اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

849,918FansLike
9,980FollowersFollow
562,200FollowersFollow
183,255SubscribersSubscribe

قصہ سوات میں واقع راجا گیرا کے قلعے کا!

از امجد علی سحاب: تاریخ سے شغف اس روز ہمیں شگئی اور اوڈیگرام کو ملانے والے دیوقامت پہاڑ کی چوٹی تک کھینچ لایا تھا۔ چوٹی پر کھڑے ہوکر ہم پوری وادی کا نظارہ کر رہے تھے۔آدمی کو بلندی سے نظارہ کرتے ہوئے ایک طرح سے احساسِ تفاخر گھیر لیتا ہے، اس مقام پر کھڑے ہوکر ایک لمحے کے لیے گویا میں خود کو بھی راجا محسوس کرنے لگا۔ آس پاس کے مقامات دیکھنے اور پوری وادی کا نظارہ کرنے کے بعد میں یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی ریاست کے لیے یہاں تازہ اور میٹھے پانی کا بندوبست کرنا کسی چیلنج سے کم نہ ہوگا، لیکن آج سے ٹھیک ایک ہزار سال پہلے راجا گیرا اس چوٹی تک دریائے سوات کا تازہ اور میٹھا پانی کھینچ لانے میں کیسے کامیاب ہوا؟ کہانی دلچسپ ہے، چلیے بیان کیے دیتے ہیں۔سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے 6 کلومیٹر کی مسافت پر اوڈیگرام گاؤں میں ایک پہاڑی کے اوپر راجا گیرا کے قلعے کے آثار موجود ہیں جو یہاں کے آثارِ قدیمہ میں خاص اہمیت بھی رکھتے ہیں۔ اس کھنڈر بن چکے قلعے میں کھڑے ہوکر آج بھی پوری وادی کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔اوڈیگرام ہر حوالے سے ایک تاریخی اہمیت کا حامل گاؤں ہے۔ یہاں جابجا بکھرے آثار اس بات کی دلیل ہیں کہ یہ علاقہ کسی زمانے میں تہذیب و ثقافت کا مرکز رہا ہوگا۔ سوات کے مشہور ادیب اور سینئر صحافی فضل رابی راہیؔ اوڈیگرام کی تاریخی حیثیت کے حوالے سے اپنی کتاب ’سوات سیاحوں کی جنت‘ کے صفحہ نمبر 70 پر کچھ یوں رقم طراز ہیں کہ، ’کہا جاتا ہے کہ سکندرِ اعظم کے حملے سے قبل اوڈیگرام ایک بڑا شہر تھا۔ یہاں کے لوگ ترقی یافتہ اور متمدن تھے۔ اس کا ثبوت گیرا پہاڑ کے قدیم آثار اور اوڈیگرام کے قرب و جوار میں بکھرے ہوئے آثارِ قدیمہ سے ملتا ہے۔‘وہ مزید لکھتے ہیں کہ، ’ان آثار سے پتا چلتا ہے کہ یہاں ایک مضبوط حکومت قائم تھی جس کے تحت عوام ایک منظم اور مہذب زندگی گزارتے تھے۔ ان آثارِ قدیمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں رہائشی مکانات، بڑا بازار، تجارتی منڈی اور مذہبی خانقاہیں تھیں۔ غرض زندگی کے تمام شعبوں میں ترقی عروج پر تھی۔ قدیم منہدم عمارتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں کے گلی کوچے پختہ تھے، صحت و صفائی کا خاص انتظام تھا، صاف پانی ایک خاص تکنیک استعمال کرتے ہوئے مٹی کے پائپوں کے ذریعے دریائے سوات سے بلند چوٹی پر واقع عظیم الشان قلعے تک پہنچایا جاتا تھا۔ یہاں کے آثارِ قدیمہ میں منقش پتھر پر نقش بہت پرانی تصاویر ملی ہیں جن میں زیادہ تر گھریلو اور جنگلی جانور دکھائے گئے ہیں۔ ماہرینِ آثارِ قدیمہ کے مطابق یہ نقوش 2500 اور 2000 (قبل مسیح) کے درمیانی عہد میں کندہ کیے گئے تھے۔‘راجا گیرا کا یہ قلعہ اپنے زمانے میں دفاعی نکتہ نظر سے نہایت اہمیت کا حامل رہا ہے۔ یہاں سے پورا علاقہ پشتو مقولے کے مصداق ’ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح صاف‘ نظر آتا ہے۔ راجا گیرا کا نام تاریخ سے شغف رکھنے والے فضل خالق نے اپنی کتاب ’ادھیانہ: سوات کی جنت گم گشتہ‘ کے صفحہ نمبر 82 پر جملۂ معترضہ میں ’راج گری‘ رقم کیا ہے۔جس طرح اوپر کی سطور میں ذکر ہوا کہ دریائے سوات سے پانی اوپر چوٹی تک پائپوں کے ذریعے لے جایا جاتا تھا۔ دراصل یہی پانی آگے جا کر سلطان محمود غزنوی کی افواج کی فتح اور راجا گیرا کی شکست کا ذریعہ بنا تھا۔دریائے سوات کافی نیچے ہے اور پہاڑ کی چوٹی اوپر۔ اس حوالے سے سوات کے علاقے موضع بلوگرام سے تعلق رکھنے والے اور نجی کالج میں مطالعہ پاکستان پڑھانے اور تاریخ و تاریخی مقامات سے خصوصی دلچسپی رکھنے والے عدالت خان کا کہنا ہے کہ چوٹی پر قائم راجا گیرا قلعہ یا اس کے محل تک پانی پہنچانے کے حوالے سے 2 روایات مشہور ہیں۔پہلی روایت کے مطابق موضع منگلور (جو اوڈیگرام سے کوئی 14 سے 15 کلومیٹر مشرق کی طرف بلندی پر واقع علاقہ ہے) کے مقام سے پانی ایک چھوٹے نالے کے ذریعے الگ کیا گیا۔ چونکہ منگلور اور اوڈیگرام کی پہاڑی پر جہاں راجا گیرا کا قلعہ موجود ہے، دونوں ہی ایک ہی بلندی پر واقع ہیں، اس لیے پانی باآسانی قلعے تک پہنچتا تھا۔ مینگورہ شہر سے 6 کلومیٹر پر محیط پہاڑوں کا ایک طویل سلسلہ آ کر راجا گیرا کے قلعے تک پہنچتا ہے اور یہیں سے آگے گوگدرہ سے ہو کر بریکوٹ پر جا کر ختم ہوتا ہے۔ اس لیے پانی ایک چھوٹے سے نالے میں پہاڑی کے دامن سے ہوتا ہوا اس وقت کی انجینئرنگ کے اصولوں کے مطابق آہستہ آہستہ اونچا ہوتا جاتا اور بالآخر قلعے تک پہنچ کر اس کا سفر ختم ہوجاتا۔دوسری روایت کے مطابق پانی کی فراہمی کے لیے خاص قسم کے چھوٹے چھوٹے برتن بنائے گئے تھے، جنہیں ایک خاص تکنیک سے ایک دوسرے کے اوپر کچھ اس طرح نصب کیا گیا تھا کہ ایک برتن پانی سے بھرتا، تو وہ خود بخود ٹیڑھا ہوجاتا اور اس کا پانی ساتھ ہی نصب شدہ دوسرے برتن میں گر جاتا، اس طرح دوسرے سے تیسرا اور تیسرے سے چوتھا برتن بھرتا چلا جاتا۔ یوں یہ پانی اوپر چوٹی پر نصب سب سے بڑے برتن میں جاگرتا، جہاں سے قلعے کی آبی ضروریات کو پورا کیا جاتا۔فضل ربی راہیؔ کی کتاب ’سوات سیاحوں کی جنت‘ کے مطابق، اُس زمانے یعنی 326 قبل مسیح میں جو راجدھانی قائم تھی، اس کے راجا کا نام ’اورا‘ تھا۔ جس پر سکندرِ اعظم نے حملہ کیا تھا۔ مختلف قدیم یونانیوں نے اپنی اپنی تواریخ میں اس مقام کا نام بھی ’اورا‘ ہی لکھا ہے۔ یہاں راجا ہوڈی نامی حکمران بھی گزرا ہے جس کے نام پر اس جگہ کانام ’ہوڈیگرام‘ پڑچکا ہے۔ راجا ہوڈی کے بعد اس راجدھانی کا آخری حکمران راجا گیرا تھا جس کو روایات کے مطابق محمود غزنوی کی فوج کے پیر خوشحال نامی ایک سپہ سالار نے شکست دی تھی۔دوسری طرف فضل خالق اپنی کتاب ’ادھیانہ: سوات کی جنت گم گشتہ‘ کے صفحہ نمبر 83 پر سکندرِ اعظم کے حملے کی تاریخ 327 قبل مسیح رقم کرتے ہیں۔ اِسی کتاب کے صفحہ نمبر 84 پر درج ہے کہ، ’اوڈیگرام میں اوڈی قبیلے یا خاندان کا ذکر تاریخ کی متعدد اہم تحریروں میں بھی ملتا ہے۔ جیسن نیلسن کے تحقیقی مقالے میں کسی کی ذاتی کلیکشن سے ملنے والی ’خروشتی‘ رسم الخط میں لکھی ایک تحریر شامل ہے جس میں ’سینا وارمہ‘ نامی حکمران کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس تحریر میں سینا وارمہ کو ’اُوڈی‘ (موجودہ اوڈیگرا) کا بادشاہ کہا گیا ہے۔ یہ سوات میں ساکاپارتھیئن یعنی کشان کا ابتدائی دور (پہلی صدی کا وسطی دور) ہے۔‘دوسری روایت کے مطابق پانی کی فراہمی کے لیے خاص قسم کے چھوٹے چھوٹے برتن بنائے گئے تھے، جنہیں ایک خاص تکنیک سے ایک دوسرے کے اوپر کچھ اس طرح نصب کیا گیا تھا کہ ایک برتن پانی سے بھرتا، تو وہ خود بخود ٹیڑھا ہوجاتا اور اس کا پانی ساتھ ہی نصب شدہ دوسرے برتن میں گر جاتا، اس طرح دوسرے سے تیسرا اور تیسرے سے چوتھا برتن بھرتا چلا جاتا۔ یوں یہ پانی اوپر چوٹی پر نصب سب سے بڑے برتن میں جاگرتا، جہاں سے قلعے کی آبی ضروریات کو پورا کیا جاتا۔فضل ربی راہیؔ کی کتاب ’سوات سیاحوں کی جنت‘ کے مطابق، اُس زمانے یعنی 326 قبل مسیح میں جو راجدھانی قائم تھی، اس کے راجا کا نام ’اورا‘ تھا۔ جس پر سکندرِ اعظم نے حملہ کیا تھا۔ مختلف قدیم یونانیوں نے اپنی اپنی تواریخ میں اس مقام کا نام بھی ’اورا‘ ہی لکھا ہے۔ یہاں راجا ہوڈی نامی حکمران بھی گزرا ہے جس کے نام پر اس جگہ کانام ’ہوڈیگرام‘ پڑچکا ہے۔ راجا ہوڈی کے بعد اس راجدھانی کا آخری حکمران راجا گیرا تھا جس کو روایات کے مطابق محمود غزنوی کی فوج کے پیر خوشحال نامی ایک سپہ سالار نے شکست دی تھی۔دوسری طرف فضل خالق اپنی کتاب ’ادھیانہ: سوات کی جنت گم گشتہ‘ کے صفحہ نمبر 83 پر سکندرِ اعظم کے حملے کی تاریخ 327 قبل مسیح رقم کرتے ہیں۔ اِسی کتاب کے صفحہ نمبر 84 پر درج ہے کہ، ’اوڈیگرام میں اوڈی قبیلے یا خاندان کا ذکر تاریخ کی متعدد اہم تحریروں میں بھی ملتا ہے۔ جیسن نیلسن کے تحقیقی مقالے میں کسی کی ذاتی کلیکشن سے ملنے والی ’خروشتی‘ رسم الخط میں لکھی ایک تحریر شامل ہے جس میں ’سینا وارمہ‘ نامی حکمران کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس تحریر میں سینا وارمہ کو ’اُوڈی‘ (موجودہ اوڈیگرا) کا بادشاہ کہا گیا ہے۔ یہ سوات میں ساکاپارتھیئن یعنی کشان کا ابتدائی دور (پہلی صدی کا وسطی دور) ہے۔‘راجا گیرا کے قلعے کی کھدائی اطالوی آثار قدیمہ کے مشن کے زیرِ نگرانی 1958ء میں کی گئی تھی۔ اس حوالے سے فضل خالق ‘اودھیانہ: سوات کی جنت گم گشتہ‘ کے صفحہ 83 پر رقم کرتے ہیں کہ، ’یہ آثار اوڈیگرام بازار سے لے کر اوپر قلعے تک ایک طویل دور کے ثبوت فراہم کرتے ہیں جو چوتھی صدی قبل مسیح سے لے کر تقریباً 14ویں صدی پر محیط ہیں۔‘آثارِ قدیمہ کے ماہرین کے مطابق یہ قلعہ 7ویں صدی سے لے کر 10ویں صدی میں سلطان محمود غزنوی کی فوج کی آمد تک قابلِ استعمال رہا۔ ’اودھیانہ: سوات کی جنت گم گشتہ‘ کے صفحہ نمبر 83 پر قلعے کے حوالے سے یہ گراں قدر معلومات بھی شامل کی گئی ہے کہ،’راج گیری (راجا گیرا) کے حوالے چینی اور تبتی زائرین کے سفرناموں میں بھی ملتے ہیں۔ پروفیسر ٹوچی کے مطابق 13ویں صدی میں ادھیانہ آنے والے مشہور تبتی راہب ’اُرجن پا‘ نے لکھا ہے کہ ایک دن وہ رائی کار (Ra yi kar) یعنی راج گیری پہنچے، جہاں بادشاہ اندرا بوتی کا صدر مقام تھا۔ اس طرح 17ویں صدی میں سوات آنے والے ایک اور تبتی راہب ’تگ سن راس پا‘ نے بھی اسے ’رائی سر‘ لکھا ہے کہ رائی سر یعنی راج گیری کے جنوب مغربی پہاڑ پر بادشاہ اندرا بوتی کا 9 منزلہ محل تھا۔ مگر اب اس کے صرف آثار نظر آتے ہیں۔‘