اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

865,528FansLike
9,992FollowersFollow
565,300FollowersFollow
188,369SubscribersSubscribe

امرت کور……قسط نمبر12……..امجد جاوید

’’وہ زندہ ہے ابھی؟‘‘
’’وہ نہ صرف زندہ ہے، بلکہ آج بھی آپ کا انتظار کر رہی ہے‘‘۔ میں نے کہا تو ان کی آنکھوں میں یک بارگی شعلے نکلنے لگے۔ پھر بڑبڑاتے ہوئے بولے۔
’’کاش میں اسے اپنے ہاتھوں مار سکتا…‘‘
’’دادا جی…! میں پہلے نہیں جانتا تھا کہ آپ کا ماضی کرب ناک ہے۔ مجھے اندازہ بھی نہیں تھا، لیکن جب سے میں جھتوال سے ہو کر آیا ہوں مجھے پورا احساس ہو گیا ہے۔ آپ کے ماضی کا ایک ایک لمحہ میں نے اپنے دل پر محسوس کیا ہے، لیکن میں آپ سے ایک درخواست ضرور کروں گا… امرت کور نے اب جو ایک کام کیا ہے، اس کے عوض آپ اسے معاف کر دیں…‘‘
’’کیا کام کیا ہے اس نے … اور تُو وہاں چلا کیسے گیا‘‘۔
’’اب آپ نے دو سوال مجھ سے کر دیئے، بتائیں پہلے کس کا جواب دوں۔ سوچ لیں، مگر یہ پہلے چائے ختم کریں‘‘۔
میں نے دوبارہ پیالہ اٹھا کر انہیں دے دیا۔ وہ خاموش رہے اور چائے پیتے رہے۔ ان کی طرف سے جواب نہ پا کر میں نے اپنا لیپ ٹاپ کھول لیا۔ سیل فون سے بنائی بے شمار تصویریں میں اس میں محفوظ کر چکا تھا۔ میں اچک کر دادا کے پہلو میں جا بیٹھا۔ ان کے ساتھ لپٹ کر میں نے تصویر دکھانا شروع کر دیں۔ جھتوال میں داخل ہونے سے لے کر واہگہ آجانے تک کی پوری روداد میں نے انہیں سنانا شروع کر دی۔ ساتھ میں انہیں تصویریں دکھاتا گیا۔ میں جب روداد ختم کر چکا تھا تو دادا کی طرف دیکھا۔ ان کی داڑھی آنسوئوں سے بھیگ چکی تھی۔
’’تُو دو چار دن وہاں اور رہ لیتا۔ کم از کم اس کھیت کو خرید کر…‘‘
’’وہی تو… وہی تو کام کیا ہے امرت کور اور پرونت کورنے … یہ دیکھیں‘‘۔ میں نے بھان سنگھ کی بھیجی ہوئیں تصویریں ان کے سامنے کر دیں۔ اس نے وہاں کام کرتے مزدوروں امرت کور کی خدمت اور پرونت کے وہاں بیٹھنے کی تصویریں بھی بھیج دی تھیں۔
’’یہ تُو نے بہت اچھا کام کیا کہ ان کی نمازِ جنازہ پڑھ لی، میں بد نصیب تو ایسا بھی نہیں کر سکتا تھا، بہر حال پریت کور کو میری طرف سے بہت سارا پیار کہہ دینا۔ اس نے جو پھاٹک پر تحریر لکھوائی، وہ مجھے اچھی لگی‘‘۔
’’آپ گر مکھی پڑھ لیتے ہیں کیا؟‘‘ میں نے یہ سوال یونہی کیا تھا ان کا دھیان بٹانے کے لیے۔
’’ہاں، میں پانچ جماعتیں پڑھا ہوں۔ یہ امرت اور پرونت مجھ سے تین جماعتیں پیچھے تھیں اور بہت سارے لوگ تھے۔ تم مجھے بتاتے نا تو میں تجھے وہاں کے بارے میں اور بہت کچھ بتاتا‘‘۔
’’ایسی کون سی بات ہے ہم دونوں وہاں چلے جائیں گے۔ بلکہ وہ ہمیں بھان اور پریت کی شادی پر بلائیں گے‘‘۔ میں نے اپنے اصل مقصد کی بنیاد رکھتے ہوئے کہا۔
’’ہاں…! اگر انہوں نے بلایا تو ضرور جائیں گے‘‘۔ انہوں نے خواب آگیں انداز میں کھوئے ہوئے انداز میں کہا۔
’’اچھا دادا…! امرت کور اپنی جوانی میں تو قیامت ہو گی نا…‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ گہری سنجیدگی سے بولے۔
’’ہاں ، وہ قیامت ہی تھی۔ مگر میں اس کا پاگل پن سمجھ ہی نہ سکا۔ اگر وہ رگھبیر سنگھ کو قتل نہ کرتی تو میں اسے کچھ اور ہی سمجھتا رہتا۔ مگر وہ وقت ایسا تھا بلال، ایک حسرت تھی کہ اگر میں اپنے گھر والوں کے ساتھ ہوتا تو شاید انہیں بچا لیتا‘‘۔ وہ پھر ماضی میں کھو گئے تھے۔
’’مگر قدرت کو آپ کی زندگی عزیز تھی، آپ فقط آپ ہی اس گائوں کے مسلمانوں میں سے بچ گئے۔ آپ اس راز کو سمجھیں۔ قدرت کے کھیل تو نیارے ہوتے ہیں نا‘‘۔ میںنے انہیں ماضی سے واپس لانے کی ایک کوشش کی۔
’’ہاں، میں نے اس پر بہت سوچا، مگر یہ سمجھ میں آنے والی باتیں نہیں ہیں‘‘۔ انہوں نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’اچھا دادا، چھوڑیں ماضی کی باتیں، وہ جو ہونا تھا سو ہو گیا۔ میں آپ سے …‘‘ میں نے کہنا چاہا تو انہوں نے ٹوکتے ہوئے کہا۔
’’نہیں پتر…! میں اکیلا فرد اگر اپنے ماضی کو بھول جاتا ہوں تو ممکن ہے اتنا نقصان نہ ہو، لیکن اگر بحیثیت قوم اپنے ماضی کو بھول گئے تو بہت بڑا نقصان ہو جائے گا۔ یاد رکھو، پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے، مگر بدقسمتی سے یہ قائداعظم کے کھوٹے سکوں کے قبضے میں آگیا ہے۔ آزادی کی جو اصل روح تھی، ان لوگوں نے اس کو مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔ آزادی سے قبل جویونینسٹ پارٹی کا یا کانگرنس سے تعلق رکھنے والا مسلمان، آزادی کے بعد مسلم لیگ میں آجائے تو کیا وہ پرلے درجے کی منافقت نہیں ہے۔وہ فتویٰ فروش مولوی جو پاکستان مخالف تھے۔ آج اگر پاکستان کے دعویدار بنیں تو وہ بھی انتہائی منافق ہیں۔ غور کرو، اگر پاکستان کو در پیش مسائل میں سے کسی ایک مسئلے کو بھی اٹھا کر دیکھ لو، اس میں وہی لوگ سامنے آئیں گے جو کل پاکستان مخالف تھے۔ اگر ہم اپنے ماضی کو یاد نہیں رکھیں گے تو ان منافقوں کو کیسے پہچان پائیں گے۔ آگ اور خون کا دریا کن لوگوں نے پار کیا؟ یہ سروے اور تحقیق کرنے کی کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ کون سے مہاجرین تھے جو لٹ پٹ کر آئے اور انہیں یہاں آ کر ذلیل ہونا پڑا اور وہ کون بے غیرت ہیں جنہوں نے جعلی کلیموں پر زمینیں اور جائیدادیں بنالیں۔ وہ کون سے بے ضمیر تھے جنہوں مہاجرین کو دبا کر رکھا اور ان کا حق ان تک نہیں پہنچنے دیا۔ جب تک ہم اپنے ماضی کو یاد نہیں رکھیں گے تو اپنی آئندہ نسل کو کیا بتائیں گے کہ دنیا کی سب سے بڑی ہجرت اس خطے میں ہوئی اور اس پیمانے پر قتل عام ہوا۔ اس طرح تو ہمارا نظریہ ہی ختم ہو جائے گا‘‘۔ انہوں نے پورے جوش و جذبے سے کہا کہ ان کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
’’دادا جی… آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں‘‘۔ میں انہیں کول ڈائون کرنے کے لیے کہا۔
’’کاش…! کوئی ایسا مجاہد پیدا ہو جو قائداعظم کا حقیقی سپاہی ہو۔ وہ ایسی تحقیق کروائے۔ تم نے اکیاون برس بعد اپنے اجداد کی قبروں کو نشان دے دیا، کاش کوئی قائداعظم کے نظریات پر سے مٹی جھاڑ کر اس ملک پر لاگو کر دے۔ مہاجرین کی نشاندہی کر کے انہیں ان کا حق دلا دے۔ ورنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی کہ ہم وہ قوم ہیں جو اپنی قربانیاں بھی خود ہی ضائع کر دیتے ہیں‘‘۔
’’دادا جی آپ جذباتی ہو گئے اور میں اس جذباتی پن سے آپ کو بچا رہا تھا‘‘۔ میں نے آہستگی سے کہا۔
’’دکھ ہوتا ہے نا بیٹا جب قربانیاں ضائع جاتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ خیر، تم بتائو، کیا کہنا چاہ رہے ہو؟‘‘ انہوں نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
’’میں یہ کہہ رہا تھا دادا جی کہ اگر امرت کور یہاں آجاتی ہیں اور آپ سے معافی مانگ لیتی ہیں تو کیا آپ اسے معاف کر دیں گے؟‘‘
’’اس تصویر کے دکھانے سے پہلے میں اسے کبھی معاف نہ کرتا، لیکن یہ جو اس نے کام کیا ہے، میں نے اس تصویر کو دیکھتے ہی اسے معاف کر دیا تھا۔ اﷲ اس کے حال پر رحم کرے‘‘۔ انہوں نے ایک سرد آہ بھرتے ہوئے کہا اور پھر کافی دیر تک خاموش رہے۔ تب میں نے پوچھا۔
’’آپ کا دل کرتا ہے کہ آپ ایک بار جھتوال جائیں!‘‘
’’پتر… کس کا جی نہیں کرتا کہ اپنی جنم بھومی دیکھے۔ میں نے تو زندگی کا ایک بڑا حصہ وہاں گزارا ہے اور پھر سب سے بڑی بات، میں حاجراں کی، اپنے والدین کی قبروں پر ایک بار فاتحہ پڑھنے کا ضرور خواہش مند ہوں‘‘۔ انہوں نے حسرت سے کہا تو میں نے دادا کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
’’میں بناتا ہوں ایسا کوئی معاملہ… چلتے ہیں وہاں…‘‘
’’ٹھیک ہے بیٹا، جیسے تیر ی مرضی…‘‘ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ پھر کلاک کی طرف دیکھ کر بولے۔ ’’اوئے پتہ ہی نہیں چلا فجر کا وقت ہونے والا ہے۔ ابھی اذانیں ہو جائیں گی۔ چل اٹھ جا، ایک بار مزید چائے بنا کر لا‘‘۔
میں مسکراتے ہوئے اٹھ گیا۔ میں نے سوچا اب جھتوال سے لائے تحائف کھولنے کا وقت ہے۔
دوسرے دن میری اور بھان سنگھ کی کمپیوٹر کے ذریعے گفتگو ہو گئی۔ اپنے کمپیوٹر پر پریت کور بھی آن لائن تھی۔ حال احوال پوچھنے کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ وہ اپنے اپنے کمروں میں ہیں۔ اس وقت میرا دل چاہا کہ زویا بھی آن لائن ہوتی تو بہت اچھا ہوتا۔ یونہی باتوں کے دوران میں نے دادا نور محمد سے بات ہو جانے کے بارے میں بتایا۔
’’کیا رویہ تھا ان کا ؟‘‘ بھان سنگھ نے پوچھا۔
’’بہت جذباتی ہو گئے تھے اور اپنے گائوں کو بہت یاد کر رہے تھے۔ انہوں نے بہت سے ایسے لوگوں کے بارے میں پوچھا، جن کے بارے میں شاید تُو بھی نہیں جانتا ہوگا۔ میں تو خیر گنتی کے ایک دو بندوں سے ملا تھا‘‘۔ میں نے اسے جواب دیا۔ تبھی پریت کور نے پوچھا۔
’’کیاوہ جھتوال آنا نہیں چاہتے؟ یا پھر یہاں آنے کی خواہش کی؟‘‘
’’ہاں…! بتایا نا وہ بہت جذباتی ہو گئے تھے۔ خاص طور پر تمہارا وہ گیٹ پر لکھنے والا خیال انہوں نے بہت پسند کیا ہے۔ وہ بھی وہاں نمازِ جنازہ پڑھنا چاہتے ہیں‘‘۔
’’کیا امرت کور سے نہیں ملنا چاہتے؟‘‘ بھان سنگھ نے پوچھا۔
’’میں نے ذکر تو کیا مگر ان کے تا ثرات کے بارے میں نہیں جا ن سکا‘‘۔ میں نے جان بوجھ کر جھوٹ بول دیا۔
’’ہو سکتا ہے وہ عمر کے تقاضے کی وجہ سے اپنی خواہش کا اظہار نہ کر پائے ہوں؟‘‘ پریت کور نے پوچھا تو میں نے جواباً کہا۔
’’ممکن ہے۔ مگر میں کوئی بات یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ امرت کور کے بارے میں اب ان کے دل میں کیا ہے۔ کچھ کہا ہوتا تو شاید میں اندازہ لگا لیتا‘‘۔
’’تو پھر کب آرہے ہو جھتوال؟‘‘ بھان سنگھ نے پوچھا تو میں نے جواب دیا۔
’’یار یہ تو طے شدہ بات ہے ناکہ جب تمہاری شادی ہو گی، میں ضرور آئوں گا۔ ویزے وغیرہ میں بھی آسانی ہو گی‘‘۔
’’تمہارا برٹش پاسپورٹ کب کام آئے گا۔ تمہارے باپو نے کچھ اور اچھا کیا ہو یا نہ کیا ہو تمہارے بارے میں، یہ کام بہر حال بہت اچھا کیا ہے‘‘۔ پریت کور نے مزاح کے طور پر کیا۔
’’خیر…! میں تو تبھی آئوں گا۔ جب تم دونوں کی شادی ہو گی اور اس وقت پوری کوشش کروں گا کہ دادا جی کو بھی لے کر تمہارے ہاں آجائوں۔ یہ میری بھی زبردست خواہش ہے اور امرت کور سے وعدہ بھی ہے‘‘۔
’’چلو، میں کوشش کروں گا کہ میری شادی جلدی ہو جائے‘‘۔ بھان سنگھ نے کہا تو میں نے وہی لفظ پریت کور کو بھجوا دیئے۔ یہ ذراسی شرارت تھی، پھر کافی دیر تک یونہی باتوں کا سلسلہ چلتا رہا۔
میری اور بھان سنگھ کی اکثر گفتگو رہتی۔ کبھی کمپیوٹر کے ذریعے اور کبھی فون سے۔ پھر چند دنوں کے بعد یہ بھی کم ہوتا چلا گیا۔ میں پاپا کے ساتھ بزنس میں آگیا تو مصروفیت کا ایک طوفان امنڈ آیا۔ ایسے ہی کسی وقت بھان سنگھ، زویا، پھر پریت کور سے گفتگو ہو جاتی۔ جب میں آفس میں ہوتا یا پھر اس دوران ان میں سے کوئی آن لائن ہوتا ۔ پاپا نے بزنس کو ازسر نو دیکھنا شروع کر دیا تھا۔ ایک تو انہیں اپ ٹوڈیٹ معلومات مل جاتیں دوسرا مجھے ہر شے کے بارے میں اچھی طرح معلوم ہو جاتا۔ میں نے بھی چاہا تھا کہ دیکھوں اس وقت بزنس کی صورتِ حال کیا ہے۔ دن رات اس طرح گزرتے چلے گئے۔ میں بہت ہی مصروف ہو گیا۔
زویا کا معاملہ بھی مجھے کچھ سرے چڑھتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس نے کافی حد تک اپنی والدہ کو منا لیا تھا، لیکن ابھی تک اسے اپنے باپ کے بارے میں کچھ بھی یقین نہیں تھا کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ مگر میں کسی طرح بھی مایوس نہیں تھا۔ میں نے دادا جی کو تمام صورتِ حال سے آگاہ کر دیا تھا۔ انہوں نے مجھے فکر نہ کرنے کے لیے کہا، لیکن اطمینان نہیں تھا۔ مجھے دادا جی کے بارے میں معلوم نہیں تھا کہ انہوں نے کس بنیاد پر مجھے مطمئن ہو جانے کے لیے کہا تھا۔ زویا سے بہر حال میرا رابطہ رہتا۔ وہ ایک اچھی دوست تو تھی۔ وہ بھی گو مگو کی کیفیت میں تھی۔ میں نے اور اس نے خود کو حالات پر چھوڑ دیا۔ ہم انتظار کرنے لگے کہ وقت ہمارے لیے اپنے دامن میں کیا لے کر آتا ہے۔
اس دن میں آفس میں مصروف تھا۔ اسی دن پاپا سے یہ ڈسکس ہوا تھا کہ نہ صرف بزنس کو مزید پھیلا جائے بلکہ اس پر بھی بات ہوئی کہ کس پہلو پر زیادہ توجہ دی جائے اس وقت میں سینئر لوگوں سے میٹنگ میں تھا کہ بھان سنگھ کا فون آگیا، اس نے ہیلو کی بجائے سیدھے پوچھا۔
’’اوئے کہاں ہے تُو؟‘‘
’’میں آفس میں، خیر تو ہے نا، یوں کیسے پوچھ رہا ہے؟‘‘ میں نے اس کے لہجے پر دھیان دیتے ہوئے حیرت سے پوچھا۔
’’ہم اس وقت اٹاری پر ہیں۔ ہمارا امیگریشن ہو گیا ہے، اب دیکھو، لاہور کس وقت پہنچتے ہیں‘‘۔ اس نے بڑے جوش سے کہا تو میں نے خوشگوار حیرت سے پوچھا۔
’’مجھے پہلے نہیں بتایا‘‘۔
’’اب بھی تو لاہور آنے سے پہلے بتا رہا ہوں۔ بہر حال باقی باتیں وہیں ہوں گی، آجانا اسٹیشن پر‘‘۔ اس نے تیز تیز انداز میں کہا اور فون بند کر دیا۔ مجھے اس پر شدید غصہ آیا۔ ظاہر ہے وہ اکیلا نہیں تھا، اس کے ساتھ مزید لوگ بھی ہوں گے، آیا اس کے گھر والے ہیں یا کوئی دوسرے ہیں۔ اب اس مناسبت سے میں نے بندوبست کرنا تھا۔ پھر نہ جانے کیوں ایک سوچ یہ بھی ابھری کہ ممکن ہے اس کے ساتھ امرت کور ہو؟ میرا دل نہیں مان رہا تھا۔ اگر وہ ہوتی تو ضرور مجھے بتاتا۔ ظاہر ہے مجھے دادا جی کو اس کے آنے کے بارے میں ذہنی طور پر تیار کرنا تھا۔ میں واپس اسے فون نہیں کر سکتا تھا۔ نمبروں سے دیکھ کر میں نے اندازہ لگایا تھا کہ وہ کوئی پی سی او وغیرہ ہی سے کال تھی۔
’’بلال صاحب…! خیریت ہے آپ بڑی گہری سوچ میں ڈوب گئے ہیں‘‘۔ ایک سینئر اہلکار نے پوچھا تو میں چونک گیا پھر موجودہ صورتِ حال کے بارے میں جلدی جلدی میٹنگ نمٹائی۔ میرا اندازہ یہی تھا، اب کم از کم ایک ہفتہ مجھے آفس سے دور رہنا ہو گا۔ میں نے چند لمحے سوچا اورپاپا کو اس بارے بتایا۔ انہوں نے مجھے ایک ہفتے کی ’’چھٹی‘‘ دے دی۔
اس وقت شام کے سائے پھیل رہے تھے جب میں اور دادا جی نور محمد لاہور اسٹیشن کے ایک بینچ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے آفس ہی سے فون کر کے دادا جی کو بھان سنگھ کے آنے کے بارے میں بتایا۔ کچھ دیر بعد انہوں نے مجھے آفس ہی میں رکنے کو کہا اور تھوڑی دیر بعد خود آگئے میں ان کی جذباتی کیفیت کو بہت حد تک سمجھ سکتا تھا۔ اس لیے کسی قسم کا بھی کوئی سوال نہیں کیا۔ گھر کا ڈرائیور انہیں لے کر آیا تھا۔ مگر وہ میرے ساتھ بیٹھ کر اسٹیشن چلے آئے تھے۔ ڈرائیور کو بھی کار ساتھ میں لے آنے کے لیے کہا۔ انہوں نے دلیل دیتے ہوئے کہا۔
’’اب پتہ نہیں کتنے لوگ ہوں گے، ایک گاڑی میں آبھی سکیں گے یا نہیں‘‘۔
اس پر میں خاموش رہا تھا۔ پھر بہت سارے سوال ذہن میں آنے کے باوجود میںنے ان سے کچھ نہیں پوچھا۔ وہ چپ چاپ آنے والی گاڑیوں کو تکتے رہے۔ یہاں تک کہ اچانک وہ بول پڑے۔
’’بلال…! ذرا تصور کر، جس طرح یہ گاڑی یہاں آ کر رکی ہے، اسی طرح ہجرت کے دنوں میں گاڑی آ کر رکی تھی اور اس میں سے انسانی کٹی پھٹی لاشیں، کسی کا سر نہیں، کس کا دھڑ نہیں، چھوٹے چھوٹے معصوم بچے… لہو میں لت پت…مرے ہوئے کھلی آنکھوں سے اس جہاں کو تکتے ہوئے۔ ’’یہ کہتے ہوئے وہ اچانک ہچکی لے کر رو دیئے۔ میں نے انہیں ذرا بھی ڈھارس نہیں دی، میں نے انہیں رونے دیا۔ ان کے موٹے موٹے آنسو ان کی سفید ریش میں جذب ہونے لگے۔ چند لمحوں بعد وہ سنبھلے اور پھر بولے…’’میں نے خود اپنی آنکھوں سے ریل کی پٹری کے درمیان ایک عورت کی لاش دیکھی تھی، جسے کتے بھنبھوڑ رہے تھے … یار قیامت اور کیسی ہوتی ہے‘‘۔
’’دادا جی خود کو سنبھا لیں…‘‘ میں نے آہستگی سے کہا۔
’’اس کے سوا چارہ بھی کوئی نہیں ہے، ہمیں ہی خود کو سنبھالنا پڑے گا‘‘۔ یہ کہہ کر انہوں نے حسرت بھرے لہجے میں کہا۔ ’’مگر کہاں سنبھال پائے ہیں خود کو، شاید ہم سارے دکھ بھول جاتے اگر ہمیں وہ منزل مل جاتی جس کے لیے اتنی بڑی قربانی دی گئی تھی۔ کل تک جو کام متحدہ ہندوستان میں پنڈت کرتا تھا، وہی کام یہاں کا مولوی کرنے لگ گیا۔فرق کیا رہا۔ وہ بھاشن دیتا رہا اور یہاں بیان ہونے لگے، پاکستان اسلام کی تجربہ گاہ نہیں فرقہ ساز فیکٹری بن گئی۔ کیا کریں ہم‘‘۔ آخری لفظ کہتے ہوئے ان کے لہجے میں بے بسی تھی۔
’’داداجی…! آپ اتنے مایوس کیوں ہیں، وقت لگے گانا، دھیرے دھیرے سب ٹھیک ہو جائے گا‘‘۔ میں نے ان کا دھیان بٹاتے ہوئے کہا۔ حالانکہ مجھے اپنا لہجہ میں کھوکھلا لگ رہا تھا۔
’’یہی تو المیہ ہوا ہے ہمارے ساتھ، ہم نے اپنی آئندہ نسل کو بھی وہ ولولہ نہیں دیا، وہ تحریک نہیں دی جو پاکستان بناتے وقت ہمارے اندر تھی۔ میں اپنی الجھی ہوئی ڈپریشن زدہ نوجوان نسل کو الزام نہیں دیتا یہ نسل بے چاری بے قصور ہے۔ انہیں مقصد ہی نہیں دیا ، کوئی منزل ہی نہیںدی، وہ بے چارے کیا کریں۔ منزل کے بارے میں کیا بتانا، کوئی بتانے والاہی نہیں۔ خود رو پودا جس طرح چاہے بڑھ جائے۔ کسی کے ساتھ انصاف ہی نہیں، جو جتنا کرپٹ بندہ ہے وہ اتنی بڑی گاڑی میں عزت دار بن کر گھوم رہا ہے‘‘۔ ان کے لہجے میں غصہ در آیا تھا تو میں نے پھر سے ان کا دھیان دوسری طرف لگانے کی خاطر کہا۔
’’دادا جی… مجھے یہ بتائیں، مہمانوں کے بارے میں معلوم نہیں، ایک ہے یا زیادہ ، ان کے ٹھہرانے کا بندوبست ، ان کے لیے …‘‘
’’اوئے…! جتنے بھی ہوں گے، میں سنبھال لوں گا۔ تُو فکر نہ کر، تُو انکوائری تک جا اور پتہ کر کے آ کر گاڑی واہگہ سے نکلی ہے یا نہیں؟‘‘
’’جی، میں ابھی پتہ کر کے آتا ہوں‘‘۔ میں یہ کہہ کر اٹھنے ہی والا تھا کہ اسٹیشن پر ہلچل ہونے لگی۔
’’میرا خیال ہے گاڑی آگئی ہے‘‘۔ دادا جی نے بڑبڑانے والے انداز میں کہا اور اُدھر دیکھنے لگے جہاں سے سمجھوتہ ایکسپریس نے آنا تھا۔
گاڑی پلٹ فارم پر رک گئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی مخصوص قسم کی آوازوں کا شور ہونے لگا تھا۔ سکھ یاتریوں میں کئی جذباقی قسم کے سکھ بھی تھے۔ عمومی طور پر عام سکھوں نے مختلف رنگوں کی شلوار قمیص یا دھوتی کرتہ پہنا ہوا تھا، ان کی مخصوص پگڑیاں تھیں۔ مگر وہ جذباتی سکھ نیلے رنگ کے لباس میں اور اسی رنگ کی پگڑی پہنے ہوئے تھے۔ وہ زور زور سے نعرے لگا رہے تھے۔ ’’جو بولے سونہال… ست سری اکال‘‘۔ ان کے ساتھ وہ اپنی چھوٹی بڑی کرپانیں لہرا رہے تھے۔ ان کے اس انداز کو دیکھتے ہوئے ایک لمحے کے لیے میرے دل میں بھی آئی کہ یہ ایک طرح سے کمینہ پن ہے، یہ ایسا کسے دکھا رہے ہیں۔ پھر دوسرے ہی لمحے ان کی مذہبی کیفیت کا خیال دل میں آیا کہ ممکن ہے۔ یہ وہ خالصانی سکھ ہوں جنہیں شاید ہندو ستان میں ایشیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں ایسا کوئی نعرہ لگانے کی اجازت نہ ہو۔ ’’واہگرو دا خالصہ… واہگرو دی جے… واہگرو دی فتح…‘‘ وہ ایسا نہ کہہ پاتے ہوں اور اپنی یہ بھڑاس یہاں آ کر نکال رہے ہوں۔ اس لمحے میں نے سوچا، دادا جی کی کیفیت کیا ہو گی؟ ان کے سامنے تو وہ سارے منظر پھر آ گئے ہوں گے، وہ تاریک ترین رات بھی یاد آگئی ہو گی۔ جب رگھبیر سنگھ کو امرت کور نے مارا تھا۔ اپنے ہی گھر سے اٹھتے ہوئے شعلے دیکھے ہوں گے… میں نے آہستگی سے دادا جی کا ہاتھ تھام لیا، جو اس وقت گردشِ لہو کے باعث گرم تھا۔ وہ ہولے ہولے لرز رہے تھے۔
میری نگاہیں ٹرین سے اترنے والے مسافروں پر تھیں۔ مگر بھان سنگھ ان میں دکھائی ہی نہیں دے رہا تھا۔ کافی رش تھا۔ اچانک میری نگاہ ایک بوگی پر پڑی جہاں وہ میری ہی تلاش نگاہ دوڑا رہا تھا۔ میں نے ایڑیاں اٹھاکر زور زور سے ہاتھ ہلا کر اسے متوجہ کرنے کی کوشش کی اور بے ساختہ زور سے پکارا بھی۔ وہ آوازکی سمت تلاش کرتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھنے لگا اور پھر اس نے مجھے دیکھ لیا۔ مطمئن انداز میں ہاتھ ہلا کر مجھے وہیں رکنے کا اشارہ کیا۔ رش کے باعث میں نے دادا جی کو وہیں کھڑے رہنے کا کہا۔ انہوں نے بھی بھان سنگھ کو دیکھ لیا تھا۔ میں نے جب اسے دوبارہ دیکھا تو وہ بوگی میں واپس جارہا تھا۔ کچھ دیر بعد رش کم ہونا شروع ہو گیا۔ تبھی بھان سنگھ کے ساتھ اس کے پریوار کے لوگ باہر آنا شروع ہو گئے۔ پردیپ سنگھ، پریت کور، چا چی جسیمت کور، اور آخر میں امرت کور کا چہرہ دکھائی دیا تو میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا۔
’’امرت کور…‘‘۔
یہ کہتے ہوئے میں نے دا دا جی کے چہرے پر دیکھا۔ وہ سرخ تھا۔ اس وقت میں قطعاً یہ اندازہ نہیں لگا سکتا تھا ، ان کے چہرے پر یہ سرخی کس طرح کے جذبات کی وجہ سے ہے، محبت کا کوئی اثر تھا یا نفرت کے باعث،وہ اپنے سامان سمیت ہماری طرف بڑھ آئے تھے۔ سب کی نگاہیں دادا جی نور محمد پر تھیں۔ میں نے خاص طور پر امرت کور کے چہرے پر دیکھا۔ وہ کسی بھی قسم کے جذبات سے عاری دکھائی دے رہی تھی۔ لٹھے کی مانند سفید چہرہ، کھلی آنکھیں، وہ پلک تک نہیں جھپک رہی تھی۔ مجھے یوں لگ رہا تھا۔ جیسے وہ ٹرانس کی حالت میں آگئی ہو۔ لوہا ہو اور مقناطیس کی جانب کھنچا چلا آرہا ہو۔ شاید اسٹیشن پر ہونے والے شور سے بھی زیادہ ان کے اندر طوفان اٹھا ہو۔ اس کی شدت کیا ہے۔ میں اس کا اندازہ نہیں کر سکتا تھا۔ صرف بھان سنگھ مجھ سے ملا مگر باقی سب پہلے دادا جی ہی سے ملے۔ ایک تو وہ میرے ساتھ تھے دوسرا وہ سب ان کی تصویر کمپیوٹر پر دیکھ چکے تھے۔ وہ سب گلے لگ کر ملے لیکن امرت کور اسی ٹرانس کی حالت میں دادا جی کو تکے چلی جارہی تھی۔ وہ سب مل چکے تو دادا جی اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ امرت کور ہاتھ جوڑے کھڑی تھی۔
’’مجھے معاف کر دے نور محمد… میں تیری طلب گار تھی، شاید اس لیے گناہ گار ہوں‘‘۔
’’یہ وقت ایسی باتوں کا نہیں امرت، آئو چلیں…‘‘ دادا جی نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’نہیں نور محمد … جب تک تُو مجھے معاف نہیں کرے گا، میں تیرے ساتھ کیسے جا سکتی ہوں۔ یہ واہگرو کی مہر ہے کہ مجھے یہ موقع مل گیا کہ تجھ سے معافی مانگ لوں، آگے تیری مرضی، تُو جو چاہے‘‘۔ وہ ہاتھ جوڑے یوں کھڑی رہی تھی جیسے وہ نہیں، اس کے اندر سے کچھ اور ہی بول رہا ہو۔ اس کا جسم جیسے مٹی کا بت ہو اور آواز کسی دوسرے کی ہو۔ دادا جی چند لمحے اس کی آنکھوں میں دیکھتے رہے، پھر اس کے دونوں ہاتھ الگ کرتے ہوئے بولے۔
’’میں نے تجھے اسی دن معاف کر دیا تھا، جب تُو نے حاجراں کی قبر بنا دی تھی۔ اس کا نشان پھر سے زندہ کر دیا‘‘۔
شاید دادا جی کے لفظوں میں کوئی جادو تھا یا کوئی جیون منتر، وہ پہلے ایک دم ساکت ہوئی، پھر اس کے چہرے پر خوشی بھری لہرابھری، آنکھیں حیرت سے جھپکیں اور پھر وہ دادا جی کے سینے سے لگ گئی۔ اس کا بدن ہولے ہولے کانپ رہا تھا۔ وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگی، یوں لگا جیسے برسوں کے رکے ہوئے آنسو آج ہی بہا دے گی۔ سبھی ان کے اردگرد کھڑے انہیں دیکھ رہے تھے۔ دادا جی خاموش تھے مگر ان کی آنکھوںسے آنسو جاری تھے۔ امرت کور ہچکیاں لے لے کر رو رہی تھی۔ تقریباً پانچ منٹ تک یہی جذباتی کیفیت چلتی رہی۔ تبھی میں نے بھان سنگھ کے ساتھ کھڑی پریت کور کو اشارہ کیا۔ وہ سمجھ گئی اور آگے بڑھ کر امرت کور کو دادا جی سے الگ کیا۔
’’میرا خیال ہے چلیں اب‘‘۔ میں نے کہا تو وہ کافی حد تک نارمل ہو گئے۔ میں نے امرت کور کا سامان اٹھایا اور اسٹیشن سے باہر کی طرف چل دیا۔ بھان، پریت اور امرت کور میرے ساتھ آن بیٹھے۔ جبکہ پردیپ سنگھ اور جسیمت کور دادا جی کے ساتھ چل دیئے۔ ہم آگے پیچھے چلتے ہوئے نکلے۔ لاہور اسٹیشن ایشیا کا دوسرا بڑا اسٹیشن ہے اور اس کی عمارت بہت پرانی ہے۔ ہم باتیں کرتے ہوئے گھر کی طرف چلتے چلے گئے۔
پاپا اور ماما نے ان کا استقبال خالص پنجابی انداز میں کیا۔ وہی دروزے پر تیل گرانا، مہانوں کو خوش آمدید کہنا، آنچل کی چھائوں کرنا اور ایسی ہی رسمیں۔ چونکہ پاپا اور ما ما کو امرت کور کے بارے میں معلوم تھا۔ اس لیے اسے خصوصی مہمان کی حیثیت حاصل تھی۔ اوپری منزل پر سبھی کمرے ان کے لیے مخصوص کر دیئے گئے تھے۔ رات کے کھانے پر خاصا اہتمام تھا، انہوں نے خوب سیر ہو کر کھایا۔ وہ بہت تھکے ہوئے تھے۔ اس لیے زیادہ باتیں نہ ہو سکیں اور وہ جا کر سو گئے۔
l l l
ناشتے سے فراغت کے بعد سبھی ڈرائنگ روم میں موجود تھے۔ سب مہمان فریش تھے اور خوشگوار باتیں چل رہی تھیں۔ تبھی میں نے بھان سے پوچھا۔
’’اٹاری میں تم لوگوں کو بہت دیر لگ گئی؟‘‘
’’ہاں امیگریشن میں بہت وقت لگتا ہے نا، وہاں سے میں نے فون بھی اسی لیے کیا تھا کہ پاکستان میں واہگہ پر وقت ہی نہیں ملنا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ انڈیا سے آنے والے پاکستانی تو وہاں سے سمجھوتہ ایکسپریس کو چھوڑ سکتے ہیں، مگر بھارتی نہیں اور پھر یاتریوں کارش بھی تو بہت تھا‘‘۔
’’ہاں یہ تو ہے‘‘۔ میں نے بات سمجھتے ہوئے سر ہلا کر کہا تو پردیپ سنگھ بولے۔
’’ہمارے پاس صرف ایک ہفتہ ہے، اس میں سے تین دن ہم نے جنم استھان پر گزارنے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف یاترائیں ہیں۔ اس کے بعد آ کر ہم آپ کے مہمان ہوں گے‘‘۔ ان کے یوں کہنے پر دادا نے کہا۔
’’پردیپ …! تم تو یہ تکلف والی بات کر رہے ہو، پاکستان کی سر زمین پر قدم رکھتے ہی تم ہمارے مہمان ہو، کیسے اجنبیوں کی طرح باتیں کر رہے ہو۔ تجھے ساری یاترائیں میرا یہ شیر پوتا کروائے گا، تم فکر کیوں کرتے ہو‘‘۔
’’نہیں…! وہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ تین دن بے چارہ کہاں پھنسا رہے گا، ہمارا وہاں انتظام ہے۔ ہاں پھر باقی یاترائیں اس کے ساتھ ہوں گی۔ ویسے میں آپ کو اپنا پروگرام بتا رہا ہوں‘‘۔ انہوں نے عام سے انداز میں کہا۔
’’ٹھیک ہے جیسے تم چاہو‘‘۔ یہ کہہ کر وہ جھتوال گائوں میں موجود مختلف لوگوں کے بارے میں پوچھنے لگے۔ جسیمت چاچی اور پریت کور گاہے گاہے کسی بات میں حصہ لے رہی تھیں مگر امرت کور بالکل خاموش تھی۔ کسی گہری پُرسکون اور ساکت جھیل کی مانند۔ وہ دادا جی کی طرف ہی دیکھے چلی جارہی تھی۔ شاید وہ دیکھ دادا جی کی طرف رہی تھی اور ذہن میں نہ جانے کون کون سے تصور اور خواب زندہ ہو گئے تھے۔
دوپہرسے قبل تک نہ جانے کتنی باتیں ہو گئیں۔ یاد نہیں کون کون سے موضوع چھڑے تقسیم ہندوستان، تقسیم کے بعد کے حالات، سکھوں کی سیاسی ومعاشرتی زندگی، خالصتانی تحریک، بھارتی سیاسی فضا، اندراگاندھی کی سیاست، آپریشن بلیوسٹار، دہلی میں سکھوں کا ہولوکاسٹ، پاک بھارت تعلقات، جھتوال میں پرانے لوگوں کے احوال اور نہ جانے کیا کیا۔ میں نے پوری طرح محسوس کیا کہ دادا بہت سکون سے بات کرتے کرتے اچانک جذباتی ہو جاتے اور خود بخود فوراً خود پہ قابو بھی پالیتے۔ میں حیران اس بات پر تھا کہ اس ساری گفتگو میں سبھی پربڑے جوش سے اور اپنی معلومات کے مطابق بات کرتے رہے، لیکن امرت کور نے ایک لفظ بھی نہیں کہا، وہ بالکل خاموش رہی تھی۔ اس کی ساری توجہ کا مرکز بس دادا جی کی ذات تھی۔ میں نے یہ بات خاص طور پر نوٹ کی تھی کہ وہ ایک ٹک دادا جی کے چہرے کی طرف دیکھے چلی گئی تھی کہ جیسے دادا جی کا وجود ہی اس کے لیے سب کچھ تھا۔ تبھی مجھے خیال آیا کہ امرت کور اور دادا جی کو تنہائی میں کچھ وقت دینا چاہئے تاکہ ان کے دلوں میں جو بھڑاس ہے وہ نکال لیں۔ وہ اگر ایک دوسرے سے کچھ کہنا چاہتے ہیں تو کہہ لیں۔ میں اپنے طور پر اس ہونے والی ملاقات بارے تعین کر رہا تھا۔ جبکہ پردیپ سنگھ ننکانہ صاحب جانے کے لیے نہ صرف پرتول چکا تھا بلکہ وہ جلدی جانے پراصرار بھی کر رہا تھا۔ پھر یہ طے پا ہی گیا کہ وہ اپنا وزٹ پورا کرلیں، بعد میں وہ ہمارے پاس رہیں گے۔ دوپہر کے بعد میں نے ایک بہترین اور آرام دہ کوسٹر سے انہیں ننکانہ صاحب روانہ کر دیا۔ بھان سنگھ سے رابطے کے لیے میں نے ایک سیل فون بھی اسے دے دیا۔
شام کے وقت میں اور دادا جی لان میں تھے۔ وہ خاموشی سے چائے پی رہے تھے۔ حالانکہ ایسا ہوتا نہیں تھا، وہ میرے ساتھ یا کسی کے ساتھ گپ شپ لگاتے ہوئے چائے پیتے تھے۔وہ نہ جانے کیا سوچ رہے تھے اور مجھے پورا یقین تھا کہ ان کی سوچ امرت کور اور اس سے جڑے واقعات کے گرد گھوم رہی ہو گی۔ تبھی میں نے ماحول کی اداسی ختم کرنے کے لیے ان سے پوچھا۔
’’دادا جی جب تک آپ امرت کور سے نہیں ملے تھے تب، اور اب جبکہ آپ اس سے مل چکے ہیں، کیا فرق محسوس کیا ہے آپ نے …؟‘‘
’’فرق…!‘‘ یہ کہہ کر وہ چند لمحے سوچتے رہے، پھر سنجیدہ لہجے میں بولے۔ ’’یار، میں اصل میں اس سے بہت نفرت کرتا تھا۔ جب تک تم نے جھتوال جانے کے بارے میں تفصیلات نہیں بتائیں تھیں، تب تک میں امرت کور ہی کو قصور وار سمجھتا رہا تھا۔ میرے دھیان میں یہی تھا کہ اس نے رگھبیر سنگھ کو بھڑکایا اور وہ جھتوال کے مسلمانوں کو تہہ تیغ کرنے پر تل گیا۔ میں اسے امرت کور کا انتقام ہی سمجھتا رہا، لیکن ایک بات ذہن میں کھٹکتی رہی اوروہ تھی رگھبیر سنگھ کا قتل، جو اس نے اپنے ہاتھوں سے کیا۔ وہ رات اور وہ قتل میں آج تک نہیں بھول سکا۔ اس رات کا ایک ایک لمحہ مجھے یاد ہے۔ جب اس کے بارے میں سوچتا تو وہ مجھے اتنی قصور وار دکھائی نہیں دیتی تھی۔ کیونکہ اس رات میں نے جتنی نفرت کا اظہار امرت کور سے کیا تھا، وہ چاہتی تو مجھے قتل کر سکتی تھی۔ میں تو بندھا ہوا بے بس تھا اور پھر جب تمہارے احساس دلانے پر اس نے حاجراں کی قبر بنا دی، تب سے میرے دل میں اس کے لیے نفرت نہیں رہی، بلکہ احترام آگیا ہے‘‘۔
’’اور… یہی محبت کا آغاز ہوتا ہے…‘‘ میں نے شرارت سے مسکراتے ہوئے کہا۔ مجھے امید تھی کہ وہ مسکرائیںگے لیکن ایسا نہیں ہوا، بلکہ وہ مزید سنجیدہ ہو گئے اور بہت گہرے لہجے میں بولے۔
’’او نہیں پتر…! محبت ہو جانے میں اور محبت کرنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ تقسیم ہندوستان کے دور کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے، لیکن اس سے پہلے جب امن کا دور تھا، اس کے بارے میں تم یوں سوچ سکتے ہو کہ رشتوں ناتوں اور تعلق میں احترام اور عزت ایک ایسا حصار تھا، جس میں غلاظت کو راہ نہیں ملتی تھی۔ بہت سادہ دور تھا۔ ہر رشتہ، ہر تعلق شیشے کی مانندواضح ہوتا تھا ۔ اس وقت تو مجھے بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ محبت ہوتی کیا شے ہے‘‘۔
’’اب تو سمجھتے ہیں آپ…؟‘‘ میں نے بھی سنجیدگی سے پوچھا۔
’’وقت نے بہت کچھ سمجھا دیا ہے پتر، محبت اور روحانیت کوئی الگ الگ شے نہیں ہیں۔ محبت کا تعلق براہ راست روح سے ہوتا ہے ، جسم سے نہیں، امرت کور کے نزدیک محض جسم کی پیاس بجھانے کا نام ہی محبت تھا۔ اس وقت مجھے یہ بہت بُرا لگا تھا، لیکن اب میں سوچتا ہوں تو وہ مجھے قصور وار دکھائی نہیں دیتی‘‘۔
’’کیوں؟‘‘ میں نے تیزی سے پوچھا۔
’’اسے خود محبت کے مفہوم سے آشنائی نہیں تھی۔ کچی عمر میں جو تصورات اس کے ذہن میں تھے۔ وہ اسی کا اظہار کرتی رہی۔ ظاہر ہے اس کے ذہن میں جو تھا، وہ اسی کے ماحول سے ہی اخذشدہ تھا۔ جو اس کے ماحول نے دیا اور جیسا اس کے ذہن میں محبت کا تصور بنایا، اس نے اظہار بھی ویسا ہی کرنا تھا۔ وہ جو کشش میرے بارے میں محسوس کرتی تھی۔ وہ اس کشش کا ٹھیک سے اظہار نہیں کر پائی۔ اس کے بدن کی زبان اس پر حاوی ہو گئی‘‘۔
’’بدن کی پکارر گھبیر سنگھ بھی سن سکتا تھا، اس کے ساتھ امرت کو کا وہ تعلق نہیں بنا…‘‘
’’وہی تو… اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود میں ہی اسے یاد کیوں رہا؟ اس نے شادی کیوں نہیں کی؟ اس کے جسم کی پکارنے اسے نہیں ستایا، اس نے اپنے واہ گرو سے ناطہ کیوں جوڑا…؟ ایسے بہت سارے سوال ہیں میری جان، مجھے اب اس کی حالت اور تڑپ کا اندازہ ہو رہا ہے‘‘۔ انہوں نے دور خلائوں میں گھورتے ہوئے کہا۔
’’ایسا کیوں ہوا؟ یہی تو میں سمجھنا چاہ رہا ہوں؟‘‘
’’جب جسم الگ الگ ہوتے ہیں نا تو روح سے ناطہ جڑنے میں کوئی رکاوٹ نہیں رہتی۔ یہی تو جسم سے روح تک کا سفر ہے اور یہ سفر اسی وقت طے ہوتا ہے جب کشش میں خلوص اور پاکیزگی ہو‘‘۔ انہوں نے سکون سے کہا ۔
’’واواد…! کیا آپ کو اس رات احساس نہیں ہوا امرت کور کی محبت کا؟‘‘ میں نے ایک نئے رخ سے پوچھا۔
’’نہیں وہ لمحے تھے ہی ایسے، اﷲ نہ کرے تمہیں زندگی میں ایسا کوئی منظر دیکھنے کو ملے۔ تم اس قدر شدت سے تصور بھی نہیں کر سکتے۔ میرے سامنے میرا گھر جل رہا تھا، میرے اپنے قتل ہو گئے تھے۔ میں بے بس پڑا تھا اور موت میرے سر پر کھڑی تھی۔ اس وقت انسان کی ذہنی حالت کیا ہو سکتی ہے؟ ان لمحات میں امرت کور ہی سارے معاملات میں قصور وار دکھائی دے رہی تھی۔ ایسے میں محبت نہیں، میرے اندر سے نفرت ابل رہی تھی۔ تب اس سے محبت نہیں نفرت ہی کی جا سکتی تھی، جس کا میں نے اظہار کیا اور یہی نفرت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میرے ساتھ رہی‘‘۔
’’اب آپ نے کیا محسوس کیا، امرت کور کے اندر کی حالت کیا ہو سکتی ہے‘‘۔ میں نے یونہی تجسس سے پوچھا۔
’’لگتا ہے اب وہ محبت کے اصل مفہوم تک جا پہنچی ہے۔ وہ کس مقام پر ہے، یہ تو میں نہیں کہہ سکتا، اور اس سے کوئی بات نہیں ہوئی۔ اصل میں سوچ اور من کی پاکیزگی ہی محبت کے اصل مفہوم تک رسائی دیتی ہے۔ میں اب اس کے بارے میں نہیں جانتا‘‘۔ دادا نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’ہوں…!‘‘ میں نے سوچتے ہوئے ہنکارا بھرا۔ پھر میں نے ان سے کوئی مزید سوال نہیں کیا۔ اگرچہ میں ان سے بہت کچھ پوچھنا چاہتا تھا اور کئی سوال میرے ذہن میں کلبلا رہے تھے مگر یہاں وہ حد آن پہنچی تھی، جہاں ادب مانع تھا۔ مجھے یہ سوچ کر سنسنی محسوس ہونے لگی کہ ایسے ہی سوال اگر میں امرت کور سے پوچھوں تو اس کے پاس کیا جواب ہوں گے؟