اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

865,528FansLike
9,992FollowersFollow
565,300FollowersFollow
188,369SubscribersSubscribe

امرت کور……قسط نمبر16…… امجد جاوید

’’پھر کیا جواب ملا؟‘‘
’’اس نے کہا کہ میرا تو دل کرتا تھا، مگر مجھے روکنے والا کوئی نہیں تھا۔ اگر کوئی روک لیتا تو میں کیوں نہ رکتی‘‘۔
’’مطلب ، وہ خواہش مند ہے کہ دادا اُسے روک لیتے‘‘۔
’’بالکل…! میں نے اسی بات کی بنیاد پر مزید پوچھا کہ باالفرض محال وہ آپ کو روک لیتے تو پھر آپ وہاں کس حیثیت سے رہتیں‘‘۔
’’ہاں…! یہ سوال ٹھیک تھا‘‘۔
’’تب اس نے کہا کہ یہ تو نور محمد نے مجھے حیثیت دینی ہے، وہ چاہے نوکرانی بنا دے یا مہارانی ، دلہن وہی جوپیا من چاہے…‘‘
’’گڈ…! اب تم نے اتنا پوچھا لیا تو شادی کے بارے میں بھی پوچھ لیتی‘‘۔
’’نہیں اگر میں ایسی بات کرتی تو یہ بالکل واضح ہو جاتا کہ میں اسی مقصد کے پوچھ رہی ہوں۔ کوئی بات نہیں میں ایک دو دن میں یہ بھی پوچھ لوں گی، اب وہ ہمارے ہاں آجاتی ہے اور دادی کے ساتھ بہت دیر تک باتیں کرتی رہتی ہے‘‘۔
’’بالکل…! ایسے ہی کرنا، کسی دن دادی کے سامنے ہی یہ بات کرنا، پھر میں خود دادی سے بات کر لوں گا۔ یا پھر بھان کرے گا‘‘۔
’’نا تو میں اب تک یونہی جھک مار رہی ہوں۔ اگر تم لوگوں ہی نے بات کرنا تھی تو مجھے کیوں کہا، کیا میں نہیں کر سکتی بات‘‘۔
’’اوہ…! تم تو ناراض ہو گئی… سوری… سوری… تم بات کر سکتی ہو۔ بلکہ تم بہترین سفیر ہو‘‘۔
’’اچھا اب آپ خواہ مخواہ کی تعریف نہ کریں۔ میں ایک ہفتے میں ساری بات کلیئر کرلوں گی‘‘۔
’’اوکے… ! گڈ لک… مجھے انتظار رہے گا‘‘۔
’’پر تم نے بات کی مزید کوئی؟‘‘
’’ابھی نہیں، اب کرلوں گا‘‘۔
’’چلیں ٹھیک ہے‘‘۔ اس نے کہا اور پھر کچھ دیر اِدھر اُدھر کی گپ لگانے کے بعد وہ آف لائن ہو گئی۔ تب میں نے چند لمحے سوچ کر یہ فیصلہ کر لیا کہ دادا جی سے بات کر ہی لی جائے۔ مگر اس سے پہلے میں زویا سے گپ شپ کرلینا چاہتا تھا، وہ مجھے کوئی بہتر مشورہ دے سکتی تھی۔ تبھی میں نے اس سے ایک ریستوران میں ملنے کا پروگرام طے کر لیا۔
اسی شام جب دادا جی عشاء کی نماز پڑھنے کے لیے گئے تو میں ان کے کمرے میں جا کر ان کے بیڈ پر لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ گیا۔ میرادھیان اسکرین پر کم اور زویا کی باتوں کی طرف زیادہ تھا۔ اس نے چند باتیں بہت خوب کہیں تھیں۔ تاہم ایک بات مجھے حوصلہ دے رہی تھی اور وہ یہ کہ جس طرح عورت گریز پا ہوتی ہے، اسی طرح مرد بھی ہوتا ہے ۔ جس عمر اور مقام پر وہ ہیں، وہ اپنے منہ سے یہ کیسے کہہ دیں کہ ہاں، میں امرت کور کو چاہتا ہوں اور میری اس سے شادی کر دی جائے۔ انہیں تو مجبور ہی کیا جائے گا، ہاں، وہ اپنی گفتگو میں کچھ اشارے دے دیں، انہی اشاروں کو سمجھ کر آگے بات کی جا سکتی ہے۔ میں انہی سوچوں میں کھویا ہوا لیپ ٹاپ میں مصروف تھا کہ داد ا جی آگئے مجھے یوں دیکھ کر وہ ایک دم خوش ہو گئے۔ بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولے۔
’’اوئے پتندرا…! آگیا ہے تو آج‘‘۔
’’آنا تو تھا میں نے… آپ سے بات نہیں کرتی تھی کہ پھر کیا سوچا آپ نے ‘‘۔ میں نے جان بوجھ کر تمہید نہیں باندھی، بات ہی وہیں سے شروع کی۔ تب انہوں نے سنجیدگی سے کہا۔
’’اوئے میں نے کیا سوچنا ہے اور کیا نہیں سوچنا، تو خواہ مخواہ فضول کاموں میں پڑ گیا ہے۔ تم اگر کوشش بھی کر لو تو بیل منڈھے نہیں چڑھنے والی، کیوں وقت ضائع کرتا ہے‘‘۔
’’آپ ہاں کریں، باقی کام میرا ہے‘‘۔
’’میں ہاں بھی کر دوں۔ پھر بھی یہ نہیں ہو گا جو تم چاہتے ہو، دیکھو پتر…! وقت کی قید ہمیشہ لگی رہتی ہے، جو ایک بار وقت کا قیدی ہو جائے، پھر اسے رہائی نہیں ملتی، اچھا، اس بات کو چھوڑ، اپنے اس پراجیکٹ کے بارے میں سوچ، جو تجھے الگ سے لگانا ہے، کیونکہ ممکن ہے، اسی مہینے میں تمہاری زویا کے ساتھ منگنی ہو جائے‘‘۔
دادا جی نے کچھ اس طرح کیا کہ میں سب کچھ بھول گیا۔ سچ کہوں تو اس وقت میری حالت ہونقوں کی مانند تھی جسے اچانک اندھیرے میں پڑا ہوا خزانہ مل جائے۔ میں ساکت سا ہو کر ان کی طرف دیکھنے لگا۔
چند لمحوں بعد جب مجھے ان کے لفظوں کا یقین ہوا تو میں نے پوچھا۔
’’دادا جی… یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘
’’میں ٹھیک کہہ رہا ہوں، تم سے مذاق تھوڑی کروں گا۔ تمہاری ماما نے کھانا لگا دیا ہو گا، وہ مل کر کھاتے ہیں۔ وہیں تیرے پاپا کو بھی یہ بتانا ہے، ایک ہی بار سب سن لو‘‘۔ یہ کہہ کر وہ اٹھ گئے اور میں حیران سا ان کے پیچھے لپکا۔
اگرچہ کھانا معمول ہی کے مطابق کھانے لگے تھے لیکن میں بہت الجھا ہوا تھا، مجھے دادا جی کی بات پر سو فیصدی یقین تھا۔ مگر سوچنے والی بات یہ تھی کہ اچانک یہ کیسے ہو گیا۔ میں شدت سے ان کی طرف سے کچھ کہنے کا انتظار کر رہا تھا۔ بے چینی تھی کہ حد سے بڑھی جارہی تھی۔ انہوں نے اطمینان سے کھانا کھایا اور ماما سے بولے۔
’’ملازمہ سے کہو کہ وہ چائے بنا کر یہیں لے آئے اور برتن اٹھا لے، تم دونوں آئو، میری بات سنو‘‘۔
’’جی ، ابا جی‘‘۔ ماما نے کہا تو ہم سب ڈرائننگ روم میں آگئے۔ کچھ دیر بعد ماما آگئیں۔ اطمینان سے بیٹھنے کے بعد انہوں نے کہا۔
’’میرا ایک دوست ہے فضل دین رضوی، بہت اچھا بندہ ہے۔ مجھے اپنے بلال اور زویا کے بارے میں جب معلوم ہوا تو فطری طور پر میں نے زویا کے والدین بارے پتہ کرنے کی کوشش کی۔ وہ کون ہیں کیسے ہیں، کس طرح کے لوگ ہیں؟ میں نے رضوی سے اس معاملے بارے بات کی۔ وہ شاہ صاحب کو بہت اچھی طرح سے جانتا ہے اور کافی حد تک ان کے دوستانہ مراسم ہیں‘‘۔
’’کیا کہا انہوںنے شاہ صاحب کے بارے میں؟‘‘ پاپا نے تیزی سے پوچھا۔
’’وہی جیسے عام جاگیردار قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ان کی ایک ہی بیٹی ہے زویا۔ شاہ صاحب کا خیال ہے کہ اس کی شادی خاندان ہی میں ہو۔ ایسے لوگوں میں بچے کی پسندناپسند، جوڑ بنتا ہے یا نہیں، ان پڑھ ہے یا پڑھ لکھا۔ یہ نہیں دیکھا جاتا، بنیادی چیز جو ہوتی ہے، وہ زمین ہوتی ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ زمین خاندان سے باہر جائے ۔ خیر…! میں نے اس کے ذریعے سے بات چلانے کا فیصلہ کیا‘‘۔
’’مطلب، آپ نے بیک ڈور چینل استعمال کیا‘‘۔ اس بار پاپا نے کافی حد تک اطمینان سے کہا۔
’’اُو بس یہی سمجھ لو، بات چلتی رہی۔ مسز شاہ کا مؤقف یہ تھا کہ ہم نے بچی کی مرضی دیکھنی ہے۔ کیونکہ کے زویا اس سے اپنی دل کی بات کہہ چکی تھی۔ زویا بذات خود اپنے خاندان والوں سے متنفر ہے۔ سو ہماری بات چیت سے زیادہ، ان کے گھر میں بحث چلتی رہی، یہاں تک کہ امرت کور اور دوسرے یہاں آئے، ان کے ہاں جو ڈنر تھا، اس نے کافی حد تک تیزی سے بات کو آگے بڑھایا۔ شاہ اور مسز شاہ کو بھی بلال پسند ہے، وہ بھی چاہتے ہیں کہ بلال سے زویا کی شادی ہو جائے لیکن‘‘۔
’’لیکن کیا…‘‘۔ ماما نے یوں پوچھا جیسے ان کا دل دھک سے رہ گیا ہو ۔
’’وہ یہ کہ انہوں دو طرح سے خدشات ہیں۔ ایک تو انہیں اپنے خاندان کی بہت زیادہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا، ظاہر ہے جائیداد باہر جاتی ہوئی دیکھ کر خاندان نے مخالفت تو کرنی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم ان کے لیے غیر ہیں، ظاہر ہے رشتے ناطے کے لیے اور خصوصاً بیٹی دیتے ہوئے بندہ بہت محتاط ہوتا ہے‘‘۔ دادا جی نے کہا تو پاپا نے سوالیہ انداز سے پوچھا۔
’’تو پھر اس کا حل کیا ہے، خاندان کی مخالفت بارے ہم کیا کر سکتے ہیں ۔ وہ تو ہمارے بس کی بات نہیں، یہ تو شاہ صاحب کو خود سوچنا ہو گا، جبکہ دوسری بات بارے سوچا جا سکتا ہے، انہیں اطمینان دلانے کی ہم ہر ممکن کوشش کر سکتے ہیں، جیسا وہ چاہیں‘‘۔
’’نہیں، اصل میں دونوں کام ہی ہو سکتے ہیں اور وہ ایک کام کرنے سے ہو جائیں گے‘‘۔ دادا جی نے سکون سے کہا۔
’’وہ کیا ابا جی‘‘۔ مامانے پوچھا۔ ان کے لہجے میں حددرجہ تجسس تھا۔
’’انہیں صرف یہ اطمینان ہو جائے کہ زویا کی پسند کوئی عام سی چیز نہیں ہے۔ وہ ایک بااعتماد اور ذمہ دار شخصیت رکھتا ہے۔ اسے زویا کی جائیداد سے کوئی غرض نہیں، وہ خود زور ِ بازو رکھتا ہے۔ اس معاملے میں غیرت مند ہے اور اس قابل ہے کہ وہ بہت زیادہ ترقی کر سکتا ہے‘‘۔ دادا نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’یہ ساری باتیں اپنے بلال میں ہے‘‘۔ ماما نے تیزی سے کہا۔
’’بس اس کا احساس دینا ہے انہیں، یہ اپنا بزنس شروع کرے، اپنے باپ کی دولت پر نہیں، اپنی دنیا آپ پیدا کرے، شاہ صاحب خود بزنس میں دلچسپی رکھتے ہیں اور یہ دلچسپی انہیں زویا کی وجہ سے ملی ہے‘‘۔
’’وہ تو ہو جائے گا ابا جی، لیکن میں یہ بات نہیں سمجھا کہ بلال الگ سے بزنس کیوں کرے، ایک چلتا ہوا بزنس ہے۔ اس کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ یہ زیادہ بہتر ہے۔ شادی سے پہلے ہی الگ ہو جانے کی بات مجھے سمجھ میں نہیں آئی؟‘‘
’’میں سمجھاتا ہوں، جس وسعت کی بات تو کررہا ہے، وہ بلال کرے، اس کے پراجیکٹ دکھائی دیں، وہ کہاں سے الگ ہو رہا ہے۔ تمہاری زیر سایہ ہی وہ اپنے کا روبار کو بڑھائے۔ میری اور رضوی کی روزانہ بات ہوتی ہے۔ قریب ترین ہے کہ زویا اور بلال کی منگنی ہو جائے‘‘۔ دادا نے سکون سے بات کی تو پاپا سمجھ گئے۔
’’میں سمجھ گیا اباجی، ایسا ہی ہو گا، بلال پہلے ہی سب کر رہا ہے‘‘۔ پاپا نے خوشدلی سے کہا۔
’’تو بس پھر ٹھیک ہے‘‘۔ داداجی نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا تومیں نے سکون کی سانس لی، زویا جو کبھی بہت دور کی منزل دکھائی دیتی تھی اب بہت قریب دکھائی دے رہی تھی۔ وہ رات میں بہت مسرور رہا۔
l l l
میں تقریباً ایک ہفتہ بہت زیادہ مصروفیت میں رہا۔ میں جو پراجیکٹ بنا چکا تھا۔ پاپا نے وہی میرے ذمے لگا دیا اور میں دن رات اس میں لگا رہا۔ اس دوران میرا بھان سنگھ سے مسلسل رابطہ رہا تھا۔ یہ رابطہ صرف اور صرف کاروباری تھا۔ یہاں سے جانے کے بعد وہ پوری سنجیدگی سے اپنے کاروبار کے بارے میں سوچنے لگا۔ میرا اور بھان سنگھ کا مشترکہ دوست اسد جعفری تھا۔ اس نے لندن کے نواح ہی میں رہنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ میرا اس سے مسلسل رابطہ نہیں تھا، لیکن بھان نے رکھا۔ ہماری تکون بن گئی۔ فوڈ پراڈکٹ اور اس کے ساتھ ایسی ہی بہت ساری چیزوں کی امپورٹ ایکسپورٹ کے لیے ہم تینوں کی بات ہو گئی۔ کانفرنس کال روز ہی رہنے لگی۔ ہم نے سب کچھ طے کر لیا۔ یوں بھان امرتسر میں ہی اپنا سیٹ اپ بنانے لگا۔ میرا تو پہلے تھا ہی۔ اتنی مصروفیت اور الجھن والے دنوں میں پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔ میرے ذہن میں تھا کہ میں نے دادا سے بات کرنی ہے مگر وقت تھا کہ مل ہی نہیں رہا تھا۔ پھر ایک دن مجھے وقت مل ہی گیا۔
اس دن میں صبح جاگا تو دن اچھا خاصا نکل آیا تھا۔ رات دیر سے سونے کی وجہ سے آنکھ وقت پر کھل ہی نہیں سکی تھی۔ میں جلدی جلدی آفس جانے کے لیے تیار ہو کر ناشتے کی میز پر آیا تو دادا جی وہیں موجود تھے۔ مجھے دیکھتے ہی پیار، خلوص اور محبت سے اونچی آواز میں بولے۔
’’او کیا حال ہے تیراپتندرا!‘‘
’’بس دادا، نئے پراجیکٹ میں پھنسا دیا ہے نا، تو دن رات ایک ہو گیا ہے‘‘۔
’’اُو،پتندرا میں نے تجھے نہیں پھنسایا، تو خود پھنسا پھنسایا بریڈ فورڈ سے آیا ہے۔ رانجھے نے تو ہیر کی بھینسیں چرائی تھیں۔ تو اپنے اجڑ (ریوڑ) کو بھی نہیں چرا سکتا‘‘۔
’’چل ٹھیک ہے دادا جی، بس دو تین دن اور ہیں، پھر میں نے آپ سے حتمی بات کرنی ہے‘‘۔ میں نے ان کی طرف دیکھ کر کہا۔ اتنے میں ملازمہ کے ساتھ ماما ناشتہ لے کر آگئیں تو ہم میں خاموشی چھا گئی۔
میں نے جلدی میں ناشتہ کیا اور باہر جانے کے لیے تیار ہو گیا۔
’’اوئے بلال ! ابھی بیٹھ میرے پاس، کچھ دیر ٹھہر کر آفس چلے جانا‘‘۔ ان کے لہجے میں کچھ ایسا تھا کہ میں وہیں بیٹھ گیا۔تب انہوں نے میری طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔’’یہ تو کیا فضول ضد کر رہا ہے‘‘۔
’’کون سی ضد…‘‘ ایک لمحے کو مجھے خیال ہی نہیں آیا تھا کہ وہ کس ضد کی بات کر رہے ہیں۔
’’وہی امرت کوروالی…‘‘ انہوں نے سنجیدگی سے کہا تو میں ایک دم سے خوش ہوتے ہوئے بولا۔
’’ویسے دادا جی…!دل میں لڈو تو پھوٹ رہے ہوں گے… ایک ایسی خاتون سے شادی، جو آپ سے شدید محبت کرتی ہے۔ بس ایک بار بیاہ کر آگئی تو پھر واپس میکے نہیں جائے گی۔ ایک بار زندگی میں بہار آ…‘‘
’’بکواس بند کر…‘‘ دادا جی نے کافی حد تک سختی سے کہا تو میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا، میں کچھ بھی نہ سمجھتے ہوئے خاموش رہا تو وہ کہنے لگے۔ ’’دیکھ کاکا… تو جو کچھ سوچ رہا ہے نا، وہ انتہائی فضول ہے، میری جو تھوڑی بہت عزت ہے نا… تم اسے بھی خاک میں ملا دو گے۔ لوگ کیا کہیں گے کہ اس عمر میں مجھے شادی کروانے کی آخر کیا ضرورت ہے، لوگ نہ صرف باتیں بنائیں گے۔ بلکہ ہنسیں گے بھی ہم پر…‘‘
’’تو جائیں بھاڑ میں دادا جی، یہاں کوئی مر جائے تو اس کا جنازہ پڑھنے بھی عین وقت پر آتے ہیں کہ سوئی پر سوئی چڑھی ہو، ایک منٹ آگے پیچھے ہو جائے تو باتیں کرنے لگتے ہیں۔ ہمیں لوگوں سے کیا لینا دینا اور پھر امرت کور کا واقعہ کوئی عام سا اور معمولی سا واقعہ نہیں ہے۔ ایک زندگی کا سوال ہے…‘‘ میں نے دلیل دی۔
’’اگر شادی نہ ہوتی تو کیاوہ مرجائے گی، ہاں میں یہ تمہاری بات مانتا ہوں کہ یہ کوئی عام سا اور معمولی واقعہ نہیں ہو گا، کیونکہ میرے اور امرت کور کے درمیان بہت ساری رکاوٹیں ہیں‘‘۔ انہوں نے کافی حد تک گہری سنجیدگی سے کہا۔
’’مثلاً…! کسی رکاوٹیں؟‘‘ میں نے بھی صوفے پر پہلو بدلتے ہوئے حتمی انداز میں کہا۔
’’دیکھ، میں عمر کے اس حصے میں ہوں جہاں ایسی باتیں عزت ووقار پر دھبہ بن جاتی ہیں۔ لوگوں کی زبانیں نہیں پکڑی جا سکتی۔ ہم نے اس سوسائٹی میں رہنا ہے۔ یہ فضول بات ہے کہ ہمیں لوگوں کی پروا نہیں‘‘۔
’’چلیں مان لیتے ہیں، یہی ایک رکاوٹ ہے، اگر صرف یہی رکاوٹ ہے تو میں باقاعدہ طور پر آپ کے دوستوں کو اپنے اردگرد لوگوں کو مطمئن کر لیتا ہوں۔ اگر ان کی رائے ہوئی تو… پھر آپ کو یہ فیصلہ قبول کرنا ہو گا‘‘۔
’’اور مجھے یقین ہے کہ تم اس میں کامیاب نہیں ہو پائو گے‘‘۔ انہوں نے سکون سے کہا۔
’’تو آپ کا مطلب ہے، پہلے میں اس شادی کے لیے راہ ہموار کروں اور …‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہنا چاہا تو انہوں نے ٹوکتے ہوئے کہا۔
’’نہیں بیٹے …!یہ تو ایسی بات ہو گی کہ گناہ بھی نہیں کیا اور سزا بھی مل گئی، بنا شادی کئے ہی میں لوگوں میں زیر بحث آجائوں گا۔کیونکہ اس کی وجہ کچھ اور ہے‘‘۔ انہوں نے اس اطمینان سے کہا کہ میں نے تحمل سے پوچھا۔
’’وہی تو میں پوچھ رہا ہوں دادا جی…! آپ وہ بات کیوں نہیں بتا دیتے، جو آپ کے دل میں ہے‘‘۔
’’دیکھو…! وہ ایک سکھ عورت ہے اور میں مسلمان، ہم دونوں کا مذہب الگ ہے، وہ کوئی عام مسلمان خاتون ہوتی تو شاید اتنی باتیں نہ بنتی ، لیکن سکھ عورت اور وہ بھی دوسرے ملک سے یہ ایک ایسی بات ہو گی، جس کا کم از کم میں جواب نہیں پائوں گا‘‘۔ یہ کہہ کر انہوں نے سکون کا سانس لیا ۔
’’تو بات یہ ہے کہ وہ ایک سکھ خاتون ہے، اس کا سکھ ہونا ہی اس کی ایسی خامی ہے کہ آپ کے تمام تر معیارات سے گر گئی۔ اس کی محبت اور اس کا آپ سے لگائو اور آپ کے لیے اس کی تپسیا، کسی کام کی نہیں، وہ سب فضول تھا اور آپ کی نظر میں بھی فضول ہے۔ آپ اسے ایک انسان کی حیثیت سے کیوں نہیں دیکھتے دادا جی، اس نے آپ کی یاد میں ساری زندگی گزار دی، اسے کوئی مجبوری تھی ناتو آپ سے محبت کی، ورنہ وہ اپنی زندگی میں خوش رہتی، ایک معافی کی خواہش پر قائم رہی وہ تمام عمر، اسے یہ معلوم بھی تھا کہ آپ اسے نہیں مل سکتے؟ لیکن وہ ساری عمر اپنے رب سے آپ ہی کو مانگتی رہی اور آپ اسے صرف یہ کہہ کر کہ وہ ایک سکھ خاتون ہے اس کی ساری تپسیا پر لکیر پھیر رہے ہیں اور … اگر وہ مسلمان ہو جاتی ہے تو پھر قبول کر لیں گے‘‘۔
’’ٹھیک ہے بلال…! میں ایک سکھ خاتون کو قبول نہیں کر سکتا، لیکن اگر وہ مسلمان ہو جاتی ہے۔ تو پھر بہت کچھ سوچا جا سکتا ہے‘‘۔ داداجی نے میری طرف دیکھ کر کہا۔
’’بات تو پھر وہی رہی نا، اس کا مسلمان ہونا آپ کے لیے اہم ہے، ایک ایسی عورت کا نہیں جو آپ سے محبت کرتی ہے، محبت آپ کے نزدیک اہم نہیں‘‘۔ میں نے انتہائی افسردگی سے کہا۔
’’ٹھیک ہے، تو پھر مجھے سکھ ہو جانے کی اجازت دو… کر لو بات سب سے، میں اس کی محبت کا، اس کی تپسیا کا عوضانہ دے دیتا ہوں۔ میں سکھ مذہب اختیار کر لیتا ہوں اور ہجرت کر کے آنے والے ان معصوم اور بے گناہ لوگوں کے خون سے غداری کرلیتا ہوں جو اس راہ میں مارے گئے، جن کا کوئی قصور نہیں تھا، ہاں ، ہاں وہ میرے لیے شہید نہیں رہے، مارے جانے والے لوگ ہو جائیں گے، پھر نیزے کی اَنّیوں پر ٹنگے بچے مجھ سے سوال نہیں کریں گے‘‘۔ وہ انتہائی جذباتی انداز میں بولے۔
’’تو کیا وہ سب امرت کور نے کیا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’میں اسے جب بھی دیکھوں گا، مجھے سکھ قوم یاد آئے گی، وہ لوگ ساری دنیا میں پھرتے رہیں مجھے اس سے غرض نہیں، میں اس سے شادی کر لوں گا تو اسے اپنا لوں گا… نہیں میں ایسا نہیں کر سکتا، ہاں، مجھے سکھ ہو جانے دو، میں اس کا عوضانہ دے دوں گا‘‘۔ انہوں نے حتمی انداز میں کہا اور میری طرف دیکھنے لگے۔ میں نے ایک طویل سرد آہ بھری اور بے بسی سے کہا۔
’’آپ نے یہ جو مذہب کا دریا درمیان میں لا کر رکھ دیا ہے نا، میں اسے کیسے عبور کروں، ٹھیک ہے۔ داداجی یہاں پر میں ہار گیا، میں اپنی ساری دلیلیں واپس لیتا ہوں، آپ سے اس موضوع پر کبھی بات نہیں کروں گا‘‘۔ میں نے کہا اور اٹھ کر اندر کی جانب جانے لگا۔
’’یہ کیا، تم تو آفس جانے والے تھے، اندر کیا کرنے جارہے ہو، جائو آفس اور بھول جائو، اس سارے معاملے کو‘‘۔ دادا جی نے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’نہیں دادا جی، میں شاید اب ایک دو دن آفس نہ جا سکوں، مجھے اس شرمندگی سے نکلنے کے لیے کچھ تو وقت لگے گا کہ میں نے آپ سے غلط بات کی، آپ کو تنگ کیا۔ یہاں تک کہ آپ کے مذہبی خیالات پر ضرب لگادی، مجھے معاف کر دیں دادا جی‘‘۔ میں نے کہا اور اندر کی جانب چلا گیا۔ داداجی مجھے پکارتے رہے مگر میں نے ان کی بات ہی نہیں سنی۔
میں نے کپڑے اور جوتے اتارے اور اپنے بیڈ پر لیٹ گیا۔ مجھے یقین تھا کہ دادا میرے کمرے میں نہیں آئیں گے، لیکن ماما ضرور آئے گی۔ وہ مجھ سے آفس نہ جانے کی وجہ ضرور پوچھیں گی اور میرے پاس بہانہ تھا کہ میری طبیعت خراب ہو گئی ہے، لیکن دوپہر گزر گئی کوئی بھی میرے کمرے میں نہیں آیا اور میری نہ جانے کب آنکھ لگ گئی تھی۔ میں جو بیدار ہوا تو دوپہر گزر چکی تھی۔ میں نے کپڑے تبدیل کیے اور یونہی آوارگی کے لیے باہر نکل گیا۔
رات گئے میں واپس پلٹا تو ڈرائنگ روم میں ماما کے ساتھ پاپا بیٹھے ہوئے تھے۔ خلاف معمول ان کے چہروں پر سختی دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ وہ مجھ سے ضرور ناراض ہوں گے۔ میں پُرسکون سے انداز میں انہیں سلام کر کے ان کے قریب سے گزرنے لگا تو پاپا بولے۔
’’کدھر گئے تھے؟‘‘
’’ایویں یونہی باہر گھومنے پھیرنے گیا تھا‘‘۔
’’تم آفس کیوں نہیں گے، تمہیں معلوم نہیں تھا کہ آج تمہارا آفس جانا کتنا ضروری تھا اور تم نے اپنا سیل فون بھی بند کر دیا ہوا تھا‘‘۔ انہوں نے دبے دبے غصے میں کہا۔
’’پاپا، میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی‘‘۔ میں نے بہانہ بنا دیا۔
’’کیا ہوا طبیعت کو، ڈاکٹر کودکھایا؟‘‘ پاپا نے جلدی سے پوچھا۔
’’ٹھیک ہوں… اور معذرت چاہوں گا پاپا، آپ کو بتایا نہیں، میں نے سوچا آپ خواہ مخواہ پریشان ہوں گے، میں تھوڑا مزید آرام کروں گا تو ٹھیک ہو جائوں گا‘‘۔ میں نے کہا اور اندر جانے لگا تو ماما نے حیرت سے کہا۔
’’بلال…! تم نے کتنی دیر آرام کرنا ہے، سارا دن سوئے رہے ہو، میں دوبار تمہیں دیکھ کر آئی ہوں، کھایا پیا کچھ نہیں، اب پھر آرام، بات کیا ہے کیوں پریشان ہو؟‘‘ انہوں نے پوچھا تو میں دھیرے سے بولا۔
’’کچھ نہیں، میں ٹھیک ہوں، آپ پریشان نہ ہوں، میرا کچھ بھی کھانے کو دل نہیں چاہ رہا‘‘۔
’’او کے …! جائو آرام کرو‘‘۔ پاپا نے اچانک کہا تو میں اندر چلا گیا۔ جاتے ہی میںنے لیپ ٹاپ آن کیا، امید تھی کہ بھان، پریت یا زویا میں سے کوئی آن لائن ہو گا تو اس سے گپ شپ کروں گا۔ مجھے تینوں ہی آن لائن مل گئے اور چند لمحوں ہی میں ان کے پیغام بھی آگئے کہ میں سارا دن کدھر تھا؟ میں نے تینوں ہی کو بتایا کہ میری دادا جی سے کیا بات ہوئی ہے۔ میں نے ساری لگی لپٹی ان سے کہہ دی، کچھ بھی ان سے نہیں چھپایا۔
’’تو پھر تم ہار گئے؟‘‘ زویا نے فقرہ پھینکا۔
’’یہی کہہ سکتی ہو، جو دریا دادا جی نے درمیان میں لارکھا ہے، میں نے خود تو عبور نہیں کرنا، کیسے کروں‘‘۔ میں نے جواب دیا۔ تبھی پریت کور کا پیغام آگیا۔
’’چلو شکر ہے ، ابھی میں نے امرت کور سے کوئی حتمی بات نہیں کی تھی۔ ورنہ وہ مجھ پر کبھی راضی نہ ہوتی‘‘۔
’’لیکن بات سوچنے کی ہے کہ دادا کے دماغ میں اب تک سکھ قوم کے بارے میں نفرت ہے یا وہ یونہی بہانہ کر رہے ہیں۔ کیونکہ مجھے نہیں لگتا۔ اگر نفرت والی کوئی بات ہوتی تو وہ ہمیں لاہور میں خوش آمدید نہ کہتے، اپنے ہاں مہمان نہ رکھتے، اگر مجبوری میں رکھنا ہی پڑ جاتا تو وہ ہمیں پذیرائی نہ دیتے۔ میں نہیں مانتا، ان کا صرف بہانہ ہے‘‘۔ بھان سنگھ نے کہا۔
’’ممکن ہے ایسا ہی ہو، بہر حال انہوں نے مجھے دیوار سے لگا دیا ہے، اب میں ان سے بات نہیں کرسکتا‘‘۔ میں نے پیغام بھیج دیا۔
’’چلو، اس کہانی کو یہاں ختم کرتے ہیں‘‘۔ پریت کور نے کہا۔
’’ہاں…! کون سی ایسی بات ہے کہ یہ رشتہ نہیں ہوا تو دو ملکوں کے تعلقات پر کوئی حرف آجائے گا۔ کسی حد تک ان کی بات بھی ٹھیک ہے‘‘۔ زویا نے دلیل دی۔
’’ویسے اگر یہ ہو جاتا تو ہماری دوستی مزید مضبوط ہو جاتی ہے‘‘۔ بھان سنگھ نے افسردہ سا جملہ بھیجا۔
’’اب کون سا ٹوٹ رہی ہے، واہ گرو مہر کرے، خیر ہو سب کی، کاروبار کا آغاز کررہے ہو، اپنی توجہ اس پر لگائو، دنوں میں ترقی کرکے دکھائو‘‘۔ پریت کور نے کہا۔
’’وہ تو سب ٹھیک ہے، تم لوگ شادی کب کررہے ہو؟‘‘ زویا نے جان بوجھ کر بات کو پلٹتے ہوئے موضوع بدل دیا۔
’’جب بھی بلال یہ محسوس کرے کہ وہ جھتوال آسکتا ہے، گھر کی بات ہے، شادی رکھ لیں گے‘‘۔ بھان سنگھنے جلدی سے کہا۔
’’ویسے میرا خیال کچھ اور کہتا ہے؟‘‘ پریت کور نے پیغام بھیجا۔
’’وہ کیا!‘‘ آگے پیچھے ہم تینوں ہی کا سوال تھا۔
’’میری اور بھان کی شادی تب ہو، جب زویا بھی جھتوال آسکے تو سمجھو ہماری خوشی دوبالا ہو گئی‘‘۔
’’تمہارا یہ خیال تو بہت خوبصورت ہے‘‘۔ زویا نے کہا۔
’’پریتوچَسّ آجائے یار‘‘۔ بھان نے کہا تو میں نے لکھا۔
’’پھر شاید میرے ساتھ دادا نہ آسکیں… جبکہ میں نے وعدہ کیا ہوا ہے کہ انہیں جھتوال ضرورلے کر جانا ہے۔ خیر…! دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے‘‘۔
’’تم اس وقت سو جائو اور کل مجھ سے ملنا۔ مجھے اس وقت لگ رہا ہے کہ تم شاید ڈپریشن میں ہو‘‘۔ زویا نے کہا تو ان دونوں نے بھی تائید کر دی۔ پھر کچھ ہی دیر بعد آف لائن ہو گئے اور میں سو نے کی کوشش کرنے لگا۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ مجھے شدید ڈپریشن ہو گیا تھا۔
l l l
وہ دوسرے دن کی شام تھی۔ میں گھر واپس آیا تو دادا جی کے ساتھ ماما اور پاپا لان میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان دنوں فرحانہ اپنے کالج ٹور پر گئی ہوئی تھی میںفیکٹری سائیٹ سے آیا تھا اور کافی تھکا ہوا تھا۔ تاہم انہیں سلام کرنے تو جانا تھا ۔میں نے گاڑی پورچ میں کھڑی کی اور ان کے پاس چلا گیا۔ انہیں سلام کیا اور ایک خالی کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’کافی تھکے ہوئے لگ رہے ہو؟‘‘ ماما نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ماما، سائیٹ پر کام ہو رہا ہے نا، سارا دن ان کے ساتھ لگارہا‘‘۔ میں نے آہستگی سے کہا۔
’’تیری حالت سے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے تم ان کے ساتھ اینٹیں ڈھوتے رہے ہو‘‘۔ دادا جی نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’نہیں دادا جی، میں نے اینٹیں کیا ڈھونی ہیں، فیکٹری کی بنیادیں ہیں، اس پر توجہ دینا پڑتی ہے، آپ کو تو معلوم ہے‘‘۔ میں نے ان کی طرف دیکھ کر کہا۔
’’اچھا، وہ ٹھیک ہے، تم جائو، جا کر تیار ہو جائو، شاہ صاحب اور مسز شاہ آج یہاں آرہے ہیں‘‘۔
دادا جی نے خوش ہوتے ہوئے کہا تو ماما بھی خوشی سے لبریز لہجے میں بولیں۔
’’اور تمہارے لیے خوشخبری یہ ہے کہ وہ آج تمہاری اور زویا کی بات کرنے آرہے ہیں۔ میں تو اسی ہفتے منگنی کر دوں گی۔ پھر شادی میں تودیر ہی نہیں لگانی‘‘۔
ایک دم سے خوشی کی لہر میرے اندر سرایت کر گئی۔ کس قدر آسان ہوتا چلا گیا ہے۔ یہ سلسلہ جسے میں بہت مشکل تصور کررہا تھا۔ انہی لمحوں میں اچانک میرے ذہن میں ایک خیال بجلی کے کوندے کی طرح چمکا۔ میں نے اس پر چند لمحے سوچا اور پھر رسک لے لیا۔
’’ماما…! شاہ صاحب آئیں، مسز شاہ آئیں، آپ انہیں بہت اچھے طریقے سے خوش آمدید کہیں، انہیں بہت عزت اور مان دیں، لیکن میری شادی کی بات مت کیجئے گا‘‘۔
’’یہ کیا کہہ رہے ہو تم…‘‘ پاپا نے حیرت بھرے انداز میں یوں میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا،جیسے انہیں میری دماغی حالت پر شک ہو گیا۔ ماما اور داداجی بھی کچھ ایسی ہی نگاہوں سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔
’’میں نے وہی کہا ہے، جو آپ سن رہے ہیں۔ مجھے زویا سے شادی نہیں کرنی، پلیز‘‘۔ میں نے سکون سے کہا اور اٹھ گیا۔ تبھی دادا نے تڑپ کر کہا۔
’’اوئے ادھر بیٹھ…! بیٹھ ادھر…‘‘ ان کے لہجے میں کافی حد تک سختی تھی۔ میں بیٹھ گیا تو انہوں نے سختی ہی سے پوچھا۔ ’’اوئے تیرے لیے، نہ جانے کیا کیا پاپڑ بیل کر شاہ صاحب کو منایا اور انہیں اس سطح پر لے آئیں ہیں کہ وہ زویا بیٹی کو ہمارے گھر کی بہو بنادیں، اب جبکہ وہ راضی ہو گئے ہیں تو تم یہ کیا احمق پن دکھا رہے ہو؟ ہوا کیا ہے تمہیں؟‘‘
’’دادا جی…! مجھے سمجھ آگئی ہے، میں غیر ذات کی لڑکی سے شادی نہیں کروں گا۔ اپنی ذات برادری میں ہی کروں گا۔ اس لیے میں انکار کر رہا ہوں‘‘۔ میں نے پھر اسی سکون ہی سے جواب دیا تووہ تینوں یوں خاموش ہو گئے جیسے چند لمحوں کے لیے وہ لاجواب ہو گئے ہوں۔ کچھ دیر بعد پاپا نے پوچھا۔
’’یہ ٹھیک نہیں بیٹا…! اب جبکہ معاملہ طے ہو جانا ہے، ایسے لمحات میں تمہارا انکار… جو بات ہے وہ مجھے کھل کر بتائو، مسئلہ کیا ہے؟‘‘
’’پاپا، آپ پریشان نہ ہوں، میں زویا کو سمجھا لوں گا، وہ خود انکار کر دے گی تو شاہ صاحب اتنا محسوس نہیں کریں گے… آپ بھی آج ان سے کوئی بات مت کیجئے گا‘‘۔ میں نے کہا اور اٹھ گیا۔ مجھے یہ اچھی طرح علم تھا کہ دادا جی مجھ سے پوچھنے ضرور میرے پاس آئیں گے۔
میں اس وقت فریش ہو کر اپنے بیڈپر تھا کہ دادا میرے کمرے میں آگئے۔ انہوں نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی، بلکہ خاموشی سے آ کر صوفے پر بیٹھ گئے اور میری طرف غور سے دیکھنے لگے۔ میں ان کی آمد پر اٹھ کر بیٹھ گیا مگر خاموش رہا۔ کچھ دیر یونہی گزر گئی تو دادا نے میری طرف دیکھ کر کہا۔
’’بلال …! تم خواہ مخواہ کی ضد کر کے میرا دل دکھا رہے ہو۔ میں نہیں سمجھتا کہ تم اپنی بے جا ضد منوانے کے لیے اس حد تک چلے جائو گے‘‘۔
’’دیکھیں دادا جی، یہ میرا اور میری زندگی کا فیصلہ ہے، لوگ کیا کہیں گے کہ میں نے غیر برادری میں شادی کرلی‘‘۔ میں نے بڑے سکون سے کہا تو دادا تلملا کر بولے۔
’’لو…‘‘ یہ کہتے ہوئے اچانک وہ سوچ میں پڑ گئے، انہیں میری دلیل یاد آگئی۔ انہوںنے تو ہی کہنا تھا کہ لوگ کون ہوتے ہیں ہمارے معاملات میں دخل دینے والے… اور یہی بات میں انہیں سمجھاناچاہ رہا تھا۔ وہ چند لمحے میری طرف دیکھتے رہے اور بولے۔ ’’اب اگر میں یہ کہوں گا کہ زویا تمہاری محبت ہے تو پھر وہی بات مجھ پر لوٹادو گے۔ نہیں پتر…! ایسے مت کرو، اب جبکہ ہر بات طے ہو چکی ہے تو کم از کم زویا کو اپنی بے جا ضد کی بھینٹ مت چڑھائو‘‘۔
’’وہ تو میں نے فیصلہ کر لیا ہے دادا جی، میں اب غیر برادری میں، غیر ذات میں شادی نہیں کروں گا۔ظاہر ہے وہ سید ہے، وہ ارائیںنہیں ہو سکتی اور میںآ رائیں ہوں، میں سید نہیں ہو سکتا‘‘۔ میں نے حتمی لہجے میں کہا۔
’’اسلام میں یہ ذات برادری، کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ سب برابر ہیں، صرف فوقیت اس کو حاصل ہے۔ جومتقی ہے۔ کسی کالے کو گورے اور کسی گورے کو کالے پر یا عربی عجمی کو کسی پر فوقیت نہیں ہے‘‘۔ انہوں نے پیار سے کہا۔
’’دادا جی، یہ متقی ہونا کیا ہوتا ہے، یہ صرف سوچنے کی حد تک بات ہے یا اس کا کوئی عملی پہلو بھی ہے‘‘۔ میں نے پوچھا تو وہ چند لمحے سوچ کر بولے۔
’’ظاہر ہے پتر، باکردار اور باعمل انسان بھی متقی ہوتا ہے بعض اس کا تقوی اس کے کردار سے ظاہر ہو‘‘۔
’’یعنی یہ انسان کاکردار ہی ہے، جس کی و جہ سے وہ دوسروں پر مثبت یا منفی اثر ڈال سکتا ہے‘‘۔ میں نے پوچھا۔
’تم جو کہنا چاہتے ہو، وہ کہو‘‘۔ دادا نے میری طرف دیکھتے ہوئے صاف لہجے میں کہا۔
’’دادا جی …! متقی میرے خیال میں وہ ہوتا ہے ، جو اپنا ویسا کردار بنا لے جو اسلام ہم سے تقاضا کرتا ہے۔ ویسا کردار بن گیا تو یہی کردار خود دوسروں کو متاثر کرتا ہے اور دوسرے ویسا ہی کردار بنانے کی فکر میں ہو جاتے ہیں۔ اصل میں ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے قول و فعل میں تفاد ہے۔ ہم متقی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن منافقت کی انتہا پر ہوتے ہیں ۔ نماز پڑھ کر آتے ہیں اور آ کر ملاوٹ والی چیزیں بیچنا شروع کر دیتے ہیں۔ جھوٹ بولتے ہیں۔ پھر ہم سے کسی نے متاثر کیا ہونا، ہم اپنے مقصد کے لیے اسلام کے ان اصولوں کو اپنا لیتے ہیں جن سے ہم کو فائدہ حاصل ہو رہا ہو۔ لہٰذا…! ان باتوں کو چھوڑیں اور وہی کریں جو ہمارا ماحول اور ہمارا یہ معاشرہ بتا رہا ہے‘‘۔ میں نے تلخی سے کہا تو دادا جی اچانک بولے۔
’’اچھا، اب تم یہ بتائو، کہ تمہارا فیصلہ حتمی ہے؟‘‘
’’جی‘‘۔ میں نے دل کڑا کرتے ہوے کہا تو وہ اٹھ گئے۔ پھر بغیر کچھ کہے باہر نکل گئے۔
ایک لمحے کے لیے میرے دل میں آیا کہ میں زویا کو اعتماد میں لے لوں۔ اسے بتا دوں کہ میں یہ کس لیے کر رہا ہوں۔ کہیں وہ کچھ اور ہی نہ سوچنے لگ جائے۔ میں نے فون اٹھایا اور اسے کال کرنے لگا، پھر ایک دم سے خیال آیا کہ نہیں، میں نہیں کروں گا اسے کال، اسے میری ذات پر اعتماد ہونا چاہئے کہ میں اس کے بغیر کسی اور کو نہیں سوچ سکتا، میں اس کا ردعمل دیکھوں، وہ کیا چاہتی ہے اور کیا کرتی ہے۔ جو بھی حالات ہوں گے، میں انہیں دیکھوں گا۔ ان کا سامنا کروں گا۔
میں نے فون ایک طرف رکھ دیااور کافی دیر تک اپنے بیڈ پر پڑا آنے والے حالات کے بارے میں سوچتا رہا۔ پھر اٹھ کر تیار ہونے لگا۔ جیسے تیسے اب شاہ اور مسز شاہ سے ملنا تو تھا۔ تیار ہوتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ ماما اور پاپا میری اس بات پر اتنا پریشان کیوں نہیں ہوئے۔ انہوں نے مجھے سمجھانے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ کہیں دادا جی نے انہیں جا کر یہ نہ کہہ دیا ہو کہ میں یونہی مذاق کر رہا تھا۔ کوئی ایسی بات نہیں ۔۔۔ہو سکتا ہے انہوں اپنا مان آزما لیا ہو۔
میں تیار ہو کر ڈرائنگ روم کی طرف جانے کی تیاریوں میں تھا کہ میرے سیل فون پر زویا کی کال آگئی۔ اس نے چند لمحے اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد تحمل سے پوچھا۔
’’تمہیں معلوم ہے کہ میرے ماما پاپا آج تمہارے گھر آرہے ہیں؟‘‘
’’ہاں، اور میں تیار ہو گیا ہوں ان کے استقبال کے لیے‘‘۔
’’وہ کیوں؟ جبکہ تم میرے ساتھ شادی ہی نہیں کرنا چاہتے۔ جس مقصد کے لیے وہ آرہے ہیں، اگر تمہیں وہی نہیں پسند تو پھر تم کیوں ملو گے؟‘‘
’’تمہیں یہ کس نے بتایا؟‘‘ میں نے ایک خیال کے تحت پوچھا۔
’’تمہاری ماما نے …! وہ بہت پریشان تھیں، وہ مجھ سے تصدیق کررہی تھیں کہ ہمارے درمیان کوئی ایسا مسئلہ تو نہیں ہو گیا، جس کی وجہ سے تم انکار کررہے ہو‘‘۔
’’تو پھر اب تم کیا چاہتی ہو‘‘۔ میں نے اپنا لہجہ سخت کرتے ہوئے پوچھا۔
’’وہی جو تم چاہو گے، مجھے نہیں معلوم کہ تم ایسا کیوں چاہ رہے ہو اور نہ ہی میں تم سے کوئی وجہ پوچھوں گی، ممکن ہے تمہارا فیصلہ بہتر ہو۔ میں بہر حال تمہاراانتظار کروں گی‘‘۔ یہ کہہ کرمیری کوئی بات سنے بغیر اس نے فون آف کر دیا۔ اسے بلاشبہ دکھ ہوا تھا اور اس کے دکھ پر میں تڑپ کر رہ گیا تھا۔ یہ ایسے لمحات تھے، جن میں خود پر جبر کرنا بہت ضروری تھا۔ میں جذباتی کیفیت میں تھا، اس لیے تھوڑی دیر اپنے کمرے میں رہا اور پھر ڈرائنگ روم میں چلا گیا۔ جہاں شاہ اور مسز شاہ آچکے ہوئے تھے۔ خوشگوار ماحول میں گپ شپ ہو رہی تھی۔ میں ان کے ساتھ بہت تپاک سے ملا اور پھر دادا جی کے ساتھ ہی صوفے پر آبیٹھا۔ تبھی شاہ صاحب نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’اچھا، مجھے بلال کے بارے میں یہ بات جب پتہ چلی تو بہت اچھی لگا کہ اپنے دادا جی سے بہت پیار کرتا ہے اور دادا جی بھی ، اس سے …‘‘
’’جی شاہ صاحب…!‘‘ دادا نے تحمل سے کہا۔ ’’تاجرکو اپنے اصل مول سے کہیں زیادہ اپنے منافع سے پیار ہوتا ہے۔ بس مجھے تو ایک ڈر رہتا ہے‘‘۔
’’و ہ کیا…‘‘ شاہ صاحب نے دلچسپی سے پوچھا تو دادا جی نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
’’جب میں نہیں رہوں گا تو پھر اس کا کیا حال ہو گا، اتنا پیار اسے کرنا نہیں چاہئے‘‘۔
میں نے ان کی بات سن کر تڑپ کے ان کی طرف دیکھا۔ وہ ایک فقرے میں بہت کچھ کہہ گئے تھے۔ اتنا کچھ کہ میرے رونگھٹے کھڑے ہو گئے۔ یہاں تک کہ انہوں نے میری سوچوں پر بندھ باندھ کر رکھ دیا۔ ممکن ہے، ہمارے درمیان کوئی مزید بات چلتی ، ہمارے ملازم نے آ کر کھانا لگ جانے کی اطلاع دی۔ تب ہم سب میز پر آگئے۔ میں اس سارے دورانیے میں خاموش رہا۔ پاپا اور شاہ صاحب باتیں کرتے رہے۔ گاہے بگائے خواتین بھی بات کرلتیں۔ میرا دل بجھ گیا تھا۔ نہ جانے کیوں اس وقت مجھے یہ خیال آرہا تھا کہ میں نے بے جا ضد کر کے اچھا نہیں کیا۔ مجھے ایسا نہیں کرناچاہئے تھا۔
ڈنر کے بعد دوبارہ جب ڈرائنگ روم میں چلے گئے تو شاہ صاحب نے خود ہی ہمارے بارے میں بات چھیڑدی۔ تبھی ماما نے میری طرف دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں یاسیت بھری ہوئی تھی۔ میں نے انہیں کوئی رنسپاس نہیں دیا اور وہاں سے اٹھ کر جانے لگا تو مسز شاہ بولیں۔
’’بلال بیٹا… کدھر جارہے ہو۔ بیٹھو‘‘۔
’’وہ میں…‘‘ میں نے کہنا چاہا تو شاہ صاحب بولے۔
’’ارے بیٹھو یار…! تمہارے متعلق بات ہے اور تم ہی نہ ہو۔ میں مانتا ہوں کہ ہماری مشرقیت میں ایسا لحاظ ہوناچاہئے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ اگر بچے ہمارا لحاظ کرتے ہیں تو ہمیں بھی ان پر اعتماد کرناچاہئے‘‘۔
’’بالکل …! آپ نے درست کہا۔شاہ جی ، زندگی انہوں نے گزارنی ہے‘‘۔ پاپا نے بہت محتاط انداز میں کہا۔
’’دیکھیںجی، اب آپ سے کیا پردہ، فیصلہ تو یہ خود کر چکے ہیں۔ اب یہ ان کی سعادت مندی ہے کہ انہوں نے ہمارا احترام کیا۔ ہمیں اپنے فیصلے سے آگاہ کر دیا۔ کوئی انتہائی قدم نہیں اٹھایا، میرا خیال کہ زویا نے کوئی غلط فیصلہ نہیں کیا۔ میں راضی ہوں‘‘۔
’’شاہ جی ، آپ کے منہ میں گھی شکر، ہم آپ کی طرف سے ہی ہاں سننے کے منتظر تھے‘‘۔ دادا نے انتہائی خوشدلی سے کہا اور یہ کہتے ہوئے انہوں نے میرا ہاتھ مضبوطی سے یوں پکڑ لیا کہ میں ایک لفظ بھی اپنی زبان سے ادا نہ کروں۔ میں خاموش رہا۔ تب پاپا نے کافی خوشی دلی سے کہا۔
’’شاہ صاحب…! یہ آپ کی بہت مہربانی کہ آپ نے ان بچوں کا ہمارا اور اپنا مان رکھا۔ جیسا آپ کہیں گے ہم ویسے ہی آپ کی بات ماننے کو تیار ہیں۔ کیونکہ ہماری خوشیاں ان بچوں کے ساتھ ہی ہیں‘‘۔
’’آپ کو یہ تو معلوم ہی ہو گا کہ میں خاندان سے باہر یہ رشتہ کر رہا ہوں۔ اب وقت بدل گیا ہے۔ اپنی خاندانی روایات کی خاطر میں اپنی بیٹی کی خوشیوں کا گلا نہیں گھونٹ سکتا، اس نے میرا مان رکھا ہے تو میں بھی اسے خوشیاں دینے سے دریغ نہیں کروں گا۔ بس میں ہی چاہتا ہوں کہ کبھی بھی مجھے اپنے خاندان کی طرف سے یہ طعنہ سننے کو نہ ملے کہ میں نے کوئی غلط فیصلہ کیا ہے‘‘۔ یہ کہتے ہوئے ان کے لہجے میں دکھ تر آیا تھا۔
’’نہیں شاہ جی، مجھے اپنے پوتے پر فخر ہے۔ یہ بات بلا ل اچھی طرح سمجھتا ہے، میری اس سے بہت بات ہو چکی ہے اس موضوع پر، آپ بے فکررہیں۔ بس اب تو میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ بچے جلد از جلد اپنی نئی زندگی کا آغاز کریں‘‘۔ دادا نے خوش ہوتے ہوئے کہا تو مسز شاہ بولیں۔
’’ہاں جی! بیٹی والے ہمیشہ جلدی میں ہوتے ہیں‘‘۔ آپ جب چاہیں۔ شگون لے کر ہمارے ہاں آجائیں۔ ہم آپ کے منتظر ہوں گے‘‘۔
’’ہم تو کل ہی آنے کو تیار ہیں‘‘۔ ماما نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا اور پھر جلدی سے اٹھتے ہوئے بولیں‘‘۔ اس خوشی کے موقعہ پر منہ میٹھا تو ہوناچاہئے‘‘۔ یہ کہہ کر وہ اندر کی طرف چلی گئیں۔
’’بلال، تم نہیں بولے کچھ، تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘ مسز شاہ نے یونہی پوچھا تو دادا نے میرا ہاتھ مزید مضبوطی سے پکڑ لیا۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’جب بڑے بات کر رہے ہیں تو پھر مجھے بات کرنے کی کیا ضررت اور آپ میں سے کسی نے بھی مجھ سے کوئی سوال نہیں کیا، جس کا میں جواب دوں‘‘۔
’’چلواب کر لیتے ہیں سوال، منگنی کی تقریب گھر میں ہونی چاہئے یا کسی ہوٹل و غیرہ میں۔ تم دونوں اپنے دوستوں کو دعوت دو گے، یا ہم صرف فیملی والے ہوں گے اور پھر سب سے بڑی بات کہ منگنی ہونی بھی چاہئے یا۔۔۔‘‘ انہوں نے خوشدلی سے کہا تو میں بولا۔
’’آنٹی…! آپ بڑے ہیں، آپ بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کیا کرنا ہے، لیکن پہلے مجھے اور دادا جی کو جھتوال جانا ہے، وہیں بھان سنگھ کی شادی ہے۔ وہاں دوہفتے تو لگ جائیں گے، شادی بھی ہو گی اور کوئی کاروباری باتیں بھی ہو جائیں گی، بعد میں سیدھے سبھائو نکاح ہی ہو جائے گا۔ میری بہر حال یہ رائے ہے‘‘۔ میں نے جان بوجھ کر یہ کہا تاکہ دادا جی کا ردعمل دیکھ سکوں تبھی مسز شاہ نے کہا۔
’’ٹھیک ہے، اگر آپ لوگ جلدی جانا چاہتے ہیں تو ۔۔۔جو فیصلہ کرلیں، اگرکچھ دیربعد جانا ہے تو… اب یہ آپ دونوں پر ہے کہ آپ کیا کرناچاہتے ہیں‘‘۔
وہ انجانے میں وہ بات کہہ گئیں جو میں دادا جی سے کرناچاہ رہا تھا۔ تبھی پاپا نے کہا۔
’’یہ تو ابھی پلان ہیں، ایک دو دن میں یہ سب طے کر کے آپ کو بتادوں گا۔ بہر حال اب یہ طے ہے کہ ہم نے ان بچوں کی شادی کرنی ہے اور بہت اچھے انداز میں کرنی ہے، دونوں ہی اکلوتے ہیں‘‘۔
’’بالکل…! آپ نے ٹھیک کہا‘‘۔ شاہ صاحب نے کہا۔ اتنے میں ماما کافی ساری مٹھائی لے آگئیں۔ یوں باتوں کا رخ کسی دوسری طرف ہو گیا۔ میں خاموش بیٹھا رہا۔ یہاں تک کہ شاہ صاحب اور مسز شاہ خوشی خوشی رخصت ہو گئے۔
میں اپنے کمرے میں آیا اور آتے ہی بیڈ پر لیٹ گیا۔ دادا جی نے عین وقت پر میرا ہاتھ ہی نہیں ،مجھے بھی دبا کر اپنی بات منوالی تھی۔ مجھے رہ رہ کر زویا کی بات یاد آرہی تھی۔ میں نے اسے ہرٹ کیا تھا۔ وہ خوشی جو اس موقعہ پر ہونی چاہئے تھی، وہ نہیں ہو رہی تھی۔ ایک افسوس تھا جس نے میرے پورے وجود کو بہت بھاری بھاری کر دیا تھا۔ میں اوندھے منہ پڑا تھا کہ دادا کے بیڈ پر بیٹھنے کا احساس کر کے میں سیدھا ہو گیا۔ انہوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
’’اوئے پتندرا…! یوں کیسے پڑا ہے۔ چل تو جو چاہتا ہے۔ویسا ہی کرلے۔ میں تیری بات مان لیتا ہوں‘‘۔
’’لیکن دادا جی، و ہ خوشی تو نہ ہوئی نا، جو آرام سے بات مان لینے میں تھی۔ ہم دونوں ہی نے ایک دوسرے کو بلیک میل کیا ہے، کیا فائدہ ایسی خوشی کا‘‘۔ میں نے افسوس بھرے انداز میں کہا تو وہ سنجیدگی سے بولے۔
’’پتر…! جب تو میری عمر میںآئے گا نا تو تجھے پتہ چلے گا، عزت کیا شے ہوتی ہے۔ میں سمجھ گیا ہوں کہ تو نے جھتوال جانے کا کیوں کہا۔ بس ایک بات کی فکر ہے مجھے‘‘۔
’’وہ کیا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’دیکھو…! ایسا تو نہیں ہے کہ ہم جائیں اور جاتے ہی کہہ دیں کہ آئو امرت کور ہم تمہیں لینے کے لیے آئے ہیں اور وہ ہمارے ساتھ چل پڑے گی۔ ایسا نہیں ہے میرے بچے، اس کا ایک خاندان ہے، ان کی وہاں عزت ہے، ان کی بھی کوئی رائے ہو گی، اور زویا سے بھی میری بات ہوئی تھی۔ اس کے مطابق ، ابھی تک تم لوگوں نے اس کے ساتھ بھی کوئی سنجیدہ بات نہیں کی۔ فرض کرلو، میں مان گیا ہوں، امرت کور مان گئی، لیکن اس کے خاندان والے آڑے آگئے۔ یہ صورتِ حال ایسی نہیں ہے کہ جیسے تم دونوجوانوں کی ہے‘‘۔
’’میں سمجھ گیا ہوں کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ اگر وہ سب راضی ہوں تو پھر آپ کو تو کوئی اعتراض نہیں ہو گانا…‘‘ میں نے تیزی سے پوچھا۔
’’نہیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا‘‘۔ انہوں نے حتمی انداز میں کہا تو میں نے جلدی سے پوچھا۔
’’تو پھر میں پاپا اور ماما سے بات کر لوں… انہیں…‘‘
’’ساری بات معلوم ہے، تمہاری بے جا ضد کی وجہ سے میں نے انہیں، ساری بات بتا دی تھی۔ انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے اور زویا کو بھی میں نے ابھی فون کر کے بتا دیا ہے کہ پریشان نہیں ہونا، بلال ایویں خواہ مخواہ کی بونگیاں ماررہا ہے‘‘۔ آخر لفظ کہتے ہوئے دادا ہنس دیئے۔ میں ان سے لپٹ گیا۔ وہ دیر تک مجھے پیار کرتے رہے۔ پھر ان سے الگ ہو کر بولا۔
’’آئیں…! آپ کو آپ کے کمرے تک چھوڑ آئوں۔ پھر میں بھان اور پریت کے ساتھ گپ شپ لگا کر انہیں ساری صورت حال بتاتا ہوں‘‘۔
’’تو نے جو کرنا ہے کر، میں چلا جائوں گا‘‘۔ یہ کہہ کر وہ اٹھے اور اپنے کمرے کی طرف چل دیئے۔ میں نے جلدی سے اپنا لیپ ٹاپ اٹھایا اور اسے آن کیا۔ میری توقع کے مطابق ، زویا، بھان اور پریت آن لائن تھے۔ میرے آن لائن ہوتے ہی مجھ پر سوالوں کی بوچھاڑ شروع ہو گئی۔ زویا نے مجھ سے بات تک نہیں کی۔ میں نے آہستہ آہستہ انہیں ساری صورت ِ حال سے آگاہ کر دیا۔
’’اب جو کچھ کرنا ہے تم لوگوں نے کرنا ہے‘‘۔ میں نے بھان اور پریت سے کہا۔
’’مگر تم نے جو زویا کو ہرٹ کیا، یہ غلط کیا‘‘۔ بھان نے فوراً کہا۔
’’یہ پارٹ آن گیم تھا یار، زویا کو بھی معلوم ہے کہ میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا، مگر دیکھ لو، وہ اب بھی نخرے دکھا رہی ہے‘‘۔ میں نے لکھا۔
’’میں کوئی نخرے نہیں دکھا رہی‘‘۔ زویا نے کہا۔
’’اچھا چلو ٹھیک ہے، میں اسے منالوں گا، اب تم لوگ ماحول کو بہتر کرو تو میں دادا کو لے کر جھتوال آجائوں‘‘۔ میں نے کہا۔
’’تم آجائو، میری دادی ہرمنیت سے بات ہوگی تھی۔ ان کا خیال ہے کہ سریندر پال سنگھ انکل ، کوئی رکاوٹ نہیں ڈالیں گے۔ انہیں احساس ہو گیا ہے کہ یہ سارا معاملہ کیا ہے۔ تمہارے آنے تک مزید بات کرلیں گے۔ فکرنہ کرو‘‘۔ بھان سنگھ نے کہا تو میں مطمئن ہو گیا۔ اس کے بعد ہم کافی دیر تک اِدھر اُدھر کی اور مستقبل کی باتیں کرتے رہے۔ رات گئے تک ہماری باتیں جاری رہیں۔