اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

860,945FansLike
9,984FollowersFollow
564,800FollowersFollow
183,255SubscribersSubscribe

سوشل میڈیا پر قومی غیرت وحمیت کی جنگ ۔۔۔۔ (نصرت جاوید)

سوچ امریکی صدر اور اس ملک کی اشرافیہ کی پاکستان کے بارے میں بہت بنیادی اور سادہ ہوچکی ہے۔ آسان ترین لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ ان کے ذہن میں سوال اُٹھ رہا ہے کہ اگر کئی برس لگاکر CIAہی نے اسامہ بن لادن کا پتہ لگانا تھا۔ ایبٹ آباد میں اس کا ٹھکانہ ڈھونڈ لینے کے بعد پھر امریکی صد ر ہی کو اپنے طیارے اور کمانڈوز بھیج کر اسے مروانا تھا تو پاکستان کو ’’دہشت گردی کے خلاف ‘‘ اپنا اتحادی کیوں سمجھا جائے۔
ایسے ’’اتحادی‘‘ کو F-16جیسے جدید ترین طیارے رعایتی نرخوں پر فراہم نہیں کیے جاسکتے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کے لئے ویسے بھی ایسے طیاروں کی شاید اب ضرورت نہیں رہی۔ ڈرون نام کی ایک شے مارکیٹ میں آچکی ہے۔
میرا یہ کالم لکھنے سے تقریباََ 50گھنٹے قبل ایسے ہی ایک ڈرون نے ملاعمر کے انتقال کی تصدیق ہوجانے کے بعد افغان طالبان کی قیادت سنبھالنے والے ملا منصور کو ہلاک کیا ہے۔موصوف اپنی سپاہ کو متحد اور پُرجوش رکھنے کے لئے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے ضمن میں فی الوقت کوئی لچک دکھانے کو ہرگز تیار نہیں تھے۔ امریکہ نے اپنے جاسوسی نظام کی بدولت کسی نہ کسی طرح ملامنصور کو ڈھونڈ نکالا۔ ہفتے کی سہ پہر وہ ایران کی سرحد سے پاکستان داخل ہونے کے بعد ایک کارپر افغان سرحد کی جانب بڑھ رہے تھے کہ بلوچستان کے ایک سرحدی جنگل کے قریب واقع احمد وال نامی قصبے پر انہیں ڈرون پھینک کر ماردیا گیا۔
پاک-افغان سرحد پر کہیں بھی کوئی ڈرون حملہ ہو تو امریکی وزارتِ خارجہ اور وزارتِ دفاع اس کے بارے میں کوئی ٹھوس اطلاع فراہم کرنے کو ہرگز آمادہ نہیں ہوتیں۔ صرف یہ فقرہ کہہ کر جان چھڑالی جاتی ہے کہ ہم ’’ٹھوس فوجی کارروائیوں‘‘پر کوئی تبصرہ آرائی نہیں کرتے۔
ہفتے کے روز ہوا ڈرون حملہ اپنی نوعیت میں کچھ خاص اس لئے بھی ثابت ہوا کہ اس کی اطلاع خلقِ خدا کو امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے دی۔ ٹی وی کیمروں کے سامنے ایک بیان دیتے ہوئے موصوف نے کافی اعتمادسے یہ ’’اطلاع‘‘ دی کہ ’’پاک-افغان سرحد‘‘ پر ہوئے اس حملے کی بدولت ’’شاید‘‘ ملا اختر منصورماراگیا ہے۔ ’’شاید‘‘ کا احتیاطی لفظ استعمال کرنے کے بعد جان کیری نے کافی تفصیل سے وہ وجوہات بیان کیں جو ان کی نظر میں ملا منصور کی ہلاکت کو ایک ’’جائز‘‘ فوجی کارروائی ثابت کرسکتی ہیں۔اس کارروائی کا حکم امریکی صدر اوبامہ نے تحریری طورپر دیا تھا۔
جان کیری نے اسی بیان میں جب یہ کہا کہ پاکستان کو باقاعدہ طورپر اس کارروائی کے بارے میں آگاہ کردیا گیا ہے تو ایک بات ثابت ہوگئی کہ ملامنصور پر حملہ پاکستانی سرحد کے اندر ہوا تھا۔ پاکستان کو ایران سے ملانے والی شاہراہ کے ایک مقام پر پھینکا یہ ڈرون بلوچستان پر پہلا حملہ بھی ثابت ہوا۔ پاکستانی سرحد سے متعلق قومی حاکمیت اور خودمختاری کے تصور کو اس حملے نے یقینا زک پہنچائی ہے۔
ہماری وزارت خارجہ نے مگر ’’قومی غیرت وحمیت‘‘ کے تقاضے ابھی تک پورے نہیں کئے۔ ڈرون حملوں سے متعلق ایک روایتی، پھسپھسا سا بیان دیا ہے۔کئی گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی ہماری وزارتِ خارجہ کو یقین نہیں آیا تھا کہ ہفتے کے دن ہوئے ڈرون حملے میں طالبان کے امیر المومنین ملااختر منصور کی ہلاکت ہوئی ہے۔ اس کے مطابق جو شخص اس حملے میں مارا گیا وہ پاکستانی پاسپورٹ پر ایک مستند ایرانی ویزے کے ساتھ اس ملک سے ہمارے ہاں آیا تھا۔ نام اس کا ولی محمد بتایا گیا، جو قلعہ عبداللہ کا رہائشی ہے۔ اس ’’ولی محمد‘‘ کے ڈرائیور کا پتہ ضرور چلالیا گیا اور غالباََ اس کے قریبی رشتے داروں کو اس کی لاش بھی دے دی گئی ہے۔ یہ کالم لکھنے تک ’’ولی محمد‘‘ کا کوئی رشتے دار البتہ اس کی لاش وصول کرنے نہیں آیا تھا۔
سوشل میڈیا پر بحث اب یہ شروع ہوگئی ہے کہ ڈرون حملے میں جھلس جانے والے ’’ولی محمد‘‘کی جیب سے پاکستانی پاسپورٹ کیسے برآمد ہوا۔ اس بحث میں بڑی شدومد سے حصہ لینے والے بھول گئے کہ پاکستان کی ’’خودمختار حکومت‘‘ ولی محمد یا کسی بھی ایک اور شخص کا پاسپورٹ یا شناختی کارڈ کسی بھی وقت لوگوں کے سامنے لاسکتی ہے۔ہمارے پاس جدید ترین آلات سے لیس ایک NADRAہے۔ اس کا ایک Data Baseہے جو بہت کمال کا ہے۔ اس کے علاوہ سرحدوں پر قائم ہماری چوکیوں پر بھی کمپیوٹر نصب ہیں۔ ’’ولی محمد‘‘ ایران سے لوٹا ہوگا تو امیگریشن چیک پوسٹ پر اس کے پاسپورٹ اورویزے کی تصویر بھی لی گئی ہوگی۔ ان بنیادی ’’فروعات‘‘ پر توجہ دینے سے مگر سوشل میڈیا پر ’’قومی غیرت وحمیت‘‘ کی جنگ نہیں لڑی جاسکتی۔
ڈورن حملے کی سلگائی آگ کی حدت سے ’’محفوظ رہ جانے والے پاسپورٹ‘‘ سے متعلق چسکے دار فروعات کے علاوہ سازشی تھیوریوں کا ایک سیلاب بھی ہمارے ذہنوں سے اُبل پڑا ہے۔ بہت سے تخلیقی اذہان نے ہمارا حوصلہ بڑھانے کو تھیوری یہ گھڑی ہے کہ چونکہ ملامنصور پاکستانی حکام کے قابو سے باہر ہورہا تھا، شاید اس لئے ہمارے ہی لوگوں نے امریکہ کو اس کا اتہ پتہ بتادیا ہوگا۔ امریکہ نے ڈرون مارکر اس کا خاتمہ کردیا۔ اس کی ہلاکت کے بعد حقانی گروپ کاسراج الدین، افغان مجاہدین کی قیادت سنبھالنے کے لئے سب سے زیادہ مستحق اور مناسب نظرآرہا ہے۔ حقانی افغان طالبان کا باقاعدہ امیر المومنین مان لیا گیا تو افغان حکومت کے ساتھ بالآخر مذاکرات کی میز پر بیٹھنے میں آسانیاں پیدا ہوجائیں گی۔ یہ سب ہوجائے تو پاکستان بھی خوش اور افغانستان بھی۔ علاقے میں امن وامان اور دیر پاخوش حالی کے امکانات روشن ہوجانے کی امید اور ان کی وجہ سے امریکہ کا اطمینان۔
ٹھوس حقائق سے قطعی لاعلم اگرچہ اپنے تئیں ’’افغان امور کے ماہر‘‘ بنے یہ تھیوری فروش غوروفکر کرنے والے دانشور نہیں ملازمتیں بچانے والے دوٹکے کے منشی ہیں۔ یہ ’’تحقیقاتی‘‘ کتابیں اور مضامین نہیں بلکہ پاکستانی اشرافیہ کے ذہنوں میں بسی خوش فہمیوں کو "Ground Realities”کے نام پر بیان کرتے ہوئے اپنے لئے ’’حب الوطنی‘‘ کے سرٹیفکیٹ حاصل کرتے ہیں۔ انہیں پاکستانی ریاست کے بنائے ’’تھینک ٹینکس‘‘ میں اچھی تنخواہوں پر رُعب والے عہدے ملے ہوئے ہیں۔ یہ سیمیناروں میں بھاشن دیتے ہیں۔ غیر ملکی یونیورسٹیوں میں جاتے ہیں اور اپنے تئیں اس قوم کا حقیقی Narrativeدُنیا کے سامنے بیان کرتے ہیں۔ ایسے اُجرتی دانشوروں کے ہوتے ہوئے میرے ملک کو کسی اور دشمن کی ضرورت نہیں۔
صاف اور سادی بات یہ ہے کہ پاک-امریکہ تعلقات کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ ان تعلقات میں 60ء کی دہائی سے بہت اونچ نیچ ہوتی رہی۔ اسامہ بن لادن کو سی آئی اے کی بدولت ایبٹ آباد میں ڈھونڈنے اور اسے امریکی کمانڈوز کے ہاتھوں مروانے کے بعد مگر امریکی اشرافیہ کا پاکستان کے بار ے میں ذہن قطعی طورپر بدل چکا ہے۔ امریکہ اب ہمارا دوست ملک ہرگز نہیں رہا۔ وہ ہماری نیتوں پر شک کرتا ہے اور اسے ہمارے Strategicمفادات اور ان کے تحفظ سے کوئی غرض نہیں۔ خدارا امریکی دلوں میں پاکستان کے بارے میں موجود سفاکانہ بے اعتنائی کا پوری دیانت داری اور مناسب علم کے ساتھ ادراک واحساس کیجئے۔ اپنی مشکلات کو پوری طرح جان لینے کے بعد ہی کوئی قوم ان کا حل ڈھونڈنے کی کوشش میں جت سکتی ہے۔
(بشکریہ نوائے وقت )