اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

874,767FansLike
9,998FollowersFollow
568,000FollowersFollow
191,068SubscribersSubscribe

ایم کیو ایم نے جمہوریت کے خلاف کُھل کر لنگوٹا کس لیا ۔۔۔(منظور الٰہی مغل)

خُدا کو کسی نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھابلکہ خُدا کو اس کی قدرتوں سے پہچانا جاتا ہے ۔دوست اور دشمن کو بھی اس کی وفا اور بے وفائی سے پہچانا جاتا ہے ۔دوست کی پہچان اُس وقت ہوتی ہے جب اس سے واسطہ پڑتا ہے پھر پتہ چلتا ہے کہ میرا یہ دوست میرے ساتھ کتنا مخلص ہے بعض دوست دوست کے روپ میں دشمن ہوتے ہیں۔بعض دوست دشمن کے روپ میں دوست ہو تے ہیں اوربعض اوپر اوپر سے دوست بن کر اندر سے جڑیں کاٹتے ہیں ۔بعض اوپر سے تو دشمن لگتے ہیں لیکن اندر سے بڑے خیر خواہ ہوتے ہیں ۔بات تو صرف پہچان کی ہوتی ہے اور احساس کی ہوتی ہے۔دوست کو پہچاننے میں غلطی کرنا یقیناًایک نہ ایک دن بڑا نقصان اُٹھانا پڑتا ہے ۔ایسی صورت میں دوست کی جان پرکھ بہت ضروری ہوتی ہے ۔ملکی سیاست میں بھی بعض سیاسی جماعتیں دوست بھی ہوتی ہیں اور دشمن بھی ہوتی ہیںتودوستی ہمیشہ اُن سے کرنی چاہیے جو ہمیشہ ساتھ چل سکیں ساتھ نبھاسکیں ۔ساتھ وہ جماعتیں نبھاتی ہیںجن کے آپس میں نظریات ایک ہوں اور خیالات ایک ہوںیا جن کا سوچنے کا انداز ایک ہو ۔جس جماعت یا پارٹی کے ساتھ نظریاتی سوچ نہ ملتی ہو تو اس پارٹی یا جماعت کے ساتھ کبھی نہیں چلنا چاہیے۔ملکی نظام کو چلانے کے لئے بعض دفع باامر مجبوری ایسی جماعت کو ساتھ ملاناپڑ جاتاہے کہ اسکے بغیرگزارانہیںہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ ثابت ہو گیا کہ ہم نے جس کو مخلص سمجھ کرساتھ ملایا تھا وہی بے وفانکلا اسلئے کہ جس کو ساتھ ملایا تھااس نے سمجھا کہ میں ان کی ضرورت ہوں وہ ضرورت سے ذیادہ کی ڈیمانڈ کرے گایاساتھ چھوڑنے کی دھمکی دیگا اس طرح وہ اپنا ناجائزفائدہ اٹھائے گا کیوں کہ اس نے سمجھ لیا کہ یہ تو میرے تعاون کی وجہ سے اس کی پوزیشن مظبوط ہو گئی ہے کیوں نہ میں اپنے تعاون کی بھر پور قیمت وصول کروں۔اس سے ظاہر ہوا کہ میرا یہ دوست جس کو میں اپنابڑا مخلص دوست سمجھتا تھا یہ قطعاًمخلص نہ تھا بلکہ مطلبی تھا جس نے موقع سے ناجائز فائدہ اٹھایا ۔اب یہی صورت حال سیاسی جماعتوں میں چل رہی ہے ۔سندھ کی ایک جماعت ایم کیو ایم جس نے ہمیشہ ملکی مفاد کی بجائے اپنے مفاد کی سیاست کی ہے ۔اپنے مفاد کے لئے یہ جماعت اسمبلیوں سے واک آوٹ کر جاتی ہے چاہے واک آوٹ کرنا ملکی مفاد میں نہ ہو لیکن ذاتی مفاد میں ضرور ہو ناچاہیے ا ب دھرنے والوں کا ساتھ دیتے ہوے اور ان کی حمائت میں اپنے اسمبلیوں کے ممبران کے استعفے دینے کا اعلان کر دیا تھاکہ حکومت کا نظام جمہوری طریقے سے چلنے نہ پائے ۔اس سلسلے میںمولانا فضل الرحمان نے بڑااہم کردار ادا کیا تھا کہ جمہوریت کی گاڑی رواںدواں رہے اوریہ کہ ملک میں پہلے ہی دھرنوں کی وجہ سے حالات کشیدہ ہیںمزید اورنیامسئلہ نہ کھڑا ہوتو مولانا فضل الرحمان صاحب نے اُن کے استعفوں کا مسئلہ مواخر کرادیا جو ایک بڑا خوش آئند اقدام تھا الطاف حسین نے بھی وزیراعظم کو استعفی دینے کے لئے کہاکہ آپ دھرنے والوںکا مطالبہ مانتے ہوے مستعفی ہو جائیں یہی ملک کے نفاد میں ہے ورنہ ملک کو نقصان ہو گا ۔پھر فوج کوبھی دعوت دی کہ ملک کا نظام سمبھالے یہ ساری باتیں جمہوریت کے خلاف جاتی ہیں ۔اب اپنے ورکروں کے اجلاسے خطاب کرتے ہوے فرمایا کہ مجھے آپ پندرہ دن کے لئے پاکستان آنے دیںمیں پورے ملک سے کرپشن کاخاتمہ کرکے پاکستان کو امن و سکون کا گہوارا بنادوں گا۔دھرنے والوں کو کہا گیا ہے کہ اگر اس الیکشن میںدھاندلی ثابت ہو جائے تو حکومت تحلیل ہو جائے گی لیکن الطاف بھائی کو حکومت سمبھالنے کی اس سے بھی ذیادہ جلدی ہے کہ بلا تاخیر مجھے حکومت سونپ دی جائے تاکہ میں دو ہی ہفتوں میں پاکستان کو جنت کا گہوارا بنا دوں ۔تو ایسی صورت میںاس سیاسی لیڈر کو پہچاننے میںکون غلطی کرے گا کہ کون جمہوریت کا کتنا خیر خواہ ہے ۔جو آج پوری حکومت کو ہی اپنے نشانے پر لے آیا ہے۔رینجرز پر دھاوا بولنے کے لئے اپنے ورکروں سے عہدو پیماء کر رہا ہے ۔اور میڈا کے دفاتروںپر حملے کراکے اپنی بد مستی دکھلا رہا ہے ۔ایم کیو ایم کے سربراہ نے یہیں پر بات کو ختم نہیں کیا بلکہ اس غدار نے اور غدار ذہن کے مالک نے اپنے اندر پاکستان کی مخالفت کا جو زہر پہلے دن سے اس کے دماغ میں بھرا ہوا تھا وہ بلا آخر پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگاکر اگل ہی دیا ۔اصل میں تو یہ غدار ہی کی پارٹی تھی اور غداری کے لئے ہی آج تک کام ہو تا رہا ہے ۔اصل میں الطاف حسین نے اپنی پارٹی کے نام سے ہی واضع کردیا تھا کہ اس پارٹی کا مقصد کیا ہے لیکن آج تک کوئی اس حقیقت کو نہ سمجھ پایا کہ یہ پارٹی ملک و قوم کی خیر خواہ ہو ہی نہیں سکتی۔اب ہم پارٹی کے نام پر ذرہ غور کر کے دیکھیں کہ اس کے نام میں کوئی ملک و قوم کی خیر خواہی نظر آتی ہے یا نہیں ۔ایم ۔کا مطلب ہے میں ۔کیو ۔کا مطلب ہے ۔قوم کو ۔ایم ۔کامطلب ہے۔ماروں گا ۔یعنی ایم کیو ایم کا مطلب ہوا ۔میںقوم کو ماروں گا میںنے تو دوسروں کو مارنے کے لئے یہ اس نام کی پارٹی بنائی ہے تو میں نے کام بھی تو وہی کرنے ہیں جو میری پارٹی کا منشور ہے ۔دیکھ لو پاکستانیوں میں نے اپنے منشور پر عمل کرکے د کھا یا کہ نہیں یعنی میں نے قوم کو کس مقام پر پہنچادیاہے کہ میری پارٹی کے لوگ انسان انسان نہ رہے بلکہ انسانوں کا خون چوستے رہے میری پارٹی کے لوگ بھتہ خور بن کرتاجروں کو حراساں کرکے بھتہ وصول کرتے رہے ۔میری پارٹی کے لوگ چور ۔ڈاکو راہزن بنتے رہے۔ملک کے بڑے بڑے نامور مجرم اور اشتہاری مجرم میری پناہ میںرہنے لگے۔بڑے بڑے جرموں کا ارتکاب میرے ورکر کرتے رہے۔اسلئے مجھ سے خیر کی توقع نہ پہلے تھی اور نہ اب رکھنا ۔مجھے سمجھنے کے لئے میری پارٹی کے لوگوں نے غلطیاں کیں میں نے ان کو اخلاقی طور پر تباہ برباد کردیاہے۔اب جن کا شعور بیدار ہورہا ہے وہ میری پارٹی کو خیرباد کہہ رہے ہیں ۔اب بھی جس نے سچا پاکستانی بننا ہے وہ میری پاڑتی سے نکل جائے میں تو پاکستان مخالف لابی کا بہت بڑا ایجنٹ ہوں مجھے سمجھنے میں پاکستانی قوم نے بہت دیر کردی ۔میں نے غیر ملکیوں کا ایجنٹ ہونے کے ناطے ملک پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کر کے خاص کر کراچی کا امن و سکون تباہ کر کے رکھ دیا ہے ۔میرے حواری جو میری ہاں میں ہاںملاتے رہے وہ بھی میرے ساتھ برابر کے شریک ہیں ان کو بھی میرے ساتھ پھانسی دے کر چوکوں میں نشان عبرت بنا کر لٹکا دیا جائے تاکہ آئندہ لوگ ایم کیو ایم کو ملک دشمن پارٹی سمجھ کر کبھی قبول نہ کریں ، اور آنے والی نسلو ں کو بھی سمجھا دیں کہ اس پارٹی سے بچ کے رہنا ۔
پارٹیاں تو ہوتی ہی ہیں ملک کی خیر خواہی کے لئے
ایم کیو ایم تو بنائی ہی تھی ملک کی تباہی کے لئے