اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

865,261FansLike
9,992FollowersFollow
565,300FollowersFollow
188,369SubscribersSubscribe

امرت کور……قسط نمبر13……امجد جاوید

تیسرے دن میں جنم استھان کے مین گیٹ پر تھا۔ سہ پہر ہو چکی تھی۔ بھان سنگھ سے میری بات ہو گئی تھی۔وہ میرا منتظر تھا اور اس کے پاس سامان دھرا ہوا تھا۔ میں نے ڈرائیور سے سامان رکھنے اور گاڑی عارضی پارکنگ میں لگانے کا کہا۔ ڈرائیور سامان سنبھالنے لگا ۔ میں اور بھان اندرچلے گئے۔ سفید اور پیلی عمارت جس میں بسنتی رنگ نمایاں تھا اس کے اطراف میں جدید عمارتوں کی تعمیر کا سلسلہ شروع تھا۔ فوارے کے پاس سے ہم شمال کی جانب ایک راہداری کے اندرچلے گئے ۔ جہاں یاتریوں کے ٹھہرنے کی جگہ تھی۔ وہیں انہیں کاٹیج نما کمرے ملے ہوئے تھے۔ وہ خصوصی یاتریوں کے لیے تھے ۔ورنہ عام یاتریوں کو اِدھر اُدھر ٹھہرایا جاتا ہے۔ یا پھر وہ خود اپنا بندوبست کرتے ہیں۔ وہاں اتنا زیادہ رش نہیں تھا۔ یاتری اردگرد کے گرودوارں کی یاترا کے لیے نکل گئے ہوئے تھے۔ میں نے وہاں یہ محسوس کیا کہ ہرمندر صاحب اور جنم استھان میں شاید یہ فرق ہے کہ ہرمندر صاحب بھارت میں ہے اور وہاں سکھوں کی کثیر تعداد ہونے کی وجہ سے وہاں پر زیادہ رش ہوتا ہے۔ یا پھر اسے اہمیت زیادہ دی جاتی ہے۔ بہر حال وہ سب تیار تھے۔ ان کے چہروں پر ہلکی ہلکی تھکن تھی۔ ان کے پاس سامان تو تھا نہیں، اس لیے آخری بار ماتھا ٹیکنے کے لیے گرودوارے کے اندر چلے گئے۔ ڈیوڑھی سے گزر کر کنویں کے پاس آئے تو اندر صحن کی وسعت کا اندازہ ہوا۔ سامنے ہی شیشے کے پار گرنتھ صاحب پڑی ہوئی تھی۔ قریب ہی ایک سیوک چھور صاحب ہلا رہا تھا۔ ان سب نے باری باری گرنتھ صاحب کو ماتھا ٹیکا اور پھر اس درخت کے پاس چلے آئے جو کسی نہنگ سنگھ پر ہونے والے ظلم کی داستان سنا رہا تھا۔ وہیں پر معلوم ہوا اس سنگھ کو وہاں پر زندہ جلا دیا گیا تھا ، یہ وہی درخت تھا جہاں اس سنگھ کو باندھ کر جلایا گیا۔ وہیں کھڑے کھڑے پردیپ سنگھ نے مجھے بتایا کہ وہ گرودوارہ بھی ملکیت کی وجہ سے اور کچھ دوسری وجوہات کے باعث لہو لہو ہوا ہے۔ جس فرش پر ہم کھڑے تھے۔ اس فرش نے بھی انسانی خون کا ذائقہ چکھا ہوا ہے، مجھے جھرجھری آگئی۔ مذہب کے نام پر انسان کیا کچھ کرتا رہا ہے۔
ہم وہاں سے واپس ہوئے اور یہی باتیں کرتے ہم جنم استھان سے باہر گاڑی میں آبیٹھے۔ وہ بہت آرام دہ کوسڑتھی۔ ڈرائیور مستعد تھا ۔ تبھی میں نے ان سے پوچھا۔
’’اب بتائیں کیا پروگرام ہے؟‘‘
’’یہاں کی تو سب یاترا ہو گئی ہے۔ اب پنجہ صاحب جانا ہے‘‘۔ پردیپ سنگھ نے کہا تو میں نے انہیں سفر کی ترتیب بتائی کہ واپس لاہور سے جا کر حسن ابدال جانا ہے، یا پھر وہیں سے چلیں تو انہوں نے کہا۔ ’’نہیں پنجہ صاحب ہی چلیں۔ رات کہیں ٹھہر جائیں گے‘‘۔
’’کہیں کہاں ٹھہرنا ہے، پنڈی اپناگھر ہے نا… حسن ابدال ہم صبح چلے جائیں گے‘‘۔ میں نے کہا اور ڈرائیور کو پنڈی چلنے کا کہا۔ وہاں بہت پہلے ہی سے ہم نے گھر خریدا ہوا تھا۔ وہ ہمارے منیجر کے زیر استعمال تھا۔ جسے میں نے مطلع کر دیا۔ یونہی گپ شپ کرتے ہم پنڈی کی طرف روانہ ہو گئے۔
رات کے سائے پھیل چکے تھے ۔ جب ہم پنڈی میں اپنے گھر پہنچ گئے۔ راستے میں خوب باتیں ہوئیں۔ منیجر اعجاز لودھی ہمارا منتظر تھا۔ جلد ہی فریش ہو کر کھانا کھایا۔ باقی سب تو تھکن کے باعث سو گئے مگر میں اور بھان باہر لان میں آبیٹھے۔ وہ مجھ سے زویا کے بارے میں پوچھتا رہا۔ زویا کو ان کی آمد بارے خبر تھی۔ پریت نے تو بہت پہلے اس سے ملنے کی خواہش کا اظہار کر دیا تھا۔ ہم دونوں رات گئے تک بریڈفورڈ، جھتوال پھر ننکانہ صاحب کی باتیں کرتے رہے۔
صبح ہم تقریباً گیارہ بجے کے قریب حسن ابدال پہنچ گئے۔ ہمیں سے کافی پہلے ہی کوسٹر پارک کرنا پڑی۔ وہاں سے ہم پیدل ہی تنگ سی گلیوں میں سے ہوتے ہوئے گرودوارہ کی جنوبی دیوار کے ساتھ ساتھ صدر دروازے تک آئے۔ دروازہ پار کر کے ہم اندر گئے تو کافی رش تھا۔ باہر سے اندر کی وسعت کا اندازہ نہیں ہوا تھا۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ گرودوارہ کی ایک خاص طرز تعمیر ہے۔ تالاب کی جنوبی طرف میں ایک پتھر پر گرونانک جی کا پنجہ بنا ہوا تھا۔ ایک بات مجھے وہاں پر کچھ عجیب سی لگی۔ وہیں تالاب کنارے اور پنجہ والے پتھر کے نزدیک فرش پر جو ٹائلیں لگی ہوئی تھیں۔ ان پر ان لوگوں کے نام کندہ تھے جنہوں نے کچھ نہ کچھ رقم دان کی ہوئی تھی۔ اس کی وجہ کچھ بھی رہی ہو، لیکن یوں پائوں کے نیچے لوگوںکا نام آنا کم از کم مجھے اچھا نہیں لگا۔ میں ان کے ساتھ وہاں تک گیا، جہاں کیرتن ہوتا تھا۔ انہوں نے اپنی رسمیں وغیرہ کیں اور تقریباً ایک بجے وہاں سے فارغ ہو گئے۔ چونکہ وہیں گردوارے میں لنگر کا انتظام تھا اس لیے وہیں سے جی بھر کے لنگر کھایا۔
واپسی پر ہم کہیں بھی نہیں رکے۔ ہمارا رخ لاہور کی طرف تھا۔ راستے میں پردیپ سنگھ نے مجھے پنجہ صاحب کی تاریخ کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے جو کہانی مجھے سنائی، وہ بہر حال حلق سے نیچے نہیں اتری۔ میں چونکہ محقق نہیں تھا اور نہ ہی پوری طرح جانتا تھا۔ اس لیے خاموش رہا۔ کیونکہ یہ منسوب کہانیاں عوامی ہوتی ہیں۔ ان میں بہت کچھ ایسا شامل ہوتا ہے ، جس کی سند کہیں سے دستیاب نہیں ہو سکتی اور باباگرونانک کی سوانح میں ایسی بہت سی باتیں ہیں، جو بہر حال ایسا ہی رنگ رکھتی ہیں۔ چونکہ ان باتوں میں ان کی عقیدت اور مذہبی رنگ شامل تھا، اس لیے میں نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ جس وقت ہم لاہور کے قریب شاہدرہ کے پاس پہنچے تو عصر اور مغرب کے درمیان کا وقت ہو رہا تھا۔ تب میں نے کہا۔
’’پردیپ انکل…! اگر آپ چاہیں تو ابھی راجہ رنجیت سنگھ کی مڑھی گھوم لیں، اس طرح آپ کا پوراایک دن بچ جائے گا‘‘۔
’’نہیں یار…! ابھی ہمارے پاس دو دن باقی ہیں۔ کل آجائیں گے یہاں۔ خوب گھومیں پھریں گے‘‘۔ انہوں نے سکون سے کہا تو پہلی بار امرت کور نے اپنی رائے دی۔
’’نہیں پردیپ ویر نہیں…! کل میں نے یہاں نہیں آنا، آپ چاہو تو آجائیں۔ میں نے کل کچھ زیارتوں کے لیے جانا ہے، بلال کو میں نے پہلے دن ہی بتا دیا تھا‘‘۔
’’کہاں کی زیارتیں؟‘‘ پردیپ سنگھ نے پوچھا تو امرت کور نے خاصے جذباتی لہجے میں کہا۔
’’میں نے بابا فرید گنج شکرؒ کے مزار پر جانا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی بانیاں شری گرنتھ صاحب میں ہیں جسے ہم ماتھا ٹیکتے ہیں، تو پھر ان کے مزار پر ماتھا ٹیکنے کیوں نہ جائوں‘‘۔
’’ہاں یہ بات تو ٹھیک ہے تایا جی، اگر ہم شری گرو گرنتھ صاحب کو ماتھ ٹیکتے ہیں تو ظاہر ہے بابا فرید کے کلام کو بھی ماتھا ٹیکتے ہیں‘‘۔ پریت کورنے سوچتے ہوئے لہجے میں کہا تو امرت کور نے رسان سے کہا۔
’’مجھے حضرت میاں میرؒ کے مزار پر بھی جانا ہے، آپ کو پتہ ہے کہ ہر مندر صاحب کی پہلی اینٹ انہوں نے رکھی تھی‘‘۔
’’ہاں میں جانتا ہوں‘‘۔ پردیپ سنگھ نے کہا۔
’’اور پھر مجھے بابا بلھے شاہ جی کے مزار پر بھی حاضری دینا ہے، جن کا کلام میں پڑھتی آئی ہوں‘‘۔ امرت کور نے کھوئے ہوئے لہجے میں کہا تو پردیپ سنگھ بولا۔
’’چلو ٹھیک ہے، ہم بھی چلیں گے… لیکن یہ سب ایک دن میں ہو جائے گا، ہم تینوں جگہوں سے ہولیں گے…؟‘‘ انہوں نے میری طرف دیکھ کر سوالیہ انداز میں پوچھا۔
’’امید تو ہے لیکن اگر ہم کل صبح سورج نکلنے سے پہلے گھر سے نکل پڑیں تو…‘‘ میں نے کہا تو چاچی جسیمت کور بولی۔
’’ٹھیک ہے، اگر رات دیر بھی ہو گئی تو کیا ہوا۔ چل اب راجہ صاحب کی مڑھی چلیں… کتنی دور ہے یہاں سے؟‘‘
’’بس قریب ہی ہے‘‘۔ میں نے کہا۔ کیونکہ انہی باتوں کے دوران ہم آزادی چوک پہنچنے ہی والے تھے۔ شام کے سائے رات میں ڈھل گئے۔ جب ہم شاہی مسجد، شاہی قلعہ اور رنجیت سنگھ کی مڑھی دیکھ کر لوٹے۔ واپس گھر پہنچتے تک میں تھک کر چور ہو چکا تھا۔ اس لیے کھانا کھاتے ہی جو سویا تو صبح مجھے جگایا گیا۔ اس وقت سورج نہیں نکلا تھا۔
ہمارا پہلا پڑائو، حضرت میاں میر بالا پیرؒ کے مزار پر تھا۔ وہ سب اپنے طور پر نہ جانے کیا پڑھتے رہے۔ میں نے فاتحہ پڑھی اور صحن میں آگیا۔ اس وقت تک دھوپ اچھی خاصی نکل آئی تھی۔ اس کے بعد ہمارا رخ قصور کی جانب ہو گیا۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کے بعد ہم حضرت بابا بلھے شاہ جی سرکار کے مزار پر تھے۔بہت پہلے میں ایک بار اپنے دوستوں کے ساتھ وہاں گیا تھا تو مزار پرانی طرز کا تھا، لیکن اب جدید انداز میں تکمیل کے مراحل میں تھا۔ لگ رہا تھا کہ نقشے کے مطابق بہت زیادہ کام ہونے والا ہے۔ وہیں صحن میں قوال حضرات قوالی گا رہے تھے۔ جب میں فاتحہ پڑھ کر پلٹا تو امرت کور ان کے قریب جا کر بیٹھ گئی ہوئی تھی اور انہیں کچھ کہہ رہی تھی۔ قوال نے بڑے غور سے اس کی بات سنی اور پھر تان بدل کر یہ قوالی گانے لگا۔
دِل لُوچے ماہی یارنُوں
اک ہس ہس گلاں کردیاں
اک روندیاں دھوندیاں مردیاں
کہو پھلی بسنت بہارنوں
دل لُوچے ماہی یارنوں
قوال جس طرح اس کافی کے بول اٹھا رہے تھے۔ امرت کور اسی طرح جذب میں آتی چلی جارہی تھی۔
(محبت کے کھلے راستوں میں جو ہجر و وصال کا راستہ ہے۔ میں اپنے قدموں کے ہمراہ من چاہے یار کے قدموں کی آہٹ چاہتی ہوں۔ راہِ وصل پر چلنے والیاں جب بات کرتی ہیں تو لبوں سے ہنسی پھوٹتی ہے۔ ایک وہ ہیں جو ہجر کے راستوں پر روتے ہوئے چلتی ہیں اور اس دنیا سے رخصت ہو جاتی ہیں۔ بسنت بہار آگئی ہے۔ جس کی خوشبو میں مست ہو کر میں تم سے مخاطب ہوں۔ مجھ سے ٹکرا کر میرے بدن کا پیغام میرے محبوب تک لے جائو۔)
میں نہاتی دھوتی رہ گئی
اک گنڈھ ماہی دل بہہ گئی
پھاہ لائیے ہار سنگھار نوں
دل لوچے ماہی یارنوں
(ہائے…! میں خواہش وصل کی برسات میں بدن نہلا کر رہ گئی۔ من چاہے محبوب کے دل میں پڑی گرہ ڈھیلی نہ ہو سکی۔ تو پھر مجھے بار سنگھار کرنے کی کیا ضرورت ہے۔کیونکہ میرا دل تو ماہی کی تلاش میں ہے)
میں کملی کیتی دوتیاں
دکھ گھیر چوپھیروں لتی آ
گھر آماہی دیدار نوں
دل لوچے ماہی یارنوں
(میں تو دو نینوں کے ہاتھوں پاگل ہو گئی ہوں۔ ایسی پاگل کہ جو دیدار نہ ہونے کے باعث چاروں سمت سے دکھوں میں گھر جاتی ہے۔ میرے دل کے ویران آنگن میں آجائو۔ کہ میرا دل ماہی کی تلاش میں ہے)
بلھا شوہ میرے گھر آیا
میں گھٹ رانجھن گل لایا
دکھ گئے سمندر پارنوں
دل لوچے ماہی یارنوں
(آخر کار مبارک دن آگیا۔ بلھے شاہ کے آنگن میں رانجھن نے پائوں دھرا۔ عشق کے سائے کو میں نے اپنے سینے کے ساتھ پوری شدت سے لگالیا۔ تب مجھے یوں لگا جیسے میرے سارے دکھ سمندر کے نیلے پانیوں میں کسی سیال کی مانند ہو کر بہہ گئے ہیں کہ میں ماہی کی تلاش میں ہوں۔)
قوال حضرات اپنے راگ راگنیوں، سُر اورسُرتیوں میں کلام بلھے شاہؒ پڑھ رہے تھے۔ ان کی آواز میرے کانوں میں بھی پڑ رہی تھی، لیکن میری نگاہ میں امرت کور کا چہرہ تھا۔ وہاں کئی رنگ آ اور جارہے تھے۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ وہ دونوں ہاتھ جوڑے کہیں دور پہنچی ہوئی تھی۔ وہ جذب کے کس مقام پر تھی، میں نہیں جانتا تھا، لیکن اس کے جذب کا احساس ضرور تھا۔ جیسے ہی قوالی ختم ہوئی، اس نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔ وہ خوش ہو کر قوالوں کو انعام وغیرہ سے نوازنے لگی بالکل انہی لمحات میں، ایک خیال خوشبو کی مانند میرے ذہن میں آیا تو میں حیران رہ گیا۔ یہ بات پہلے میری سمجھ میں کیوں نہیں آئی تھی۔ اس خوشبو بھرے خیال کو میں جس قدر سوچتا چلا جارہا تھا۔ میرے اندر خوشگواریت کے ساتھ خوشی پھیلتی چلی جارہی تھی۔ اس خوش کن خیال نے مجھے امربیل کی مانند اپنے حصار میں لے لیا۔ میں اس خیال کی رنگینی میں کھویا ہوا تھا کہ بھان سنگھ نے مجھے ٹہوکا دیتے ہوئے کہا۔
’’او چلو، کہاں گم ہو‘‘۔
’’اوئے…! ایک بڑا خوبصورت خیال میرے ذہن میں آیا ہے، لیکن تجھے ابھی نہیں بتائوں گا۔ کل اس پر بات کریں گے‘‘۔ میں نے مسکراتے ہوئے رسان سے کہا تو وہ میرے چہرے پر دیکھتے ہوئے حیرت سے بولا۔
’’خیرتو ہے نا…؟‘‘
’’ہاں…! خیر ہی ہے… آئو چلیں‘‘۔ میں نے بہت مضبوطی سے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا اور پھر مزار کے احاطہ سے باہر نکلتا چلا گیا۔
پاک پتن میں میرے پاپاکے ایک دوست منشی محمد علی نرالا رہتے تھے۔ پاپا نے مجھے فون کر کے بتایا کہ ان کے ہاں سے ضرور ہو کر آنا، میں نے انہیں فون کر دیا ہے اور وہ انتظار کریں گے۔ راستے میں نرالا صاحب سے رابطہ بھی ہو گیا۔ انہوں نے کہہ دیا کہ لنچ انہی کے ہاں کرنا ہے تو میری مجال کیا تھی۔ دوپہر کے بعد ہم ان کے ہاں پہنچے۔ انہوں نے ہماری بہت عزت کی۔ ہم انہیں زیادہ وقت نہیں دے پائے۔ لنچ لینے اور پھر قدرے فریش ہونے کے بعد ہم دربار شریف چلے گئے۔
عام سطح سے کافی اونچائی پر بابا جی کا مزار ہے۔ سہ پہر ہو چلی تھی۔ اس وقت لوگوں کی آمدورفت اتنی نہیں تھی۔ اس لیے اتنا زیادہ رش دیکھنے کو نہیں ملا۔ مرد حضرات تو مزار کے اندر چلے گئے۔ خواتین باہر ہی رہیں۔ تقریباً ایک گھنٹہ وہاں گزرنے کے بعد ہم نے واپسی کا فیصلہ کیا ۔ جتنی دیر ہم وہاں پر رہے، امرت کور اتنی دیر جذب کی حالت میں رہی۔ ایک لمحے کو تو مجھے لگا جیسے وہ شو آف کر رہی ہے۔ لیکن ایسا نہیں تھا، میں نے اگر جھتوال میں اس کا جذب نہ دیکھا ہوتا تو یہی سمجھتا۔ واپسی پر وہاں سے شکر کی کافی ساری تھیلیاں لیں، جو تبرک کے طور پر وہ اپنے ساتھ جھتوال لے جانا چاہتے تھے۔ سہ پہر ڈھل رہی تھی جب ہم وہاں سے نکلے۔ ہمارا رخ لاہور کی جانب تھا۔
****
اگلے دن میں ، بھان اور پریت لاہور کے سب سے مہنگے ریستوران میں زویا کا انتظار کرتے ہوئے اپنی گپ شپ کر رہے تھے۔ زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ زویا بھی آگئی۔ پریت اور زویا پہلی بار ملی تھیں، لیکن زیادہ دیر نہیں ہوئی کہ وہ آپس میں بے تکلف ہوگئیں۔ پھر فضا اس وقت نارمل ہو ئی جب زویا نے بھان کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’مجھے نہیں لگتا تھا کہ تم وہی بریڈفورڈ والے گٹ اپ میں ہو گے‘‘۔
’’کیوں، کیسے گٹ اپ کی توقع کر رہی تھی؟‘‘ اس نے خوشگوار حیرت سے پوچھا۔
’’یہی کہ وہاں تو تم اسی حالت میں تھے، مطلب کلین شیو، میں اب یہ تصور کر رہی تھی کہ تم نے اپنے سر پر وہی سکھوں والی مخصوص پگڑی رکھی ہو گی، یہ داڑھی بڑھائی ہو گی اور پورے روایتی سکھ دکھائی دے رہے ہو گے‘‘۔
’’اور …تم…تم… بھی تو روایتی مسلم دکھائی دے رہی ہو۔یہ … یہ حجاب…‘‘ وہ تیزی سے بولا۔
’’میں تو وہاں بھی ایسے ہی رہتی تھی۔ میں تو روایتی مسلمان دکھائی دے رہی ہوں۔ تم روایتی سکھ کیوں نہیں؟‘‘ زویا نے اپنی بات کی وضاحت کی تو پریت کور نے آہستگی سے کہا۔
’’میرے خیال میں زویا، یہ تم نے لفظ ’’گٹ اپ‘‘ استعمال کیا ہے نا، یہ بالکل درست کیا، اب دیکھو،ایک جھوٹاانسان جتنا بھی روپ بدل لے، وہ جھوٹا ہی ہو گا۔ ایک سچا انسان چاہے جیسا بھی رہے، وہ سچا ہی رہے گا، جیت ہمیشہ سچائی کی ہوتی ہے‘‘۔
’’تم ٹھیک کہتی ہو پریت …! لیکن ان کے درمیان ایک اور صورت بھی ہے اور وہ ہے منافق، دنیا کا ذلیل ترین اور کمینہ انسان ہوتا ہے وہ اس سے بھی کریہہ لوگ وہ ہوتے ہیں جو مذہب کا لبادہ اوڑھ کر محض کاروبار کریں۔میں کئی ایسے مذہبی لوگوں کو جانتی ہوں، وہ چاہے پوپ ہوں، پادری ہوں، مولوی ہوں، پنڈت ہوں، سکھ گیانی ہوں، پروہت، سادھو سنت… جو جیسا ہے، اسے ویسا ہی دکھائی دینا چاہئے‘‘۔ زویا نے رسان سے کہاتو بھان سنگھ بولا۔
’’تمہاری ایک غلط فہمی دور کردوں۔ یہ جو تم روایتی سکھ کا ایک نقشہ اپنے دماغ میں لیے بیٹھی ہونا ، ضروری نہیں کہ وہ ایساہی گٹ اپ رکھے، مثلاً کیس، کڑا، کرپان وغیرہ۔ باباجی شری گرونانک کی یہ تعلیم نہیں تھی۔ یہ تو بعد کے گروئوں نے اضافے کیے ہیں‘‘۔
’’قدرتی طور پر سکھ مت، اسلام کے قریب تر ہے۔ واحدانیت ہے اس میں، آپ جپ جی دیکھ لیں، نرمی واحدانیت ہے۔ جس طرح ہندو مت میں بت پوجا اور…‘‘ پریت کور نے کہنا چاہا مگر میں نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا، پھر ملائمت سے بولا۔
’’یار یہ تم کن باتوں میں پڑ گئے ہو، میرے خیال میں ہم چاروں اتنے عالم نہیں ہیں کہ مذاہب جیسے نازک مسئلے پر بات کر سکیں۔ ہمیں اپنی باتیں کرنی چاہئیں‘‘۔
’’جیسے تمہاری مرضی‘‘۔ پریت کور نے کاندھے اچکاتے ہوئے کہا، پھر لمحہ بھر بعد نرم سے لہجے میں بولی۔ ’’چلو یہ باتیں کرتے ہیں کہ تمہاری اور زویا کی شادی کب تک ہو رہی ہے؟‘‘
’’میری طرف سے توڈن ہے، لیکن زویا کوئی گرین سگنل نہیں دے رہی ہے۔ بس اسی کے انتظار میں ہیں‘‘۔ میں نے زویا کی طرف دیکھتے ہوئے بات موڑنے کی کوشش کی۔ ’’ویسے تمہاری اور بھان کی شادی اب تک کیوں نہیں ہوئی، تمہاری طرف تو کوئی رکائوٹ نہیں ہے؟‘‘
میرے یوں کہنے پر بھان سنگھ نے مسکراتے ہوئے عام سے انداز میں کہا۔
’’ہماری تو گھر کی بات ہے۔ بس میں نے ہی روکا ہے اس شادی کو، تھوڑی مستقبل کی پلاننگ کر لوں، پھر کر لوں گا۔ کچھ فیصلوں میں اپنا حق بھی جتایا جاتا ہے… کیوں زویا…‘‘
شاید بھان سنگھ نے اشارے میں اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی، ممکن ہے ، وہ کوئی جواب دیتی مگر انہی لمحات میں اس کا فون بج اٹھا۔ وہ دوسری طرف سے سنتی رہی اور ہاں ناں میں جواب دیتی رہی۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ وہ اس وقت کن کے ساتھ ہے اور کہاں پر ہے۔ پھر خوشگوار موڈ کے ساتھ فون بند کر دیا۔ پھرسب کی طرف دیکھ کر بولی۔
’’پاپا کا فون تھا، انہوں نے بلال کے پاپا کو فون کیا اور …‘‘ وہ کہنا چاہ رہی تھی کہ بھان سنگھ نے انتہائی مسرت سے کہا۔
’’مطب وہ مان گئے، تمہارا اور بلال کا رشتہ پکا…‘‘
’’رہے نا سکھ کے سکھ… پوری بات تو سن لو، ایویں شور مچا دیا ہے‘‘۔ زویا نے تیزی سے کہا۔ پھر پریت کور کا خیال کرتے ہوئے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر معذرت خواہانہ لہجے میں بولی۔ ’’سوری پریت… ہم میں چلتا ہے‘‘۔
’’کوئی بات نہیں، میں جانتی ہوں کہ آپ لوگ آپس میں بے تکلف ہیں، خیر بتائو، بات کیا ہے؟‘‘ پریت نے رسان سے پوچھا ۔ تو زویا بولی۔
’’میرے پاپا نے بلال کے پاپا کو فون کر دیا ہے کہ جھتوال سے آئے مہمانوں کے ساتھ ڈنر پر آئیں۔ یہ دعوت قبول کرلی گئی ہے اور اب آج رات سب ڈنر میرے گھر پر کریں گے‘‘۔
’’اوہ…! تو یہ بات تھی ‘‘۔ بھان سنگھ نے جان بوجھ کر منہ بسورتے ہوئے کہا۔
’’کیوں تمہیں خوشی نہیں ہوتی میرے گھرآنے پر‘‘۔ زویا نے تنگ کر پوچھا تو وہ مسکراتا ہوا بولا۔
’’مجھے حقیقی خوشی اس دن ہو گی جب بلال دولہا اور میںشہ بالا بنا تمہارے گھرے آئوں گا۔ ویسے کیا ہی اچھا ہوتا، اس تقریب میں تمہاری اور بلال کی منگنی ہو جاتی۔ یا کم از کم ہاں ہی ہو جاتی، یقین جانو، بالکل وہی فلموں والا سین ہوتا۔ ویسے خیر…! یہ بریک تھرو تو ہے… اب یہ خیال ویسے کیوں آگیا؟‘‘
’’میں نے پاپا کو بتایا تھا کہ میرا ایک کلاس فیلو آیا ہے اپنی فیملی کے ساتھ، میں انہیں کھانے پر بلانا چاہتی ہوں میری خواہش پر انہوں نے خود سے یہ سارا اہتمام کر لیا۔ ویری سمپل …‘‘ زویا نے خوشی سے لبریز لہجے میں کہا۔ تبھی میں نے سب کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہوئے بڑے ڈرامائی انداز میں کہا۔
’’سنو…! میں تم لوگوں سے ایک خیال شیئرکرنا چاہتا ہوں۔ مگر ایک شرط ہے، نہ تو میرا مذاق اڑایا جائے، اور نہ ہی کوئی اس سے ناراض ہو گا، میرے خیال کے ردِ عمل میں جو بھی کسی کو خیال آئے، وہ پوری دیانت داری سے مجھے اس کے بارے میں بتائے گا۔ تاکہ میں کسی فیصلے تک با آسانی پہنچ سکوں‘‘۔
’’بولو…!‘‘ بھان سنگھ نے کہا، پھر ایک دم سے چونکتے ہوئے بولا۔ ’’او ئے …! یہ وہ والا خیال تو نہیں ہے جو بابا جی بلھے شاہ سرکار کے مزار پر تم نے مجھ سے ذکر کیا تھا؟‘‘
’’ہاں…! بالکل وہی ہے، اگر اجازت ہو تو کہوں؟‘‘ میں نے خواہ مخواہ سنسنی پیدا کرنے کے لیے اجازت چاہی۔ اس پرکوئی نہیں بولا۔ اس پر میں نے خاموشی کو رضا مندی خیال کرتے ہوئے مزار پرامرت کور کے کافی سننے اور جذب کے بارے میں پوری تفصیل بتا کر کہا۔ ’’اس دوران مجھے جو خیال آیا وہ یہ ہے کہ امرت کور اور دادا نور محمد کی شادی کروا دی جائے؟‘‘
میرے یوں کہنے پر وہ تینوں ایکدم سے بھونچکارہ گئے۔ وہ میری طرف یوں دیکھنے لگے جیسے میں نے دنیا کی انہونی اور ناقابلِ یقین بات کہہ دی ہو۔ کافی دیر تک ہم میں خاموشی چھائی رہی۔ جیسے وہ اس حیرت سے نہ نکل پائے ہوں۔ کافی دیر بعد پریت کور نے کہا۔
’’جہاں تک خیال کی بات ہے، وہ تو جیسا چاہے سوچا جا سکتا ہے جیسے تم اور زویا خیالوں ہی خیالوں میں نہ جانے کتنی بار شادی کر چکے ہو گے یا پھر سچی بات ہے میں پتہ نہیں خیالوں ہی خیالوں میں بھان کی کتنی بار دلہن بن چکی ہوں، نہ جانے کتنی بار اپنی پسند کا عروسی جوڑا پہنا ہے، لیکن …! خیال محض خیال ہوتے ہیں۔ حقیقی زندگی کی دنیا کچھ اور طرح کی ہے۔ جہاں سارے ہی خیال حقیقت کا روپ نہیں دھار سکتے…‘‘
’’پر ایک بات ہے پریت…‘‘ بھان سنگھ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’جب میاں بیوی راضی ہوں تو پھر قاضی کیا کر سکتا ہے۔ میرے خیال میں اصل مسئلہ ان دونوں کی شادی ہونے یا نہ ہونے کا نہیں۔ بلکہ ان دونوں کے مان جانے کا ہے۔ کیونکہ مجھے نہیں لگتا کہ وہ دونوں اس شادی کے لیے مان جائیں گے‘‘۔
’’یہ بھی ممکن نہیں ہے بلال، وہ اگر مان بھی جائیں تووہ دونوں عمر کے اس حصے میں ہیں، جہاں انہیں خود سے زیادہ اپنے خاندان کا خیال ہو گا‘‘۔ زویا نے اپنی رائے دی تو میں نے تحمل سے کہا۔
’’تم سب اس رشتے کو دو اور دو چار کر کے دیکھ رہے ہو، جبکہ یہ نارمل کیس نہیں ہے ۔ بلکہ معمول سے ہٹ کر ہے اور ہمیں ویسے ہی پہلو سے دیکھناچاہئے۔ بالفرضِ محال، دونوں خاندان راضی ہو جائیں تو پھر…؟‘‘
’’مذہب سب سے بڑی رکاوٹ ہو گی‘‘۔ پریت نے آہستگی سے کہا، تب زویا بولی۔
’’مطلب، نہ دادا نور محمد سکھ ہو سکیں گے اور نہ امرت کور مسلمان ہو گی‘‘۔
’’نہیں، یہاں ایک راہ نکل سکتی ہے‘‘۔ بھان سنگھ نے سوچتے ہوئے لہجے میں کہا اور پھر میری طرف دیکھا۔
’’میں نے تیزی سے پوچھا‘‘۔
’’وہ کیا …؟‘‘