اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

846,774FansLike
9,978FollowersFollow
562,000FollowersFollow
183,255SubscribersSubscribe

نواز حکومت کا ترک سرکار کو بڑا تحفہ (طیبہ ضیاءچیمہ)

ترکی کے صدر طیب اردگان کا دورہ پاکستان جی ایاں نوں۔ ترکی سمیت تمام مسلم غیر مسلم ممالک پاکستان کو ڈکٹیشن دیتے ہیں اور پاکستان کے حاکم آج تک خود کو مضبوط کرنے کیلئے اغیار کی ڈکٹیشن پر عمل کرتے چلے آرہے ہیں۔ ترک صدر طیب اردگان کی ڈکٹیشن پر بھی عملدرآمد ہو چکا ہے۔ ان کے دورہ پاکستان کے موقع پر وفاقی حکومت نے فتح اللہ گولن کی تنظیم پاک ترک آرگنائزیشن کے ملازمین کو آئندہ 3 روز میں پاکستان چھوڑنے کا حکم دیدیا ہے اور وزارت داخلہ نے 400 ملازمین کے ویزے بھی منسوخ کردیئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاک ترک سکولوں کا کنٹرول ترک حکومت کی تجویز کردہ ’’مارف‘‘ نامی تنظیم سنبھالے گی جبکہ اس سے قبل ان سکولوں کا کنٹرول پاک ترک آرگنائزیشن کے سپرد تھا۔ حکومت کا ترک صدر رجب طیب اردگان کیلئے دورہ پاکستان کے موقع پر ان کیلئے بڑا تحفہ ہے وزارت داخلہ نے پاک ترک سکولوں کا انتظام رکھنے والی پاک ترک فاونڈیشن کی رجسٹریشن منسوخ کر دی، ترک حکومت کی تنظیم معارف فاونڈیشن کو راتو ں رات انٹرنیشنل این جی او کے طور پر رجسٹرڈ کر لیا، پاک ترک سکولوں میں کام کرنیوالے 132 اساتذہ سمیت 417 ترک باشندوں کے ویزے منسوخ کر دئیے۔ امیگریشن عملے کو ترک باشندوں کو ڈی پورٹ کرنے کے احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں۔ بعض ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان سے جانیو الے ترک فائونڈیشن کے عملے کو ترکی پہنچتے ہی گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاک ترک سکولوں کا کنٹرول ترک حکومت کی تجویز کردہ مارف نامی تنظیم سنبھالے گی جبکہ اس سے قبل ان سکولوں کا کنٹرول پاک ترک آرگنائزیشن کے سپرد تھا۔ فتح اللہ گولن پر ترک حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ واضح رہے کہ ترک فاونڈیشن کے ملازمین نے ترکی واپس جانے کی بجائے پاکستان میں قیام کیلئے عدالتوں سے بھی رجوع کر رکھا ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردگان پاکستانی قیادت سے ملاقاتوں کے علاوہ جمعرات کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب بھی کریں گے۔
پاکستان ایک آزاد ریاست ہے اور اس کے حکمران عوام کے خادم ہونے چاہئیں لیکن ایسا نہیں۔ پاکستان کی قسمت حکمرانوں اور فوج کے ہاتھوں میں گیند بن چکی ہے۔ کبھی اس کی جیت کبھی اس کی ہار۔ ترک صدر جنہیں جمہوری آمر بھی کہا جاتا ہے، اپنے ماضی کے رفیق فتح اللہ گولن کی رقابت کیلئے پاکستان پہنچ گئے ہیں۔ مقصد مطالبات منوانا ہے۔ پاکستان میں ہم خیال مذہبی و سیاسی قائدین کی مٹھی گرم کی جا رہی ہے۔ نفرت اور انتقام ضمیر ہی نہیں ریاستیں بھی خرید سکتا ہے۔ پاک ترک دوستی زندہ باد۔ لیکن پاک ترک سیاست ذاتی مفادات کو ترجیح دے رہی ہے۔ اقتدار کو طوالت دینے کیلئے ایک دوسرے کی ضرورت ہوتی ہے اور ناجائز مطالبات تسلیم کرنے پڑتے ہیں۔ پاکستان میں قائم پاک ترک درسگاہوں کو بند کرانے کی خواہش پوری ہو چکی ہے۔ فتح اللہ گولن سے رقابت اور انتقام کی جنگ میں پاکستان کو گھسیٹنے کی کوشش کامیاب ہو چکی ہے۔ پاکستان میں پاک ترک سکول ہمارے بچوں کو تعلیم فراہم کر رہے ہیں اور کسی قسم کی دہشت گردی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ صدر اردگان اپنے دوست نواز شریف اور شہباز شریف پر پاک ترک فائونڈیشن پر پابندی عائد کرنے کیلئے مسلسل دبائو ڈال رہے تھے اور آخر کار گولن کے سکولوں کو اردگان کی تنظیم کا حصہ بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ ترک حکومت نے گزشتہ دو ماہ سے اپنی خفیہ ایجنسی کا ایک نمائندہ پاکستان بھیج رکھا ہے۔ پاک ترک سکولوں کا ترک عملہ خوف کی زندگی گزار رہا تھا حتی کہ رومی فورم کا عملہ بھی اردگان کی سازش سے سہما ہوا ہے۔ امریکہ کی مہربانی سے ایک تماشہ شروع ہو چکا ہے کہ جس شخص یا تنظیم کے خلاف کوئی ثبوت نہ ملے اس پر دہشت گردی کا الزام لگا دیا جائے۔ طیب اردگان کی مذہبی ترک سکالر فتح اللہ گولن کی تحریک سے رقابت کوئی نئی بات نہیں۔ امریکہ کا واقعہ نائن الیون اور ترکی میں فوجی بغاوت ایسے مشکوک واقعات ہیں کہ ان کے پس پشت منصوبہ بازی شاید کبھی بے نقاب نہ ہو سکے۔ لیکن ان دونوں مشکوک سیاسی واقعات میں پاکستان کو استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔ پاکستان ایک آزاد ریاست ہے۔ اس کی مذہبی اور سیاسی جماعتیں اپنے ذاتی مفادات کیلئے غیر ملکوں کے پپٹ بنی ہوئی ہیں۔ امریکہ میں دنیا بدل چکی ہے۔ اسلام دشمن ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت آچکی ہے۔ ٹرمپ سعودی عرب کو للکار چکا ہے اور سعودی عرب کے تمام ہم خیال سیاسی بھائیوں کے خلاف پالیسی مرتب کی جائے گی۔ طیب اردگان نے امریکہ میں پناہ گزیں گولن کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے اوباما حکومت کو گولن کو ملک بدر کرنے پر مجبور کیا لیکن اوباما حکومت نے ٹھوس ثبوت مانگ لئے۔ اردگان اپنے رقیب گولن کے خلاف ٹھوس ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ اردگان اگر اپنے دعوے پر سچے ہیں تو ٹرمپ فتح اللہ گولن کو امریکہ میں برداشت نہیں کرے گا۔ لیکن ہمارا تجزیہ یہی کہتا ہے کہ طیب اردگان نے دہشت گردی کا جو الزام فتح اللہ گولن پر لگایا ہے ٹرمپ کو بھی قائل نہیں کر سکے گا۔ کیوں کہ ترک سکالر اور حزمت تحریک کے بانی مسٹر فتح اللہ گولن کی سرگرمیاں پوری دنیا میں سراہی جاتی ہیں۔ دہشت گردی کا الزام پہلی مرتبہ سنا اور وہ بھی اس شخص کے منہ سے جو گولن کا معتقد تھا اور گولن کی حمایت اور تعاون سے ترکی میں جمہوریت کے قدم جمانے میں کامیاب ہو سکا۔ اردگان اور گولن کی باہمی اختلافات میں ترکی کا امن چھن چکا ہے۔ امریکہ نے گولن کی گرفتاری کا اردگان کا مطالبہ مسترد کر دیا لیکن کمزور پاکستان جو اپنے حکمرانوں کے ہاتھوں جی حضوری کی وجہ سے مشہور ہے اردگان کا مطالبہ مسترد نہ کر سکا اور معیاری سکولوں کو اردگان کی تنظیم کے حوالے کر دیا۔ پاک ترک سکولوں کے نئے سٹاف اور پس پشت سازش کا تفصیل سے جائزہ لے چکے ہیں اور مارف تنظیم کے پس پشت سعودی عرب کی تھپکی کی تحقیق کے بعد ہم برملا لکھ رہے ہیں کہ پاک ترک سکول (مارف تنظیم ) کے ہاتھوں ہائی جیک ہونے کے بعد اپنا معیار برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔ سیاسی و مذہبی تعصب نے درسگاہوں کو بھی نہیں بخشا۔ حکمرانوں نے پاکستان کو اپنے باپ دادا کی جاگیر سمجھ رکھا ہے۔ ووٹ دینے والوں کی خواہشات کے بر عکس فیصلے کئے جاتے ہیں اور سادہ ووٹروں کو علم ہی نہیں ہو پاتا کہ ان کے ووٹوں سے پاکستان کی تقدیر کے فیصلے کئے جاتے ہیں۔ گولن تحریک کے پاک ترک سکولوں کو مارف تنظیم کے سپرد کر دینا نواز حکومت کا پاکستانیوں کے ساتھ دھوکہ ہے۔ غافل پاکستانی بھی اسی سلوک کے حقدار ہیں۔ تاریخ جب لکھی جائے گی تو ترک صدر اردگان اور نواز حکومت کے معاہدوں کے پس پردہ ذاتی مفادات بھی لکھے جائیں گے۔ پاکستانیوں کو دال روٹی کے مسائل میں پھنسا دیا گیا ہے وہ غریب کیا جانیں نواز حکومت کا بڑا تحفہ ترک صدر کی خدمت میں کیا ہے اور اس کے پس پشت کیا مقاصد پنہاں ہیں۔
(بشکریہ: نوائے وقت)