اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

843,592FansLike
9,979FollowersFollow
561,200FollowersFollow
181,482SubscribersSubscribe

بیماری کیوں لگتی ہے؟

ہم بیمار ہوتے ہیں تو علاج کے لیے ضرور کوشش کرتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ بیماری آخر کیوں لگتی ہے اور اس سے کس طرح بچا جا سکتا ہے۔ ہر بیماری کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔ مختلف بیماریوں کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں۔جراثیم: جراثیم یا بیکٹیریا اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ عام آنکھ سے انہیں دیکھا نہیں جا سکتا اور اس کے لیے خوردبین یا مائیکرو سکوپ استعمال کرنا پڑتی ہے۔ وائرس بیکٹیریا سے بھی چھوٹے ہوتے ہیں۔ بیکٹیریا اور وائرس انسانی جسم میں مندرجہ ذیل طریقوں سے داخل ہوتے ہیں۔1۔ سانس کی نالی سے۔ ہوا میں موجود جراثیم، کھانسی سے منتقل ہونے والے جراثیم، گرد و غبار وغیرہ کے ذریعے سانس کی نالی میں داخل ہو جاتے ہیں۔2۔ خون کے ذریعے۔ مثلاً مچھروں یا دوسرے کیڑوں کے کاٹنے سے جراثیم خون میں داخل ہو جاتے ہیں۔3۔ خوراک کی نالی کے ذریعے۔ آلودہ پانی اور خوراک کے ذریعے جراثیم جسم میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اکثر جراثیم کو زندہ رہنے کے لیے ہوا کی ضرورت ہوتی ہے۔ پانی بھی جراثیم کی بنیادی ضرورت ہے لیکن کچھ جراثیم اس کے بغیر بھی زندہ رہتے ہیں۔ ایسے جراثیم جو انسانی جسم میں بیماری پیدا کرتے ہیں انہیں زندہ رہنے کے لیے اتنے ہی درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے جو انسانی جسم کا درجہ حرارت ہوتا ہے۔اگر خوراک کو ہم ریفریجریٹر یا فریزر میں رکھ دیں تو ان میں جراثیم کا رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کچھ جراثیم ایسے بھی ہوتے ہیں جو کم درجہ حرارت پر بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔ اسی طرح اگر درجہ حرارت بہت بڑھ جائے تو بھی جراثیم زندہ نہیں رہ سکتے۔ اسی لیے سرجری کے آلات اور سرنجوں کو ابالا جاتا ہے تاکہ جراثیم ختم ہو جائیں۔ ابالنے سے پانی بھی جراثیم سے پاک ہو جاتا ہے۔روشنی بھی جراثیم پر اثر انداز ہوتی ہے۔ سورج کی تیز روشنی میں جراثیم زندہ نہیں رہ سکتے جبکہ اندھیرے میں تیزی سے بڑھتے اور زندہ رہتے ہیں۔نقصان: جراثیم جسم کو کئی طریقوں سے نقصان پہنچاتے ہیں۔ بعض جراثیم جسم کے خلیوں کو تباہ کر دیتے ہیں۔ دوسرے جراثیم جس میں داخل ہو کر زہریلی رطوبت(Toxin) پیدا کرتے ہیں۔ جراثیم جسم کے ایک حصے سے باقی حصوں میں بھی آسانی سے پہنچ جاتے ہیں۔ لیکن انسانی جسم کی اپنی قوت مدافعت ہوتی ہے جو جراثیم کے حملے کا مقابلہ کرتی ہے۔ اس لیے بیماری سے بچنے کے دو رہنما اصول یہ ہیں۔1۔ جراثیم کے حملے سے بچنے کی ہر ممکن تدبیر کی جائے۔2۔ اپنی عمومی صحت کا خیال رکھا جائے تاکہ جسم اپنی قوت مدافعت سے جراثیم کا مقابلہ کر سکے۔بعض جراثیم اتنے خطرناک ہوتے ہیں کہ اگر وہ جسم میں داخل ہو جائیں تو قوت مدافعت کے باوجود شدید بیماری کا سبب بنتے ہیں۔ ایسی بیماریوں کا اکثر اوقات مؤثر علاج بھی ممکن نہیں ہوتا۔ ایسی بیماریوں سے بچنے کے لیے حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں اور یہی بچاؤ کا مؤثر طریقہ ہے۔وراثت: بعض بیماریاں موروثی ہوتی ہیں، یعنی وہ وراثت کے ذریعے والدین سے بچوں میں منتقل ہوتی ہیں۔ مثلاً شوگر یا ذیابیطس۔ یہ حقیقت کہ کچھ بیماریاں کسی خاندان کے افراد میں زیادہ پائی جاتی ہیں یہ ثابت نہیں کرتی کہ یہ موروثی ہیں۔ لیکن خاندان کی مشترکہ عادات اور ان کا رہن سہن ایسی بیماریوں کے اسباب میں شامل ہو سکتا ہے۔مردوں اور عورتوں میں بھی بیماریوں کی بابت فرق پایا جاتا ہے۔ مثلاً مردوں کو دل کی بیماریاں عورتوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہیں۔ اسی طرح مردوں میں پھیپھڑوں اور جگر کے امراض عورتوں کی نسبت زیادہ پائے جاتے ہیں۔ دوسری طرف عورتوں میں گلہڑ کی بیماری مردوں کی نسبت زیادہ پائی جاتی ہیں۔ اسی طرح شخصی عادات بھی بیماری کے معاملے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ سگریٹ نوشی، شراب نوشی، بے وقت سونا، بہت زیادہ مصروفیت، بداحتیاطی، لاپروائی وغیرہ ایسے عوامل ہیں جو انسان کو بیمار کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔مختلف عوامل: بیماری لگتے میں مختلف عوامل بیک وقت کار فرما ہوتے ہیں۔ کسی جرثومے کا جسم میں داخل ہو جانا ضروری نہیں کہ بیماری پیدا کرے۔ مثال کے طور پر ٹی بی کے جراثیم اکثر افراد کے جسم میں داخل ہو جاتے ہیں لیکن وہ بیماری پیدا نہیں کر سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جسم کی قوت مدافعت، موروثی اور دیگر عوامل ان جراثیم کا مقابلہ کرتے رہتے ہیں۔ صرف اسی وقت بیماری حاوی ہوتی ہے جب انسان کی مدافعت کسی وجہ سے کمزور پڑ جائے۔ لاپروائی سے حادثات ہوتے ہیں اور انسان زخمی ہو جاتا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی اور اسی طرح کے دوسرے عوامل بیماری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
تحریر: ڈاکٹر ابرار احمد