اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

850,305FansLike
9,980FollowersFollow
562,700FollowersFollow
183,255SubscribersSubscribe

شواہد کی بنیاد پر فیصلہ ہوگا کہ وزیراعظم کی نااہلی بنتی ہے یا نہیں: سپریم کورٹ

اسلام آباد ( مانیٹرنگ ڈیسک )پاناما کیس پر عمل درآمد سے متعلق سپریم کورٹ کے تین رکنی خصوصی بینچ کا کہنا ہے کہ شریف خاندان کو فلیٹس کی ملکیت ثابت کرنی ہو گی اور یہ فیصلہ مدعاالیہان کو کرنا ہے کہ اس بات کے ثبوت ہمیں دیں گے یا ٹرائل کورٹ میں دیں گے۔منگل کو جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی خصوصی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ جمع کرائے جانے کے بعد ایک دن پہلے پیر کو اس کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تھی۔وزیراعظم نواز شریف کو جے آئی ٹی پر کیا اعتراضات ہیں؟’رپورٹ غیرجانبدار نہیں، جے آئی ٹی نے حدود سے تجاوز کیا‘’وزیر اعظم اور ان کے بچوں کے طرز زندگی اور آمدن میں فرق ہے‘منگل کو سماعت کے دوران بینچ کی جانب سے کہا گیا کہ شریف خاندان کو فلیٹس کی ملکیت ثابت کرنی ہو گی جس میں یہ فیصلہ مدعاالیہان کو کرنا ہے کہ اس بات کے ثبوت ہمیں دیں گے یا ٹرائل کورٹ میں دیں گے۔خصوصی بینچ نے مزید کہا کہ وہ شواہد دیکھ کر فیصلہ کریں گے کہ وزیراعظم کی نااہلی بنتی ہے یا نہیں۔بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق سماعت کے آغاز پر شریف خاندان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کو سپریم کورٹ کی جانب سے 20 اپریل کو دیا گیا حکم نامہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ اس کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ عدالت نے جے آئی ٹی کو کس نوعیت کی تحقیقات سونپی ہیں۔اس پر بینچ کا کہنا تھا کہ عدالت کی جانب سے 20 اپریل کو جاری کیا گیا حکمنامہ عبوری تھا۔خواجہ حارث نے دلائل میں کہا کہ عدالت تحقیقات کی سمت متعین کر چکی ہے اور اس نے 13 سوالات کرنے کا حکم دیا ہے اور ایک ایسا کیس جس کا فیصلہ ہو چکا ہے اسے دوبارہ کھولنے کا حکم نہیں دیا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ جے آئی ٹی کہ ساتھ لگائی گئی دستاویزات تصدیق شدہ نہیں ہیں تو غیر تصدیق شدہ دستاویزات کی بنیاد پر عدالت کیسے فیصلہ سنا سکتی ہے۔اس کے جواب میں بینچ کے سربراہ اعجاز افضل خان نے خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست میں اس بارے میں کچھ نہیں ہے لیکن شریف خاندان کے وکیل نے کہا کہ درخواست میں نہ صرف جے آئی ٹی کی رپورٹ کو مسترد کیا گیا ہے بلکہ اس بارے میں اعتراض بھی اٹھایا ہے۔جے آئی ٹی نے اپنی حتمی رپورٹ 10 جولائئ کو جمع کرائی تھی،سماعت کے دوران خواجہ حارث کے دلائل کے جواب میں سپریم کورٹ نے کہا کہ انھیں جے آئی ٹی اور اس کی سفارشات کو نہیں بلکہ ان دستاویزات کو دیکھنا ہے جو جے آئی ٹی کے ساتھ لگائی گئی ہیں اور فیصلہ ان کی بنیاد پر کیا جائے گا۔عدالت نے مزید کہا کہ وہ فیصلہ دیتے ہوئے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے والے افراد کے رویے کو بھی دیکھے گی جو انھوں نے جے آئی ٹی کے ساتھ روا رکھا۔عدالت نے کہا کہ بادی النظر شریف خاندان سے جو کچھ پوچھا گیا اس سے لگ رہا ہے کہ شریف خاندان نے فیصلہ کیا ہوا تھا کہ جے آئی ٹی کو کچھ نہیں بتانا۔جسٹس اعجاز الحسن نے سماعت کے دوران کہا کہ عدالت نے شریف خاندان کو منی ٹریل کے لیے مناسب موقع فراہم کیا تھا لیکن ان کی جانب سے جے آئی ٹی میں ایسے جوابات پیش کیے گئے کہ ’مجھے کچھ نہیں پتہ’ یا ’میں یقین سے نہیں کہہ سکتا’ تو ایسے جوابات کی روشنی میں کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ بات آپ کے حق میں جائے گی۔جسٹس اعجاز الحسن نے مزید کہا کہ ہم شروع سے ہی رقوم کی ترسیل کی منی ٹریل کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ وہ قطری خطوط کو نہیں جانتے لیکن پھر انھوں نے کہا کہ شاید انھوں نے وہ دیکھے ہوئے ہوں۔سماعت کے دوران مسلم لیگ نون، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں کے علاوہ پیپلز پارٹی کے رہنما اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ دیگر رہنماؤں کے ساتھ موجود تھے۔اس سے پہلے پیر کو ہونے والی سماعت شروع ہونے سے قبل شریف خاندان اور اسحاق ڈار کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواستوں میں جے آئی ٹی کی رپورٹ ‘حدود سے تجاوزکرنے اور ‘اس میں نام نہاد شواہد شامل کرنے جیسے مختلف اعتراضات لگاتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔ان اعتراضات میں مزید کہا گیا تھا کہ ‘کہ جے آئی ٹی نے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے اور رپورٹ میں غیر جانبداری کا عنصر موجود نہیں ہے۔پیر کو ہونے والی سماعت میں مدعیان کے وکلا نعیم بخاری، آصف توفیق اور شیخ رشید نے دلائل دیے تھے۔سماعت کے دوران جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے لیے جے آئی ٹی کی سفارشات پر عمل درآمد لازم نہیں ہے اور اس معاملے کو قانون کے تناظر میں دیکھا جائے گا۔شریف خاندان نے جے آئی ٹی رپورٹ کے خلاف جمع کرائے گئے اعتراضات میں کہا تھا کہ اس میں ‘غیر جانبداری کا عنصر موجود نہیں ہےیاد رہے کہ دو ماہ تک اپنی تفتیش کرنے کے بعد مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے دس جولائی کو سپریم کورٹ میں پیش کی گئی اپنی حتمی رپورٹ میں کہا تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کے رہن سہن اور معلوم آمدن میں بہت فرق ہے۔