اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

865,986FansLike
9,992FollowersFollow
565,400FollowersFollow
188,369SubscribersSubscribe

امرت کور۔۔۔۔ قسط نمبر6 (امجد جاوید)

دونوں سہیلیاں بہت عرصہ تک آپ میں نہ مل سکیں، لیکن پرونت کور کو امرت کور کے بارے میں تھوڑا بہت معلوم ہو جاتا رہا۔ دوسری کئی لڑکیاں اس کے بارے میں بتاتی رہتی تھیں۔ امرت کور کی جنونی محبت کا راز، راز رہ ہی نہیں سکتا تھا اور پھر نور محمد بھی تو ایسا گبھرو نوجوان تھا کہ پورے گائوں کی لڑکیوں کے دل میں بستا تھا۔ کیا مسلمان اور کیا سکھ لڑکی، اسے جب بھی دیکھتی میٹھی نگاہ ہی سے دیکھتی اوروہ مٹی جیسا انسان کسی کو نگاہ بھر کر بھی نہیں دیکھتا تھا۔ بات یہ نہیں تھی کہ وہ کوئی بزدل تھا،یا دوسرے نوجوانوں کی طرح اس میں جوانی کی ترنگ نہیں تھی۔ وہ نہ صرف جی دار تھا بلکہ بہادر بھی تھا۔ بس مٹی کا مادھو تھا اور اسے گائوں کی عزت کا خیال تھا۔ یہ امرت کور ہی تھی جو اسے دل تو دے بیٹھی لیکن اسے دل میں نہ رکھ سکی۔ ممکن ہے وہ کسی اور کے دل میں بھی بس رہا ہو لیکن ایسا کسی طرف سے اظہار ہوا نہیں تھا۔ یہی امرت تھی جو اپنی محبت کو اپنے اندر سما ہی نہ سکی تھی۔ پرونت کور کے دل میں تجسس تھا کہ جو باتیں وہ امرت کور کے بارے میں سن رہی ہے کیا وہ درست ہیں۔ وہ چاہتی تو سیدھا اس کے گھر چلی جاتی اور اسے منا کر ساری باتیں پوچھ لیتی مگر اس طرح پھر سے وہی نور محمد کے معاملے میں اس کا ساتھ دینا پڑتا جس کی وجہ سے ان کے درمیان بول چال بند ہوئی تھی۔ وہ دل سے یہ چاہتی تھی کہ وہ نور محمد کا پیچھا چھوڑ دے ورنہ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ وہ غریب نور محمد خواہ مخواہ مارا جاتا۔ اصل میں وہ اپنے والدین کا اکلوتا تھا۔ ایک ہی بہن تھی۔ وہ اپنے مختصر سے خاندان کا واحد سہارا تھا۔ اسے اگر کچھ ہو جاتا تو وہ بے چارے کہاں جاتے۔ پرونت کور کوہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا کہ جس دن اس کے باپو بلوندر سنگھ کو معلوم ہو گیا اس دن گائوں میں قیامت آجانا تھی۔ کیونکہ اس نے اپنی بیٹی کو تو بدنام نہیں کرنا تھا، سارا الزام نور محمد پر آجانا تھا اور ایسا ہونا کوئی بعید بھی نہیں تھا۔ جس طرح امرت کور اپنے آپ سے باہر ہو رہی تھی، پتہ لگ جانا کوئی انوکھی بات نہیں تھی، وہ لاشعوری طور پر ایسے ہی کسی حادثے کے بارے میں منتظر تھی۔
انہی دنوں گائوں میں ایک شادی تھی۔ لڑکی نے رخصت ہونا تھا اور انہیں وہاں جانا تھا۔ اس دن پرونت کور کو پوری امید تھی کہ امرت کور اسے وہاں مل جائے گی۔ بارات رات کی آئی ہوئی تھی اور اسے دوپہر کے بعد چلے جانا تھا۔ وہ دن چڑھے گئی تو توقع کے مطابق امرت کور وہیں تھی۔ شاید وہ بھی اس کی راہ تک رہی تھی۔ کوئی بات کئے بغیر وہ رکی اور اسے گلے لگا لیا۔ پھر ایک دم سے رو دی۔ پرونت گھبرا گئی۔ اس نے جلدی سے اسے الگ کیا اور پوچھا۔
’’کیا بات ہے امرت… ایسے کیوں رو رہی ہے؟‘‘
’’بس ایویں ہی دل بھر آیا تھا۔ اب تُو ہی بتا، میں اور کس کے گلے لگ کر روئوں‘‘۔ اس نے شکوہ بھرے لہجے میں کہا۔ تو پرونت کور کا بھی دل بھر آیا۔ دونوں سہیلیاں کچھ عرصہ بعد ملیں تو گلے شکوے نہ جانے کدھر چلے گئے۔ انہیں تو شادی کی تقریب کا بھی ہوش نہیں رہا۔ وہ ایک کونے میں سمٹ کر، سب کی نگاہوں سے اوجھل ہو کر بیٹھ گئیں۔ تو امرت کور بولی۔
’’میں اچھی طرح سمجھتی ہوں کہ تم نے مجھ سے ملنا جلنا کیوں بند کر دیا۔ میں ہی پاگل ہو گئی تھی۔ تُو سچ کہتی ہے، میں چاہے اپنا آپ بھی ختم کرلوں نور محمد تو میرا نہیں ہونے والا، اس کے دل میں میرے لیے پیار ہی نہیں ہے‘‘۔
’’ تُو واقعی پاگل ہے امرت کورے…! اس کے دل میں تیرے لیے پیار جاگ سکتا ہے، مگر تُو نے تواپنے بدن کی خواہش کو اہمیت دی۔ تو نے یہ دیکھا ہی نہیں کہ نور محمد کی آتما کیسی ہے۔ جسم کی پکار پر اپنا آپ وار دینا محبت نہیں ہوتی، یہ تو نری ہوس ہے، وہ جو سچی محبت ہوتی ہے نا، وہ اپنا آپ منوالیتی ہے، جیسے گرو جی مہاراج کی رب سے سچی محبت کو رب نے بھی مان لیا‘‘۔
’’ہاں پرونتے…! وہ سکھ نہیں ہو سکتا، بھلے میں مسلمان ہو جائوں اور تُو جانتی ہے میرے مسلمان ہو جانے سے اس گائوں میں کیا ہو جانے والا ہو گا۔ میں تو اس کو اتنا کچھ دے سکتی ہوں کہ وہ رب کی زمین پر جہاں بھی جا کر رہتا اسے یہاں کی کسی چیز کا افسوس تک نہ ہوتا‘‘۔
’’تجھے عقل کیوں نہیں آتی امرت، دیکھ…! یہ جو محبت ہوتی ہے نا، یہ بے غرض ہوتی ہے، اگر نور محمد کو تیرے ساتھ محبت ہوتی نا تو وہ مال و دولت کی پروا کیے بغیر اب تک تجھے یہاں سے لے جا چکا ہوتا۔ تُو اس حقیقت کو تسلیم کیوںنہیں کر لیتی ہو کہ وہ تمہارے بارے میں ایسی کوئی سوچ نہیں رکھتا۔ یہ آگ تیرے دل میں لگی ہے، تُو اپنی آگ کو خود سنبھال، اس سے دوسروں کے گھر نہ جلا۔ ایسا کام نہ کر جس سے کسی کو فائدہ نہ ہو، بس نقصان ہی نقصان ہو‘‘۔
’’ہاں…! محبت تو میرے دل میں ہے،اور اتنی ہے کہ میں خود بھی اسے سنبھال نہیں پارہی ہوں۔ میں پھر کیا کروں، میں نور محمد سے کئی بار ملی ہوں۔ اسے یہ سب سمجھانے کی کوشش بھی ہے، مگر میری کوئی بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی‘‘۔
’’ہاں مجھے معلوم ہے، مجھے کئی لڑکیوں نے بتایا ہے۔ اب دیکھ، اگر ان لڑکیوں کو معلوم ہو سکتا ہے تو کسی مرد کو معلوم کیوں نہیں ہو سکتا جو سارا دن باہر رہتے ہیں، یہ تو نور محمد کی اچھائی ہے ناکہ اس نے تیرا راز اپنی زبان سے نہیں نکالا، اگر تیرے باپو کو پتہ چل جائے تو کیا ہو گا؟‘‘
’’میں سب سمجھتی ہوں، میں تو اس کے گھر بھی جاتی ہوں، اس کی بہن کو میں نے سہیلی بنا لیا ہوا ہے ۔ ہاں تیری یہ بات ٹھیک ہے کہ اس کی آتما ہی کچھ ایسی ہے کہ وہ کسی کی عزت کے لیے جان تو دے سکتا ہے لیکن کسی کی عزت کو خراب نہیں کر سکتا۔ میں بے بس ہوں … میرے درد کی کوئی دوا ہی نہیں ہے؟‘‘
’’ہے، کیوں نہیں ہے، تُو اپنا دھیان سچے بادشاہ گرو مہاراج کی طرف لگا۔ اس سے اپنے من کی شنانتی مانگ، تجھے اگر نور محمد سے محبت ہے تو اس کی بھلائی سوچ، اس کی جان کی دشمن نہ بن، بدن کی آگ تو ٹھنڈی ہو جائے گی، لیکن اگر روح پر زخم لگ گیا تو اس کا کوئی علاج ہی نہیں ہے۔ موت تک وہی زخم رستا رہتا ہے‘‘۔
’’ تُو ٹھیک کہتی ہے، بے چینی میرے دل میں ہے تو بے بس بھی میں ہی ہوں‘‘۔
’’چل تو مجھے یہ بتا، کیا نور محمد تیرے ساتھ نفرت کرتا ہے؟‘‘
’’نہیں، وہ نفرت بھی تو نہیں کرتا، میری سن لیتا ہے مگر کوئی جواب نہیں، سوائے اس کے کہ میں اپنی عزت سنبھال رکھوں۔ میں مانتی ہوں کہ میں غلط ہوں، لیکن…‘‘
’’تو پھر تُو یہ بھی مان لے کر تیرے دل میں جو محبت ہے وہ سچی نہیں ہے، دیکھ، سچا بادشاہ سچ ہی کو پسند کرتا ہے، سچائی اپنا آپ منوالیتی ہے۔ تُو سچے گرو کی طرف دھیان لگا تو نور محمد کا خیال خود بخود ختم ہو جائے گا‘‘۔
’’پرونتے…! نہ جانے کیوں مجھے کبھی کبھی احساس ہوتا ہے کہ میں صرف بنی ہی اس کے لیے ہوں، وہ مجھے نہ ملا تو میں کسی کی بھی نہیں ہو سکوں گی‘‘۔
’’ایسی سوچیں سوچتی رہے گی تو پاگل ہو جائے گی، خیر سے تیرے باپو نے تیری منگنی کر دی ہے۔ تیرے خاندان کا ہم پلہ خاندان ہے، پھر یہ بڑی بات ہے کہ وہ بھی پال ہے اور تم لوگ بھی پال ہو۔ میں نے سنا ہے، بڑا گبھرو اور سوہنا نوجوان نکلا ہے وہ پڑھا لکھا ہے، خالصہ کالج میں پڑھتا ہے تو نوکری بھی شہر میں کرے گا، وہاں تو عیش کرے گی، اپنی زندگی خوبصورت بنا‘‘۔
’’ہاں، رگھبیر سنگھ ، تُو نے دیکھا تو ہے اسے، لیکن اب میں نے تیری طرح صرف سنا ہے کہ وہ گبھرو بھی ہے اور سوہنا بھی ہے، پر تُو اپنے سچے دل سے بتا، نور محمد جیسا کوئی اس دنیا میں ہے؟‘‘
’’جب رگھبیر سنگھ تیرا ہو جائے گا نا، تو نور محمد تجھے بھول جائے گا۔ اسے اپنی دنیا میں آزاد چھوڑ دے اور تو اپنی دنیا بنا، بعض اوقات زبردستی خواہش پوری کرنے سے بڑی ٹوٹ پھوٹ ہو جایا کرتی ہے‘‘۔
’’چل اگر تُو کہتی ہے تو میں ایسا ہی کر لیتی ہوں جیسا تُو کہتی ہے، پر اب مجھ سے ملنا جلنا بندنہ کرنا، مجھے سہارا دو تاکہ میں اس مشکل راستے سے گزر جائوں‘‘۔
امرت کور کے لہجے میں اس قدر حسرت تھی کہ پرونت کور کا دل بھر آیا۔ کیا نور محمد کے لیے وہ اتنی ہی چاہت رکھتی ہے۔ اصل میں اسے یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ محبت کہتے کسے ہیں، وہ تو بس بدن کی پکار پر اپنی خواہش کی تکمیل ہی کو پیار سمجھتی تھی۔ اپنا آپ کسی کے سپرد کر دینے کو وہ محبت کہتی تھی۔ اس میں امرت کور کا قصور بھی نہیں تھا، اس کا ماحول ہی ایسا تھا، جس سے محبت کے حقیقی معنی کسی کو معلوم ہی نہیں تھے۔ پرونت کور چونکہ اس کے ساتھ ہی پڑھی تھی، اسے کچھ عقل شعور مل گیا ہوا تھا، اس لیے اس نے امرت کور کو بتایا کہ بدن اور آتما کیا ہوتی ہے۔ ان کی ملاقاتیں پھر سے ہونے لگیں۔ اب امرت کورت کی دلچسپی یہی ہوتی تھی کہ وہ سارے دن میں ایک چکر نور محمد کے گھر کا ضرور لگاتی اور پھر وہ کچھ دیر پرونت کور کے پاس گزارتی۔ کبھی کبھی پرونت کور اس کے پاس چلی جایا کرتی تھی۔ کچھ دنوں بعد اس نے امرت کور میں چند تبدیلیاں دیکھیں۔ وہ نور محمد کی بات کم کرتی لیکن کسی نہ کسی طرح اس کی یا اس کے خاندان کی خدمت کرنے کی فکر میں رہتی۔ اس کی سہیلی حاجراں کی شادی کی تیاری ہو رہی تھی۔ وہ کسی نہ کی بہانے اس کو تحفے تحائف دیتی رہتی۔ کبھی کوئی گہنا، کبھی کوئی کپڑا، دوسری تبدیلی اس میں یہ دیکھی کہ وہ گائوں کے ماسٹر روشن لعل سے کتابیں منگوانے لگی، پورے گائوں کے بچے اس کے شاگرد تھے۔ وہ جب بھی شہر جاتااس کے لیے کچھ لے آتا، تیسری تبدیلی اس میں یہ دیکھی کہ وہ گرو گرنتھ صاحب جی کا پاٹھ روز کرنے لگی۔ اس نے سچے بادشاہ سے اپنا من لگانے کی کوشش شروع کردی تھی۔ پرونت کور نے جب یہ دیکھا تو اسے خوشی ہوئی۔ وہ مانتی تھی کہ اس تبدیلی کی وجہ نور محمد کی سرد مہری ہی تھی۔ ورنہ آگ اگر برابر کی لگی ہوتی، یا وہ اس کے بدن کی پکار کو قبول کرکے گناہ کی زندگی میں ڈوب جاتا تو یہ آگ نہ جانے کتنوں کو بھسم کر سکتی تھی۔ نور محمد اگر ذرا سا بھی التفات کر جاتا تو امرت کور میں ایسی تبدیلی آہی نہیں سکتی تھی۔ کیونکہ وہ تو خود اس کے ساتھ بھاگ جانے کو تلی بیٹھی تھی۔
دن بڑے اچھے گزرتے چلے جارہے تھے کہ رگھبیرسنگھ شہر سے گائوں لوٹ آیا۔ گرمیاں اپنے زوروں پر تھیں، بارشوں کا موسم ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔ رگھبیر سنگھ کے آنے کی وجہ صرف اور صرف یہی تھی کہ شہر میں فسادات کاخطرہ بڑھ گیا تھا۔ گائوں میں ایک ہی ریڈیو تھا جس پر ملک میں ہونے والی گڑبڑ کی خبریں سننے کو ملتی تھیں۔ یہ خبریں جب ایک دوسرے کو سنائی جاتی تو اس میں اپنی مرضی بھی شامل ہو جاتی تھی۔ پھر جس خبر کا دائرہ جتنا وسیع ہوتا، اس کی شکل اتنی ہی بگڑ جاتی۔ اِدھر اُدھر سے ہندو مسلم فسادات کی اکا دکا خبریں آنا شروع ہو گئی۔ پرونت کور کو اتنی سمجھ نہیں تھی کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے گائوں کے لوگ اچانک سہم کیوں گئے ہیں۔ ہر کوئی ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے کیوں دیکھنے لگا ہے۔ امرت کور نے نورمحمد کے گھر جانا چھوڑ دیا تھا۔ اب تو اس کے ساتھ بھی کبھی کبھار ملتی تھی۔ ان مختصرترین ملاقاتوں میں اسے ہی گلہ رہتا تھا کہ رگھبیر سنگھ اس کی نگرانی کرتا ہے۔ ہر وقت اس پر سائے کی طرح چھایا رہتا ہے۔ اس کی وجہ کیا تھی اسے معلوم نہیں تھا۔ پرونت کے گھر میں جو بڑے باتیں کرتے، اس سے پتہ چلنے لگا کہ ہندوستان کے دو ٹکڑے ہو گئے ہیں۔ مسلمانوں نے اپنا الگ وطن حاصل کر لیا ہے اور یہ فسادات صرف اس وجہ سے ہو رہے ہیں۔ ایک دن اس کا باپو کہہ رہا تھا۔
’’تیرہ اپریل انیس سوانیس جلیا نوالہ باغ میں جو قتل عام ہوا۔ اس کی یاد ابھی تک نہیں بھولی ، پتہ نہیں کتنے لوگ شہید ہوئے تھے۔ کتنے گھر لٹ گئے۔ وہ تو ایک تاریخ بنا گئے، لیکن اب میں اس سے بھی بڑا قتل عام دیکھ رہا ہوں، جس طرح خبریں آرہی ہیں۔گرو مہاراج اپنی خیر کرے، ان ہوائوں میں خون کی بو رچ بس گئی ہے‘‘۔
’’باپوجی…! کیوں ماریں گے لوگ ایک دوسرے کو… اب ہمارے گائوں کی ہی بات لے لیں۔ ہم نے کسی مسلمان کا کچھ نہیں بگاڑا۔ انہوں نے ہمارا کوئی قصور نہیں کیا،تو ہم کیوں لڑیں گے ان کے ساتھ…؟‘‘ پرونت نے اپنے باپو سے پوچھا۔
’’یہی تو سمجھ نہیں آرہی بیٹی…! پُرکھوں سے ہم یہاں پر آباد ہیں۔ بڑے سُکھ شانتی سے رہ رہے ہیں۔ کسی نے کسی کا قصور بھی نہیں کیا، لیکن جو خبریں آرہی ہیں، ان میں بڑی ہولناک باتیں ہیں، دل کانپ جاتا ہے‘‘۔ اس کے باپو نے کہا تو پرونت کور کو احساس ہوا ہے کہ کوئی اَن دیکھا خطرہ ان پر منڈلا رہا ہے۔ جو کسی کو بھی، کسی بھی وقت صفحہ ہستی سے مٹا سکتا ہے۔ اس دن وہ واقعی ڈر گئی تھی۔
دن حبس زدہ ماحول میں گزرتے جارہے تھے۔ خوف زیادہ ہو گیا تھا۔ سکھ نوجوان کر پانیں اور تلواریں گلے میں ڈالے جتھوں کی صورت گائوں میں پھرتے رہتے تھے۔ اس جتھے کا بڑا رگھبیر سنگھ ہی تھا جو نہ صرف لفظوں کی صورت میں ان کے دماغوں میں آگ بھرتا رہتا بلکہ سکھ نوجوانوں کو تربیت بھی دیتا کہ کسی بھی وقت لڑنے مرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ پھر اچانک ایک دن اعلان ہو گیا کہ بھارت اور پاکستان دو الگ الگ ملک بن گئے ہیں۔ اب مسلمان اپنے ملک کو چلے جائیں گے۔
یہ سنتے ہی، پرونت کور کو سب سے پہلا خیال یہی آیا کہ نور محمد اپنے پریوار کے ساتھ مسلمانوں کے دیس چلا جائے گا۔ امرت کور جو اب پُر سکون ہو گئی تھی اور اسے دیکھ دیکھ کر جیتی تھی۔ یہاں تک کہ اسے دیکھنا ہی اپنی عبادت خیال کیا کرتی تھی، اب کیا کرے گی، کیا رگھبیر سنگھ نے جس طرح نوجوان لڑکوں کا دماغ آگ سے بھر دیا ہے، امرت کور کو بھی بدل دیا ہے، کیا اب اسے نور محمد کی چاہ نہیں رہی۔ کیا وہ اسے جانے دے گی؟ ایسے ہی کئی سوال اس کے ذہن میں آتے چلے گئے۔ وہ چاہتی تھی کہ امرت کور سے ملے اور اس کے بارے میں جانے کہ اب وہ کیا چاہتی ہے، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
وہ بڑ ی بھیانک رات تھی۔ بڑا حبس تھا۔ بادل چھائے ہوئے تھے۔ پچھلی رات کا چاند طلوع نہیں ہوا تھایا اگر ہو چکا تھا تو بادلوں نے اس کی چاندنی کو روک رکھا تھا۔ وہ ہلکے ہلکے پسینے میں بھیگی اپنے صحن میں سوئی ہوئی تھی کہ اچانک شور سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ باہر گلی میں لوگوں کا شور تھا، چیخ و پکار تھی، لوگ بھاگ دوڑ رہے تھے۔ اسے لگا جیسے باہر کہیں لڑائی ہو گئی ہے۔ وہ دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ اٹھی تو اس کا باپو اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ گھبرائے ہوئے انداز میں صحن کے درمیان کھڑا تھا۔ اس کا چہرہ فق تھا اور وہ رورہا تھا۔ اچانک چیخ و پکار تیز ہو گئی۔ دور کہیں سے رونے پیٹے کی آوازیں آنے لگیں۔ شاید ایک آدھ فائر بھی ہوا تھا۔ تب اسے لگا کہ ایک طرف روشنی ہونے لگی ہے۔ وہ گھبرا گئی۔ اس کا باپ زاروقطار رونے لگا۔ وہ تجسس سے مجبور سیڑھیاں چڑھتی ہوئے پھولے سانس کے ساتھ چھت پر آگئی۔ ذہن میں لاشعوری طور پر نور محمد کا خیال تھا۔ وہ آگ بھی اُدھر ہی لگی ہوئی تھی۔ تو کیا سکھ اور مسلمان آپس میں لڑپڑے ہیں؟ کیا نور محمد کے گھر کو جلا دیا گیا ہے، کیا نور محمد مر گیا۔ ان سکھوں نے انہیں مار کر جلا دیا۔ اس کے تصور میں بھیانک تصویریں آنا شروع ہو گئیں۔ پروین کی تو شادی ہونے والی تھی، چند دن بعد اس نے اپنے سسرال چلے جانا تھا۔ اس کاامن پسند باپ، اس کی محبت کرنے والی ماں اور خود گھبرو نور محمد، کیا اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے؟ ان کی لاشیں… وہ اس سے زیادہ نہ سوچ سکی، چکرا کر گری اور بے ہوش ہو گئی۔ پھر اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ کیا ہوا۔ کب تک یونہی رہی ، اسے جب ہوش آیا تو صحن میں چارپائی پر پڑی ہوئی تھی۔ اس کی ماں، باپو اور بھائی اس کے اردگرد تھے۔ وہ سب رو رہے تھے۔ اس نے گھبرائے ہوئے انداز میں پوچھا۔
’’باپو…!مار دیا سب کو …؟‘‘
’’پتر مجھے نہیں پتہ… میں تو باہر ہی نہیں گیا۔ پر بڑا ظلم ہوا ہے۔ کہا بھی تھا کہ ایسا نہیں کرنا… پر یہ رگھبیر…‘‘
وہ اتنا ہی کہہ سکا اور بے دم سا ہو کر دوسری چار پائی پر جا بیٹھا۔ ساری رات یونہی آنکھوں میں کٹ گئی۔ کوئی بھی کسی کو پوچھنے تک نہ آیا کہ آخر ہوا کیا ہے۔ اگلے دن کی کالی صبح طلوع ہوئی تو سنا کہ ملٹری والے گائوں میں آگئے ہوئے ہیں۔ پر وہاں مسلمانوں کا بچا ہی کیا تھا۔ چند گھر تو تھے ان کے اور دوسری طرف سکھوں کا پورا گائوں۔ دن چڑھے تک پتہ چلتا رہا کہ گائوں میں کیا قیامت گزر گئی ہے۔ مسلمانوں کے جو چند گھر تھے، وہ سارے جلا دیئے گئے تھے۔کسی کا کچھ نہیں بچا تھا۔ جتنے بھی مسلمان اس گائوں میں تھے، ان سب کو مار دیا گیا تھا۔ کیا بچے، کیا بوڑھے، کیا جوان اور کیا لڑکیاں، صرف ایک اچھی خبر تھی کہ نور محمد بچ گیا ہے، وہ کیسے بچا، کسی کو اس کی خبر نہیں تھی، وہ ملٹری والوں کے ساتھ کچھ دیر گائوں میں رہا۔ جو بچی کھچی ، جلی سڑی لاشیں انہیں ملیں، ان سب کو اکٹھا کر کے ایک اجتماعی قبر میں دفن کر دیا گیا تھا، پھر نور محمد خالی ہاتھ ان ملٹری والوں کے ساتھ چلا گیا۔ دوسری خبر یہ تھی کہ کئی سکھ نوجوان بھی مارے گئے تھے۔ ان میں رگھبیر سنگھ بھی مر گیا تھا، لیکن یہ آج تک کسی کو معلوم نہیں ہو سکا کہ جہاں دوسرے سکھ نوجوان قتل ہوئے۔ ان سے کہیں دور رگھبیر سنگھ کی لاش ملی تھی اور اسے بے دردی سے قتل کیا گیا تھا۔ تھوڑا بہت یہ شک کیا جاتا رہا کہ اسے نور محمد نے قتل کیا تھا، لیکن اس کی تصدیق کوئی نہیں کر سکتا۔
اس صبح یہ پتہ چلا کہ امرت کور اپنے آپ میں نہیں رہی ہے۔ وہ پاگل ہو چکی ہے۔ اس وقت سب کا یہی خیال تھا اور بعد میں بھی لوگ یہی سمجھتے رہے کہ وہ رگھبیر سنگھ کے مر جانے کے غم میں پاگل ہو ئی ہے۔ مگر پرونت کور یہ مان ہی نہیں سکتی تھی۔ کیونکہ امرت کور اس سے آخر وقت تک نفرت کرتی رہی تھی بعد میں ممکن ہے کوئی ایسی بات ہو گئی ہو تو کوئی نہیں جانتا تھا لیکن امرت کور جو گرودوارے جانے سے پہلے جس جگہ جا کر ایک خاص سمت کی طرف دیکھتی رہتی تھی۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں سے رگھبیر سنگھ کی بے دردی سے قتل کئی ہوئی کٹی پھٹی لاش ملی تھی۔ سکھوں نے مسلمانوں کو مارنے کو تو مار دیا مگر ان کے ہاتھ کیا آیا؟ جلے ہوئے گھر، اپنے نوجوانوں کی لاشیں، اور ایک پاگل ہو گئی ہوئی امرت کور…!
***
دادی پرونت کور نے اپنی بات ختم کی تو میرے دل میں امرت کور کے لیے نفرت ابل پڑی۔ مگر میں ایک لفظ بھی اپنی زبان پر نہ لایا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میں جس پاگل عورت سے ملنے کے لیے یہاں جتھوال میں آیا تھا، اس کے دل میں اٹھنے والی ہوس کی آگ نے میرے گائوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ میرے ذہن میں نہ جانے کتنے سوال کانٹوں کی ماننداُگ آئے تھے جو اپنی چبھن کا احساس دیتے رہے تھے۔ میرے دل پر بھاری بوجھ آن پڑا۔ شاید میرے چہرے پر ایسا سب کچھ دکھائی دے رہا تھا کہ دادی پرونت کور بولی۔
’’پتر…! ایسا قسمت میں تھا۔ جو ہونا تھا، وہ ہو گیا، اب تو نئی نسل کو سوچنا چاہئے کہ انہیں کس طرح امن، محبت اور دوستی کے ساتھ رہنا ہے، اسی میں بھلائی ہے‘‘۔
وہ پتہ نہیں کس رو میں یہ کہہ گئیں تھیں لیکن میں اپنی ہی ذات میں شرمندہ ہو رہا تھا۔ کاش مجھے یہ سب معلوم نہ ہوتا اب مجھے پتہ چل گیا تھا تو میں اپنے جذبات کو کس طرح قابو میں رکھ سکتا تھا۔ یہ ایک فطری امر تھا۔ دکھ اور غم کی اپنی تکلیف تو ہوتی ہے جو اس وقت میں محسوس کر رہا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ اس وقت ان کے پاس سے اٹھ جائوں، اس لیے بات بدلتے ہوئے پوچھا۔
’’آپ کی شادی پھر اس گائوں میں ہو گئی؟‘‘
’’ہاں…! میری منگنی تو بہت پہلے کی ہو گئی ہوئی تھی۔ بس پھر گائوں سے خوف کی فضا جیسے ہی دور ہوئی میری شادی ہو گئی، بچے ہو گئے، ان کی مصروفیت میں لگ گئی۔ کبھی کبھی جب میں امرت کور کو دیکھتی ہوں تو مجھے نور محمد یاد آ جاتاہے۔ وہ بالکل تیرے جیسا ہی تھا، جب میں نے اسے آخری بار دیکھا تھا۔ تجھے دیکھ کر میں اس لیے ایک دم سے پاگل ہو گئی کہ یہ نور محمد کدھر سے آگیا۔ تُو ہو بہو اس کے جیسا ہے۔ بس یہ تیرے چہرے پر تل نہیں ہے‘‘۔ وہ گھوم پھر کر وہیں آگئیں تو مجھے الجھن ہونے لگی۔ تب میں نے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’دادی…! میرے خیال میں رات بہت گہری ہو گئی ہے۔ باقی باتیں کل کریں گے، آپ آرام کریں‘‘۔
’’اب کہاں آرام میرا پتر…! ساری رات انہی یادوں میں گزر جائے گی۔ خیر تُو جا اور آرام کر…‘‘ انہوں نے خود کو بیڈ پر سیدھے کرتے ہوئے کہا تو میں ان کے کمرے سے نکلتا چلا گیا۔
میں کمرے میں آیا تو بھان سنگھ سو چکا تھا۔ میں ایزی ہو کر لیٹ گیا لیکن میری آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔ میرے دماغ میں سوالوں کی چبھن بڑھ چکی تھی اور اس کے ساتھ ایک شرمندگی کا احساس میرے ساتھ لپٹ گیا تھا کہ میں کس مقصد کے لیے یہاں آیا ہوں۔ یہی وہ لمحات تھے جب امرت کور کے لفظ مجھے سمجھ آنے لگے۔ وہی لفظ جو بے ساختہ اس کے منہ سے مجھے دیکھتے ہی نکلے تھے۔ گرنتھ صاحب سے جو اس نے گرودوارے میں پڑھا تھا وہ بھی مجھے سمجھ آنے لگا تھا۔ دادی پرونت کور نے مجھے وہ ساری باتیں بتا دی تھیں جو اسے معلوم تھیں اور اس کے سامنے ہوئیں تھیں، لیکن کیا امرت کور بھی مجھے ایسا ہی کچھ بتائے گی؟ بلاشبہ وہ ضرور بتائے گی، لیکن وہ پورا سچ نہیں ہو گا۔ وہ بہت ساری باتیں چھپا لے گی۔ مجھے لگ رہا تھا کہ بالکل آخری دنوں میں رگھبیر سنگھ اس کے خیالوں پر چھا گیا تھا۔ بدن کی پکار پر لبیک کہنے والوں کا یہی حال ہوتا ہے۔ ہوس کے مارے جب ایک جگہ سے مایوس ہو جاتے ہیں تو پھر جہاں سے ان کی ہوس پوری ہو ان کی توجہ ادھر ہو جاتی ہے۔ دادا نور محمد نے اگر رگھبیر سنگھ کو قتل کیا تھا تو بہت اچھا کیا تھا۔ وہی ایک شیطان تھا جس نے گائوں کی پُرامن فضا میں آ کر مذہبی تعصب کا زہر گھول دیا تھا۔ بعض ایسے پڑھے لکھے جاہل ہو تے ہیں جو صرف اپنی انا کی خاطر کشت و خون کرنے سے بھی بازنہیں آتے۔ یہی شدت پسندی ہے کہ اپنے خیالات کو دلائل سے نہیں، زوربازو سے منوانے کی گھٹیا ترین کوشش کرنا، رگھبیر سنگھ تو ویسے بھی اس سیاسی دھوکے میں آگیا تھا جو ہندوئوں نے ماسٹر تارا سنگھ کو دکھایا تھا۔ اس نے جو پنجاب اسمبلی کے سامنے تلوار لہرائی تھی، اس کا نتیجہ یہی ہوا کہ پنجاب کی دھرتی لہو رنگ ہو کر کر دو لخت ہو گئی۔ دلائل کی میز پر بیٹھ کر اگر سکھوں کے لیڈر ماسٹر تارا سنگھ کے سیاسی عزائم اور سیاسی بانع نظری کا تجزیہ کیا جائے تو سکھوں کو پچھتاوئوں کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ پنجاب کی دھرتی پر رہنے والے ہر مذہب کے انسان کو یہ سوچنا فرض جیسی حیثیت رکھتا ہے کہ کون کس کے دھوکے میں آیا؟ پچھتاوے کس کا مقدر ہیں۔ جن کی شہ پر ماسٹر تارا سنگھ نے پنجاب اسمبلی کے باہر تلوار لہرائی تھی، انہوں نے ہی آپریشن بلیو سٹار کے ذریعے امرتسر میں گرودوارے کی بے حرمتی کی۔ دہلی میں مٹی کاتیل چھڑک کر زندہ سکھ کو جلا دیا گیا۔ کیا یہی تھی ماسٹر تارا سنگھ کی بانع نظر ی جس کا خمیازہ آج تک سکھ قوم بھگت رہی ہے اور پھر مجھے ہوش ہی نہ رہا کہ میں کب نیند کی وادی میں کھو گیا۔
***