپ کتابیں پڑھنے کے لیے مل جائیں تو اس سے بھلی بات اور کیا ہوگی۔ یہ آنہ لائبریریاں شہر کے ہر محلے میں پھیلی ہوئی تھیں۔ نوجوان، بوڑھے ، لڑکیاں اور برقع پوش خواتین سب ہی اس کی ممبر ہوتیں اور اپنا مشکل وقت طرح طرح کی کتابوں میں سوتے جاگتے کاٹ دیتیں۔
پھر شہر پر عذاب اترے، لسانی، فرقہ وارانہ اور مسلکی اختلافات کے عذاب، آہستہ آہستہ آنہ لائبریریاں بند ہونے لگیں۔ شہر جب تین اور چار دن کے لیے بند ہونے لگے، آسمان پر جب جلتی ہوئی دکانوں، گاڑیوں اور سلگتے ہوئے ٹائروں کا گاڑھا دھواں پھیلتا ہو، جب عورتیں اور مرد دودھ دہی، اناج سبزی اور گوشت کے لیے مارے پھرتے ہوں تو کتابوں کی تلاش میں کون نکلے گا۔
برٹش کونسل لائبریری کو بھی ایک جگہ سے دوسری اور پھر تیسری جگہ منتقل ہونا پڑا۔ میٹرک کرنے سے پہلے ہی میں اس کی رکن بن گئی تھی۔ ممبر شپ تو میرے پاس یو ایس آئی ایس کی بھی تھی لیکن ہمارے ایک طالبعلم رہنما کا سارا غصہ امریکی سینٹر پر نکلا۔ وہ جلوس لے کر نکلے اور پھر امریکن سینٹر کی کتابیں لوٹ لی گئیں، جلادی گئیں۔ اس کا وہ آڈیٹوریم جس میں ہم نے انسان کے چاند پر اترنے کا منظر دیکھا، جہاں کلاسیکی امریکی فلموں کا ذائقہ چکھا تھا، وہ سب دھواں دھواں ہوا۔ اسلام آباد میں بھی امریکن سینٹر جلایا گیا، سامان لوٹا گیا، کتابیں آگ کے سپرد ہوئیں۔ کیا کراچی، کیا لاہور اور اسلام آباد ہم نے ہر جگہ کتابوں کے ساتھ برا سلوک کیا۔
یہ کچھ ہم پر ہی منحصر نہیں ہے، بیسویں صدی میں جہاں انسانوں پر اور ان کی آبادیوں پر قیامت نازل ہوئی، وہیں کتب خانے بھی ابتلا کا شکار ہوئے۔ ڈاکٹر شیر شاہ سید نے اپنی کتاب ’’آگہی کے چراغ‘‘ میں زمانۂ قدیم سے زمانۂ حال کے مشہورو معروف کتب خانوں پر گزرنے والے عذابوں کا قصہ لکھا ہے لیکن اگر ہم صرف بیسویں صدی کے واقعات پر ہی نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ:
٭کیتھولک یونیورسٹی لیوبون بیلجیم کی لائبریری کو 1901ء میں جرمن افواج نے آگ لگا کر تباہ کردیا۔ ٭ڈبلن آئرلینڈ میں پبلک ریکارڈ آفس لائبریری کو 1922ء میں آئرلینڈ کی خانہ جنگی میں آگ لگادی گئی۔ ٭برلن جرمنی میں انسٹیٹیوٹ آف ستلیس ریسرچ کی لائبریری کو نازیوں نے 1933ء میں آگ لگا کر برباد کیا۔ ٭چین کی نیشنل یونیورسٹی ہنان کی عظیم الشان لائبریری کو 1937ء میں جاپانی فوجیوں نے جلادیا۔ ٭لیوبون بیلجیم کی کیتھولک یونیورسٹی کی لائبریری کو 1940ء میں جرمنوں نے ایک بار پھر آگ لگادی۔ ٭سربیا کی نیشنل لائبریری کو 1941ء میں جرمن سپاہیوں نے آگ لگا کر خاک کردیا۔ ٭وارسا پولینڈ کی ڈولسکی لائبریری کو 1944ء میں جرمنوں نے آگ لگا کر تباہ کردیا۔ ٭کمبوڈیا کی نیشنل لائبریری کو 1976ء میں کھمروج کے فوجیوں نے آگ لگا کر 80 فیصد سے زائد کتابوں کو جلادیا۔ ٭جافنا پبلک لائبریری سری لنکا 1981ء میں جلا دی گئی جہاں ایک لاکھ سے زائد کتابیں جل کر خاک ہوگئیں۔ ٭سکھ ریفرنس لائبریری امرتسر کو 1984ء میں فوجیوں نے تباہ کردیا جہاں بہت سے نایاب مخطوطے بھی راکھ ہوگئے۔ ٭رومانیہ میں بخارسٹ کی لائبریری کو 1989ء میں بغاوت کے دوران آ گ لگادی گئی۔ ٭بوسنیا ہرزیگووینا کی قومی لائبریری کو 1992ء میں سرب فوجیوں نے جلا کر مکمل طور پر تباہ کردیا۔ ٭ابا کازیا میں جارجیا کے فوجیوں نے اباکازین ریسرچ لائبریری کو 1992ء میں تباہ کردیا۔ ٭افغانستان میں طالبان نے پول خماری لائبریری کو 1998ء میں تباہ کردیا جس سے 60 ہزار سے زائد کتابیں اور مخطوطے ضایع ہوگئے۔ ٭عراق نیشنل لائبریری اور بغداد یونیورسٹی کی لائبریریوں کو 2003ء میں شہریوں کے ایک گروپ نے آگ لگا کر تباہ کردیا۔ ٭مصر کی ساننگل لائبریری کو 2011ء میں نامعلوم لوگوں نے آگ لگا کر تباہ کردیا۔ ٭مالی ٹمکبٹو میں احمد بابا انسٹیٹیوٹ کی لائبریری کو 2013ء میں داعش کے مسلح جتھوں نے آگ لگادی اور بیس ہزار سے زائد مخطوطے جل کر خاکستر ہوگئے۔ ٭لبنان کے ٹریپولی شہر میں عیسائیوں کی لائبریری کو 2014ء میں آگ لگادی گئی۔ ٭بوسنیا میں نیشنل آرکائیو لائبریری کو 2014ء کی خانہ جنگی میں آگ لگا کر تباہ کیا گیا۔
یہ ایک ایسی المناک روداد ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم جو مہذب ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، انھوں نے وحشی اور جنگلی ہونے کا ایسا ثبوت دیا ہے جس کی مثال ملنی ذرا مشکل ہے۔
اس وقت مجھے صف اول کے برطانوی صحافی رابرٹ فسک کی یاد آرہی ہے جو بغداد کی بے مثال لائبریری اور میوزیم کی لوٹ کے وقت وہاں موجود تھا۔ اس نے لکھا کہ بغداد میں عرب دانش کا وہ خزانہ لٹ گیا جسے ہم کبھی دوبارہ نہیں دیکھ سکیں گے۔ اس کا کہنا تھا کہ لوٹنے والوں کی اکثریت عراقیوں کی تھی اور پھر انھوں نے بعض کتابیں اور مخطوطے مغرب کے امیر کبیر افراد کے ہاتھوں آگ کے مول فروخت کیے۔
ایسی دل دہلا دینے والی خبروں کے زمانے میں یہ بات جی خوش کرگئی کہ کراچی کی برٹش کونسل جو نائین الیون کے بعد دہشتگردوں کے کسی حملے کے خوف سے بند کردی گئی تھی اور اس کی کتابیں دنیا کے مختلف چھوٹے شہروں کو عطیہ کر دی گی تھیں۔ وہ جولائی میں ایک بار پھر کھول دی گئی ہے۔
صرف لاہور یا کراچی میں ہی نہیں ملک کے دوسرے شہروں میں بھی اس کی شاخیں کھل رہی ہیں۔ کراچی میں ڈیجیٹل لائبریری کے علاوہ اس میں دس ہزار سے زیادہ کتابیں ہوں گی جو مختلف موضوعات کا احاطہ کریںگی۔ دنیا بھر کے اہم اخبارات اور میگزین بھی یہاں رکھے جائینگے۔ اس میں ایک آڈیٹوریم بھی بنایا گیا ہے جو تمام جدید سہولتوں سے آراستہ ہے اور جس کا نام اردو کی مشہور ادیب ’عصمت چغتائی‘ کے نام پر رکھا گیا ہے۔ یوں یہ علمی اور تہذیبی ادارہ دونوں ملکوں کی ادبی روایات کو بھی دھاگے میں پرو رہا ہے۔
لائبریریاں کسی بھی شہر کی پہچان ہوتی ہیں۔ مانا کہ برٹش کونسل لائبریری ایک غیر ملکی ادبی روایت سے جڑی ہوئی ہے، اس کے باوجود اس کا احیا ہمارے تمام علم دوست لوگوں کے لیے ایک بہت اچھی خبر ہے۔
بیسویں صدی کے ایک مشہور و معروف ادیب نے کہا تھا کہ میں جنت کو کتابوں سے بھری ہوئی دنیا سمجھتا تھا جہاں ہمیں پڑھنے کے سوا کوئی کام نہیں ہوگا۔ کاش ایسا ہی ہوتا، جنت ایک عظیم الشان لائبریری ہوتی جہاں ہم آرام کرتے اور اپنی پسند کی کتابیں پڑھتے۔ کیسے کیسے خواب ہیں جو پورے نہیں ہوسکتے لیکن خواب دیکھنے میں ہرج ہی کیا ہے۔

(بشکریہ روزنامہ ایکسپریس)