اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

861,950FansLike
9,986FollowersFollow
565,000FollowersFollow
183,255SubscribersSubscribe

ایسا کیسے چلے گا؟ ۔۔۔ (سلیم صافی)

افغان طالبان کے امیرالمومنین ملا محمد اختر منصور کا پاکستانی سرزمین پر امریکی میزائل سے لقمہ اجل بن جانا بہت بڑا واقعہ ہے لیکن جب اسے افغانستان اور امریکہ کے ساتھ موجودہ کشیدہ اور پیچیدہ تعلقات کے تناظر میں دیکھا جائے تو نہ صرف سنگینی بہت بڑھ جاتی ہے بلکہ یہ بھیانک حقیقت بھی سامنے آجاتی ہے کہ افغانستان کے محاذ پر پاکستان ایک بند گلی میں پھنستا جارہا ہے ۔ تناظر اس کا یہ ہے کہ غیروں کی شرارتوں اور اپنوں کی حماقتوں کے نتیجے میں جب افغانستان کے اندر مجاہدین کی خانہ جنگی عروج پر پہنچ گئی اور پاکستان کے پالے ہوئے مجاہدین (شمالی اتحاد) کے نام سے بھارت ، روس اور ایران کی گود میں چلے گئے تو پاکستانی پالیسی سازوں نے طالبان کو شہہ دینی شروع کردی۔ طالبان نے القاعدہ کو اپنے ہاں پناہ دے دی ۔ القاعدہ حلیف اور اثاثہ کی حیثیت سے نکل کر،پہلی عراق جنگ کے تناظر میں امریکہ کی حریف بنی تو امریکہ کی قیادت میں عالمی برادری پاکستان پر زور ڈالتی رہی کہ وہ طالبان کی حمایت ترک کردے اور طالبان پر زور ڈالتی رہی کہ وہ القاعدہ کو اپنے ملک سے نکال دیں ۔لیکن بوجوہ طالبان نے بات مانی اور نہ پاکستان نے ۔ اس دوران نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا ۔ امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ ایک زخمی بھیڑیے کی طرح طیش میں آکر طالبان کے خلاف حملہ آور ہوا۔ پرویز مشرف کے سامنے لکیر کھینچی گئی کہ وہ کس کے ساتھ ہیں اور انہوں نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ جواب میں امریکہ اور عالمی برادری نے پاکستان کو معافی دی اور ماضی میں طالبان کی بلاواسطہ اور القاعدہ کی بالواسطہ سپورٹ کی، سزا دینے کی بجائے اس کو نوازنے کا عمل شروع کردیا۔ وہ پرویز مشرف جن کے ساتھ کچھ عرصہ قبل امریکی صدر بل کلنٹن ہاتھ ملانے کو تیار نہیں تھے، جارج ڈبلیو بش کے بڈی (Buddy)بن گئے۔ پاکستان کے تعاون سے چند روز میں افغانستان سے طالبان کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا اور پاکستان ہی کے تعاون سے حامد کرزئی افغانستان کے حکمران بن گئے۔اس فیصلے کی وجہ سے القاعدہ نے اپنی توپوں کا رخ پاکستان کی طرف موڑ لیا۔ افغان طالبان شدید ناراض ہوگئے اور پاکستان کے اندر طالبان اور القاعدہ کے حامی اپنی ریاست سے برسرجنگ ہوئے۔ پہلے صدارتی انتخابات میں تو پاکستانی اداروں نے حامد کرزئی کو جتوانے کے لئے پاکستانی مہاجر کیمپوں میں اسی طرح کی دھاندلی بھی کی جس طرح کہ پاکستانی انتخابات میں کی جاتی ہے ۔ لیکن بدقسمتی سے اس دوران امریکی سی آئی اے نے پاکستان سے پرانے بدلے چکانے اور اپنے اسٹرٹیجک اہداف حاصل کرنے کے لئے سازشوں کا آغاز کردیا۔ اس نے ہندوستان کو بھی افغانستان میں آکر پاکستان کے خلاف کھیلنے کا موقع دیا۔ اسی طرح افغانستان کے اندر پاکستان مخالف لابی کو بھی ان دونوں نے دیگر مغربی ممالک کے خفیہ اداروں کے ساتھ مل کر پاکستانی مفادات کے خلاف متحرک کیا۔ امریکی سی آئی اے اور ایم آئی سکس وغیرہ تو چین اور روس کے خلا ف بھی افغان سرزمین کو استعمال کرنے لگے۔ اب ہوناتو یہ چاہئے تھا کہ اس وقت امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو آنکھیں دکھا کر ان کے ساتھ تعاون ختم کرلیا جاتا یا پھر ان کو سفارتکاری کے ذریعے پاکستان مخالف سرگرمیوں سے باز رکھا جاتا اور ان کے ذریعے افغان حکومت کو بھی پاکستان کے خلاف سازشوں سے باز رکھا جاتا لیکن چونکہ جنرل پرویز مشرف میں یہ ہمت نہیں تھی کہ وہ امریکہ سے حساب برابر کرلیں ، اس لئے انہوں نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ڈبل گیم اور ہندوستان کی سازشوں کا جواب افغانستان کو ڈبل گیم کی صورت میں دینا ضروری سمجھا۔ اسی پالیسی کی وجہ سے پاکستان کے اندر ٹی ٹی پی کو پھل پھولنے کا موقع ملا، اس کی وجہ سے عسکریت پسندوں کے مقابلے میں قانون نافذ کرنے والے ادارے کنفیوژن کاشکا رہوئے اور اسی وجہ سے بسا اوقات پاکستان کے مضبوط ترین سیکورٹی ادارے ، عسکریت پسندوں کے مقابلے میں کمزور دکھائی دینے لگے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی پاکستان کے ساتھ ڈبل گیم کرتے رہے اور جواب میں پاکستان یہی کچھ کرتا رہا۔ چنانچہ پورا خطہ ایک گندے کھیل اور جنگوں کا مرکز بن گیا۔ اس صورت حال سے سرحد کے دونوں جانب عسکریت پسندوں کو ہی فائدہ ملتا رہا۔ امریکہ اور افغانستان تو تکرار کے ساتھ پاکستان کے خلاف ڈبل گیم کا الزام لگاتے رہے لیکن پاکستان میں پرویز مشرف نے امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر برسرعام امریکہ پر ڈبل گیم کے الزام کی ہمت کی اور نہ ان کے پیش روئوں نے ۔ پاکستان میں سیاست اور میڈیا کے میدانوں میں اپنے پراکسیز اورخودساختہ ترجمانوں کے ذریعے افغان اور امریکی حکومت کے خلاف پروپیگنڈے کوہی مسئلے کا حل سمجھا گیا ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستانی قوم کنفیوژ ہوتی رہی اور ا س کیلئے دوست اور دشمن کی تفریق مشکل ہوگیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ کو اس کے کرتوتوں کی سزا مل گئی ، افغان حکومت کو اس کی اور پاکستان کو اس کی ۔ امریکہ جو چاہتا تھا ،بعینہ اسی طرح نہیں ہوسکا ، افغان حکومت جو چاہتی تھی، وہ بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرسکی ، ہندوستان کے ارادے بھی بڑی حد تک خاک میں مل گئے لیکن پاکستان کے بھی کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ ہم دنیا کے سامنے امریکہ، ہندوستان ، افغانستان اور دیگر مغربی ممالک کے ڈبل گیم کا کوئی واضح ثبوت پیش نہ کرسکے لیکن امریکہ نے نہ صرف اسامہ بن لادن کو پاکستان سرزمین سے اٹھا لیا بلکہ القاعدہ اور ٹی ٹی پی کے درجنوں رہنمائوں کو بھی پاکستانی سرزمین پر ڈرون کے ذریعے نشانہ بناکر حامد کرزئی کے اس الزام میں وزن ڈال دیا کہ دہشت گردی کا اصل گڑھ پاکستان ہے ۔ پاکستان کے موجودہ پالیسی سازوں نے نئی سوچ کے ساتھ نئے سفر کا عز م کرکے پہلے افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ مل کر غلط فہمیوں کو دور کرنے اور دونوں طرف کی حکومتوں اور ریاستوں کے دشمنوں کو راہ راست پر لانے پر اتفاق کیا لیکن ماضی سے چھٹکارہ اس قدر آسان نہیں تھا۔ اس دوران ایک غلطی یہ ہوئی کہ جنرل پرویز مشرف نے میڈیا میں اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لئے مختلف قومی اور بین الاقوامی ٹی وی چینلز کے ساتھ انٹرویوز میں بڑے فخریہ انداز میں یہ اعتراف بھی کیا کہ پاکستان نے طالبان کے معاملے میں ڈبل گیم کی ہے ۔ اس دوران حد سے زیادہ شریف پاکستانی مشیرخارجہ سرتاج عزیز نے بھی میڈیا کے سامنے یہ اعتراف کرلیا کہ طالبان پر پاکستان کا اثرورسوخ ہے ۔ افغان حکومت کے ساتھ تعلقات کی عارضی بہتری کے زعم میں اپنے خلاف یہ گواہیاں تو دی گئیں لیکن عملاً ا فغان حکومت نے پاکستانی مطالبات پورے کئے اور نہ پاکستان اس کی توقعات پر پورا اتر سکا۔ چنانچہ تلخی بڑھ گئی اور سب فریقوں کے تعلقات کشیدگی کی طرف جانے لگے ۔ اس دوران امریکہ کے کہنے پر افغان حکومت نے ایک بار پھر ، آخری کوشش کے طور پر پاکستان کے ساتھ رکے ہوئے مفاہمتی عمل کو دوبارہ شروع کیا۔
اب کی بار پاکستان اور افغانستان کی خواہش کے مطابق چین بھی اس عمل کا حصہ بنا۔ چنانچہ پاکستان ، افغانستان، امریکہ اور چین پر مشتمل ایک چار رکنی کمیشن تشکیل دے دیا گیا۔ یہ طے ہوا کہ امریکہ اور افغانستان ، پاکستان کے خدشات دور کریں گے اور جواب میں پاکستان طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لائے گا۔ چونکہ ہمارے وزیر اعظم سے لے کرطارق فاطمی صاحب تک کسی کو افغانستان اور طالبان کے قضیے کی سمجھ نہیں ، اس لئے کچھ مفروضوں کی بنیا دپر پاکستان کی استعداد سے بڑھ کر وعدے کئے گئے ۔ اس سے بڑی حماقت یہ کی گئی کہ ایک موقع پر امریکہ اور افغاستان کے دبائو پر نہایت عجلت میں چند طالبان رہنمائوں کو مری میں بلا کر چار فریقی کمیشن کے سامنے بٹھا دیا گیا۔ اس کی وجہ سے دیگر فریقین اور دنیا کی نظروں میں یہ غلط تصور مزید پختہ ہوگیا کہ افغان طالبان پاکستان کی مٹھی میں بند ہیں ۔ لیکن زمینی حقیقت اس کے برعکس تھی ۔ نہ تو طالبان ، پاکستان کی بات اسی طرح ماننے پر آمادہ تھے اور نہ حقیقتاً ان پر اتنا اثر تھا جس طرح کہ تاثر دیا جارہا تھا۔ملا اختر منصور نے امیر بننے کے بعد اپنی داخلی مجبوریوں کی وجہ سے ملا محمد عمر سے بھی زیادہ بے لچک پالیسی اپنائی جبکہ دوسری طرف پاکستانی حکام کی کوششوں کے بعد یہ راز کھلا کہ طالبان ایران، روس اور قطر جیسے کئی دیگر ممالک کے ساتھ رابطے بنا چکے ہیں ۔ اب پاکستان چارفریقی کمیشن کے دیگر فریقوں کے سامنے اپنی معذوری ظاہر کرتا رہا جبکہ افغان حکومت اور امریکہ اس بننے والے مبالغہ آمیز تاثر کی بنیا دپر مطالبات کرتے رہے ۔ دوسری طرف افغان حکومت اور امریکہ طالبان کو وہ رعایتیں دینے کے روادار نہیں تھے جو وہ مانگ رہے ہیں۔ اس دوران امریکہ اور افغان حکومت نے پاکستان سے مطالبہ شروع کیا کہ اگر طالبان ان کی بات نہیں مانتے تو پھر وہ پاکستانی سرزمین پر موجود طالبان کے خلاف کارروائی کرے۔ پاکستان موقف اپناتا رہا کہ بوجوہ وہ ایسا نہیں کرسکتا اور یہ کہ پاکستان میں طالبان قیادت کی موجودگی کا تاثر مبالغہ آمیز ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ عملاً چار فریقی کمیشن ناکامی سے دوچار ہوچکا ہے لیکن کوئی فریق ناکامی کی تہمت لگنے سے بچنے کی خاطر اس کے خاتمے کا اعلان نہیں کررہا ۔اب اس تناظر میں امریکہ نے ملا اختر منصور کو پاکستانی سرزمین پر نشانہ بنا کر ایک تو پاکستان کو مجرم کی صف میں لاکھڑا کرنے کی کوشش کی اور دوسری طرف یہ پیغام دیا کہ اگر پاکستان خود افغان طالبان کے خلاف کارروائی نہیں کرے گا تو پھر امریکہ اسی طرح اس کی فضائی حدود کو پامال کرکے ان کو نشانہ بنائے گا۔ اسامہ بن لادن اور ملامحمد عمر کی بنسبت یہ معاملہ اس لئے زیادہ سنگین ہے کہ ان دونوں کے برعکس ملااختر منصور کی لاش برآمد ہوئی ہے اور وہ ولی محمد کے نام سے پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی جیب میں رکھتے تھے ۔ سوال یہ ہے کہ پاناما پاناما اور کرپشن کرپشن کھیلنے والے پاکستانی رہنمائوں کو کیا ان معاملات کا ادراک اور احساس ہے ؟ اور اگر نہیں تو ایسے کیسے اور کب تک چلے گا؟۔

(بشکریہ : روزنا مہ جنگ)