اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

848,731FansLike
9,980FollowersFollow
562,000FollowersFollow
183,255SubscribersSubscribe

کرب ہے کرب و بلا سا، اور خدا خاموش ہے (بابر اعوان)

پہلے یہ نظام کرپٹ کہلاتا تھا پھر بوسیدہ۔ ملتان کے ”معززین ‘‘نے پٹواری راج کے سرتاج ،سعید پٹواری کی نگرانی میں سٹریٹ جسٹس کی عدالت لگا کر ثابت کر دیا کہ پنجاب میں 2حکومتیں، 2عدالتیں، 2حکمران، 2قانون اور 2معیار ہیں۔ جس میں حفاظت اور سہولت راہ بروں کے لئے جبکہ ذلت اور بے عزتی گداگروں کے لئے مقدر کر دی گئی۔
اس طرح کے واقعے پر قلم اٹھاتے ہاتھ کانپتے ہیں، کلیجہ پھٹتا ہے۔ ایسے میں ریاستی اداروں کی ناکامی کا ماتم بھی ہمارے اجتماعی شعور کے اس گینگ ریپ کا مداواٰ نہیں کر سکتا۔ ظلم کی یہ داستان صرف ملتان تک محدود نہیں ۔اس سے پہلے سائوتھ پنجاب کے کئی علاقوں میں حوا کی بیٹیاں بے آبرو ہوئیں۔ تھانے ان کے لئے عقوبت خانے ثابت ہوئے۔ ایک بار درندگی کا نشانہ بننے والی تھانہ پہنچی تو اس کی عزت کی ردا کئی بار تار تار کی گئی۔ 2 باہمیت اور با عفت جوان لڑکیوں نے ایسے ہی تھانوں کے سامنے اسی پنج سالے میں اپنے آپ کو آگ لگا لی۔ مگر اس بے ضمیر اور بے ہمت نظام کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ راجہ پور میں سٹریٹ جسٹس کا تازہ واقعہ بھی ہمارے نظام کا ضمیر جنجھوڑنے میں ناکام رہا۔
رپورٹ شدہ واقعات کے مطابق عمر وڈا نامی ایک بد بخت نے گھاس کاٹنے والی 12سالی لڑکی کو درندگی سے روند ڈالا۔ پنجاب کی سیاسی ماسی المعروف کرائم برانچ، انوسٹگیشن برانچ، کارخاص والے۔ مظلوم لڑکی ہو یا لڑکا، ان کے خلاف ایسے جرائم کو جرم ہی نہیں سمجھتے۔ اسی لئے مظلوم لوگ یا خودکشی کر لیتے ہیں یاپھر ان کے وارث ہتھیار اٹھا کر مجرم درندہ کا خود شکار کرتے ہیں۔ حالیہ 4 برسوں میں پنجاب میں پٹواری راج نے وارث شاہ کی دھرتی کو معصوموں کی عزتوں کا لہو رنگ قبرستان بنا دیا ہے۔ امرتا پریتم نے اپنی انگلیاں ایسے ہی بے گناہ خون میں رنگ کر پنجاب کی عزتوں کا نوحہ لکھا تھا۔
اج آکھاں وارث شاہ نوں / کِتوں قبراں وچّوں بول/تے اَج کتابِ عشق دا /کوئی اگلا ورقہ پھول/اک روئی سی دھی پنجاب دی/تولِکھ لِکھ مارے وَین/اَج لَکھاں دِھیاں روندیاں/تینوں وارث شاہ نوں کہن/اُٹھ درد منداں /دیاں دَردیاں/اٹھ تک اپنا پنجاب /اَج بیلے لاشاں وچھیاں/تے لہو دی بھری چناب
جس سماج میں جرم بچے جن رہا ہو وہاں عدل کو بھی صاحبِ اولاد ہونا پڑتا ہے۔ ہمارے موجودہ نظام میں زنجیر عدل سیاسی عقوبت خانے عرف تھانے کے اندر لٹک رہی ہے۔ جہاں تک پہنچنے کے لئے پہیہ لگتا ہے۔ نقدی کا ، سفارش کا، سیاست کااور بے آبروئی کا بھی۔ راجہ پور میں بھی بالکل ایسا ہی ہوا۔ مظلوم کمسن لڑکی نے فریاد کی تو دادرسی کے لئے جرگہ یا پنچائیت حرکت میں آئی۔ راجہ پور کے مہاراج صوبے کی خدمت کر کر کے لمبی تان کر سوتے رہے۔ اتنی گہری نیند جس میں انہیں بے آبرو لڑکی کی چیخ سنائی دی نہ لٹی ہوئی عزت کی تصویر دکھائی دی۔خادم جی مہاراج صرف اپنی پجاری پرجا کے ایک بینر میں گم ہو کر رہ گئے تھے۔ یہ بینر تخت لاہور کے پریس کلب کے باہر آویزاں تھا۔ جس پر پنجابی زبان میں لکھوایا گیا”میاں جی جانڑ دیو۔۔۔ شہباز شریف نوں آنڑ دیو‘‘۔
ملتان کا جرگہ پنجاب کی معصوم لڑکیوں کی عفت کے لئے”ٹوکہ مشین‘‘ ثابت ہوا۔ ریپ کے وحشی ملزم عمر وڈا کو سیاسی پناہ مل گئی۔ اُسے کسی نے نہ پوچھا۔ اور پٹواری راج نے سٹریٹ جسٹس کے لئے اپنی متبادل عدالت لگا لی۔ طبقاتی تقسیم، تفریق بلکہ طبقاتی حدود پر مبنی اس گلے سڑے نظام کو یہ پتا تک نہ چل سکا کہ16جولائی کو اس کی ناک کے عین نیچے ایک12سالہ کلی کو کچل ڈالا گیا۔ گھر والے واردات کی تفصیل سن کر تڑپ ، بِلک اٹھے۔ لیکن18جولائی تک جمہوریت کا ثمر ۔ قانون کی بالا دستی۔ مظلوم کے درواز ے پر انصاف۔ کوئیک رسپانس فورس۔ ڈالفن پولیس۔شریف پروٹیکشن الیٹ سب حکمرانوں کی خوشامد میں لگے رہے۔ اسی لئے18جولائی کے روز 40افراد کی پرائیوٹ جیوری بیٹھ گئی۔ پہلے تو بے آبرو ہونے والی بچی کی عزت برسرِبازار اچھالی گئی۔ ملتان کے وکلاء کے مطابق ان پڑھ، جاہل، نیم خواندہ، بے شرموں نے بچی سے ناقابل بیان انداز میں تفتیش کی۔ سٹریٹ جج پھر اس نتیجے پر پہنچے کہ جس بے غیرت نے ستم ڈھایااس کی17سالہ بہن کو جرگے میں بلایا جائے۔ گناہ گار کی بے گناہ بہن کو زبردستی کھینچ کر لایا گیا۔دوسری طرف سے ریپ کا شکار ہونے والی مظلوم بچی کے بھائی کو زبردستی گن پوائنٹ پر پنچائیت نے حکم دیا ہمارے فیصلے پر فوراً عمل کرو۔ ایک آئینی ملک میں ماورائے آئین فیصلے پر عمل ہوتا رہا۔اور بے غیرت بھائی کے گناہ کا خمیازہ باعفت بہن کے سر تھوپ دیاگیا۔نہ قانون حرکت میں آیا نہ انصاف کی آنکھ کھلی۔ مگر اس واقعے پر آزاد میڈیا کے باہمت رپورٹر چیخ اُٹھے۔ جس سے گھبرا کر اس اجتماعی آبرو ریزی کے40عدد گینگ ریپرز کے خلاف تھانہ مظفر آباد کی پولیس جاگ گئی۔ لہٰذا لیٹر نکالنے کے لئے خود ہی مقدمے کی مدعی بھی بن گئی۔ واہ واہ جیسے خادم جی مہاراج کے نوٹس ویسے ہی درباریوں کے پرچے۔
تھانہ مظفر آباد ملتان کی اس (MADNESS)پاگل پن میں بھی (METHOD) حکمت چھپی ہے ۔ وہی حکمت اور دانائی جس نے 200بچوں کے ریپ پر کہہ دیا تھا۔ بچے خود اس کے ذمہ دار ہیں اور یہ سیاسی معاملہ ہے۔ یوں واقعی دنیا کی تاریخ کے اس قبیح ترین جرم کو سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ اس آواز کو پنجاب کے گداگر جو دَر، دَر پر انصاف کی بھیک مانگتے پھرتے ہیں۔ مگر انہیں ہر در سے دُر دُر کہہ کر دھتکار کردُور کر دیا جاتا ۔ان گدا گروں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ پولیس کے گواہ، پٹوار سرکار کے راج دربار میں ذاتی ملازم ہیں۔ جب کہا جائے گا مدعی مکر جائے گا۔ گواہ بیٹھ جائے گا ۔ملزم بری اور قصہ ختم۔
مظفر آباد کے تازہ اجتماعی زیادتی کیس نے ایک بار پھربچوں کے والدین کی ریڑھ کی ہڈی میں خوف اور درد کی سرد لہر دوڑا دی ہے۔ گینگ کے ظلم کا شکار متاثرہ بچی کے وارثوں نے ایک رپورٹر سے کہا نام نہاد پنچائیتی جیوری کے حکم پر گن پوائنٹ پر یتیم بچی سے زبردستی زیادتی کروائی گئی۔ زیادتی کرنے والا بَھلر برادری کی (ش) کا بھائی اور حق نواز کا بیٹا تھا۔ اس دوران ہولناک اور شرمناک واقعات کی ایک سیریز چلتی رہی ۔ حکمران مصروف تھے۔ ان کے ذہنوں ،دفتروں ، گھروں اور زبانوں پر پانامہ کیس کے ڈائیلاگ چلتے رہے۔ پہلی واردات کے بعد جب مظلوم فریق نے رپورٹ درج کرانے کی کوشش کی تو جرگہ ڈال دیا گیا۔ گینگ واردات کے بڑے ملزم عمر وڈا کی والدہ کنیز مائی معافی مانگنے ان کے گھر چلی گئی۔ دوسری قسط میں کنیز مائی اپنے بھائی امین، چچازاد رب نواز، رفیق، سوہنا، ریاضہ، نذرو اور بخشا کو لے کر پھر دھوا بولا۔ تیسری قسط میں جرم کے بدلے رشتہ ونی کرنے کی آفر کی گئی۔ چوتھی قسط میں بے حمیت ملزم کے نام نہاد معزز سہولت کار کنواری لڑکی ان کے گھر چھوڑنے کی پیش کش لے کر گئے۔ کہا اپنا غصہ پورا کر لو۔ پھر بے شرموں نے مظلوموں سے کہا شرم کرو اور ہمیں معاف کردو۔ حوا کی 2بیٹیاں جرم بے گناہی میں لُٹ گئیں۔ خادم جی مہاراج سخت نوٹس لیں گے۔ پانامہ ہیٹ پہن کر مظلوموں کے ساتھ فوٹو شوٹ رکھیں گے۔ گلے لگنے والی مائی بلائی جائے گی۔ فریاد کرنے والا باب ڈھونڈا جائے گا۔ بالکل ویسے ہی جیسے سائوتھ کی فرشتہ گھرانوں کی میڈیکل سٹوڈنٹس کے گرلز ہاسٹل میں مہاراج کے لئے استقبالی توشہ تلاش کرنے ہرکارے مڈنائٹ جیکالز کی طرح چڑھ دوڑے تھے۔ اور اگر سرائیکی وسیب میں سے کوئی سڑک پر نکلا اور احتجاج کیا تواسے سرکاری خرچ پر پلنے والے سانپوں اور بچھوئوں کے پاس ریمانڈ پر بھیجا جائے گا۔
لُٹ گئی حوا کی بیٹی اور صدا خاموش ہے
کرب ہے کرب و بلاسا اور خدا خاموش ہے
بک گیا لنڈے کے بھائو عدل پھر ملتان میں
دیکھیئے جمہوریت کا حوصلہ، خاموش ہے
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)