اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

877,292FansLike
9,999FollowersFollow
568,500FollowersFollow
191,068SubscribersSubscribe

نیشنل پارٹی اور شفافیت ۔۔۔ ( ڈاکٹر توصیف احمد خان )

بلوچستان میں عجیب واقعہ ہوا۔ صوبائی سیکریٹری خزانہ کے گھر سے کروڑوں روپے نقد اور زیورات برآمد ہوئے۔ نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے مشیر امور خزانہ خالد لانگو مستعفی ہو گئے۔ حزبِ اختلاف نے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور ان کی کابینہ کے وزراء پر کرپشن کے الزامات لگائے۔ ڈاکٹر عبدالمالک نے خود کو احتساب کے لیے پیش کر دیا اور نیشنل پارٹی کی مرکزی کمیٹی کا اجلاس کوئٹہ میں ہوا۔
اجلاس میں کرپشن کو ترقی کے لیے زہرِ قاتل قرار دیتے ہوئے پارٹی کے سربراہ سینیٹر حاصل بزنجو، ڈاکٹر عبدالمالک اور ان کے ساتھیوں نے اپنے آپ کو رضاکارانہ طور پر احتساب کے لیے پیش کر دیا۔ نیشنل پارٹی کے پنجاب کے صدر ایوب ملک نے پارٹی میں احتساب کمیٹی کے قیام کی تجویز پیش کی جس کو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ احتساب کمیٹی نیشنل پارٹی کے قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے اراکین کا احتساب کرے گی۔ یہ کمیٹی اراکین کے اثاثوں، بینک اکاؤنٹس اور انکم ٹیکس گوشواروں کا آڈٹ کرے گی۔ اس آڈٹ کے لیے پیشہ وارانہ کمپنیوں کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔ یہ کمیٹی اراکین اسمبلی کی سفارش پر شروع ہونے والے ترقیاتی منصوبوں کا بھی آڈٹ کرے گی۔
نیشنل پارٹی متوسط اور نچلے متوسط طبقے کے کارکنوں کی نمایندہ جماعت ہے۔ یہ جماعت غوث بخش بزنجو کی سیاست کی علمبردار ہے۔ غوث بخش بزنجو سردار نہیں تھے۔ انھوں نے ساری زندگی چھوٹے صوبوں کے حقوق اور مظلوم طبقات کے لیے صرف کی تھی، اگرچہ میر غوث بخش بزنجو نے 1947ء میں ریاست قلات کی پاکستان میں شمولیت کی مخالفت کی تھی مگر پھر وہ جمہوری اداروں کی بحالی، امریکا کی سامراجی پالیسیوں اور خطے کے ممالک میں دوستی اور امن کی کوششوں میں مصروف ہو گئے۔ میر غوث بخش بزنجو نے ہمیشہ پرامن سیاسی جدوجہد کو کامیابی کی کنجی قرار دیا۔
میر بزنجو نے 1947ء سے 1985ء تک مختلف ادوار میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ انھوں نے جنرل ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے ادوار میں برسوں جیل میں گزارے مگر کبھی انتہاپسندانہ مؤقف اختیار نہیں کیا۔ میر بزنجو بلوچستان کے گورنر رہے۔ ان کے حکمرانوں سے ذاتی تعلقات رہے۔ وہ افغانستان اور بھارت میں خاصے مشہور تھے مگر ان پر کسی ملک سے امداد لینے کا الزام نہیں لگا۔ بزنجو نیپ اور بھٹو حکومت کے درمیان تصادم کے مخالف تھے۔ میر غوث بخش بزنجو کا تعلق عوامی نیشنل پارٹی سے تھا۔
نیشنل عوامی پارٹی کا قیام نومبر 1957ء میں ڈھاکا میں عمل میں آیا۔ نیپ میں میاں افتخار الدین کی آزاد پاکستان پارٹی، خیبر پختونخوا کی خدائی خدمت گار پارٹی جس کے قائد خان عبدالغفار خان اور ولی خان بلوچستان کی استحمان گل جس کے قائد شہزادہ عبدالکریم اور میر بخش بزنجو، سندھ سے سندھ عوامی محاذ جس کے سربراہ جی ایم سید اور عبدالحمید سندھی، ہاری رہنما حیدر بخش جتوئی، مشرقی پاکستان سے کسان رہنما مولانا عبدالحمید خان بھاشانی اور ان کے ساتھی شامل تھے۔
نیپ پہلی حزب اختلاف کی جماعت تھی جس کا منشور مظلوم طبقات کے حالاتِ کار کی تبدیلی، مشرقی پاکستان اور چھوٹے صوبوں کے حقوق کا تحفظ اور ملک میں پھیلتے ہوئے امریکی سامراج کے اثرات کے خلاف شعور پیدا کرنے، پڑوسی ممالک سے دوستانہ تعلقات کے قیام اور دنیا بھر کی سامراج دشمن تحریکوں کی حمایت کرنا تھا۔ نیشنل عوامی پارٹی کے کارکنوں اور رہنماؤں کی اکثریت کا تعلق نچلے اور متوسط طبقے سے تھا۔ نیپ کے بیشتر رہنماؤں نے انگریز حکومت کے خلاف تحریک میں حصہ لیا تھا، وہ مہاتما گاندھی کے سادہ زندگی کے فلسفہ سے متاثر تھے۔ نیپ کے رہنماؤں میں کرپشن اور سرکاری عہدے کے ناجائز فائدے اٹھانے کی کوئی روایت نہیں تھی۔
1966ء میں نیپ دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ ایک حصے کی قیادت مولانا بھاشانی اور دوسرے کی قیادت ولی خان نے کی۔ نیپ نے 1970ء کے انتخابات میں بلوچستان اور سرحد سے خاطرخواہ کامیابی حاصل کی۔ اس وقت کے صدر ذوالفقار علی بھٹو نے معاہدے کے تحت نیپ اور جمعیت علماء اسلام نے سرحد اور بلوچستان میں حکومتیں قائم کیں۔ سرحد میں نیپ کے رہنما ارباب سکندر خلیل گورنر، مفتی محمود وزیر اعلیٰ، بلوچستان میں میر غوث بخش بزنجو گورنر اور عطاء اﷲ مینگل وزیر اعلیٰ تھے۔
یہ حکومت 9 ماہ تک جاری رہی۔ پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے نیپ کی حکومتوں کو برطرف کر دیا۔ اخبارات کی فائلوں سے پتہ چلتا ہے کہ برطرفی کا حکم ملتے ہی گورنر ارباب سکندر خلیل اور میر غوث بخش بزنجو نے چند گھنٹوں میں گورنر ہاؤس خالی کر دیے کیونکہ ان کا انتہائی مختصر سامان تھا۔ بھٹو حکومت نے نیپ کی ان حکومتوں پر مسلح بغاوت جیسے الزامات لگائے تھے مگر کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگ سکا تھا۔
پاکستان میں متحرک سیاسی جماعتوں کی عمریں 50 سا ل سے زیادہ ہیں۔ مسلم لیگ 1905ء میں قائم ہوئی اور سب سے قدیم جماعت ہے۔ پیپلز پارٹی 1967ء میں قائم ہوئی، تحریک انصاف 20 سال پہلے قائم ہوئی، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام وغیرہ پاکستان سے پہلے قائم ہوئیں۔ ایم کیو ایم کا قیام 1986ء میں عمل میں آیا مگر بیشتر جماعتیں شخصیتوں کے گرد گھومتی ہیں۔ مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں میں جمہوری کلچر مستحکم نہیں ہے۔ ان جماعتوں میں سالانہ کنونشن منعقد نہیں ہوتے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ وغیرہ میں انتخابات کرانے کی روایت نہیں ہے۔
تحریکِ انصاف میں پارٹی انتخابات کا تجربہ ہوا، مگر مختلف وجوہات کی بناء پر یہ تجربہ کامیاب نہیں ہو سکا۔ پارٹی کا انتظام چلانے کے لیے اراکین سے چندے لیے جاتے ہیں، خاص طور پر پارٹی ٹکٹ لینے والوں سے خطیر رقم وصول کی جاتی ہے۔ اسی طرح پارٹیوں کے ہمدرد عطیات بھی دیتے ہیں۔ اگرچہ الیکشن کمیشن کے قوانین کے تحت ہر جماعت کو بینک اکاؤنٹ کھولنا لازمی ہے۔ سالانہ اخراجات کی آڈٹ رپورٹ بھی الیکشن کمیشن میں جمع ہوتی ہے مگر بیشتر چندوں سے حاصل ہونے والی بڑی رقوم کو ریکارڈ پر نہیں لایا جاتا۔ جو لوگ پارٹی پر سرمایہ کاری کرتے ہیں وہ پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد توقع رکھتے ہیں کہ چندے میں دی گئی رقم سے 100 گنا زیادہ رقم وصول کی جائے۔
منتخب اراکین جو رقمیں اپنے انتخابات پر خرچ کرتے ہیں وہ اس سے کئی گنا زیادہ رقم وصول کرنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح پارٹی کے کارکن بھی اپنی محنت کا معاوضہ وصول کرنا چاہتے ہیں۔ جو جماعتیں اقتدار میں نہیں آتیں ان کے لیے سرمایہ کاری کرنے والے پارٹی کا اثرو رسوخ استعمال کر کے مختلف نوعیت کے فوائد حاصل کرتے ہیں، سیاسی جماعتیں اپنے فرسودہ نظام کی بناء پر بدعنوانی کرنے والے افراد کی آماجگاہ بن جاتی ہیں۔ برطانیہ اور دیگر ممالک میں سیاسی جماعتوں کے سالانہ کنونشن منعقد ہوتے ہیں، ہر سطح پر انتخابات ہوتے ہیں۔
پارٹی کے لیے وصول کیے جانے والے چندے کا باقاعدہ حساب کتاب رکھا جاتا ہے اور آڈٹ رپورٹ کنونشن میں پیش کی جاتی ہے۔ پارٹی کے رہنما ہر سال اپنے اثاثے ڈیکلیئر کرتے ہیں۔ وہاں پارٹی کے عہدے داروں اور کارکنوں کو باقاعدہ تنخواہیں دی جاتی ہیں، پارٹی کے عہدے دار اور کارکن لوٹ مار نہیں کرتے، جو وزراء غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں ان کا سیاسی مستقبل ختم ہو جاتا ہے۔ ان جماعتوں میں کارکن کھل کر بحث کرتے ہیں اور پارٹی پالیسی تیار کرتے ہیں۔
پاکستان میں صرف جماعت اسلامی ایک مکمل منظم جماعت ہے مگر ایک مذہبی جماعت ہونے کی بناء پر اس کا دائرہ انتہائی محدود ہے۔ نیشنل پارٹی نے اندرونی احتساب کا نظام بنا کر ایک جدید جماعت کی جانب قدم بڑھایا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں کا جائزہ لینے والی غیر سرکاری تنظیم جمہوری عمل اور شفافیت کے اعتبار سے جماعت اسلامی اول اور نیشنل پارٹی دوسرے نمبر پر ہے جو جمہوری نظام کے لیے ایک نیک شگون ہے۔ باقی جماعتوں کو بھی نیشنل پارٹی کی پیروی کرنی چاہیے۔ اس طرح طالع آزما قوتوں کو شکست ہو سکتی ہے اور جمہوری نظام مستحکم ہو سکتا ہے۔
(بشکریہ روزنامہ ایکسپریس)