اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

865,986FansLike
9,992FollowersFollow
565,400FollowersFollow
188,369SubscribersSubscribe

امرت کور……قسط نمبر14……امجد جاوید

’’دیکھنا یہ ہے کہ شدت کس طرف ہے؟ یہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ شدت بے شک امرت کور کی طرف سے ہے۔ اس کے خیالات اور ارادے میں یہ تک تھا کہ اسے مذہب سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اس کے لیے جو کچھ بھی ہے وہ نور محمد ہے۔ اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ آیا نور محمد کے دل میں امرت کور کی کوئی جگہ ہے؟‘‘
’’مگر سوال یہ ہے بھان، کہ کیا امرت کور کے دل میں اب بھی وہی پرانے خیالات موجود ہیں یا وہ اب اپنے مذہب پر پختہ ہو گئی ہے۔ ظاہر ہے وہ جوانی کا دور تھا۔ اس میں نہ تو اس کے خیالات پختہ تھے اور دوسرا اس کے من میں جو محبت تھی، اس میں بلا کی ہلچل تھی۔ اب وہ پختہ عمر کی ایک سمجھ دار عورت ہے‘‘۔ پریت کور نے اپنا خیال بتایا تو بھان سنگھ بولا۔
’’پریت، تم اپنی ہی بات کی تردید کر رہی ہو، کچھ عرصہ قبل تم اسی عورت کو پاگل گردان چکی ہو۔ بلکہ اسے اب تک پاگل کہتی رہی ہو۔ تمہارے نزدیک وہ ایک بے عقل عورت تھی۔ اس کا اظہار تم نے بلال کے سامنے بھی کیا تھا۔ اب تم اسے سمجھ دار کہہ رہی ہو‘‘۔
’’تم ثابت کیا کرنا چاہتے ہو؟‘‘ پریت نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا تو وہ کہتا چلا گیا۔
’’انسانی نفسیات جس قدر آسان دکھائی دیتی ہے۔ یہ دراصل اسی قدر پیچیدہ ہے۔ یہاں ہم اپنے ہی خیالوں کے بنائے دلائل دیتے چلے جارہے ہیں۔ ان دونوں کے اندر کیا ہے؟ وہ کس طرح سوچتے ہیں؟ اس کی وضاحت ہم کر ہی نہیں سکتے، تم کہہ سکتی ہو کہ ہم اندازہ تو لگا سکتے ہیں، لیکن نہیں، ہم ایسا بھی نہیں کر سکتے، خیر…! یہ جو پیار، محبت اور عشق کے معاملات ہوتے ہیںنا،ان کے سامنے نہ مذہب آڑے آتا ہے اور نہ اونچ نیچ، مثال تمہارے سامنے ہے، یہ زویا تمہارے سامنے ہے۔ یہ اونچی ذات سے تعلق رکھتی ہے اور یہ بلال اس سے قدرے، بلکہ اس سے مقابلتاً کم درجے ذات سے تعلق رکھتا ہے۔ ان دونوں کا ملن صرف ذات پات کی وجہ سے اٹکا ہوا ہے۔ حالانکہ ان کے مذہب میں تو مساوات ہے۔ ذات پات کا تصور تک نہیں۔ یہاں مذہب نہیں، یہاں برصغیر کی تہذیب اور تمدن بول رہا ہے۔ ذات پات تو سکھ از م میں بھی نہیں ہے، پھر ہم رندھا دے، گل اور گریوال کیوں دیکھتے ہیں۔ امرت کور نے تو مذہب نہیں دیکھا، میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آج بھی اس کے دل میں نور محمد کے لیے وہی چنگاری موجود ہے، جو اس وقت جوانی میں تھی۔ سرحدیں اور مذہب ان کے درمیان رکاوٹ نہیں ہیں‘‘۔
’’بھان سنگھ…! اوئے تم تو تقریر بھی اچھی خاصی کر لیتے ہو‘‘۔ زویا نے خوشگواریت سے کہا تو پریت کور نے اپنی بات منوانے کی خاطر کہا۔
’’چلیں…! ہم یہ تجربہ بھی کر کے دیکھ لیتے ہیں‘‘۔
’’پریت، میری جند، میری جان، اس میں جذباتی ہونے یا غصہ کرنے والی بات نہیں ہے۔ ہم ہونی کو نہیں ٹال سکتے۔ زندگی جس دھارے پر بہہ رہی ہے۔ اسے بہنے دیا جائے۔ بابا جی شری گرونانک مہاراج نے بھی اسے ویسا ہی چلنے کے لیے کہا ہے۔ کیونکہ ہم ان دھاروں کو موڑنے کی سکت نہیں رکھتے۔ بلکہ اس کے ساتھ بہنے میں ہم قدرت کے معاملات میں اس کا حصہ بن جاتے ہیں‘‘۔ اس بار بھان نے واقعتاً بڑے تحمل سے کہا۔ تب پریت کور میری طرف دیکھ کر بولی۔
’’بھان خود جذباتی ہو رہا ہے۔ مگر میری بات سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہا ہے۔ میں اسے یہ سمجھانا چاہتی ہوں کہ جب تک ہم ان دونوں کو ٹریک پر نہیں لائیں گے۔ ان کے اندر سے انہیں، نہیں ابھاریں گے تو یہ کیسے ممکن ہو گا۔ ورنہ وہ تو اپنی اپنی جگہ پر جمے رہیں گے پتھر کی طرح…‘‘
’’یہ ایک الگ بات ہے… بلکہ اب تم خود سمجھنے کے ٹریک پر آئی ہو‘‘۔ میں نے پریت سے کہا۔
’’بالکل…!‘‘ بھان نے کہا تو لمحہ بھر بعد زویا نے سب کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔
’’بات یہ بھی نہیں…! دیکھو، میں اس الجھن کو حل کرتی ہوں، ہمارا سوچنا، یا پھر ہمارا ایک فیصلے پر متفق ہو جانا ایک الگ بات ہے، مگر امرت کور اور دادا نور محمد کا سوچنا ایک الگ بات… ہم صرف اپنے ماحول کے ان عوامل کی بات کر ر ہے ہیں جو رکاوٹ بن سکتے ہیں، مثلاً مذہب، خاندان، ماحول، عمر وغیر ہ وغیرہ۔ میرے نزدیک ان پر با ت کرنا، وقت کا ضیاع ہے۔ اصل شے یہ ہے کہ وہ دونوں کیا سوچتے ہیں؟‘‘
’’اس کا پتہ کیسے چلے…؟‘‘ پریت کور نے تیزی سے پوچھا۔
’’میں تمہیں سمجھاتی ہوں، دیکھو…! ہم انہیں فورس نہیں کریں گے۔ اگر ہم انہیں فورس کر کے مجبور کریں گے تو یہ الگ بات ہو گی، ان کے اندر کا حال معلوم کر نے کے لیے انہیں ماحول دیا جائے۔ مطلب ان کے اندرونی جذبات کھل کر کے باہر آجائیں۔ وہاں سے ہمیں جو اشارے ملیں، ان کی بنیاد پر ہم کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں‘‘۔
’’تمہارا خیال ٹھیک ہے، میں اس سے پوری طرح اتفاق کرتی ہوں‘‘۔ پریت نے اس کی بات کو مانتے ہوئے کہا۔ تبھی میں نے بحث کو ایک نیارخ دیتے اور سمیٹ لینے کے لیے کہا۔
’’کیا ماحول دینا، ایک طرح سے ان دیکھی فورس نہیں ہو گی؟ لیکن خیر، ہم اس بحث کوسمیٹتے ہیں اور ایک نئے پہلو پر بات کرتے ہیں‘‘۔
’’کیا ہے وہ پہلو؟‘‘ زویا نے دھیرے سے پوچھا۔
’’وہ یہ کہ ان کے ملن میں کیا کیا رکاوٹیں آسکتی ہیں اور کون سے ایسے پہلو میں جن کی وجہ سے ان کے ملن میں آسانیاں ہو سکتی ہیں‘‘۔
’’بلال…! یہ بحث فضول ہو گی، کیونکہ یہ باتیں پہلے ہو چکی ہیں اور پھر آنے والے وقت کو کس نے دیکھا ہے۔ اگر ہم سنجیدہ ہیں تو ہمیں صرف یہ فیصلہ کرنے پر توجہ دینی چاہئے کہ ان دونوں کی شادی ہو جانی چاہئے یا نہیں۔ یا پھر تمہارا خیال یہیں پر ناقابل عمل قرار دے کہ ختم کر دیا جائے‘‘۔ پریت کور نے حتمی لہجے میں کہا۔
’’تو چلو، پھر تمہی کہو کیا کہتی ہو؟ ‘‘ میں نے بال اس کورٹ میں پھینک دی ۔ تو وہ کاندھے اچکا کر بولی۔
’’میں تو کہہ چکی ہوں، اپنا خیال ظاہر کر چکی ہوں۔ آپ اپنا بتائیں، تب فیصلہ ہو جائے گا‘‘۔
’’میرا خیال ہے، انہیں بھر پور موقعہ دیا جائے۔ اب ان کے اندر سے کیا کچھ اٹھتا ہے۔ یہ بعد کی باتیں ہیں کہ ان کا ملن ہو سکتا ہے یا نہیں‘‘۔ زویا نے اپنا اظہار کر دیا تو بھان بولا۔
’’ڈن…! جو پریت نے کہا، وہی میرا خیال ہے‘‘۔ اس نے منہ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
’’تو پھر فیصلہ یہ ہوا کہ ہم انہیں ماحول دیں گے۔ انہیں فورس نہیں کریں گے۔ ان کے ساتھ گپ شپ کر کے اس طرف توجہ دلائیںگے۔ آگے ان کے جذبات کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں‘‘۔ میں نے کہا تو ان تینوں نے تائید کر دی۔ میرے سر سے ایک بوجھ اتر گیا۔
کچھ دیر بعد ہم اپنی باتوں میں یوں کھو گئے۔ جیسے کہ کچھ دپر پہلے ہم نے کوئی فیصلہ ہی نہیں کیا، یونہی گپ شپ کی ہے۔ ایک پُرتکلف کھانے کے بعد ہم وہاں سے اٹھ گئے۔ دراصل یہ کھانا پریت اور زویا کی ملاقات کے لیے تھا اور ان دونوں کی ملاقات بہت خوب رہی تھی۔ جس کا اظہار واپسی پر پریت نے بہت اچھے انداز میں کیا۔
*****
میں اس دن پہلی بار زویا کے ہاں جانے کے لیے تیار ہوا تھا۔ ماما پاپا کو بھی احساس تھا کہ میرے زویا کے بارے میں کیا جذبات ہیں۔ اس لیے ان کے ہاں جانے کے لیے خوب اہتمام کیا گیا۔ پانچ گاڑیاں آگے پیچھے ان کے گیٹ پر جارکیں۔ ماما اور پاپا الگ الگ گاڑی میں، ماما نے امرت کور اور جسیمت کور اور پاپا نے صرف پردیپ سنگھ کو اپنے ساتھ لیا۔ فرحانہ نے پریت کور کو، میں اور بھان سنگھ الگ گاڑی میں تھے۔ جبکہ دادا جی اپنے ڈرائیور کے ساتھ سب سے آگے تھے۔ ان کے ساتھ مٹھائیوں کے ٹوکرے تھے جو نہ جانے انہوں نے کیا سوچ کر منگوائے تھے۔ اگر ہم نے اس قدر اہتمام کیا تھا تو انہوں نے بھی مہمانوں کے استقبال کے لیے خاصا انتظام کیا ہوا تھا۔ باوردی دربان گیٹ پر موجود تھے۔ جنہوں نے پورچ تک ہماری راہنمائی کی۔ وہیں زویا، اس کی ماما اور پاپا مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے موجود تھے۔ وہ بہت پیار سے ملے۔ خاص طور پر جب میرے اورزویا کے پاپا آمنے سامنے ہوئے تو ان میں خاصی گرم جوشی دکھائی دی۔ جس پر بھان سنگھ نے واضح طور پر محسوس کرتے ہوئے مجھے ٹہو کا دیا۔ میں نے زویا کی طرف دیکھا، وہ پریت اور فرحانہ کے ساتھ مصروف تھی۔ خلاف ِمعمولی وہ عبایہ میں نہیں تھی۔ اسکاف کی جگہ اس نے بڑا سارا آنچل لیا ہوا تھا، جو عبایہ اور اسکارف دونوں کا کام دے رہا تھا۔
’’آئیں پلیز…!‘‘ زویا کے پاپا نے دادا جی سے نہایت احترام سے کہا۔ پھر ان کا ہاتھ پکڑ کر ڈرائنگ روم کی جانب بڑھے۔ ہم ان کے سجے ہوئے اور امارت کو بھر پورانداز میں ظاہر کرنے والے ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے۔ تبھی ہمارا ڈرائیور، ان کے دو ملازمین کے ساتھ وہ سارے تحائف اٹھائے اندر آیا جو ہم اپنے ساتھ خاص طور پر لے کر آئے تھے۔
’’ان کی کیا ضرورت تھی‘‘۔ شاہ صاحب نے کافی حد تک حیرت سے کہا۔
’’آپ نے تو اس قدر تکلف کیا‘‘۔ مسز شاہ کہاں پیچھے رہنے والی تھیں۔ تب ماما نے بڑے رسان سے کہا۔
’’نہیں مسز شاہ ، یہ تکلف نہیں، یہ ہماری روایت ہے اور پھر یہ مہمان بھی آپ کے لیے تحائف لائے ہیں۔ اب میں انہیں منع تو نہیں کر سکتی‘‘۔
’’ہماری بیٹی ہے زویا…! اگر ہم اپنی بیٹی کے لیے کچھ لائے ہیں تو یہ ہماری بیٹی کا حق ہے‘‘۔
پردیپ سنگھ نے کہا تو شاہ صاحب نے وہ تحائف ایک طرف رکھ دینے کا اشارہ کیا۔ جس میں کم از کم میرے دل میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ کچھ دیر باتیں کرنے اور سوفٹ ڈرنک سے تواضع کرنے کے بعد شاہ صاحب نے کہا۔
’’آئیں…! باہر لان میں تشریف لے چلیں آپ سب، وہیں ڈنر پر باتیں ہوں گی‘‘۔
ہم سب اٹھ کر باہر کی جانب چل پڑے۔
کچھ روشنی، کچھ ملجگا اندھیرا، سرخ قالین اور باوردی بیرے، انہوں نے ڈنر پر خاصا اہتمام کیا ہوا تھا۔
ایک میز پر شاہ صاحب، داداجی، پاپا اور پردیپ سنگھ بیٹھ گئے، دوسری پر مسز شاہ، ماما، امرت کور، چا چی جسیمت کور ، ظاہر ہے تیسری میز نوجوان پارٹی کے لیے لگائی گئی تھی۔ پہلے تو فرحانہ ہماری طرف بڑھی، پھر نہ جانے اس کے من میں کیا آئی، وہ ماما کے پاس ہی جا کر بیٹھ گئی۔
’’یہ الگ الگ میز لگانے کا آئیڈیا کس کا تھا؟‘‘ میں نے اپنے سامنے بیٹھی زویا سے پوچھا۔ تب تک دائیں بائیں بھان سنگھ اور پریت کور بیٹھ چکے تھے۔
’’میرا…‘‘ اس نے اختصار سے کہا اور پھر بیروں کو اشارہ کر دیا۔ وہ سب حرکت میں آگئے۔ تبھی پریت نے زویا سے کہا۔
’’زویا…! یہ جو تم نے بڑا سا آنچل لیا ہوا ہے، بہت پیاری لگ رہی ہو اس میں ، کیوں بلال؟‘‘
’’اوئے…! یہ تو ہمیں ہر حال میں قبول ہے، بس درمیان میں وہ سامنے بیٹھی ہوئی ’’دنیا‘‘ حائل ہے۔ وہ مان جائے تو چاہے یہ اسکارف لے، یا ٹوپی مارکہ برقع، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے‘‘۔ میں نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا تو بھان سنگھ ہنستے ہوئے بولا۔
’’یہ دنیا، تم نے خوب کہا، ورنہ وہ فلموں والا ولن، یا پھر ظالم سماج نہیں کہہ دیا‘‘۔
’’اچھا فضول نہ بولو…! تم مہمان ہو تو مہمان ہی بن کر رہو۔ میں پریت کی وجہ سے تمہاری عزت کر رہی ہوں۔ ورنہ… ‘‘ زوریا نے بمشکل ہنسی روکتے ہوئے کہا۔
’’ورنہ… اب تک یہ گلاس کھینچ کر تمہاری ماتھے پر مار چکی ہوتی…‘‘ میں نے کہا تو بھان سمیت وہ بھی کھل کر ہنس دی۔ تبھی بھان نے اچانک پوچھا۔
’’ہاں یاد آیا یار…! یہ زویا نے اس انگریز کے گلاس مارا یا پلیٹ…‘‘
’’نہ گلاس نہ پلیٹ…! کافی کا خالی مگ تھا…‘‘
’’مجھے بتائو، کیابات ہوئی تھی‘‘۔ پریت کور نے تجسس سے پوچھا تو بھان سنگھ نے بتایا۔
’’ہم سب کینٹین میں تھے، یونہی باتیں کر رہے تھے، ایک برٹش لڑکا آیا اور اس نے اسکارف کے حوالے سے کوئی بات کی… یا اس نے اسکارف بھی کھینچا تھا۔ اس پر زویا نے اپنے سامنے پڑا ہوا کافی کا خالی مگ اٹھایا اور اس کے دے ماراوہ بھاگ گیا…‘‘
’’اوے واہ…! یہ بات تم نے پہلے بتائی نہیں‘‘۔ پریت نے متاثر ہوتے ہوئے کہا۔
’’خیر…! چھوڑو…! ایک بات کہوں…‘‘ زویا نے آنکھیں مٹکاتے ہوئے کہا۔
’’بولو…!‘‘ میں نے ذرا آگے جھک کر کہا تو وہ بھان کی طرف دیکھ کر بولی۔
’’میں چوتھی میز بھی لگوانے والی تھی‘‘۔
’’وہ کیوں؟‘‘ وہ بولا۔
’’دادا نور محمد اور امرت کور جی کے لیے۔ دونوں سکون سے بیٹھ کر باتیں کرتے۔ تم لوگ تو خود ظالم سماج، ولن، دنیا اور نہ جانے کیا کیا بنے ہوئے ہو ان دونوں کے لیے میں پورے یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ تم سب نے انہیں تنہائی میں بیٹھنے کا موقعہ ہی نہیں دیا ہو گا۔ بولو…؟‘‘زویا نے مسکراتے ہوئے پوچھا تو پریت نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
’’کیا بات ہے تمہاری۔ خوب پکڑا انہیں۔ بالکل بھی نہیں، ایک بار بھی تنہائی میں بیٹھنے کا موقعہ نہیں ملا انہیں، میں نے فرحانہ سے پوری معلومات لے لی ہیں۔ پھر میں بھی تو یہیں ہوں‘‘۔
’’مطلب ، یہاں بھی جاسوسی سے باز نہیں آئی ہو‘‘۔ بھان سنگھ نے خوشگواریت سے کہا۔ تبھی بیرے کھانا لگانے لگے۔ تب میں نے سوچتے ہوئے کہا۔
’’تو پھر کیا کریں یار…! یہ تو کل دوپہر سے پہلے چلے جائیں گے‘‘۔
’’میں نے سوچ لیا ہوا ہے‘‘۔ زویا نے لبوں سے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا۔ ’’بھان اور پریت، دونوں مل کر امرت کور کو گھر سے باہر لائیں گے۔ یہی سیر وغیرہ کے بہانے۔ تب تم دادا کو مسجد سے نکلتے ہی اغوا کر لو، دونوں کو گاڑی میں بٹھائو اور پارک میں لے جائو۔ دو تین گھنٹے بہت ہیں ان کے لیے، یہ جو آج تم نے فیصلہ کیا ہے، اس کی شروعات ہیں یہ …‘‘
’’ڈن ہو گیا‘‘۔ میں نے پُر جوش انداز میں کہا اور پھر ہم سب کھانے میں مصروف ہو گئے۔ ہماری باتوں کا موضوع بدل گیا تھا۔
تقریباً تین گھنٹے گزرنے کے بعد ہم لان سے اٹھ کر واپس ڈرائنگ روم میں آگئے۔ وہاں بیٹھ کر چائے پی گئی۔ جس کے دوران پاکستان اور بھارت کے تعلقات پر بات ہوتی رہی۔ شاہ صاحب کی باتوں کا زیادہ رحجان تجارت کی طرف تھا۔ جس پر پاپا مؤثر انداز میں ان کی راہنمائی کر رہے تھے۔
’’بھان سنگھ جی، آپ نے کیا سوچا ہے اب، یہ بلال تو اپنے پاپا کے ساتھ کام کر رہے ہیں‘‘۔ اچانک شاہ صاحب نے پوچھا۔
’’فی الحال تو کچھ نہیں۔ مگر دو آپشن ہیں میرے پاس ، امرتسر میں اپنا بزنس یا پھر لندن‘‘۔
’’شاہ جی، میں نے سوچا ہے اب تک تو یہ پڑھتا رہا ہے، پھر کام پر لگ گیا تو کہاں فرصت ملنی ہے اس کو، سوچا چار دن موج کرے‘‘۔ پردیپ سنگھ کے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’اور بلال، تم ٹھیک ایڈجسٹ ہو گئے ہو‘‘۔
ان کے سوال کرنے کا مطلب میں سمجھ گیا تھا۔ دادا نے آنکھوںہی آنکھوں میں سمجھا دیا کہ مجھے کیا کہنا ہے، بس پھر میں نے ’’چھوڑنا‘‘شروع کر دیں۔
’’بس انکل…! میں پاپا کے ساتھ بزنس میں آتو گیا ہوں، لیکن میرا الگ سے ایک سیٹ اپ شروع کرنے کا ارادہ ہے۔ جس کا پیپرورک میں نے کر لیا ہے‘‘۔
’’ یہ کس لیے‘‘۔ انہوں نے پوچھا۔
’’میں اپنے آپ کو تو آزمائوں۔ اتنا پڑھنا کس کام کا… ممکن ہے، یہ سیٹ اپ امرتسر اور لاہور کے درمیان ہو، یا پھر لندن، یا پھر ان کے مضافات میں بہت جگہ ہے جیسے رچڈل وغیرہ۔ بھان پیپرورک کر رہا ہے اور میں بھی جلد ہی کچھ نہ کچھ شروع کر دیں گے‘‘۔
’’جو کچھ تم سوچ رہے ہو بلال، اس کے لیے بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے‘‘۔ شاہ صاحب نے الجھتے ہوئے کہا تو دادا بولے۔
’’شاہ صاحب…! میرا ایک ہی پوتا ہے اور میں نے اس کے باپ کو کہہ دیا ہوا ہے اس کے پاپا نے اتنا سرمایہ اس کے لیے الگ کرلیا ہوا ہے کہ یہ کل ہی اپنا شمار صنعت کاروں میں کر سکتا ہے‘‘۔
’’اصل میں شاہ صاحب…! جب یہ بلال پڑھنے کے لیے گیا، میں نے تبھی سے اس کے لیے پلاننگ کر لی تھی،اور الحمدﷲ، سب کچھ ہے اس کے پاس‘‘۔ پاپا نے رہی سہی کسر پوری کر دی تو امرت کور بولی ۔
’’یہ جب دونوں وہاں جھتوال میں تھے نا تو میرے بھائی سریندر پال سنگھ نے پورے یقین سے کہا تھا کہ اگر یہ دونوں مل کر کام کریں تو بہت ترقی کریں گے۔ اس کا بیٹانہیں ہے کوئی۔ وہ چاہتا ہے کہ ان کا داماد بھی ان کے ساتھ شامل ہو جائے ۔میرے دوسرے بھائی کا بیٹا ہے، وہی اس کا داماد بنے گا‘‘۔
’’مطلب، آپ لوگوں کی دوستی تو آگے تک چلے گی‘‘۔ شاہ صاحب نے میری طرف دیکھ کر کہا۔
’’ارادہ تو یہی ہے‘‘۔ میں نے زویا کی طرف دیکھ کر کہا۔ مقصد میرا یہی تھا کہ وہ میرے اشارے کو سمجھ لے۔ اب پتہ نہیں وہ سمجھے تھے کہ نہیں، بہر حال کچھ دیر اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد ہم وہاں سے واپس چل دیئے۔ یوں رات گئے ہم وہاں سے لوٹ آئے۔
صبح جب میں نے بھان سنگھ کو جگایا تو دن کی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ میں نے دادا کے کمرے میں جا کر دیکھا، وہ نہیں تھے۔ اس کا مطلب تھا کہ وہ ابھی تک مسجد سے واپس نہیں ہوئے۔ میں نے بھان کو بتایا۔ اپنی گاڑی نکالی اور مسجد سے آنے والے راستے پر کھڑا ہو گیا۔ میں نے بھان کو سمجھا دیا تھا کہ وہ امرت کور کے لے کر کدھر جائے۔دوسرے نمازیوں کے ساتھ جب دادا مسجد سے باہر نکلے تو مجھے یوں کھڑا دیکھ کر ایک دم سے پریشان ہو گئے۔ جلدی سے میرے پاس آ کر تشویش سے پوچھا۔
’’اوئے، خیر تو ہے، یوں کیسے کھڑا ہے؟‘‘
’’آپ بیٹھیں‘‘۔ میں نے اختصار سے کہا اور پسنجرسیٹ والا دروازہ کھول دیا۔ وہ ہاتھ میں تسبیح لئے دوسری طرف سے آ کر بیٹھ گئے۔
’’ اوئے تو بولتا کیوں نہیں ہے، بات کیا ہے؟‘‘
’’میں نے آپ کو اغوا کرلیا ہے‘‘۔ میں نے گاڑی بڑھاتے ہوئے کہا تو وہ سکون کا سانس لیتے ہوئے بولے ۔ ’’اوئے پتیندرا…! وہ کیوں؟‘‘
’’ابھی پتہ چل جائے گا‘‘۔ میں نے کہا اور تیزی سے اس راستے پر آگیا، جہاں بھان اور امرت کے ساتھ پریت سے ملاقات ہونے والی تھی۔ کچھ ہی فاصلے پر وہ تینوں مجھے دکھائی دیئے۔ انہیں دیکھ کر دادا کچھ نہیں بولے۔ میں نے گاڑی پارک طرف چلا دی۔
گاڑی پارکنگ میں لگانے کے بعد ہم اکٹھے ہی پارک میں داخل ہوئے۔ کچھ دیر پیدل چلتے رہنے کے بعد ایک بینچ پر جا کر بیٹھ گئے۔ پھر طے شدہ منصوبے کے مطابق فوراً ہی ہم اٹھ گئے۔
’’ہم ناشتے کا کہہ دیں، ابھی آتے ہیں‘‘۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتے، ہم آگے بڑھ گئے۔ بلاشبہ وہ پہلے ہی سمجھ گئے تھے کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔ ان سے کافی فاصلے پر جا کر ہم واپس پارکنگ میں آئے۔
’’اب کہاں جانا ہے؟‘‘ بھانے پوچھا۔
’’یہاں مارکیٹ میں بیٹھ کر ناشتہ کرتے ہیں اور پھر اس جوڑے کے لیے ناشتہ لے جائیں گے، بھوکے پیٹ باتیں تو نہیں ہوتی نا‘‘۔
’’چل پھر…!‘‘ بھان نے کہا تو پریت نے یاد دلایا۔
’’گھر والوں کو فون کر کے بتا دو، وہ کہیں پولیس اسٹیشن ہی پہنچے ہوں ہماری گمشدگی کے لیے‘‘۔
’’ہاں، یہ ٹھیک یادد لایا تم نے …‘‘ یہ کہتے ہوئے میں نے سیل فون نکالا اور پاپا کو بتا دیا کہ ہم کچھ دیر بعد آئیں گے۔ دادا اور امرت کور ہمارے ساتھ ہیں۔
تقریباً دو گھنٹے بعد ہم واپس ان کے پاس چلے گئے۔ ہم نے دور ہی سے انہیں بیٹھے ہوئے دیکھ لیا۔ وہ دونوں باتوں میں مصروف تھے۔ مجھے تھوڑا سکون ہوا کہ دادا ناراض نہیں ہوں گے۔ میں نے جاتے ہی زبردست انداز میں جھوٹ بولا۔
’’دادا جی…! یہاں آس پاس میں کہیں بھی اچھا ناشتہ نہیں مل رہا ہے۔ اگر آپ کہو تو پھر اندرون شہر کی طرف چلیں وہاں سے ناشتہ کرتے ہیں‘‘۔
’’وہاں جاتے ہوئے دو گھنٹے لگ جانے ہیں۔ تم ایسا کرو واپس گھر چلو، ہم گھر جا کر ناشتہ کرلیں گے‘‘۔ انہوں نے کہا اور اٹھ گئے۔ اس کے ساتھ ہی امرت کور بھی اٹھ گئیں۔ ہم سب پارکنگ کی طرف بڑھ گئے۔
*****
ہم دس بجے کے قریب گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔ گاڑیوں کا ایک قافلہ تھا جو ہمارے گھر کے سامنے سے نکلا۔ زویا اور اس کے والدین بھی آگئے ہوئے تھے۔ اسٹیشن پر پہنچے تو گاڑی پلیٹ فارم پر لگی ہوئی تھی۔ کئی دوسرے سکھ یاتری بھی اس میں بیٹھ رہے تھے۔ بھان اور میں نے سارا سامان رکھا۔ کچھ ہمارے ڈرائیور نے مدد کی۔ پھر کچھ دیر بعد ہی الوداع ہونے کا وقت آگیا۔ یہ خاصے جذباتی لمحات تھے۔ سب سے پہلے چا چی جسیمت کور کے آنسو نکلے۔ وہ سب سے مل کر جب مجھے گلے لگا کر زور زور سے رونے لگی۔
’’دیکھ اگر تُو بھان کی شادی پر نہ آیا نا تو میں تجھے کبھی معاف نہیں کروں گی۔ میں تیرا انتظار کروں گی۔ واہ گرو تیری ساری خوشیاں پور ی کرے‘‘۔
پھر ایک ایک کر کے سارے بیٹھتے چلے گئے۔ بالکل آخر میں امرت کور رہ گئی۔ وہ ایک ٹک دادا جی کو دیکھے چلے جارہی تھی۔ میں ان کے قریب چلا گیا اور بڑے نرم لہجے میں کہا۔
’’گاڑی کا وقت ہو گیا ہے‘‘۔
’’مجھے معلوم ہے پتر…! پر میں نور محمد کو جی بھر کے دیکھ تو لوں، پھر نہ جانے میں اس سے مل بھی سکوں گی یا نہیں‘‘۔ اس نے کھوئے ہوئے لہجے میں کہا تو میں نے مسکراتے ہوئے دادا جی کی طرف دیکھ کر کیا۔
’’ہم جلد ہی جھتوال آئیں گے، آپ ہمارا انتظار کرنا‘‘۔
’’انتظار…! ‘‘اس نے درد بھری مسکراہٹ سے کہا، پھر بولی۔ ’’ساری زندگی اسی میں ہی تو گزر گئی ہے‘‘۔ اس نے حسرت بھرے انداز میں کہا تو دادا ملائمت سے بولے۔
’’چل امرت…! اب تُو جا قسمت، میں ہوا تو دوبارہ مل لیں گے‘‘۔
تبھی امرت کور نے دادا کے دونوں ہاتھ پکڑے ، اپنے ماتھے سے لگائے اور پلٹ کر گاڑی کی جانب یوں بڑھ گئی جیسے اب پیچھے مڑ کر دیکھے گی تو پتھر کی ہو جائے گی۔ وہ اپنی سیٹ پر جا بیٹھی۔ مجھے اس نے بالکل ہی نظر انداز کر دیا۔ وہ مجھ سے ویسے ملی ہی نہیں جیسے چا چی جسیمت کور ملی تھی۔ میں بھان کے ساتھ بوگی کے اندر چلا گیا۔ امرت کور آنکھیں بند کیے سیٹ سے ٹیک لگائے بیٹھی ہوئی تھی۔ یوں دکھائی دے رہا تھا جیسے اسے اردگرد کی خبر ہی نہ ہو۔ اس کے گالوں پر آنسو رواں تھے۔ میں نے بڑے پیار سے ان کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ میرا لمس پاکر اس نے آنکھیں کھول دیں۔
’’میں سمجھتا ہوں، اس وقت آپ کی جذباتی کیفیت کیا ہے۔ میں جلد آئوں گا‘‘۔
تب اس نے اپنی آنکھیں میرے چہرے پر جماتے ہوئے بڑے جذباتی لہجے میں کہا۔
مندا سنتو کھ سرم پت جھولی
دھیان کی کرہِ بھبھوت
کھنتھا کال کاری کائیا
جگت ڈنڈا پرتیت
آئی پنھتی سگل جمائی
من جیتے، جگ جیت
(قناعت کرنا ہی تیر ی ریافت ہو اور اس کے باعث تیرا دامن صبر سے بھر جائے۔ اپنے بدن پر راکھ اور بھبھوت کی بجائے دھیان کا لباس پہن لے۔ پاک کنواری کی مانند تیرا بدن ہو۔ جب تو موت کا کفن پہن لے گا۔ صدق اور یقین کا ڈنڈا ہاتھ میںپکڑ اور شک کو مار دے۔ جس طرح جو گیوں کا ایک خاص گروہ یہ خیال کرتا ہے کہ سب انسان ایک ہیں، سارے فرقے ایک ہیں۔ اسی طرح جب تو اپنے من کو پاک کر لے گا تو پھر سمجھ لے تُو نے سارا جہان جیت لیا)
پھر جیسے وہ ایک دم ہوش میں آگئی، وہ اٹھی اور مجھے گلے لگا کر چند لمحوں تک یونہی کھڑی رہی جیسے اپنا سکون مجھے دان کر رہی ہو۔ میرا ماتھا چوما، سر پر پیار دیا اور الگ ہو کر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔
’’پتر…! میں تمہارا انتظار کروں گی، لیکن وعدوں سے پہلے آجانا‘‘۔
’’میں جلد از جلد آنے کی کوشش کروں گا‘‘۔ میں نے کچھ بھی نہ سمجھتے ہوئے تیزی سے کہا۔ پھر فضا میں ٹرین کی وسل کا شور پھیل گیا۔ اس نے مجھے چھوڑا اور اپنی سیٹ پر ڈھے سی گئی۔ میں نے سب کی طرف دیکھا، ہاتھ ہلایا اور اس وقت گاڑی رینگنے لگی تھی، جب میں بوگی سے نیچے اتر آیا۔ تھوڑی دیر بعد جیسے لمحے گزرے، ویسے ہی سمجھوتہ ایکسپریس نگاہوں سے اوجھل ہوتی چلی گئی۔