اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

846,642FansLike
9,977FollowersFollow
562,000FollowersFollow
183,255SubscribersSubscribe

یہ کاغذی زندگی ۔۔۔ (عبدالقادر حسن)

میرے سامنے ایک سخت گتّے پر ہموار کٹے ہوئے کاغذوں کا ایک پلندہ چپکا دیا گیا ہے جو ایک آہنی کلپ کے ساتھ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور منتظر ہیں کہ میں اپنی بد خط تحریر کے ساتھ ان کی خوبصورتی کو بدل دوں چنانچہ میں نے یہ پرانا بلکہ اپنی زندگی کا قدیم ترین کام شروع کر دیا ہے اور اس بدصورت کام میں مجھے کوئی الجھن نہیں ہو رہی کہ یہ مجھ سے زندگی بھر ہوتا ہی آیا ہے آج پھر سہی قطعاً کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
کاغذ کالے کرنا میرا پیشہ بن چکا ہے اور انھیں کالے کاغذوں پر میری زندگی کے شب و روز چل رہے ہیں مجھے اس وقت بڑی پریشان کن صورت حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جب میرے کھیلتے ہوئے بچے مجھے لکھتا دیکھ کر ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ چپ کرو دیکھتے نہیں پاپا کالم لکھ رہے ہیں اور ایک شریر بچہ آنکھوں کو خاص زاویہ دے کر کہتا ہے کہ ہاں چپ رہو عید آ رہی ہے یعنی یہ واضح ہے کہ اس کالم کے معاوضے سے عید ہو گی اور اس عیدی کے لیے میری بچیاں کسی احتیاط اور کالم نویسی کے آداب کی پروا نہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہ بازار میں کیسے رنگوں کے کپڑے دیکھ کر آئی ہیں۔
یہ سب باتیں وہ مجھ سے چپک کر کان میں کہتی ہیں کہ ان کی ماں ان کی بات نہ سنیں ورنہ انھیں ڈانٹ ملے گی کہ اتنا کچھ لینے کے بعد بھی وہ نئے مطالبے لے کر مجھ پر مسلط کر رہی ہیں لیکن کوئی کیا جانیں کہ ان کے یہ مطالبے ہی میری زندگی ہیں۔ ان کے خوشامدی لاڈ پیار سے میرے ساتھ چمٹنا ہی میری زندگی کو نئی زندگی دیتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اس سے بہتر تھا میں یہ عید گاؤں میں ہی کرتا جہاں تم ایسے مطالبے نہ کر سکتیں یہ سن کر وہ کہتی ہیں کہ سب عیدیاں جمع کر لیں۔ ہماری بھی اور یہ سب ہمیں دیں کہ ہم گاؤں میں اپنی بچپن کی سہیلیوں میں بانٹ دیں۔ بابا مدت ہوئی کوئی ایک سال ہو گیا کہ ہم گاؤں کی بچپن کی سہیلیوں سے نہیں ملیں۔ ان کو لاہور میں رہنے کے باوجود کوئی تحفہ نہیں دیا۔ ہم بھی ان سے اداس ہیں اور میں ان سے کیا کہوں کہ گاؤں کے لیے میں خود کتنا اداس ہوں۔
محرم دیو نامی پہاڑ جو اب سرسبز ہے اور اپنے کسی پرستار کے انتظار میں ہے اور میری زمینیں جو گاؤں کے ایک محاورے اور مثل کے مطابق مالک کے قدموں کی کھاد سے محروم ہیں اور ان زمینوں پر کام کرنے والے بچے اور نوجوان جو اپنی کسی پسند کے لیے میری راہ دیکھ رہے ہیں لیکن ہر بار جب بھی گاؤں کا ارادہ کرتا ہوں وہاں کے بچوں اور جوانوں کی پسند کے تحفے میری راہ روک لیتے ہیں اور یہ کالے کیے ہوئے کاغذوں میں ان کو ذرہ بھر بھی دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ وہ مذاق اڑاتے ہیں کہ فلاں کا بیٹا اور خود اتنا کچھ مگر پوری عمر کاغذوں میں بسر کر دی۔ کیا یہ خوبصورت زمینیں دل لگانے کے لیے کچھ کم تھیں۔ اور پھر کچھ عقلمند کہتے ہیں کہ اپنی اپنی قسمت۔
اس بار ایک مدت کے بعد گندم کی فصل بہت اچھی ہوئی ہے۔ اطلاع آئی کہ اس کو اس کے پرانے ذخیروں میں ڈال دیں یا بیچ دیں۔ مجھے یاد آیا کہ میری والدہ نئی فصل کی آمد سے پہلے قرآن پاک پڑھا کرتی اللہ کا شکر ادا کرتیں۔ گندم وغیرہ کے ذخیرے کے لیے پہلے سے تیار ’’امارؤں‘‘ کو صاف کراتی ان میں زہریلی دوائیں ڈلواتی اور پھر گندم کی بوریاں ان میں ڈلوا دیتیں۔
گندم اور دوسری فصل لاد کر لانے والے شتربان ہمارے گھر کے کمروں کے اندر تک چلے آتے تھے۔ ان کی تعمیر میں ان لدے پھندے اونٹوں کی آمد و رفت کی گنجائش رکھی جاتی تھی ہمارے بزرگوں کے خوش بخت زمانوں میں اللہ بہت مہربان ہوتا تھا اور زمینوں کو فصل سے بھر دیتا تھا۔ باربرداری کے اونٹوں والے پہلے سے تیار ہوتے تھے۔ ہم بچے گھر آنے والے ان اونٹوں کی لمبی گردنوں پر سوار ہو جاتے تھے لیکن فوراً ہی ڈانٹ کھا کر اتر جاتے تھے۔
یاد نہیں یہ کیا زمانے تھے کتنے خوشی اور خوشحالی کے زمانے۔ مکمل بے فکری کے جب پورا گاؤں ہمارا اپنا تھا اور اس گاؤں کے بچوں کو بھی سمجھا دیا جاتا تھا کہ ہم کون ہیں اور انھوں نے ہمارے ساتھ کس طرح رہنا ہے۔ جب ہمارے بزرگ گاؤں کی کسی گلی سے گزرتے تو اس گلی سے آنے جانے والی عورتیں فوراً ہی منہ احتراماً دیوار کی طرف کر لیتی تھیں۔
چھوٹی بچیاں سر جھکا لیتی تھیں جن کے سروں پر ہمارے کسی بزرگ کا پیار وہ ایک نعمت سمجھتی تھیں۔ یہی وہ گاؤں تھے جن کی گلیوں اور گھروں کی عزت ہم سب کی عزت ہوتی تھی لیکن نہ جانے وہ وقت کون سا تھا جب میں اس خوبصورت گاؤں کو چھوڑ کر شہر کی دنیا میں نکل آیا۔ مٹی کی خداداد زندگی چھوڑ کر کاغذوں کے جھونپڑوں میں آباد ہوا۔ یہ کیا تھا شاید بدقسمتی یا ایک نئی زندگی۔

(بشکریہ روزنامہ ایکسپریس)