اسٹیفن ہاکنگ کی آخری کتاب۔ اردو ترجمہ

از نائلہ حنا :۔اسٹیفن ہاکنگ ہمارے عہد کے مشہور ترین سائنسدان تھے، جن کا انتقال گزشتہ برس مارچ میں ہوا۔ ان کے بارے میں اتنا کچھ لکھا جاچکا ہے کہ انہیں مزید کسی تعارف کی ضرورت نہیں۔ہاکنگ کی آخری کتاب ’’بریف آنسرز ٹو بِگ کویسچنز‘‘ پچھلے سال اکتوبر میں، ان کے انتقال کے بعد شائع ہوئی جس میں ایسے دس سوالوں کے جوابات دیئے گئے ہیں جو اسٹیفن ہاکنگ کے نزدیک ’’بڑے سوال‘‘ ہیں۔ زیرِ تبصرہ کتاب اسی کا اردو ترجمہ ہے جسے ’’فضلی سنز‘‘ نے دسمبر 2018 میں شائع کیا ہےاس کتاب کا اردو ترجمہ علیم احمد اور سہیل یوسف نے کیا ہے جو پاکستان کے کہنہ مشق اور معتبر ترین سائنسی صحافیوں میں بھی شمار کیے جاتے ہیں۔ عرضِ مترجمین میں دونوں مترجمین کا کہنا ہے کہ انہوں نے کتاب کا اردو ترجمہ اتنے رواں انداز میں کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ جسے پڑھ کر یوں لگے جیسے ہاکنگ نے یہ کتاب اردو ہی میں لکھی ہو۔ اس کے فوراً بعد ہی کتاب کے ابواب شروع ہوجاتے ہیں۔پہلا باب خدا کے موجود ہونے یا نہ ہونے کے سوال پر ہے۔ یہ غالباً مہذب و متمدن انسانی تاریخ کا سب سے پرانا اور ہنوز حل طلب سوال ہے۔ ہاکنگ نے اپنے مخصوص انداز میں، سائنسی پیرایہ اختیار کرتے ہوئے، اس سوال پر بحث کی ہے لیکن اختتام تک وہ اس سوال کا کوئی واضح اور ٹھوس جواب دینے سے قاصر نظر آئے۔ اسی باب کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مترجم علیم احمد نے کتاب کے اختتام پر ایک ضمیمہ خاص لکھا ہے: کیا خدا کو سائنس سے ثابت کیا جاسکتا ہے؟ اس میں سائنس کی وضاحت کے علاوہ سائنسی کی اپنی حدود و قیود بھی بیان کی گئی ہیں، جبکہ خدا کے وجود یا عدم وجود کو سائنس سے ’’ثابت‘‘ کرنے کے عمل کو ماورائے عقل و خرد قرار دیا ہے۔ اگر آپ اس کتاب کا لطف لینا چاہتے ہیں، تو میں تجویز کروں گی کہ پہلے باب کے فوراً بعد ضمیمہ خاص پڑھیے گا۔دوسرا باب ابتدائے کائنات کے سوال سے متعلق ہے، یعنی یہ کہ کائنات کی ابتداء کیسے ہوئی؟ اس باب میں ہاکنگ نے ’’بگ بینگ سنگولیریٹی‘‘ سے وابستہ معما سلجھانے کےلیے ان کوششوں کا احاطہ کیا ہے جو اب تک اس ضمن میں کی جاچکی ہیں۔ تیسرے باب کا عنوان ہے ’’کیا کائنات میں کوئی اور ذہین مخلوق ہے؟‘‘ جو بنیادی طور پر خلائی مخلوق کے ہونے یا نہ ہونے سے متعلق ہے۔ اس طویل باب میں ہاکنگ بڑی حد تک پُریقین نظر آتے ہیں کہ کائنات میں ہمارے علاوہ بھی کوئی اور ذہین مخلوق موجود ہے۔ البتہ اس سوال کا حتمی جواب فی الحال کسی بھی سائنسدان کے پاس موجود نہیں، اس لیے ہاکنگ نے بھی اسے تشنہ چھوڑ دیا ہے۔چوتھا باب اس بارے میں ہے کہ ہم مستقبل کی ’’ٹھیک ٹھیک‘‘ پیش گوئی کرسکتے ہیں یا نہیں؟ بظاہر یہ سوال علمِ نجوم سے متعلق لگتا ہے لیکن دراصل اس کا تعلق ’’سائنسی پیش گوئیوں‘‘ اور ’’سائنسی جبریت‘‘ (scientific determinism) سے ہے۔ اس باب میں ہاکنگ نے پہلے تو جبریت اور احتمال (probability) میں فرق بیان کیا ہے – جس کا براہِ راست تعلق کوانٹم میکانیات سے ہے – اور پھر ان مواقع کا تذکرہ کیا ہے جہاں سائنس اپنی قوتِ پیش گوئی سے محروم ہوجاتی ہے۔اگلا باب ہے ’’بلیک ہول کے اندر کیا ہے؟‘‘ جس میں ہاکنگ نے اپنے اصل تحقیقی کام یعنی ’’ہاکنگز ریڈی ایشن‘‘ کا عمومی تعارف بھی پیش کیا ہے۔ بلیک ہولز ایسے مردہ ستارے ہوتے ہیں جن کی قوتِ ثقل اتنی شدید ہوتی ہے کہ روشنی بھی وہاں سے فرار نہیں ہوسکتی، جو کائنات کی سب سے تیز رفتار شئے ہے۔ میری رائے میں یہ ایک مشکل باب ہے جسے سمجھنے کےلیے قاری کے پاس بلیک ہولز سے متعلق کچھ بنیادی معلومات کا ہونا ضروری ورنہ وہ اسے بالکل بھی سمجھ نہیں پائے گا۔چھٹا باب وقت میں سفر (ٹائم ٹریول) کے ممکن ہونے یا نہ ہونے سے متعلق ہے۔ اگرچہ اس بارے میں کئی سائنس فکشن فلمیں بن چکی ہیں لیکن درحقیقت اب تک ایسا ممکن نہیں ہوسکا ہے۔ ہاکنگ نے وقت میں سفر کا ممکن اور ناممکن، دونوں نقطہ ہائے نظر سے جائزہ لیا ہے جبکہ درمیان میں جدید طبیعیات کے کچھ متعلقہ تصورات بھی سمجھادیئے ہیں۔ ساتویں باب کا عنوان اگرچہ ایک سوال ہے (کیا ہم زمین پر زندہ بچ پائیں گے؟) لیکن میں اسے ’’تنبیہی تحریر‘‘ کہوں گی، کیونکہ اس کا لُبِ لباب یہ ہے کہ اگر انسان اس کرہ زمین کے ساتھ اپنی غلط کاریوں سے باز نہ آیا، تو یہ سیارہ زمین خود اس کےلیے بھی ناقابلِ رہائش بن جائے گا اور اس کا خاتمہ یقینی ہے۔ دلچسپی کی بات ہے کہ ہاکنگ نے دنیا کی تباہی کے ممکنہ عوامل میں ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر منتخب ہوجانے کو بھی شامل کیا ہے۔فلکیات اور خلائی ٹیکنالوجی پر کام کے بارے میں اکثر اعتراض کیا جاتا ہے کہ پہلے دنیا کے مسائل حل کرلیے جائیں، اس کے بعد آسمان کی بات کرنی چاہیے۔ آٹھواں باب (کیا ہمیں خلاء میں بستیاں بسانی چاہئیں؟) اسی اعتراض کا جواب ہے۔ مختصر الفاظ میں کہا جائے تو ہاکنگ کا جواب ’’ہاں‘‘ میں ہے لیکن اس کی وضاحت خاصی دلچسپ ہے، جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ ہاکنگ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر ہم نوعِ انسانی کا بقاء چاہتے ہیں تو ہمیں ابھی سے کسی دوسرے سیارے پر رہائش کے امکانات پر کام شروع کردینا چاہیے۔اگلے باب میں دورِ جدید کے ایک اہم سوال پر بحث کی گئی ہے: کیا مصنوعی ذہانت، انسانی ذہانت سے آگے بڑھ جائے گی؟ یہ ایک دلچسپ باب ہے جس میں اسٹیفن ہاکنگ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مشینی ذہانت، انسان کے مقابلے میں زیادہ ہوجائے گی۔ البتہ اس مقصد کےلیے انہوں نے حیاتیاتی ارتقاء کا موازنہ کمپیوٹر پروگرام کے ارتقاء سے کیا ہے۔ دسویں اور آخری باب میں ہاکنگ نے اجمالی طور پر ایسے اہم امکانات کا جائزہ لیا ہے جو انسانیت کے مستقبل کی تشکیل میں سب سے زیادہ اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ ان میں ٹیکنالوجی کی ترقی سے وابستہ رجحانات سے لے کر ’’آخری جنگ‘‘ کے امکانات تک، متعدد پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مترجمین نے ’’بڑے سوالوں کے مختصر جواب‘‘ کو حتی الامکان رواں انداز سے اردو قالب میں ڈھالا ہے لیکن اس سے وہی قارئین بہتر طور پر لطف اندوز ہوسکتے ہیں جو سائنس سے مناسب حد تک واقف ہوں۔ البتہ، اگر آپ سائنس سے زیادہ واقفیت تو نہیں رکھتے لیکن سائنس کو سمجھنے کا شوق رکھتے ہیں، تو اس کتاب کا مطالعہ آپ کےلیے نہایت مفید رہے گا؛ بشرطیکہ آپ اسے توجہ سے اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں۔