اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

849,530FansLike
9,981FollowersFollow
562,000FollowersFollow
183,255SubscribersSubscribe

نیا بجٹ سب کا نہیں ، چلو کسی کا تو فائدہ ہوا

از راجہ کامران :مہینوں میں ہی دوسرا فنانس بل قومی اسمبلی میں پیش کردیا ہے اور یوں تحریک انصاف کی ان کاوشوں کی بدولت ایک سال کے اندر 3 فنانس بل پیش ہوچکے ہیں جو ملکی سطح پر نیا ریکارڈ ہے۔اس تیسرے فنانس بل کی برکت ہی تھی کہ وزیرِاعظم عمران خان بھی 3 ماہ سے زائد عرصے کی غیر حاضری کے بعد قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوئے۔ اسد عمر نے جیسے ہی قومی اسمبلی میں ترمیمی فنانس بل پیش کرنا شروع کیا تو ساتھ ہی اپوزیشن نے احتجاج شروع کردیا اور اس احتجاج کا اثر اسد عمر کی تقریر پر بھی محسوس ہوا کیونکہ وہ اکثر احتجاج کا جواب دینے کی بھی کوشش کرتے رہے۔فنانس بل پیش کرتے ہوئے جیسا دباو اسد عمر پر ایوان کے اندر تھا، بل پیش کرنے سے پہلے بالکل ایسا ہی دباو ایوان کے باہر بھی تھا جسے ختم نہیں تو کسی حد تک کم کرنے کے لیے نیا فنانس بل ایوان میں پیش کیا گیا ہے۔ اگر تقریر میں اہم نکات کا جائزہ لیا جائے تو مندرجہ ذیل نکات اہم ہیں۔بینکوں کے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار، زراعت اور گھروں کے قرضوں سے ہونے والی آمدن پر ٹیکس کی 50 فیصد چھوٹ دی گئی ہے۔ ان مدات میں بینکوں کی آمدنی پر ٹیکس 39 فیصد کے بجائے 20 فیصد کردیا گیا ہے۔چھوٹے گھروں کی تعمیر کے لیے 5 لاکھ روپے قرض حسنہ اسکیمانکم ٹیکس ریٹرن جمع کرانے والوں کے لیے بینک لین دین پر عائد ٹیکس ختم1300 سی سی گاڑیوں کی خریداری کے لیے انکم ٹیکس دہندہ ہونے کی شرط ختم جبکہ 1800 سی سی یا زائد کی گاڑیوں کی درآمد پر ڈیوٹی میں اضافہکاروبار میں آسانی کے لیے ودھ ہولڈنگ ٹیکس ریٹرن سال میں ایک مرتبہ کے بجائے 2 مرتبہ جمع کرانے کی سہولتشادی ہالز پر عائد ٹیکس کو 20 ہزار سے کم کرکے 5 ہزار روپے کردیا گیاآسان ٹیکس کے لیے پائلٹ پروجیکٹ اسلام آباد سے شروع کرنا،اخباری صنعت کے نیوز پرنٹ پر ڈیوٹی کا خاتمہصنعتی خام مال پر ڈیوٹی کا خاتمہ یا 5 فیصد تک کرنا یہ رعایت خصوصاً آٹو موبل انڈسٹری کے لیے ہے۔کمرشل امپورٹرز کے لیے 6 فیصد ٹیکس کو ہی اصل ٹیکس تصور کرناسی پیک کے خصوصی اکنامک زونز کے لیے عمارتی سامان پر ڈیوٹی کا خاتمہگرین فیلڈ منصوبوں اور متبادل توانائی (شمسی اور پون) کے لیے 5 سال تک کسٹم ڈیوٹی، سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کی چھوٹکھیلوں کی فرنچائز خریدنے والوں کو ٹیکس کی چھوٹیکم جولائی 2018ء سے سُپر ٹیکس کا خاتمہکارپوریٹ انکم ٹیکس میں سالانہ ایک فیصد کی کمیری پے منٹس پر ٹیکس اور انٹر کارپوریٹ ٹیکس کی چھوٹاسٹاک بروکرز پر عائد ٹیکس ختمتاجروں اور صنعت کاروں کے ٹیکس ریفنڈ کے لیے حکومتی بانڈ دینے کا فیصلہکیپیٹل گین ٹیکس میں نقصان کی صورت میں 3 سال کیری فارورڈ کی سہولتاسد عمر کی جانب سے معاشی اصلاحات کے پیکج میں کوئی ایسی خاص بات نظر نہیں آئی جس سے معیشت کو درپیش مسائل کو حل کرنے کی جانب کوئی ٹھوس قدم اٹھایا گیا ہو۔لیکن بہرحال اب یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ مالی سال کے تیسرے فنانس بل سے کن کن سیکٹرز کو فائدہ ہوگا تاکہ صورتحال مزید واضع ہوجائے۔اس فنانس بل سے ملکی معیشت کے بڑے لابی گروپس یعنی بینکس، بڑے کاروباری ادارے، آٹو موبل، کمرشل امپورٹرز، فرٹیلائزر سیکٹر اور اسٹاک مارکیٹ کے اسٹیک ہولڈرز فائدہ اٹھائیں گے۔ اعلان کردہ تمام تر اقدامات وہی ہیں جس پر کاروباری برادری گزشتہ کئی سالوں سے شور مچا رہی تھی، اور لگتا تو یہی ہے کہ اسی شور کو کم یا ختم کرنے کے لیے حکومت ایک مالی سال میں تیسرا فنانس بل لانے پر مجبور ہوئی ہے۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت جب قائم ہوئی تھی تو اس نے گزشتہ حکومت کی جن جن خامیوں پر تنقید کی تھی ان میں حکومت کا بڑھتا ہوا بجٹ خسارہ اور کرنٹ اکاونٹ خسارہ سرِفہرست تھے۔ تیسرے فنانس بل کو پیش کرتے وقت اپنی تقریر میں بھی اسد عمر نے ان دونوں خساروں میں اضافے کا رونا رویا، اور یہ بات درست بھی ہے کہ پاکستان کو اپنے بڑھتے ہوئے دوہرے خسارے پر قابو پانے کے لیے پالیسی سازی کرنا ہوگی۔مگر جن اقدامات کا اعلان کیا گیا وہ حیران کن اس لیے تھے کہ ٹیکسوں میں چھوٹ سے حکومت کی قرض وصولی میں کمی ہوگی اور بجٹ یا مالیاتی خسارے میں اضافہ ہوگا۔ اسی کے ساتھ ساتھ ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنے سے درآمدات میں اضافہ متوقع ہے جس سے تجارتی خسارے میں اضافہ ناگزیر ہے۔ بالاخر اس کا اثر کرنٹ اکاونٹ خسارے میں بھی اضافے کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ پھر حیران کن بات یہ کہ کل ایسا کوئی اعلان نہیں کیا گیا جس سے ٹیکس وصولی میں بہتری ممکن ہوسکے۔