اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

865,261FansLike
9,992FollowersFollow
565,300FollowersFollow
188,369SubscribersSubscribe

امرت کور……قسط نمبر9……(امجد جاوید)

رگھبیرسنگھ نے گائوں میں آتے ہی سکھوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانا شروع کر دیا تھا۔ سب سے پہلے اس نے گائوں کے چند غنڈہ نما سکھ لڑکوں کو اپنے ساتھ ملایا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہیں سوائے لڑائی بھڑائی، آوارہ گردی اور تاک جھانک کے اور کوئی کام نہیں تھا۔ ان لوگوں کی منڈلی وہ اپنے باپو کے کھیتوں میں کنویں پر لگاتا۔ وہاں سارا دن جوا، تاش اور شراب چلتی رہتی۔ ان آوارہ گردوں کو ایک بہت اچھا ٹھکانہ مل گیا تھا۔ پھر اس نے ان سکھ نوجوانوں کو اپنے قریب کرنا شروع کر دیا جو تھوڑا بہت یا کچھ پڑھے لکھے تھے۔ وہ انہیں سکھوں پر ہونے والے مظالم کی من گھڑت داستانیں سناتا اور جس قدر نفرت وہ ان کے ذہنوں میں بھر سکتا تھا، بھر رہا تھا۔ وہ خود پڑھا لکھا تھا، اس لیے بڑے دلائل سے بات کرتا جو دوسروں کو قائل کر لیا کرتی تھیں۔ اس طرح وہ گائوں میں اپنی ایک خاص قسم کی ساکھ بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ پھر ایک دن اس کے اصل خیالات کا پتہ چلا ۔ وہ بلوندر سنگھ کے پاس دالان میں بیٹھا ہوا تھا۔ دونوں میں باتیں چل رہی تھیں اور امرت کور اندر والے کمرے میں بیٹھی ان کی آوازیں صاف سن رہی تھی۔ انہی باتوں کے دوران بلوندر سنگھ نے پوچھا۔
’’اوئے رگھبیرے…! یہ جو تُو نے آتے ہی کام شروع کر دیا ہے، یہ کیا ہے، ایسا کیوں کر رہے ہو؟‘‘
’’سردار جی…! یہ اب ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان تقسیم ہو گیا ہے، اس کا اعلان بھی ہو گیا ہے۔ اس ملک کے ٹکڑے ہونے ہی ہونے ہیں۔ اس تقسیم کے بعد حالات وہ نہیں رہنے جواب تک ہیں۔ اس ملک کا مستقبل کچھ اور ہی ہو گا۔ اس مستقبل میں ہمارا کیا حصہ ہے؟ بس یہ سارا کچھ اس کوشش کے لیے ہے‘‘۔
’’میں اب بھی نہیں سمجھا کہ تم کہنا کیا چاہ رہے ہو؟‘‘ بلوندر سنگھ نے واقعتا اس کی بات نہ سمجھتے ہوئے کہا۔
’’او باپوجی، ذرا سمجھو آپ، انگریزوں کے چلے جانے کے بعد طاقت اور حکومت کن لوگوں کے پاس آئے گی، کیا ہم اس طاقت اور حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے۔ آئندہ الیکشن ہونے ہیں۔ ہمیں ووٹ چاہئے ہو گا۔ گائوں کے پنچ سے لے کر اسمبلی کے رکن تک، یہ سب کیسے ممکن ہو گا۔ اپنا آپ منوانے کے لیے طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ ہی طاقت میں اکٹھی کر رہا ہوں۔ آپ دیکھنا، کل یہ طاقت بھی ہماری ہے اور حکومت میں بھی ہم ہی ہوں گے‘‘۔
’’مجھے نہیں معلوم کہ تم نے شہر کے کالج میں پڑھ کر کیا کیا سیکھا ہے، لیکن میرا تو سیدھا سادہ سوال یہ ہے کہ یہ جو تم گائوں کے مسلمانوں کے خلاف لوگوںکو بھڑکارہے ہو۔ ان بے چاروں کا کیا قصور؟ ان کا اس تقسیم سے کیا تعلق؟‘‘
’’سردار جی…! میں نے تو یہ سیکھا ہے کہ لوگوں کے ذہن قابوکرنا کے لیے ان کے دل میں کسی کی محبت بھر دو یا پھر نفرت بھر دو۔ کوئی مقصد تو چاہئے نا ان کو اکٹھا رکھنے کے لیے۔ محبت سے زیادہ نفرت بھرنا آسان ہے۔ وہ میں بڑی آسانی سے کررہا ہوں۔ آپ دیکھ نہیں رہے میرے ایک اشارے پر کتنے لوگ لڑنے مرنے کے لیے تیار ہیں۔ میں جب چاہوں، ان مُسلوں کے گھر پھکوا دوں‘‘۔
’’نہ پتر، تیر ی یہ سوچ اچھی نہیں ہے۔ انہوں نے تیرا کیا بگاڑا ہے۔ ہم پُرکھوں سے ایک ساتھ رہتے چلے آرہے ہیں۔ ہم میں کبھی کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔ ہماری کوئی دشمنی نہیں۔ پھر ایسی فضول سوچ کیوں ہے تمہاری؟ بلوندر سنگھ نے انتہائی افسوس ناک انداز میں اسے سرزنش کی۔
’’آج آپ ایسا کہہ رہے ہیں لیکن کل آپ کی سوچ بھی میری طرح ہو گی، کیا ہمارے دھرم کا ہم پر کوئی حق نہیں ہے؟ کیا اس دھرتی کا ہم پر کوئی حق نہیں ہے۔ آپ تو گائوں میں سیدھی سادی زندگی گزارنے والے بندے ہیں۔ گروئوں کے حکم کیا ہیں، ابدالی نے پرمندر صاحب کی تذلیل کی، کیا ایک سکھ اس کو بھول سکتا ہے۔ کتنے سکھ شہید کیے اس نے۔ کیا ان کا بدلہ ہماری گردن پر نہیں ہے؟‘‘ وہ انتہائی جذباتی انداز میں بولا۔
’’وہ جو ہونا تھا ہو گیا، مجھے بتا اس گائوں کے مسلمانوں میں سے کوئی ابدالی کے ساتھ تھا، ان کے آباواجداد میں کوئی تھا تو چل میں تیرے ساتھ چلتا ہوں اور اپنی کرپان سے ان کی گردن اڑا دیتا ہوں۔ بول کون ہے ان میں؟‘‘ بلوندر سنگھ نے طیش میں کہا تو وہ ایک لمحے کے لیے خاموش رہا، پھر بولا۔ ’’شری پرمندر صاحب کی بنیاد بھی تو ایک سکھ کی بجائے ایک مسلمان نے رکھی تھی۔ اس کے بارے میں کیا کہتا ہے تُو… دیکھ، جپ جی صاحب میں گرو مہاراج سچے بادشاہ نے سکھوں کے بارے میں بھی بتا دیا، وہ پڑھی ہے تُو نے۔ پوڑی سترہ اور اٹھارہ…اسی طرح ہر قوم میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ اب تُو بتا، تُو کس طرف کا ہے، لکیر کے کس پار کھڑا ہے؟‘‘
’’یہ سیاست ہے باپوجی، اور میں جس جماعت سے تعلق رکھتا ہوں، اس کا یہی حکم ہے۔ آپ کے خیالات مسلمانوں کے لیے اچھے ہوں گے، میرے نہیں اور پھر جب انہوں نے اپنا الگ ملک بنا لیا ہے تو یہ وہاں جائیں، اب یہاں ان کے رہنے کا کوئی حق نہیں ہے‘‘۔ اس نے بات ہی گھما کر کسی اور طرف ڈال دی۔
’’دیکھ پتر…! کوئی کیا کرتا ہے، اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں۔ ہاں جو ظلم کرتا ہے، اس سے لڑنا اور اسے سزا دینا ہمارا حق ہے، ہم مظلوم کے ساتھ ہیں۔ سن، میں تجھے ایک بات سناتا ہوں۔ ایک دفعہ سچے بادشاہ نے ایک سکھ سے کہا، حسینؓ کا غم منایا کرو، اس نے فوراً پلٹ کر جواب دیا، وہ تو مسلمانوں کا گرو ہے، ہم اس کا غم کیوں منائیں، اس پر سچے بادشاہ گرو جی مہاراج نے کہا۔ چل جا اپنے گھر اور اپنی بہن سے شادی کرلے۔ وہ چونک گیا اور تذبذب میں بولا، آپ کا حکم مہاراج… سر آنکھوں پر پر میرا ضمیر نہیں مانتا، تب گرو مہااج مسکرائے اور کہا، اسی ضمیر کا نام حسینؓ ہے۔ کیا تُو نے یہ کہیں نہیں پڑھا‘‘۔
’’باپوجی چھوڑیں ان باتوں کو، آج کی ضرورت کیا ہے، ہمیں تو اسے دیکھنا ہے۔ وقت بدل رہا ہے، اب ہمیں بھی بدل جانا چاہئے‘‘۔ اس نے کافی حد تک نرم لہجے میں کہا۔
’’تُو جو مرضی کر، تیری زندگی ہے، ہم تو اپنی گزار بیٹھے ہیں۔ بس اتنا دھیان رکھنا، کسی پر ظلم نہیں کرنا‘‘۔ بلوندر سنگھ نے کہا اور خاموش ہو گیا۔
اس دن امرت کور کو رگھبیر سنگھ کے اصل خیالات کا پتہ چلا۔ اسے یہ سب اچھا نہیں لگا۔ مگر ایسا بھی نہیں تھا کہ وہ اسے روک سکتی تھی۔ وہ تو خود یہ محسوس کر رہی تھی کہ وہ رگھبیر سنگھ اس کی نگرانی کرتا ہے۔ وہ کہاں جاتی ہے، کس سے تعلق رکھتی ہے، اس کی کون سہیلیاں ہیں۔ یہ سب وہ اپنی نگاہ میں رکھنا چاہتا تھا اور رکھ رہا تھا۔ اس سے وہ بڑی گھٹن محسوس کیا کرتی تھی۔ کہاں آزاد فضائوں میں چہکتی ہوئی چڑیا اور کہاں تعفن میں بند کر دینے کا احساس،رگھبیر سنگھ کے لیے اس کے دل میں کبھی بھی کوئی جذبہ نہیں رہا تھا، اب اس کے رویے نے تو بالکل ہی اس کے دل کے دروازے بند کر دیئے تھے۔ اس نے تو بس نور محمد کا کہا ہوا ایک ایک لفظ اپنی سماعتوں میں محفوظ کر کے رکھا ہوا تھا۔ جو دن بدن اس کی زندگی کو کسی اور ہی رنگ میں رنگتا چلا جا رہا تھا۔ اس نے دل پر جبر کیا اور رگھبیر سنگھ کے نزدیک ہوتی چلی گئی۔
دن گزرتے چلے جارہے تھے۔ مگر ہر آنے والا دن خوفناک ہوتا چلا جارہا تھا۔ کسی نہ کسی طرف سے کوئی نہ کوئی ایسی خبر آجاتی جس سے گائوں پر خوف کے سائے مزید بڑھ جاتے۔ ہر کوئی سہم گیا تھا۔ صرف رگھبیر سنگھ اور اس کی ٹولی گائوں بھر میں اپنا آپ منوانے کے لیے اور دہشت ڈالنے کے لیے اکثر پھرتے رہتے۔ دیکھا دیکھی اور بہت سارے لوگ بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے تھے۔ پھر ایک سیاہ رات آگئی۔ بلوندر سنگھ اور رگھبیر سنگھ کے درمیان بڑی تلخ کلامی ہوئی۔ امرت کور جانتی تھی کہ ان کے درمیان تلخی کیا ہے۔ وہ اچھی طرح سن رہی تھی۔
’’میں تجھے کبھی بھی اجازت نہیں دوں گا کہ تم کسی بھی مسلمان گھرانے کو تباہ کرو۔ وہ یہاں سے جانا چاہتے ہیں، انہیں سکون سے جانے دو۔ کوئی مداخلت نہ کرو‘‘۔ بلوندر سنگھ نے انتہائی غصے میں کہا۔
’’اب میں کچھ نہیں کر سکتا، میں نے انہیں مارنا ہی مارنا ہے۔ اب میں اگر رک بھی جائوں تو میرے ساتھی نہیں رکیں گے ، وہ انہیں ماردیں گے‘‘۔ نشے میں دھت رگھبیر سنگھ نے اکھڑ لہجے میں کہا۔
’’تُو رک جا، باقی کو میں خود سنبھال لوں گا‘‘۔ وہ زور سے بولا۔
’’میں انہیں جانے بھی دوں تو وہ آگے کہیں قتل ہو جائیں گے۔ وہ زندہ سلامت تو اپنے ملک نہیں پہنچتے۔ پھر کیوں نہ ہم ہی ان سے فائدہ اٹھالیں‘‘۔
’’فائدہ…! کیسا فائدہ؟‘‘
’’اوباپو جی، ان کا مال اپنے قبضے میں کروں گا۔ پھر انہیں مارکر اپنی پارٹی والوں کو بتائوں گاکہ میں نے اتنے مسلمانوں کو مارا ہے۔ وہاں بھی تو جگہ بنانی ہے‘‘۔ اس نے جھومتے ہوئے کہا۔
’’اوئے رگھبیرے…! مجھ میں اتنی ہمت ہے کہ میں انہیں صحیح سلامت امرتسر اسٹیشن تک چھوڑ آئوں۔ اب تُو بھی میرے راستے میں آیا نا تو میں تجھے بھی زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ بندہ بن اور اپنے ساتھیوں کو سمجھا، وہ یہ ظلم نہ کریں‘‘۔
’’باپو جی…! میرا یہ خیال ہے کہ آپ گھر میں رہیں۔ باہر نہ نکلیں تو اچھا ہے۔ اب یہ طوفان روکیں گے تو بھی نہیں رکے گا۔ میں جارہا ہوں‘‘۔ وہ نشے میں دھت تھا،اس لیے مست الست سا اٹھا اور حویلی کے باہر نکلتا چلا گیا۔ امرت کور ایسے ہی کسی موقعے کی تلاش میں تھی۔ وہ تیزی سے آگے بڑھی اور رگھبیر سنگھ کی راہ میں آگئی جو گھوڑی پر سوار ہنے والا تھا۔
’’وے رگھبیرے…! تُو کیا سچ مچ ان مُسلوں کو مار دے گا آج کی رات …؟‘‘
’’ہاں…! جیسے ہی پچھلی رات کاچاند چڑھے گا، وہی ان کی موت کا وقت ہو گا۔ جاگ کر انتظار کر، سورج طلوع ہونے سے پہلے یہاں کوئی بھی نہیں بچے گا‘‘۔ اس نے تیزی سے کہا اور ایک ہی جست میں گھوڑی پر سوار ہو گیا۔ وہ تیر کی مانند حویلی سے نکل گیا۔ اب جو کچھ کرنا تھا، وہ امرت کور ہی نے کرنا تھا۔
رات کے اندھیرے میں حویلی سے ایک تیز رفتار گھوڑی نکلی جو ہوائوں کو چیرتی ہوئی گلیوں میں سے گزرتی چلی گئی۔ اس کا رخ مسلمان گھرانوں کی طرف تھا،وہ سوار وہاں کچھ دیر ٹہلتا رہا، پھر اتنی ہی تیزی سے گائوں سے باہر چلا گیا۔ گائوں سے ذرا فاصلے پر درختوں کے جھنڈ میں ایک کنواں تھا۔ جس کے ساتھ ایک چھوٹا سا کچا کمرہ بنا ہوا تھا۔ وہ سوار ادھر ہی جارہا تھا۔ وہاں اردگرد کہیں بھی ذی روح موجود نہیں تھا۔ تھی اچانک اس کے سامنے ایک ہیولا لہرایا، اس نے گھوڑی کی لگام پکڑ لی، تبھی سوار نے اپنے منہ پر بندھا ہوا ڈھاٹا اتار دیا۔
’’امرت کور تُو…؟‘‘
’’ہاں…! میں ہوں نور محمد‘‘۔
’’مگر مجھے تو یہ کہا گیا ہے کہ رگھبیر سنگھ ادھر آرہا ہے۔ میں تو اس کی تاک میں تھا۔ پیغام غلط…‘‘ وہ کہتے کہتے رک گیا۔
’’میں نے ہی تجھے یہ پیغام بھیجا ہے کہ رگھبیر سنگھ ادھر آرہا ہے‘‘۔ امرت کور نے سکون سے کہا۔
’’اور تم کیوں آگئی‘‘۔ اس نے حیرت سے پوچھا۔
’’دیکھ نور محمد…! نہ میں تمہیں بھولی ہوں اور نہ ہی بھول سکتی ہوں۔ رب نے بڑی مہر کی ہے کہ ایسے حالات پیدا کر دیئے۔ جب کسی کو کسی کا ہوش ہی نہیں ہے۔ آ… یہاں سے بھاگ جائیں، میں گھر کے پورے گہنے اور دولت اٹھا لائی ہوں۔ چل اپنی نئی دنیا بساتے ہیں‘‘۔ امرت کور نے سارے جہاں کا پیار اپنے لہجے میں سموتے ہوئے کہا۔
’’امرت کورے…! تُو واقعی پاگل ہے۔ ادھر رگھبیر اور اس کا جتھا ہمیں قتل کرنے کو پھر رہا ہے اور تُو مجھے یہاں سے بھاگ جانے کا کہہ رہی ہے۔ میں اپنے گھر والوں کو موت کے منہ میں چھوڑ دوں…‘‘ نور محمد نے انتہائی غصے میں کہا۔
’’وہ تو ویسے ہی مر جائیں گے… اب انہیں کوئی نہیں بچا سکتا، تو بھی اب اگر وہاں ہوانا تو وہ تجھے بھی قتل کر دیں گے اور میں سوچ بھی نہیں سکتی کہ تجھے کوئی قتل کر دے‘‘۔ وہ انتہائی گہرے لہجے میں بولی۔
’’کیا مطلب …!‘‘ وہ ہذیانی انداز میں بولا۔
’’مطلب یہ ہے نور محمد…! تُو نے تو اب تک ان کے بارے میں سنا ہی ہے ناکہ وہ ایسا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں، لیکن انہیں پتہ چل گیا ہے کہ صبح تم لوگ یہاں سے چلے جائو گے۔ اس لیے انہوں نے آج رات ہی …‘‘ امرت کورنے کہا اور کہتے کہتے رک گئی۔
’’او ناہنجار عورت …!تُو نے اس لیے مجھے یہاں بلالیا کہ وہ میرے گھر والوں کو مار دیں… میں ان کی حفاظت بھی نہ کر سکوں‘‘۔ یہ کہہ کر وہ جانے لگا تو امرت کور نے اپنا بازو اس کے آگے کر دیا۔
’’نور محمد تُو بھی نہیں بچ سکے گا۔ وہ مارد یں گے تجھے سیانا بن، ابھی وقت ہے ہمارے پاس، ہم یہاں سے بہت دور نکل سکتے ہیں۔ میں اپنی بہترین گھوڑی بھی لے آئی ہوں۔ چل نکل چلیں‘‘۔ امرت کور نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تو وہ غضب میں بولا۔
’’میرے راستے سے ہٹ جا امرت… میں بھی اگر زندہ نہ رہا تو کیا ہوا، مارنے والوں کو تو مار کر مروں گانا؟ یہاں میں رگھبیرکو ہی مارنے آیا تھا۔ جو سارے فساد کی جڑ ہے۔ میں ان سے نپٹ لوں، پھر تجھے بھی بتاتا ہوں کہ عشق کیسے کرتے ہیں‘‘۔ یہ کہہ وہ جانے لگاتو امرت کور پھر راستے میں آگئی۔
’’میں کہتی ہوں میری بات مان لے… اچھا رہ جائے گا‘‘۔ امرت کور نے بھی غصے میں کہا۔
’’کیا کرے گی تُو مجھے روک لے گی؟‘‘ نور محمد نے زور سے کہا۔
’’ہاں، میں تجھے روک لوں گی، تُو جاکے دکھا، اب تیرے پاس صرف دو راستے ہیں، ان میں سے ایک چن لے ورنہ جو تُو نے میری ہتک کی ہے، میں نے آج اس کا بدلہ لے لینا ہے‘‘۔
’’کیا… کرے گی تُو…کیا چاہتی ہے‘‘۔ وہ اکتاتے ہوئے لہجے میں بولا۔
’’یا تُو مجھے اپنے ساتھ لے چل، اپنی زندگی بھی بچا اور مجھے ایک نئی زندگی دے دے، ہم ایک خوشحال زندگی گزاریں گے۔ یا پھر میرے بدن کی آگ بجھا یہیں اس جگہ اور چلا جا اپنے خاندان کی حفاظت کرنے۔ میں سمجھوں گی میں نے تمہیں پالیا…‘‘۔ امرت کور ، انتہائی اجنبیت والے لہجے میں غصے سے کہا تو نور محمد کا دماغ بھک سے اُڑ گیا۔ وہ یونہی ماننے والی نہیں تھی۔ اگر اس کا کہنا سچ ہے اور جس تیاری سے وہ یہاں تک آئی ہے اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ رگھبیر ان کے گھروں پر حملہ کرنے والا ہے۔ اسے اپنے گھر والوں کا بچانا تھا، انہیں ابھی لے کر نکلنا تھا۔ اب سوائے زبردستی وہاں سے جانے کے اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس نے امرت کور کو سر سے پائوں تک دیکھا اور پھر پوری نفرت سے اس پر تھوک دیا۔
’’میں تھوکتا ہوں تیرے بدن پر اور تیرے بدن کی آگ پر‘‘۔ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھا۔ امرت کور غضب سے اس کی طرف دیکھتی رہی، وہ چند قدم ہی آگے چلا تھا کہ ایک بھاری لکڑی سے اس کے سر پر وار کیا گیا۔ اس کے حواس گم ہو گئے۔ اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتا، دوسرا وار کر دیا گیا۔ پھر تیسرا۔ اس نے گھوم کر دیکھا، امرت کور شعلہ جوالا بنی ہاتھ میں ڈانڈا پکڑے ہوئے تھی۔ جس قوت سے اس نے ضربیں لگائی تھیں اس میں اس کے اندر کے جذبوں کی کار فرمائیاں بھی تھیں۔ نور محمد چند لمحوں تک خود کو سنبھالتا رہا، لیکن تیسری ضرب کے بعد وہ اپنے حواسوں میں نہ رہا اور اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا اچھاتا چلا گیا…
اسے جب ہوش آیا تو بندھا ہواتھا۔ اس سے تھوڑے فاصلے پر امرت کور کھڑی تھی۔ جس کی آنکھوں سے نفرت اُبل رہی تھی۔ اسے ہوش میں آتا دیکھ کر وہ بولی۔
’’اب تیرے پاس فقط ایک ہی راستہ رہ گیا ہے، میرے ساتھ بھاگ جانے گا۔ وہ دیکھ گائوں میں آگ لگی ہوئی ہے۔ اب تک تیرے سارے گھر والے مار کر جلا دیئے گئے ہوں گے۔ کچھ نہیں بچا ہو گا وہاں پر…‘‘
نور محمد نے زمین پر پڑے پڑے ہی گھوم کر دیکھا۔ ملگجی سی چاندنی میں گائوں کی طرف سے شعلے اٹھ رہے ۔ چیخ وپکار کی ہلکی ہلکی آوازیں وہاں تک آرہی تھیں۔ نور محمد تڑپ اٹھا۔ اس نے اپنا پورا زور لگانا شروع کر دیا کہ کسی طرح ان رسیوں سے آزاد ہو جائے۔
’’مجھے کھول دے امرت، مجھے جانے دے…‘‘
’’نہیں، میں تجھے موت کے منہ میں کیسے دھکیل سکتی ہوں۔ تُو اگر مجھے لے کرجاناچاہتا ہے تو میں تجھے ایسے ہی گھوڑی پر سوار کر دیتی ہوں، میں تجھے یہاں سے لے کر دور چلی جائوں گی، بول، کیا فیصلہ ہے ۔ تیرا…‘‘ وہ پاگلوں کی طرح ہذیانی انداز میں اس سے یوں پوچھ رہی تھی جیسے وہ اس کی بے بسی سے مزہ لے رہی ہو۔
’’تُو مجھے ایک بار کھول دے… پھر دیکھ، رگھبیر کیا پورا گائوں پلٹ دوںگا‘‘۔ اس کے یوں کہنے پر وہ پاگلوں کی طرح ہنسی۔
’’میرے سامنے بے بس پڑا ہے… اور گائوں پلٹ دے گا…‘‘
’’میں تیرے عورت ہونے کے دھوکے میں آگیا… مگر تُو اپنی ہوس میں اندھی ہو گئی ہے۔ چل تُو نہ کھول، میں خود ہی کوشش کرتا ہوں…‘‘
’’کر… کر… کوشش کر…‘‘ وہ اس کی طرف دیکھ کر پاگلوں کی طرح ہنس دی۔ انہی لمحات میں گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز سنائی دی۔ کوئی اس طرف آرہا تھا ۔ چند لمحوں میں میں ہیولاواضح ہو گیا۔ وہ رگھبیر سنگھ تھا۔ شاید اس نے دور ہی سے کھڑی امرت کور کو پہچان لیا تھا۔ مگر اس کی نگاہ زمین پر بندھے ہوئے نور محمد پر نہیں پڑی تھی۔ اس نے گھوڑی سے اترتے ہوئے تیز انداز میں پوچھا۔
’’نی امرت کورے…! تُو یہاں کیا کر رہی ہے؟‘‘
اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتی، اس کی نگاہ زمین پر بندے ہوئے نور محمد پر پڑی تووہ کھل اٹھا اور پھر جھومتے ہوئے بولا۔
’’اوئے رب جسے شکار دے… میں تو کب کا اسے ڈھونڈ رہا تھا اور یہ یہاں چوہے کی طرح پڑا ہے، پر اسے باندھا کس نے ہے؟‘‘
’’میں نے …؟‘‘ امرت کور نے نفرت سے کہا۔ تب رگھبیر نے خوشی جھومتے ہوئے کہا۔
’’اوئے اش کے بھئی اش کے امرت کورے، تُو نے ثابت کر دیا ہے کہ تُو شیرنی ہے اور میری بیوی بننے کے قابل ہے، میں تو کچھ اور ہی سوچ رہا تھا پر تُو نے دل خوش کر دیا…‘‘
’’تُو کیا سوچ رہا تھا؟‘‘ امرت کو نے تجسس سے پوچھا۔
’’سچو سچ پوچھتی ہے نا تو پھر سن، یہ جب نور محمد مجھے اپنے گھر نظر نہیں آیا تو میں نے یہی سمجھ لیا کہ تُو اس کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ میں نے فوراً حویلی میں آ کر پتہ کیا تُو وہاں نہیں تھی۔ تیرا باپ بھی گھر میں نہیں ہے۔ میں سمجھ گیا۔ میں نے فوراً اِدھر اُدھربندے بھیج دیئے ہیں۔ گائوں سے نکلتے ہی ایک بندے نے مجھے بتایا کہ کوئی سوار ادھر گیا ہے اور میں ادھر آگیا۔ تجھے تلاش کرنے، مجھے یقین تو نہیں تھا کہ ابھی تم لوگ ادھر ہو گے، پھر دیکھ لینے میں کیا حرج تھا، اسی رستے سے تجھے آگے تلاش کرلیتا‘‘۔
’’تجھے ایسا شک کیوں ہوا رگھبیرے؟‘‘ امرت نے اس کی بات سنی اَن سنی کرتے ہوئے پوچھا۔
’’لے…! میں جانتا نہیں ہوں۔ پورا گائوں جانتا ہے کہ تُو اس سے عشق کرتی ہے۔ پر لگتا ہے کہ اب تُو اس سے انتقام لے رہی ہے‘‘۔ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی تلوار نما کرپان نکال کر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’لے، پکڑ، اتار دے اس کی گردن، بس یہی بچا ہے، باقی سارے مار دیئے ہیں‘‘۔
اس کا اتنا کہنا ہی تھا کہ زمین پر پڑا ہوا نور محمد تڑپ اٹھا۔ اس نے پورا زور لگایا مگر رسیاں نہ ٹوٹیں۔ اسے اپنی موت سامنے دکھائی دے رہی تھی۔ افسوس اسے اس بات کا تھا کہ وہ اپنے پیاروں کی حفاظت نہیں کر سکا۔ امرت کور نے اس کا چہرہ دیکھا اور پھر رگھبیر کی بڑھائی ہوئی کرپان اپنے ہاتھ میں لے لی اور اگلے ہی لمحے پوری قوت سے کرپان گھمائی اور رگھبیر سنگھ کی گردن اڑا دی۔ وہ تڑپ کر زمین پر گر پڑا۔ اس کا جسم ماہی بے آب کی مانند زمین پر تڑپ رہا تھا۔ اس کے خون کے چھینٹے امرت کور کے چہرے پر آن پڑے تھے۔ اس نے کرپان ایک طرف پھینکی اور بندھے ہوئے نور محمد سے لپٹ گئی۔ کوئی لفظ کہے بغیر یوں رونے لگی جیسے اس کا سب کچھ لٹ گیا ہو۔ پھر پاگلوں کی طرح اس کا سر ، منہ اور جسم چومنے لگی۔ اسے یہ خیال ہی نہیں تھا کہ اس کے قریب رگھبیر کی لاش تڑپ رہی ہے۔ اس کے بدن سے ابھی تک تازہ خون بہہ رہا ہے۔ کافی دیر تک ہچکیوں کے ساتھ روتی رہی پھر بھیگتے ہوئے لہجے میں بولی۔
’’نور محمد…! اب تو کچھ بھی نہیں رہا، نہ تیرا نہ میرا… چل کسی دوسرے دیس چلتے ہیں‘‘۔
اس نے جواب نہیں دیا۔ وہ تو غم کی شدت سے پتھر بن گیا تھا۔ وہ وہیں اس کے پاس بیٹھی روتی رہی مگر نور محمد نے اسے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ دو تین گھنٹے اسی طرح گزر گئے۔ ایک طرف نفرت کی آگ میں جلتا ہوا نور محمد کا وجود، جو اس کے لیے سرد تھا۔ اس کے جذبات برف کی مانند ٹھنڈے تھے اور دوسری طرف موت نے رگھبیر کی لاش کو ٹھنڈا کر دیا تھا، اس کے تن سے جدا سر کی آنکھیں اب تک کھلی ہوئی تھیں، اور شاید ان میں حیرت اب بھی جمی ہوئی تھی۔ ان دونوں کے درمیان امرت کور، بیٹھی زاروقطار رو رہی تھی۔ اچانک گائوں کے داخلی راستوں پر گڑگڑاہٹ ہونا شروع ہو گئی۔ وہ کئی موٹریں تھیں وہ سمجھ گئی یہ ملٹری کی گاڑیاں ہیں۔ اس نے نور محمد کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔
’’اٹھ نور محمد، نکل چلیں، گائوں سے اب کوئی بھی ہمارے پیچھے نہیں آئے گا‘‘۔
نور محمد چند لمحے اس کی طرف دیکھتا رہا، پھر پہلے سے زیادہ گہری نفرت سے اس پر تھوک دیا۔ اس نے آنکھیں یوں بند کرلیں کہ چاہے تو وہ اب اسے قتل کر سکتی ہے۔ امرت کور اس کی طرف پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھتی رہی۔ آنکھوں سے جاری آنسو خشک ہو گئے۔ وہ اٹھی اور اس نے اس کی رسیوں کو کھول دیا۔ نور محمد تیزی سے آزاد ہو گیا۔ تب امرت کور نے ہاتھ میں کرپان پکڑی اور اس کی طرف بڑھا دی۔
’’میرا وجود صرف تیرے نام کا ہے، تُو نہیں تو کسی کام کا نہیں، اپنے ہاتھوں سے مارہی دے مجھے۔ میرے دل میں یہ حسرت تو نہیں رہے گی کہ تُو نے مجھے کچھ بھی نہیں دیا، محبت نہیں دی، تو موت ہی دے دے‘‘۔ تبھی نور محمد نے اس کی طرف گہری نگاہوں سے دیکھا اور پھر اس سے بھی گہری نفرت سے زمین پر تھوک دیا۔ جس کا مطلب یہی تھا کہ تیرا جسم اس قابل بھی نہیں ہے کہ میں تم پر اب تھوک بھی سکوں۔ میرا تھوک قیمتی ہے۔ پھر اس نے امرت کور کی طرف دیکھا بھی نہیں، ہوا کی مانند رگھبیر سنگھ کی گھوڑی پر ایک جست میں بیٹھا اور وہاں سے چل دیا۔
امرت کور اپنا سب کچھ گنوا بیٹھی تھی۔ وہ کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح اس وقت حویلی میں داخل ہوئی جب سورج طلوع ہو رہا تھا۔ دالان میں پورا خاندان افسوس ناک حالت میں بیٹھا ہوا تھا۔ اسے دیکھتے ہی بلوندر سنگھ نے اونچی آوازمیں پوچھا۔
’’کہاں سے آئی ہے تو؟‘‘
اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے پاس کوئی جواب تھا ہی نہیں۔ اس نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی خون آلود کرپان اپنے باپ کے قدموں میں رکھ دی۔ پھر اس کے ساتھ اپنی گردن اس کے سامنے جھکا کر کھڑی ہو گئی۔ بلوندر سنگھ کچھ بھی نہ سمجھ پایا۔ وہ امرت کور سے پوچھتا ہی رہا کہ کیا ہوا، مگر اس کے پاس تو فقط خاموشی تھی۔ وہیں اسے معلوم ہوا کہ اس کا باپ اس فساد کو روکنے کے لیے ملٹری کے پاس گیا تھا۔ جو بہت دیر سے پہنچی۔ سب کچھ اجڑ گیا تھا، زبان پر کوئی بھی لفظ لانے کا فائدہ ہی نہیں تھا۔