اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

848,731FansLike
9,980FollowersFollow
562,000FollowersFollow
183,255SubscribersSubscribe

وہ کام جو حکمران آسانی سے کر سکتے ہیں (ظہیر اختر بیدری)

کراچی سندھ کا ہی نہیں بلکہ پاکستان کا بھی سب سے بڑا شہر ہے جہاں ڈھائی کروڑ کے لگ بھگ انسان رہتے ہیں، یہ شہر بے شمار مسائل سے دوچار ہے، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ کسی حکومت نے عوامی مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ کوئی حکومت، کسی شعبے کے ماہرین، اعلیٰ منصوبہ سازوں اور مسائل کا درست ادراک رکھنے والوں کی خدمات حاصل کرنے کی زحمت نہیں کرتی۔
ترقی یافتہ ملکوں میں ہر شعبۂ زندگی کے ماہرین تھنک ٹینکوں کی شکل میں موجود ہوتے ہیں، جو حکومتوں کو اہم قومی مسائل سے آگاہ بھی کرتے ہیں اور انھیں حل کرنے کی پالیسی بنا کر دیتے ہیں، لیکن پسماندہ ملکوں میں چونکہ حکمران طبقہ خود ہی اداکار، ہیرو، ولن، پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کے کردار انجام دیتا ہے، لہٰذا ان ملکوں میں نہ قومی اور شہری مسائل سے حکومتیں آگاہ رہتی ہیں، نہ ان کے حل کے لیے مثبت اقدامات کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
کراچی شہر بجلی، پانی سمیت بے شمار مسائل سے دوچار ہے، اس شہر میں بعض ایسے مسائل ہیں جنھیں حکومت آسانی کے ساتھ حل کر کے عوام کو سہولتیں بھی فراہم کر سکتی ہے اور عوام کی حمایت بھی حاصل کر سکتی ہے۔ ان مسائل میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ بھی عوام کے لیے عذاب بنا ہوا ہے، ہماری پچھلی حکومتیں اس تکلیف دہ مسئلے سے غافل رہیں، اگر وہ چاہتی تو اس مسئلے کو آسانی سے حل کر کے عوام کی حمایت حاصل کر سکتی تھیں لیکن چونکہ ہمارے جمہوری نظام میں عوام کی حمایت حاصل کرنے کے کئی متبادل طریقے موجود ہیں، لہٰذا عوام کی حمایت عوام کے مسائل حل کر کے حاصل کرنے کا سرے سے ہمارے ملک میں چکر ہی نہیں ہے۔
ہماری سندھ حکومت طویل عرصے تک جن حکمرانوں کے قبضے میں رہی وہ عوامی مسائل سے اس حد تک لاتعلق رہے کہ عوام ان سے سخت نالاں رہے، ہمارے موجودہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ ایک متحرک وزیراعلیٰ نظر آ رہے ہیں۔ ٹرانسپورٹ کے مسئلے کو گرین لائن بس سروس کے حوالے سے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو ایک کم مدتی حل ہے، اس کے مقابلے میں سرکلر ریلوے، ماس ٹرانزٹ جیسے منصوبے نہ صرف طویل مدتی ہیں، بلکہ طویل مدت سے کاغذوں ہی میں بن اور بگڑ رہے ہیں۔
سندھ حکومت نے 500 نئی بسیں منگوا کر کراچی کے عوام کو بلا تاخیر سہولتیں فراہم کرنے کا جو کام شروع کیا ہے وہ نہ صرف لائق تحسین ہے بلکہ اس منصوبے سے کراچی کے عوام کی ٹرانسپورٹ دشواریوں میں کمی آ سکتی ہے، جس کا فائدہ یا کریڈٹ سندھ حکومت کو ملے گا۔
کراچی کے ڈھائی کروڑ عوام طبی سہولتوں سے محروم ہیں، سرکاری اسپتال ایک تو عوام کی ضرورتوں کے مقابلے میں اونٹ کے منہ میں زیرے کی حیثیت رکھتے ہیں، دوسرے ان اسپتالوں میں ایسی طبی سہولتیں بھی موجود نہیں جو کم سرمائے سے آسانی کے ساتھ عوام کو فراہم کی جا سکتی ہیں۔ کراچی کے مضافاتی علاقوں کے اسپتالوں میں اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی شدید کمی ہے، دل، دماغ، یورولوجی سمیت کئی شعبوں کے اسپیشلسٹ موجود نہیں، ہیں تو برائے نام ہیں۔
مراد علی شاہ اگر چاہیں تو سرکاری اسپتالوں میں ہر اہم شعبے کے اسپیشلسٹ کی خدمات مہیا کر کے مریضوں کے بہتر علاج کی سہولتوں کا بندوبست کر سکتے ہیں، جس کے لیے نہ کثیر سرمائے کی ضرورت ہے نہ کسی بڑی منصوبہ بندی کی۔ سرکاری اسپتالوں میں مریض عموماً او پی ڈی سے رجوع کرتے ہیں لیکن او پی ڈی میں ڈاکٹروں کی اتنی شدید کمی ہوتی ہے کہ او پی ڈی میں ہمیشہ ایک ہجوم جمع رہتا ہے اور مریضوں کو اپنی باری کے لیے گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اس مسئلے کا آسان اور انتہائی کم خرچ حل یہ ہے کہ او پی ڈی میں ڈاکٹروں کی تعداد ضرورت کے مطابق بڑھائی جائے۔
سرکاری اسپتالوں میں قائم لیبارٹریاں اس حد تک ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں کہ خود ان اسپتالوں کے ڈاکٹر مریضوں کو باہر سے ٹیسٹ کرانے کے مشورے دیتے ہیں۔ اگر مراد حکومت ہر ٹاؤن میں ایک جدید آلات سے لیس لیبارٹری اور ایکسرے کی سہولت فراہم کرے تو مریضوں کو نہ صرف مفت ٹیسٹ کی سہولتیں فراہم ہوںگی بلکہ مریض پرائیویٹ لیبارٹریوں کی لوٹ مار سے بچ جائیںگے۔
کراچی کے سرکاری اسپتالوں کی ایمرجنسیاں اس قدر ناقص اور ضروری سہولتیں سے محروم ہوتی ہیں کہ عموماً ڈاکٹر حضرات مریضوں کو پرائیویٹ اسپتال ریفر کر دیتے ہیں، خاص طور پر مضافاتی بستیوں میں ایمرجنسی کا حال اس قدر خستہ ہوتا ہے کہ مریض یہاں سوائے مایوسی کے کچھ حاصل نہیں کر سکتا۔
ایمرجنسی کی سب سے بڑی نااہلی یہ ہوتی ہے کہ یہاں ضروری ادویات کا فقدان رہتا ہے، جس کی وجہ سے مریضوں کی جانیں ضایع ہونے کا خطرہ رہتا ہے، ایمرجنسی میں ماہر ڈاکٹر ناپید ہوتے ہیں، ایک عام ایم ایل او ہر مرض کے علاج پر مامور ہوتا ہے، جس کی وجہ سے مریضوں کی زندگی دائر پر لگی رہتی ہے۔ یہ ساری ایسی کمزوریاں ہیں جن پر بڑی آسانی اور کم سرمائے سے قابو پایا جا سکتا ہے، لیکن ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں میں اتنی اہلیت نہیں ہوتی کہ وہ اس قسم کی آسان ضرورتوں کو پوری کر کے مریضوں کو علاج کے مواقع فراہم کریں۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)