ایک معذرت اور بیماری (عبدالقادر حسن)

رمضان المبارک کی رحمتوں اور برکتوں کا نزول جاری ہے اور مسلمانانِ اسلام اور پاکستان اس سے مستفید ہو رہے ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش کے لیے اﷲ تعالیٰ سے مغفرت کے طلبگار ہیں۔ رمضان المبارک کے روح پرور مہینے میں ہمارے ارد گرد کا ماحول یکسر تبدیل ہو جاتا ہے اور ہم گناہگار افراد اپنے ہر عمل سے مائل بہ نیکی رہنے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ اپنے گناہوں کی بخشش کا سامان کر سکیں اور اس فانی دنیا میں فرائض کی ادائیگی میں جو کوتاہیاں سر زرد ہو چکی ہیں ان کی معافی طلب کر سکیں۔ رمضان کا مہینہ ہمیشہ کی طرح اپنے ساتھ نیکیوں کا روح پرور ماحول لے کر آنے کے ساتھ ہمارے ملک میں کاروباری افراد کے لیے منافع خوری اور عوام کو لوٹنے کا بہترین موقعہ بھی فراہم کر تا ہے۔
ہم مسلمان اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ اپنے سب سے مقدس مہینے میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں پر دنیا کو تنگ کر دینے کا سامان پیدا کر دیتے ہیںاور روزہ داروں کی سحری اور افطاری میں استعمال ہونے والے اشیاء کے نرخ اس بلند سطح پر لے جاتے ہیں جو ایک عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتے ہیں اور وہ نیکیوں اور برکتوں کے اس ماہ میں اﷲ تعالیٰ کی جانب سے پیدا کردہ اجناس کی لذت سے اپنے ہی مسلمان بھائیوں کی جانب سے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے چکر میں محروم رہ جاتا ہے۔ رمضان شروع ہونے سے پہلے ہی ہمارے ملک میں روز مرہ کی ضروریات زندگی کی اشیاء کی قیمتوں میں بتدریج اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے اور اس مقدس مہینے کی ابتدا میں ہی یہ قیمتیں اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ کر عوام کی قوت خرید سے باہر ہو جاتی ہیں اور اس کے لیے ہمارے کاروباری حضرات کی جانب سے یہ تاویلیں پیش کی جاتی ہیں کہ صرف یہی مہینہ ہی تو ہماری کمائی کا مہینہ ہوتا ہے۔
ہماری حکومت کی جانب سے اس سال بھی اربوں روپے کے رمضان پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے جس کے تحت رمضان بازاروں میں سستے داموں روزہ داروں کے لیے اشیاء کی فراہمی کو ممکن بنایا جا رہا ہے حکومت تو اپنی ذمے داری کو پورا کرنے کی حتی المقدور کوشش کر رہی ہے لیکن اس سلسلے میں سب سے بھاری ذمے داری ہماری اپنی ہے کہ ہم خود احتسابی کرتے ہوئے اس ضمن میں اپنی سماجی ذمے داریوں کو پورا کریں اور اگر ہم خود کسی ایسے کاروبار سے وابستہ ہیں جس کا تعلق براہ راست عوام کے ساتھ ہے تو ہمیں خود سے ہی کم از کم اس مقدس مہینے میں اپنی اجناس کے نرخوں میں رعایت کر دینی چاہیے۔
پاکستانیوں کا شمار سب سے زیادہ صدقہ اور زکوٰۃ دینے والی اقوام میں ہوتا ہے اور ہم حکومت کو ٹیکس کم اور صدقہ زیادہ دیتے ہیں جس کی کئی زندہ مثالیں اس ملک میں ایدھی سروس سے لے کر شوکت خانم اسپتال کی صورت میں موجود ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ان میں سے ہی کچھ ایسے کاروباری بھی ہوتے ہیں جو صدقہ و خیرات بھی کرتے ہیں لیکن جب کاروبار کرتے ہیں تو اس میں میانہ روی اور جائز منافع کے بجائے ناجائز بلکہ زیادتی کی حد تک منافع خوری کرتے ہیں اور بعد میں اس ناجائز منافع سے کمائے گئے مال کو پاک کرنے کے لیے صدقہ و خیرات کا سہارا لینے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس صدقہ و خیرات سے ان کا ناجائز ذرایع سے کمایا گیا مال جائز ہو جاتا ہے یہ ان کی بہت بڑی بھول اور وہ اپنے آپ کے ساتھ اپنے خدا کو بھی دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ رمضان کی برکتوں کو اپنے دامن میں سمیٹنے کے بجائے اپنے اعمال سے ان کو پرے دھکیل رہے ہوتے ہیں۔ کیا فائدہ ان نام نہاد مخیر حضرات کی جانب سے خیرات کرنے کا جو کہ عوام پر ان کی روزمرہ ضروریات کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کر کے ان کی زندگی تنگ کر دیتے ہیں اور اپنی دولت کے انباروں میں اضافہ کرتے ہیں۔ ہم سے تو اچھے بیرون ملک رہنے والے پاکستانی ہیں جہاں پر رمضان کی آمد کے ساتھ ہی ان کے لیے انگریز دکانداروں کی جانب سے رعایتی نرخوں پر اشیاء کی فراہمی کو ممکن بنایا جاتا ہے جیسے کہ وہ اپنے تہواروں کے موقع پر کرتے ہیں وہی اہتمام وہ ہم مسلمانوں کے لیے بھی کرتے ہیں۔
مجھے روز اپنے گھر کی خواتین سے مارکیٹ سے خریدی جانے والی سبزیوں، فروٹ اور دوسری اجناس کے تازہ ترین داموں کا پتہ چلتا ہے جن کو سن کر مجھے یقین تو نہیں آتا لیکن جب ہوشرباء مہنگائی کا تصور ذہن میں آتا ہے تو یہ میں اس سب کو سچ مان لیتا ہوں۔ آج کل رمضان میں افطاری میں سب سے ضروری چیز فروٹ چاٹ ہے جو ہر گھر میں بنائی جاتی ہے لیکن فروٹ کی قیمتوں کا سن کر یہ چاٹ بنانی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور لگتی ہے۔
اس دور میں میڈیا ایک عام آدمی کی زندگی میں رحمت بن کر آیا ہے اور خاص طور پر سوشل میڈیا جو پہلے تو کمپیوٹر کا محتاج تھا لیکن اب جدید موبائل ٹیلی فون نے اس کو ہر ایک کی پہنچ میں آسان بنا دیا ہے اور سیکنڈز میں اِدھر کی خبر اُدھر پہنچ جاتی ہے اور بعض خبریں تو تہلکہ بھی مچا دیتی ہیں۔ اسی سوشل میڈیا پر کسی دل جلے نے رمضان میں فروٹ کی گرانی کے متعلق ایک پیغام دیا کہ تین دن تک فروٹ نہ خریدا جائے اور اس کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے تا کہ اس کے نرخوں میں کمی لائی جا سکے، اس پیغام کو وہ پذیرائی ملی کہ میرا جیسا سوشل میڈیا سے قدرے نابلد بھی یہ اپنے جاننے والوں کو یہ پیغام پہچانے پر مجبور ہو گیا کہ وہ قومی یکجہتی کا ثبوت دیتے ہوئے اس پر لازماً عمل کریں۔ اس پیغام رسانی کے بعد میں مطمئن ہوں کہ میں نے اپنا کام پورا کر دیا اور اس عوامی بھلائی کے کام میں اپنا حصہ ڈال دیا ۔ آخری خبریں آنے تک عوام پھلوں کی خریداری کے بارے میں اپنی خود ساختہ پاپندی کی پاسداری کی اور تین دن تک اس کااستعمال نہیں کیا جس کی وجہ سے پھلوں کی ماہ رمضان میں قیمتوں میں واضح کمی دیکھنے میں آئی۔
میں ہمیشہ اپنی پاکستانی قوم سے پُر امید رہتا ہوں کیونکہ میں یہ سمجھتا ہوں بلکہ میرا ایمان ہے کہ اس قوم میں بڑی جان ہے صرف ضرورت لیڈر شپ کی ہے جو کہ ہمیں میسر نہیں ہے اور آنے والے وقتوں میں بھی اس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کیونکہ اس ملک میں سیاستدان تو بہت ہیں لیکن لیڈر کوئی نہیں جو اس قوم کی درست سمت میں رہنمائی کرے۔
قارئین سے اُداس ہو کر علالت کے بستر سے یہ چند سطریں لکھنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے معیار اور بے ربط انداز سے معذرت، جلد ہی ازالہ کروں گا اور صحت مند واپسی کی کوشش کروں گا۔ غیر حاضری کی معذرت، دعا کریں کہ آیندہ خیریت رہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس )