اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

849,884FansLike
9,980FollowersFollow
562,100FollowersFollow
183,255SubscribersSubscribe

جہیز خوری :لڑکی والے بھی توکچھ کم نہیں !

از غفران علی : حال ہی میں آئے روز کوئی نہ کوئی کیمپین سوشل میڈیا کی زینت بنی رہتی ہے اور عوام الناس اس حوالے سے ٹرینڈز کو مدِنظر رکھتے ہوئے زینت زدہ موضوع کی کھل کر حمایت کرتے ہیں اور مخالفت بھی۔ انہی حالات میں ایک ایسا گروپ سامنے آتا ہے جو سوشل میڈیا صارف ہونے کے ساتھ ساتھ ’’ٹرولرز‘‘ (Trollers) کے نام بھی سے جانا جاتا ہے۔ یہ صارف ٹرولنگ کو اپنا ہتھیار بنا کر مثبت یا منفی چیزوں کو مزاح کا رنگ دے کر اپ لوڈ کرتے ہیں اور بالکل اُسی طرح باقی صارفین ازراہِ مزاح اسے پھیلانے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ انہیں ٹرینڈز (Trends) کےمثبت یا منفی ہونے سے کوئی سروکار نہیں ہوتا، شاید اسی لیے یہ رجحان زور پکڑتا جارہا ہے۔ کسی بھی شخص، کیمپین یا جملے کی دُرگت بنانا کوئی ان سے سیکھے۔ سنجیدگی میں کی گئی گفتگو پر ایسے زاویئے سے روشنی ڈالنا کہ عقلِ انسانی دنگ رہے بغیر نہ رہ سکے، یہ کمال بھی اسی گروہ کو حاصل ہے۔ ٹرولنگ کے اس طوفانِ بدتمیزی کی زد میں سیاست دان، کھلاڑی، فنکار، میڈیا کی بہت سی شخصیات نیز عوام بھی آجاتے ہیں۔گزشتہ سال ایسا متعدد بار دیکھنے میں آیا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے کوئی مہم اپنے عروج تک پہنچی تو پہنچی ہی، لیکن ساتھ ہی ٹرولنگ کی نذر بھی ہوئی۔ کبھی ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ تو کبھی ’’می ٹو۔‘‘ کہیں انسانی حقوق کی تنظیمیں عام انسانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کے خلاف اپنی آواز اٹھاتی نظر آئیں تو کہیں سول سوسائٹی اور دیگر تحاریک اپنا آپ دکھاتی نظر آئیں۔گزشتہ چند ہفتوں میں سوشل میڈیا میری توجہ اِس جانب مرکوز کروانے میں اُس وقت کامیاب ہوا جب ایک مہم ’’جہیز خوری بند کرو‘‘ کے نام سے چلی۔ ٹویٹر، انسٹاگرام اور فیس بک پر مختلف فنکار اپنی ہتھیلی پر مہندی سے لکھے اس جملے ’’جہیز خوری بند کرو‘‘ کو پھیلاتے نظر آئے۔ دیکھا دیکھی دیگر لوگ بھی اس میں شامل ہوئے۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ یہ ایک آگاہی مہم ہے جس میں مختلف شخصیات اپنا کردار ادا کرکے معاشرے میں قائم ہوئی فرسودہ روایات سے جان چھڑوانا چاہتی ہیں۔ ذرا ایک منٹ کےلیے بات کو گھماتے ہیں۔ چند ہی دن پہلے کی بات ہے جب ہم کچھ دوست اسلام آباد میں ایک یونیورسٹی کے قریب ڈھابے پر بیٹھ کر شادی کے موضوع پر گفتگو کر رہے تھے۔ ایک درمیانے درجے کی شادی کے لوازمات اور اُن پر ہونے والے اخراجات کا تخمینہ زیرِ بحث تھا۔ محفل میں موجود تمام دوست اس پر متفق تھے کہ ایک درمیانے درجے کی شادی پر 8 سے 10 لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں جن میں مہندی، بارات اور ولیمہ حتیٰ کہ زیور بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔گفتگو نشیب و فراز سے ہوتی ہوئی اس زاویئے پر آن پہنچی کہ ایک تئیس یا پچیس سالہ لڑکا اتنی رقم کا بندوبست کہاں سے کرے؟ ظاہر ہے کہ تیئیس سال کی عمر میں عمومی طور پر ہمارے ہاں طالب علم ہی ہوتے ہیں۔ آخرکار گفتگو سادگی پر ہی آنی تھی اور یہی ہوا۔ ہماری معاشی حالت نے ہمیں نوّے کے زاویئے سے الٹے پاؤں واپس سادگی پر دھکیلنے پر مجبور کیا۔ایک دوست نے کہا کہ ایسے چکروں میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے بھلا؟ ’’سادگی سے شادی کرو!‘‘بات کھری تھی لہٰذا دل کو سیدھی لگی۔ ظاہر ہے جب جیب میں پیسوں کا فقدان ہو تو بات اچھی نہ بھی ہو تو بھلی معلوم ہوتی ہے اور یہی نظریہ ضرورت ہے۔لیکن کیا نظریہ ضرورت صرف لڑکے کےلیے ہی رہ گیا ہے؟ کیا صنفِ نازک اسے اپنا نہیں سکتی؟یہاں نئی مشکل نے جنم لیا۔ چار لڑکے ایک ٹیبل پر بیٹھ کر سادگی سے شادی کرنے کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں چونکہ عصرِ حاضر میں 8 سے 10 لاکھ روپے پہلے اکٹھے کرنا اور پھر یوں بے دردی سے بہا دینا، یعنی لاکھوں روپے خرچ کرنے پر ہی شادی رجسٹر تصور کی جائے گی اور آپ کو نکاح نامے کی شکل میں سرٹیفکیٹ ملے گا اور آپ معتبر ٹھہریں گے۔لیکن یہ کیا کہ جب ذکر چھڑا تو معلوم ہوا کہ لڑکی والے بھی کم نہیں۔ ان کی فرمائشوں کی فہرست بھی منظرِ عام پر آچکی ہے۔ جہیز بے شک ایک لعنت ہے لیکن کیا یہ فرمائشیں جن میں اوّل الذکر ویل سیٹلڈ، امیر، اچھے گھر کا، کم از کم تنخواہ لاکھ روپے یا اس کے لگ بھگ اور اگر یہ سب نہیں تو اچھا کاروبار ہونا ضروری ہوگیا ہے۔ یہ تمام فرمائشیں کیا ہیں؟ایسے میں معاملات ایک بار پھر ٹرولرز کے ہتھے چڑھتے ہیں اور یہ جملے گردش کرنا شروع ہوجاتے ہیں:’’امیر لڑکے ڈھونڈنا بند کرو!‘‘’’گاڑی والا ڈھونڈنا بند کرو!‘‘’’مڈل کلاس لڑکوں کو ریجیکٹ کرنا بند کرو!‘‘اورتو ایک جگہ یہ جملہ بھی نظر آیا: ’’کالے لڑکوں کو انکار کرنا بند کرو!‘‘قصہ مختصر، بات اتنی سی ہے کہ موجودہ دور میں سادگی کی طرف مائل ہونے کی وجہ یہ نہیں کہ مذہب میں سادگی کا حکم ہے یا سادگی میں فائدہ ہے، بلکہ ان تمام چیزوں کا انتخاب اس وجہ سے کیا جا رہا کہ وہ روایات جو چلتی چلی آرہی ہیں اب وہ افورڈیبل نہیں رہیں۔ ورنہ ہم دنیا میں اور پیچھے رہتے یہ ہو نہیں سکتا تھا