اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

870,186FansLike
9,993FollowersFollow
566,500FollowersFollow
188,369SubscribersSubscribe

امریکی غلامی میں ذلت ہی ذلت ۔۔۔ (انصار عباسی)

امریکی ڈرون نے بلوچستان میں افغان طالبان رہنما ملا اختر منصور کو تو ڈھونڈ نکالا اور مار بھی دیا لیکن یہی امریکی ڈرون افغانستان میں موجود ملا فضل اللہ کا پتا لگانے میں مکمل طور پر دانستہ یا نادانستہ نا اہلی کا ثبوت دے رہے ہیں۔ نیت ہر کسی کی اپنی لیکن امریکا کے اس حملے نے در اصل پاکستان میں اُس دہشتگردی کی آگ کو بھڑکانے کا کام کیا ہے جو امریکا کی ایما پر اُس کے غلاموں نے یہاں لگائی اور جسے بجھانے کے لیے اب ہم کوششوں میں لگے ہیں۔ ایک نکتہ جان لیجیے کہ پاکستان میں اگر امن ہو جائے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکا و انڈیا کا یہاں کھیل ختم ہو گیا جو وہ کبھی نہیں چاہیں گے اور اسی لیے پاکستان اور افغانستان میں امن کی ہر کوشش کو سبوتاژ کیا جاتا ہے۔ ملا منصور کو پاکستان کی حدود میں مارنے سے ایک تو یہ ہوا کہ امریکا کا پاکستان کو دہشتگردی کے ساتھ جوڑنے کا کیس مزید مضبوط ہو گیا تو دوسری طرف افغان طالبان میں اگر کوئی پاکستان کے متعلق نرم رویہ پایا جاتا ہے تو اُسے ختم کرنے کے لیے اس ڈرون حملے کے فوری بعد یہ امریکی بیان دے دیا گیاکہ پاکستان کے وزیر اعظم اور آرمی چیف کو اس بارے میں اعتماد میں لے لیا گیا تھا۔ یعنی ایک طرف پاکستان کے خلاف دہشتگردوں کو پناہ دینے کے مقدمہ کو تقویت پہنچائی تو دوسری طرف افغان طالبان کو پاکستان کے خلاف بھڑکانے کا بھی خوب سامان پیدا کیا۔ اگر کوئی شک تھا تو امریکی اخبار کے ذریعے یہ بھی کہلوا دیا گیا کہ ملا منصور کے بارے میں پاکستان نے بھی انٹیلیجنس شئیرنگ کی تھی۔ پاکستان بے شک چیختا رہے کہ حملے کے بعد امریکا نے پاکستانی قیادت سے رابطہ کیا لیکن اس واقعہ سے پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان تعلق کی وہ نوعیت نہیں رہے گی جو حملے سے قبل تھی۔ افغان طالبان پاکستان کی سنتے تھے یا نہیں یا کس حد تک سنتے تھے یہ ایک الگ بحث ہے مگر امریکا کے اس اقدام نے افغانستان میں بھارتی اثرورسوخ کو مزید بڑھانے کے نئے مواقع پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان اور افغانستان دونوں کے لیے مشکلات میں اضافہ کر دیا جو میری نظر میں امریکا کا اصل مقصد ہے۔ یعنی افغانستان کے لیے جاری امن کوششیں اب کیسے کامیاب ہو سکتی ہیں جب اہم ترین فریق طالبان کے رہنما کو ہی مار دیا گیا ہو۔ اندرونی طور پرپاکستان کے لیے خطرات اس لیے بڑھ گئے کیوں کہ امریکا اور افغان حکومت کو افغانستان میں موجود نہ نظر آنے والے ملا فضل اللہ اور دوسرے پاکستان مخالف دہشتگرد گروپوں کو کہیں افغان طالبان کی بھی حمایت حاصل نہ ہو جائے۔ ڈر ہے کہ کہیں اچھے طالبان اور بُرے طالبان کے درمیان فرق ختم نہ ہو جائے۔ ان خطرات کے ساتھ ساتھ اس تازہ حملے نے امریکا کی طرف سے پاکستان کی سالمیت کے خلاف کھلی جارحیت کرتے ہوئے ہمارے قبائلی علاقوں کے بعد اب بلوچستان پر بھی ڈرون حملہ کر دیا۔ پاک چین راہداری منصوبے کی وجہ سے بلوچستان کی اہمیت ماضی کے مقابلہ میں آج بہت بڑھ چکی ہے۔ امریکا، یورپ اور بھارت سب اس منصوبہ کے خلاف ہیں۔ بلوچستان میں امن پاک چین منصوبے کی کامیابی کے لیے اشد ضروری ہے جس کے لیے گزشتہ ایک دو سال سے بہت مثبت کام ہوا۔ بلوچستان میں امریکی ڈرون حملے کا ایک نشانہ پاک چین راہداری منصوبہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے خلاف بڑھتی امریکی جارحیت کو نہ روکا گیا توامریکا کل کسی بھی بہانے پاکستان کے کسی دوسرے علاقہ چاہے وہ پنچاب ہو، سندھ یا اسلام آباد پر بھی ڈرون حملہ کر سکتا ہے۔ یہ وہ معاملہ ہے جو کسی بھی آزاد اور خودمختار قوم کی عزت اور غیر ت کے لیے بہت اہم ہونا چاہیے لیکن ہمارے معاملہ میں یہ کوئی خاص ذلت والی بات نہیں اور اس کا سہرا جنرل مشرف کو جاتا ہے جنہوں نے اس ملک کو امریکا کی ایسی غلامی کے اندر دھکیل دیا جس کی پستی کی کوئی انتہا نہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو بلوچستان میں ڈرون حملے کے فوری بعد پاکستان اور امریکا کے درمیان موجود تعاون کے بارے میں فوری طور پر نظر ثانی ہوتی لیکن یہاں دو تین دن کی خاموشی کے بعد وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ہی نے ایک پریس کانفرنس میں اپنی بھڑاس نکالی۔ حکومتی سطح پر کوئی بڑا قدم نہیں اٹھایا گیا۔ وزیر داخلہ پریشان تھے کہ ملا منصور بحرین، ایران، دبئی، افغانستان ہر جگہ گئے لیکن انہیں صرف پاکستان ہی میں کیوں ڈرون حملہ سے نشانہ بنایا گیا۔ امریکی تو چوہدری نثار کو کیا جواب دیں گے کیوں کہ وہ بھی جانتے ہیں یہ تو سیاسی بیان ہے اور اگر واقعی حکومت پاکستان نے امریکا کو اس غیر قانی اقدام پر چیلنج کرنا ہے تو اس کے لیے وزارت خارجہ کے ساتھ ساتھ ہمارے وزیر اعظم اور آرمی چیف کو کھل کر سامنے آنا پڑے گا۔ ایسا میں ذاتی طور پر ہوتے نہیں دیکھتا۔ اطلاعات کے مطابق امریکا ملا منصور کا ایران سے پیچھا کر رہا تھا لیکن ڈرون حملہ پاکستان کی حدود میں کیا گیا جس کی شہ امریکا کو ہم نے دی۔ ہم نے امریکا کو خوش کرنے کے لیے اپنا سب کچھ حتیٰ کہ ملکی سالمیت کو دائو پر لگا دیا۔ سب کو معلوم ہے کہ ایران ایسا حملہ کسی طور پر بھی برداشت نہیں کرتا۔ ہم ایٹمی طاقت ہوتے ہوئے بھی اور ہم دنیا کی ایک بہترین فوج رکھتے ہوئے بھی امریکا کو ریڈ لائنز کراس کرنے سے روکنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ غلامی کا تعلق ذہن سے ہے نہ کہ ظاہری طاقت سے۔ ذہنی طور پر ہم امریکا کے غلام بن چکے ہیں ورنہ جو کچھ چوہدری نثار علی خان نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا اُسے بیان بازی سے آگے بڑھتے ہوئے عملی جامہ پہنایا جانے کی اشد ضرورت ہے۔ ایسا کرنے کے لیے حکومت و فوج کو ایک صفحہ پر ہونا پڑے گا ۔ دشمن کی طرف سے پھیلائے جانے والے سازشوںکے جال سے مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں ایک دوسرے کی ٹانگیں گھینچنے سے بھی گریز کرنا پڑے گا اور اس تاثر کو بھی ذائل کرنا پڑے گا کہ حکومت فوج کو اور فوج حکومت کو کمزور کرنے کے در پر ہیں۔

(بشکریہ روزنامہ جنگ )