اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

876,113FansLike
9,998FollowersFollow
568,300FollowersFollow
191,068SubscribersSubscribe

قومی سلامتی سے جڑے بنیادی سوالات ۔۔۔ (نصرت جاوید)

برسوں تک روارکھی بے اعتنائی کے بعد بالآخر ہماری قوم ان دنوں وطن عزیز میں آئین اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے اور کرپشن کو جڑوں سے اکھاڑنے کے لئے متحد وبے چین نظر آرہی ہے۔ پارلیمان میں موجود تقریباََ تمام جماعتیں یکسو ہوکر کچھ ایسے TORsڈھونڈنے میں مصروف ہیں جو وائٹ کالر کرائمز کے لئے مخصوص اداروں کی خود مختاری کو یقینی بناتے ہوئے انہیں پانامہ لیکس میں آئے 400سے زائد لوگوں کی دولت کا سراغ لگانے کے لئے مزید اختیارات ووسائل فراہم کرسکیں۔ ٹھوس حقائق معلوم کرنے کے بعد ایسے وکلاءکی تلاش ضروری ہوجائے گی جو منی لانڈرنگ جیسے جرائم کو سزا دلوانا یقینی بناسکیں۔ یہ بات تو عیاں ہے کہ وکلاءایسے کام معقول معاوضے کے بغیر نہیں کیا کرتے۔ قوم کی خدمت فی سبیل اللہ کرنا کم از کم وکلاءکی عادت نہیں۔
وطن عزیز میں منی لانڈرنگ کے خلاف بنائے قوانین کافی کمزور ہیں۔ ان میں کمزوریاں نہ ہوتیں تو ان دنوں ایان علی اڈیالہ جیل میں بیٹھی قالین وغیرہ بُن رہی ہوتی۔ ہمارے ہاں تو قانون کمزور ہے مگر انگلستان میں ہرگز نہیں۔ بہت دھوم دھڑکے کے ساتھ وہاں کی حکومت نے کئی ماہ قبل لندن میں مقیم ہمارے ایک بھائی کے گھر سے کونے کھدروں میں چھپائی رقم کا سراغ لگایا تھا۔ اس رقم پر یقینا ٹیکس ادا نہیں ہوا تھا نہ ہی اس کی موجودگی اور ذریعے کی بابت وہاں کی حکومت کو اطلاع دی گئی تھی۔ پاکستانیوں کے لئے بھائی کے گھر پر چھاپے کے بعد برآمد ہونے والی رقم اس لئے بھی بہت زیادہ پریشان کن تھی کہ اس کا بیشتر حصہ مبینہ طورپر بھارتی خفیہ ادارے نے مختلف اقساط میں فراہم کیا تھا۔
لندن میں بھائی کے گھر پر چھاپے کو اب کئی ماہ گزرچکے ہیں۔ اس چھاپے کے بعد بھائی کو لندن کے ایک تھانے میں پیش ہوکر مختلف سوالات کے جواب بھی دینا پڑے تھے۔ اتنا عرصہ گزرجانے کے باوجود مگر لندن کا کوئی سرکاری وکیل اپنے پاس موجود ثبوتوں کو عدالتوں کے روبروپیش کرکے بھائی کو سزا دلوانے کے لئے تیار نہیں ہورہا۔سرکاری وکلاءکو خدشہ ہے کہ ابھی تک جمع شدہ ثبوت بھائی کو سزا دلوانے کے لئے ناکافی ہیں۔ مزید ثبوتوں کی تلاش جاری رکھی جائے۔
بھائی تو محض ایک فرد ہیں۔ پاکستان کے منتخب سیاستدانوں اور ان کی کوششوں سے آزاد، خود مختار اور چوکس ہوئے احتساب بیورو اور ایف آئی اے کی بدولت 400سے زائد پاکستانیوں کی مبینہ طورپر ”حرام“ دولت کا سراغ لگاکر انہیں عدالتوں سے سزائیں دلوادی گئیں تو تاریخ بن جائے گی۔ مجھے قوی اُمید ہے کہ ایسا ہوگیا تو برطانیہ جیسے ممالک بھی ہماری ایف آئی اے اور احتساب بیورو سے منی لانڈرنگ کا سراغ لگاکر اسے سزا دلوانے کے ہنر اور مہارت کو سیکھنے کی التجائیں کرتے پائے جائیں گے۔ بطور پاکستانی ہمارے سر فخر سے بلند ہوجائیں گے۔ بدقسمتی سے مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ TORsکی تلاش محاورے والی ٹرک کی وہ بتی ہے جس کے پیچھے ہمیں پارسائی فروش اینکر خواتین وحضرات کی سینہ کوبی کی بدولت لگادیا گیا ہے۔
پانامہ لیکس کی وجہ سے برپا شور ہماری ریاست اور اسے چلانے والوں کو خوش اس لئے بھی رکھے ہوئے ہے کہ اس کی وجہ سے ان دنوں رونما ہونے والے کئی اہم واقعات کے تناظر میں بنیادی سوالات اٹھانے کی گنجائش ہی پیدا نہیں ہورہی۔
مئی کا مہینہ عمومی طورپر صحافی یہ ڈھونڈنے میں صرف کیا کرتے تھے کہ جون میں پیش ہونے والا بجٹ کیا پیغام لائے گا۔ مجوزہ بجٹ کی تیاری کے لئے وزارتِ خارجہ کون سے شعبوں کو ترجیح دیتی نظر آرہی ہے اور کون سے ایسے مخصوص شعبے ہیں جن کا براہِ راست تعلق عوام کی عمومی فلاح اور ان کے لئے روزگار اور تعلیم کے مزید مواقع پیدا کرنا ہے، مگر انہیں سفاکانہ طورپر نظرانداز کیا جارہا ہے۔ مئی کی 30تاریخ کو میں یہ کالم لکھ رہا ہوں اور گزشتہ دنوں کے دوران مجھے اپنے اخبارات میں جسے ہماری زبان میں ”پری بجٹ رپورٹنگ“ کہا جاتا ہے، اپنے روایتی انداز میں ہرگز ہوتی نظر نہیں آئی۔ مجھے یقین ہے کہ اسحاق ڈار اور ان کے معاونین ہماری لاتعلقی کی وجہ سے خود کو بہت محفوظ ومطمئن محسوس کررہے ہوں گے۔
چند روز پہلے ہمارے بہت ہی ”حساس“ ٹھہرائے صوبے بلوچستان میں امریکی ڈرون کے ذریعے طالبان کے امیر کو بھی ہلاک کردیا گیا۔ جنرل مشرف کے زمانے سے کثیر امریکی امداد اور تکنیکی معاونت کے ذریعے NADRAبناکر تمام پاکستانیوں کا جدید ترین سائنسی بنیادوں پر DATAجمع کرنے کی دعوے دار وزارتِ داخلہ کو مگر یہ طے کرنے میں پانچ دن لگے کہ ڈرون نے ملااختر منصور ہی کو نشانہ بنایا تھا۔ مرنے والا شخص قلعہ عبداللہ کا رہائشی کوئی ولی محمد نہیں تھا جو پاکستانی پاسپورٹ استعمال کرتے ہوئے دوبئی اور ایران کے چکر لگایا کرتا تھا۔
ہمیں بتایا گیا ہے کہ ”ولی محمد“ کی شناخت اس وجہ سے ممکن ہو پائی کہ اس کا کوئی ”قریبی عزیز“ افغانستان سے آیا۔ اس نے اپنے Sample DNAدے کر مرنے والے سے اپنی رشتے داری ثابت کی۔ اس ”رشتے داری“ کا کوئی نام بھی تو ہوگا۔بیٹا، بھائی، چچا، باپ یا تایا وغیرہ؟ ایک بنیادی سوال۔ ”ذرائع“ کے محتاج ہوئے ہمہ وقت چوکس اور کرپٹ سیاستدانوں کو کھمبوں سے الٹا لٹکانے کے خواہش مند اینکرخواتین وحضرات نے مگر یہ بنیادی سوال اٹھانے کا تردد ہی نہیں کیا۔ اپنے فرض سے انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ غفلت برتی۔ اگرچہ سورج ڈھلنے کے بعد سرخی پاﺅڈر لگاکر کرپشن-کرپشن پکارتے ہوئے سینہ کوبی میں مصروف رہتے ہیں۔ صحافت آزاد و بے باک ہوگئی مگر اب تک پتہ نہیں چل پایا ہے کہ ملااختر منصور کے اس ”قریبی عزیز“ کا نام کیا تھا جو افغانستان سے ”ولی محمد“ کی لاش لینے پاکستان آیا۔ یہ ”قریبی عزیز“ کون سے پاسپورٹ پر سفر کررہا تھا۔ اس کا جواب بھی ہمیں معلوم نہیں۔ہوسکتا ہے”قریبی عزیز“ کے پاس وہ ”راہداری“ ہو جسے دکھاکر افغان چمن کے بارڈر کو وہ بغیر ویزے کے عبور کرسکتے ہیں۔ قومی سلامتی سے جڑے اہم ترین معاملات پر بنیادی سوالات اٹھائے بغیر صحافت کو مکمل آزاد وبے باک ہوتا میں صرف اپنے وطن ہی میں دیکھ رہا ہوں اور اس کی وجہ سے خود کو خوش نصیب بھی کیوں نہ محسوس کروں؟

(بشکریہ روزنامہ نوائے وقت)