اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

849,530FansLike
9,981FollowersFollow
562,000FollowersFollow
183,255SubscribersSubscribe

سپریم کورٹ نے ایف آئی اے اور نیب کوعدالتوں سے مقدمات واپس لینےسے روک دیا

سپریم کورٹ میں حکومتی عہدیداروں کی جانب سے مداخلت کے ازخود نوٹس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے سماعت کی ۔

عدالت میں حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل پیش ہوئے چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ نے پیپر بک پڑھا ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی میں نے پڑھا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عدالت میں پیپر بک پڑھ کر سنایا جائے ۔پیپر بک عدالت کے معزز جج کی جانب سے مداخلت کے بارے میں ہے ۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس نوٹس لینے کی وجوہات صفہ نمبر 2 پر درج ہیں ۔جس میں ایف آئی اے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رضوان کی دل کادورہ پڑنے کی وجہ سے موت کا ذکر ہے ۔نوٹس میں مختلف اخبارات کے تراشے بھی شامل ہیں ۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ لاہور کے ایک کیس میں ایف آئی اے پراسیکیوشن کو پیش نہ ہونے کی ہدایات کی گئی ہیں ؟ہم آپ سے گارنٹی چاہتے ہیں کہ پرسیکیوشن کا ادارہ آزاد ہونا چاہیے۔ ایسا کیوں ہوا ؟ڈی جی ایف آئی اے جو کہ آئی جی خیبرپختونخوا تھے اچھا کام کر رہے تھے ان کا تبادلہ کیوں کیا گیا ؟ڈاکٹر رضوان ایک قابل افسر تھے انہیں کیوں عہدے سے ہٹایا گیا ؟یہ سب کچھ اداروں میں مداخلت کے مترادف ہے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ای سی ایل سے 4000 سے زائد افراد کے نام نکالے گئے ہیں ۔نام نکالنے کا طریقہ واضح کیا جائے ۔ ہم رول آف لاء جس کے بارے میں لوگوں سے وعدہ کیا گیا ہے اس کی حفاظت کریں گے ۔امید کرتا ہوں کہ آپ بھی تعاون کریں گے۔

چیف جسٹس نے کہا ان تمام کیسز کو سنبھال رکھنا استغاثہ کی ذمہ داری ہے ۔سماعت کا مقصد کسی کو ناراض کرنانہیں ۔ عدالت نوٹس جاری کر رہی ہے۔ عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے ،چیئرمین نیب اور سیکرٹری داخلہ کو نوٹس جاری کر دیے ۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم کسی کی تنقید سے گھبرانے والے نہیں ہیں ۔۔ آج سیاسی پارٹیوں کے سوشل میڈیا سیکشن مظبوط ہیں ۔ تمام چیزوں کو نوٹ کرتے ہیں اور آپس میں بات کرتے ہیں ۔یہ کاروائی فوجداری نظام اور قانون کی حکمرانی کو بچانے کے لئے ہے ۔عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ جن کے نام ای سی ایل سے نکالے گئے ہیں ان کی تفصیلات فراہم کی جائیں ۔نیب اور ایف آئی اے میں گذشتہ 6ماہ میں استغاثہ اور تفتیشی اداروں میں ہونے والے تبادلوں کی تفصیلات جمع کرائی جائیں ۔